میمو گیٹ: منصور اعجاز کو آخری موقع۔چودھری احسن پر یمی




متنازع میمو کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اس قضیے کے اہم کردار امریکی شہری منصور اعجاز کا بیان بیرون ملک ریکارڈ کرنے سے متعلق دائر کی جانے والی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں نو فروری کو کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا آخری موقع دیا ہے۔وزیر داخلہ رحمان ملک نے کمیشن کو یقین دہانی کروائی ہے کہ منصور اعجاز کے کمیشن کے سامنے پیش ہونےاور انہیں باحفاظت بیرون ملک روانہ کرنے کے لیے فوول پروف سیکورٹی فراہم کی جائے گی اور ان کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ یعنی ای سی ایل میں نہیں ڈالا جائے گا۔ جبکہ منصوراعجا زنے ایک بار پھر پاکستان آنے سے انکار کردیا ہے، منصور اعجاز نے اپنی ای میل کے ذریعے اپنے وکیل اکرم شیخ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا.منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے میمو تحقیقاتی کمیشن کے بیان دیا کہ منصور اعجازاور رحمان ملک میں اعتماد کا فقدان ہے، اوراس نے پاکستان آنے سے انکار کردیا ہے.میمو گیٹ تحقیقاتی کمیشن نے وزیر داخلہ رحمن ملک کو طلب کر لیا جب گزشتہ روز جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو کمیشن کے سربراہ جسٹس فائز عیسی قاضی نے استفسار کیا کہ منصور اعجاز کہاں ہے. اس پر ان کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ حکومتی مشیروں خاص طور پر وزیر داخلہ رحمن ملک کے بیان جس میں منصور اعجاز کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کا عندیہ دیا گیا، منصور اعجاز نے پاکستان آنے کا ارادہ ملتوی کر دیا. کمیشن نے استفسار کیا کہ رحمن ملک نے یہ بیان کب دیا؟ اس موقع پر کمیشن کے سربراہ جسٹس فائز عیسی قاضی نے ریمارکس دیئے کہ رحمن ملک کمیشن کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں، ساری دنیا میں انکوائری کو سنا جاتا ہے ، ہمارے یہاں کمیشن کو تماشا بنادیا گیا ہے . جسٹس فائز عیسی قاضی نے کہا کہ ہم کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے رحمن ملک کو سننا چاہتے ہیں، منصور اعجاز ہمارا گواہ ہے، اسکی سیکیورٹی یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے. جسٹس فائز عیسی قاضی نے اٹارنی جنرل کے ذریعے وزیر داخلہ رحمن ملک کو ساڑھے گیارہ بجے طلب کرلیا۔لیکن اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ تین بجے حاضر ہونگے۔متنازع میمو کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ نہ صرف پارلیمانی کمیٹی بلکہ اس عدالتی کمیشن کے کام میں بھی رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔کمیشن نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اگر رحمان ملک کے پاس عدالتی اختیارات ہیں تو بتایا جائے۔کمیشن کے مطابق اگر رحمان ملک کے پاس کوئی اختیار ہے یا وہ کمیشن کو کوئی بیان دینا چاہتے ہیں تو وہ کمیشن کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے کمیشن کو بتایا تھا کہ منصور اعجاز کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی اور اگر ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہو گا تو سپریم کورٹ کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔کمیشن کا اٹارنی جنرل کو مزید کہنا تھا کہ آپ یہاں وفاق اور وزراتِ داخلہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔دریں اثناءڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالتی کمیشن کو بتایا کہ وزیرِ داخلہ رحمان ملک تین بجے کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے۔حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کمیشن سے استدعا کی کہ منصور اعجاز پاکستان نہیں آ رہے اس لیے ان کے بیان ریکارڈ کروانے کے حق کو منسوخ کیا جائے۔بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں یہ اختیار ہے کہ منصور اعجاز کا بیان کسی اور طریقے سے ریکارڈ کریں۔ جس پر زاہد بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں یہ کہیں نہیں کہا کہ کسی کا بیان زبردستی ریکارڈ کیا جائے۔اس سے پہلے سماعت شروع ہونے سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق سفیر حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری منصور اعجاز نے کمیشن کے سامنے پیش نہ ہو کر کمیشن کی توہین کی ہے۔واضح رہے کہ متنازع میمو کے مرکزی کردار امریکی شہری منصور اعجاز کے وکیل نے گزشتہ پیر کو اعلان کیا تھا کہ ان کے موکل پاکستان نہیں آ رہے۔منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ کے مطابق ان کے موکل نے وفاقی حکومت اور فوج کی طرف سے سکیورٹی خدشات دور کرنے کی یقین دہانی نہ کروانے کی بنا پر پاکستان میں اس میمو کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن ان کا بیان لندن، زیورخ یا کسی بھی دوسرے ملک میں ریکارڈ کرے۔