بابر اعوان نوں رزق ہمیش۔چودھری احسن پر یمی




گزشتہ منگل کو بابر اعوان پارلیمنٹ کے باہر راقم الحروف سمیت دو اور صحافیوں کے بازو پکڑ کر ایک طرف لئے گئے اور ان سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بری امام سے آرہا ہوں اور مدینے شریف جارہا ہوں انہوں نے کہا کہ میں بلھے شاہ کے ایک شعر میں مزید جواب دوں گا.
" پلے رزق نا بندے پنچھی تے درویش،
جنہاں نوں تقوی رب دا انہاں نوں رزق ہمیش"
قبل ازیں سپریم کورٹ نے بھٹو ریفرنس کیس میں صدر کے وکیل بابر اعوان کا لائسنس عارضی طور پر معطل کر دیا عدالت نے بابر اعوان کی تعلیمی اسناد اور ان کے وکیل بننے کی تمام تفصیلات پنجاب بار کونسل اور پاکستان بارکونسل سے طلب کر لیں۔ حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چار رہنماو ¿ں بابر اعوان، فردوس عاشق اعوان، قمر زمان کائرہ اور خورشید شاہ کو متنازع میمو سے متعلق عدالتی حکم کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس ملا تھا۔سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران بابر اعوان سے اس نوٹس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ایک شعر پڑھا ’نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا کیوں سوہنیا دا گلہ کراں میں تے لکھ واری بسم اللہ کراں‘جس کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزا سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے گیارہ رکنی بینچ نے اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے بابر اعوان کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا کہ کیوں نہ ان کا لائسنس منسوخ کردیا جائے۔گزشتہ منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سزا سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت شروع کی تو چیف جسٹس نے اس ریفرنس کی پیروی کرنے والے وکیل بابر اعوان سے استفسار کیا کہ انہوں نے اب تک توہینِ عدالت کے نوٹس پر جواب کیوں جمع نہیں کروایا؟جس پر بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں جواب داخل کرنے کے لیے مزید مہلت دی جائے۔بابر اعوان نے کہا کہ اس بارے میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وکیل کی خدمات حاصل کی جانی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی انہوں نے اب تک کوئی جواب داخل نہیں کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالتی وقار کا معاملہ ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سب کو اور خصوصی طور پر وکلاءکو عدالتوں کا احترام کرنا چاہیے۔عدالت نے بابر اعوان کا لائسنس معطل اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے رویے نے عدالت کو ایسا کرنے پر مجبور کیا کیونکہ چار جنوری کو بابر اعوان کا رویہ انتہائی غیر مناسب تھا۔عدالت کا کہنا تھا کہ انہیں جواب داخل کرنے کے لیے مناسب موقع فراہم کیا گیا تھا۔عدالت نے بابر اعوان سے کہا کہ جب تک آپ جواب داخل نہیں کروائیں گے آپ کا لائسنس معطل رہے گا اور آپ کسی بھی کیس میں پیش نہیں ہو سکتے۔عدالت نے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق سے کہا کہ وہ صدر کو آگاہ کریں کہ اس ریفرنس میں ان کے وکیل کا لائسنس معطل ہوگیا ہے اور وہ اس ریفرنس میں کسی دوسرے وکیل کو مقرر کریں۔عدالت کا کہنا تھا کہ نئے وکیل کے مقرر ہونے تک بھٹو ریفرنس کیس کی سماعت معطل رہے گی۔دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ ریاض نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے بابر اعوان کا موقف سنے بغیر ہی ان کا لائسنس معطل کردیا ہے۔جبکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ کی طرف سے توہین عدالت کے مقدمے میں اظہار وجوہ کے نوٹس کی پیروی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے این آر او یعنی قومی مفاہمتی آرڈیننس کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے بارے وزیر اعظم کو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں انیس جنوری کو بینچ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ وزیر اعظم ہاوس کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بیرسٹر اعتزاز احسن انیس جنوری کو وزیر اعظم کے ساتھ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوں گے۔چوہدری اعتزاز احسن پیپلز پارٹی کے ان رہنماوں میں سے ہیں جنہوں نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط لکھے اور ان کے بقول صدر آصف علی زردرای کو اندرون اور بیرون ملک استثنی حاصل ہے اور ان کے خلاف مقدمات نہیں کھولے جاسکتے۔یہ مقدمات کالعدم قرار دیے جانے والے این آر او کے تحت ختم کیے گئے تھے۔بیرسٹر اعتزاز احسن کا شمار پارٹی کے ان رہنماوں میں ہوتا ہے جو موجودہ حکومت کی بعض پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے پر پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر نے انیس فروری سنہ دو ہزار نو میں اعتزاز احسن کی مرکزی مجلس عاملہ کی رکنیت بھی معطل کردی تھی اور انہیں نوٹس بھی بھجوائے گئے تھے تاہم اعتزاز احسن کی بنیادی رکنیت بحال رکھی گئی۔سابق فوجی پرویز مشرف نے سنہ دو ہزار سات میں سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف جب ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا گیا تو اعتزاز احسن چیف جسٹس کے وکیل کی حثیت سے کونسل کے سامنے پیش ہوئے تھے۔اس کے بعد تین نومبر سنہ دو ہزار سات کو پرویز مشرف کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدالتوں کے دیگر معزول ججوں کی بحالی کے لیے شروع کی گئی وکلاءکی تحریک میں اعتزاز احسن نے مرکزی کردار ادا کیا۔پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے جب مارچ سنہ دو ہز ار نو میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت دیگر ججز کو جب ان کے عہدے پر بحال کیا تو اس کے بعد اعتزاز احسن نے اعلان کیا کہ وہ چیف جسٹس کی عدالت میں کسی بھی مقدمے کے سلسلے میں پیش نہیں ہوں گے۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزا سے متعلق صدارتی ریفرنس میں اعتزاز احسن بطور عدالتی معاون پیش ہو رہے ہیں اور اس صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا گیارہ رکنی بینچ کر رہا ہے۔حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون نے اعتزاز احسن کو راولپنڈی کے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کی پیش کش کی تھی جو انہوں نے مسترد کردی۔اعتزاز احسن نے اس سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ کے لیے بھی درخواست دے رکھی ہے اور اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ پارٹی انہیں ٹکٹ دے دی گی۔اے پی ایس