حالیہ تنقیدی بیان واپس لینے کا مطالبہ مسترد۔چودھری احسن پر یمی



وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہان کے خلاف حالیہ تنقیدی بیان کی وضاحت کرنے یا اسے واپس لینے کا مبینہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی فرد واحد کو نہیں بلکہ ملک کی پارلیمان کو جوابدہ ہیں۔گزشتہ اتوار کووہاڑی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایک روز قبل صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں ایسے کسی مطالبے سے وہ آگاہ نہیں ہیں۔”صدر صاحب نے اس بیان کی تردید کی ہے کہ انھوں نے کوئی مطالبہ کیا ہے کہ میں وضاحت کروں یا بیان واپس لوں۔ آپ کو میں بتانا چاہ رہا ہوں کہ میں عوام کا نمائندہ ہوں، عوام کا منتخب وزیر اعظم ہوں، 18 کروڑ عوام کی میں نمائندگی کررہا ہوں لہذا میں جواب دہ ہوں پارلیمنٹ کو اور کسی کو بھی کوئی شکایت ہوگی تو میں کسی فرد کو جواب نہیں دوں گا میں جوابدہ ہوں پارلیمنٹ کو۔“پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے مابین تعلقات ان دنوں سخت تناو ¿ کا شکار ہیں اور گزشتہ ہفتے اس کشیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب ایک چینی نیوز ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت میمواسکینڈل سے متعلق مقدمے میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کی طرف سے جمع کرائے گئے بیانات حلفی کو ”غیرآئینی اورغیر قانونی“ قرار دیا تھا۔سیاسی قیادت کی جانب سے اس الزام پر فوج نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ اس کے”ضرر رساں“ نتائج ہوسکتے۔لیکن وزیر اعظم گیلانی نے اپنے تازہ بیان میں فوج کے انتباہ کوبظاہر نظر انداز کردیا ہے جس سے سیاسی و فوجی قیادت کے مابین کشیدگی میں اضافے کا امکان ہے۔وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ”میں نے جو بات کہی تھی وہ کوئی الزام تراشی نہیں تھی اور ہم چاہتے ہیں کہ آئین کی پاسداری ہو، قانون کی بالادستی اورتمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کریں۔ میں نے صرف ایک ہی بات کی تھی کہ قواعد وضوابط پر عملدآرمد نہیں کیا گیا تھا اور وہ سیکرٹری دفاع کی غلطی تھی جس پر ہم نے ان کو عہدے سے ہٹا دیا۔“جبکہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اداروں کے خلاف اپنی جنگ کے لئے پارلیمنٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے، وزیراعظم گیلانی بیان پر وضاحتیں پیش کرنے کی بجائے بیان واپس لیں اور عوام سے معافی مانگیں. شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکمران ٹولہ فوج اورعدلیہ جیسے قومی اداروں کے خلاف تصادم کی راہ پر چل کر اپنی تباہی کو آواز دے رہا ہے. پاک فوج کے بارے میں وزیراعظم کا بیان پیپلز پارٹی کی قیادت کی اسی مہم کا حصہ ہے۔ گزشتہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس کے آغاز پر بھی فوجی سربراہ کی موجودگی میں پڑھے گئے بیان میں وزیراعظم نے تمام ریاستی اداروں کو اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔وزیراعظم نے کہا ’ہر ریاستی ادارے نے اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہے تا کہ پاکستان کے قومی مفادات کو بہترین انداز میں فروغ دیا جا سکے ۔ پاکستان کی مسلح افواج قوم کی طاقت کا ایک ستون ہیں۔ قوم مادر وطن کے دفاع کے لئے ان کی جرات مندانہ خدمات کی معترف ہے۔پاکستان کے دفاعی امور پر اعلیٰ ترین پالیسی ساز ادارے کے اجلاس میں پاکستانی سرحدی چوکی پر افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے حملے کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ کو جانب دارانہ قرار دیا ہے۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں ہونے والے اِس اجلاس میں اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ چھبیس نومبر کے سلالہ چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے کی امریکی تحقیقات میں بعض اہم حقائق کو نظر انداز کیا گیا۔ تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اتحادی افواج اور امریکی تفتیشی رپورٹوں میں اسی افسر کے بیانات کو بنیاد بنایا گیا ہے جو اس روز سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں ملوث تھا اور دراصل خود ایک ملزم ہے۔اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ فوجی اور حکومت کا یہ رد عمل بہت جلد متعلقہ فریقوں اور میڈیا کو جاری کر دیا جائے گا۔کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اس اجلاس میں وزیراعظم کے علاوہ سینئر وزیر، دفاع، خارجہ، داخلہ، خزانہ اور اطلاعات کے محکموں کے وفاقی وزرا موجود تھے جبکہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سربراہ اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔اجلاس میں پاکستان کی جانب سے سلالہ حملے کے بعد امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعاون کو کم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات اور ان پر بین الاقوامی ردعمل کا بھی جائزہ لیا گیا۔دفتر خارجہ کے حکام نے شرکاءکو بتایا کہ پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ تعاون کم کرنے اور افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کو ترسیلات روکنے کے بعد بین الاقوامی برادری نے پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا اور ان فیصلوں کو واپس لینے کی درخواست کی۔دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانی حکومت اور پارلیمنٹ نے اس حملے کے بعد جو مطالبات امریکہ اور اتحادی افواج کے سامنے رکھے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے جن میں سے ایک اس واقعے پر معافی مانگنے سے متعلق بھی ہے۔اے پی ایس