واضح رہے کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن نے منصور اعجاز کو اس عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے پاکستان کا ایک سال کا ملٹی پل ویزہ جاری کیا تھا اور ا ±ن کے وکیل اکرم شیخ نے کمیشن کو بتایا تھا کہ ا ±ن کے موکل چوبیس جنوری کو کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے۔منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے پیر کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ منصور اعجاز کے ساتھ ہونے والی ٹیلی کانفرنس میں ان کی سکیورٹی سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس میں اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے منصور اعجاز کی سکیورٹی سے متعلق رواں ماہ نو جنوری اور سولہ جنوری کو جو احکامات جاری کیے تھے ان میں کی گئیں بنیادی تبدیلیوں کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔اکرم شیخ نے الزام عائد کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے ایسی منصوبہ بندی کی ہے کہ جونہی ان کے موکل کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے بعد باہر نکلیں تو انہیں کسی مقدمے میں پھنسا دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ اپنے ملک واپس نہ جا سکیں۔جبکہ میموگیٹ کیس میں حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہا ہے کہ اس کیس کے مرکزی کردار منصور اعجاز نے کہا تھا کہ وہ ہر صورت 24جنوری تک پاکستان میں حاضر ہوجائیںگے لٰکن اب نئے بہانے تراشے گئے ہیں. کمیشن سے وعدہ کر کے نہ آنا کمیشن کی توہین ہے. انہوں نے کہا کہ اب اس بات کا کوئی قانونی جواز نہیں کہ منصور اعجاز جس کمیشن کی دو مرتبہ توہین کرچکا، متعدد مواقع ضائع کر چکا، کمیشن اس کا بیان لینے ملک سے باہر جائے. ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امید ہے کمیشن انصاف کے مطابق فیصلہ کرے گا، تاہم اگر کمیشن سے مطمئن نہ ہوئے تو سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔میمو کمیشن کی تحقیقات کے لئے عدالت کمیشن کا اجلاس اسلام آ باد ہائی کورٹ میں منعقد ہوا. عدالتی کمیشن کے اجلاس کی صدارت بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کی۔ واضح رہے کہ یہ عدالتی کمیشن کا چوتھا اجلاس تھا۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مبینہ میمو کے مرکزی کردار منصور اعجاز کوئی سربراہ مملکت یا امریکی صدر نہیں ہیں کہ ان کی ملک آمد پر فوج ان کو پروٹوکول دے اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری لے اور اس قسم کی روش ملک کے لیے بہتر نہیں ہے۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ بات دنیا کی سب سے کم عمر آئی ٹی ماہر ارفع کریم کے انتقال پر ان کے گھر والوں سے تعزیت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی۔ منصور اعجاز کی متوقع آمد پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کسی ملک کا کوئی وائسرائے آرہا ہو اور ہم محکوم قوم ہیں اور ہمیں منصور اعجاز کی حفاظت کے لیے فوج بھی مہیا کرنی پڑے‘۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ منصور اعجاز نے ہمیشہ حکومتوں ،اسٹیبشلمنٹ اور پاکستان کے خلاف زہر اگلا ہے اور ایسے شخص کے بارے میں فکر مند ہونا غیر ضروری ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ منصور اعجاز کی حفاظت پر اربوں روپے لگانے پڑیں گے اور بقول ان کے آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ منصور اعجاز کی پاکستان میں حفاظت وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے اور اگر وزارت داخلہ چاہے تو وہ رینجرز اور فوج کو طلب کرسکتی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ میبنہ میمو سے ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ اس پیغام سے خطرہ ہے کہ اس شخص کی وجہ سے ملک ہل گیا جس کی اپنی کوئی ساکھ نہیں ہے۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ’ کل کو اس قسم کے ایک دو اور مضامین شائع ہوجاتے ہیں تو دنیا کیا سوچے گی کہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ ایک مضمون سے ہماری حکومتیں گر جاتی ہیں اور ادارے کمزور ہوجاتے ہیں‘۔ان کا کہنا ہے کہ ہم دنیا کو یہ پیغام دے رہے کہ ہم اپنے معاملات خود نہیں سلجھا سکتے۔ایک سوال پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ منصور اعجاز کو کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی دونوں کے سامنے پیش ہونا چاہئے۔حسین حقانی کے بارے میں سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ سابق سفیر پر ابھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور بقول ان کے جب تک کسی پر کوئی الزام ثابت نہ ہو اس وقت تک وہ شخص بے قصور ہوتا ہے۔اے پی ایس