ڈرون حملے غیر قانونی اور ناقابلِ قبول۔چودھری احسن پر یمی




انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں ڈرون طیاروں کے مہلک استعمال کی قانونی اور حقیقی بنیاد کی تفصیلات سامنے لائے۔تنظیم نے یہ بیان امریکی صدر براک اوباما کے اس بیان کے بعد جاری کیا جس میں انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مشتبہ شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے بغیر پائلٹ کے اڑنے والے طیاروں کے استعمال کی تصدیق کی تھی۔ ایمنسٹی نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر ان ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی بھی نگرانی کرے۔امریکی حکام لازمی طور پر اس بارے میں تفصیلی وضاحت دیں کہ یہ حملے کس طرح قانون کے دائرے میں آتے ہیں اور ان میں شہریوں کی ہلاکتوں پر نظر رکھنے اور مناسب احتساب کو یقینی بنانے کے لیے کیا، کیا جا رہا ہے۔تنظیم نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ڈرون حملوں کے لیے رولز آف انگیجمینٹ یا کیا قواعد وضع کیے گئے ہیں اور اس سلسلے میں کیا باضابطہ قانونی جواز موجود ہے؟۔ایمنسٹی کہتی ہے کہ امریکی صدر کا پاکستان میں ڈرون طیاروں کے استعمال کی تصدیق کرنا شفافیت کی جانب ایک خوش آئند پہلا قدم ہے لیکن اس سے متعلق سوالات کے جوابات بھی دینے چاہیے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں تک رسائی میں مشکلات اور وہاں سیکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے اس بات کی تصدیق ناممکن ہے کہ ڈرون حملوں میں کتنے شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ تنظیم کے مطابق جو شواہد دستیاب ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال یعنی سن دو ہزار گیارہ میں ڈرون حملوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ایمنٹسی کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کچھ ہفتوں میں تقریر کرنے والے ہیں جس میں ڈرون حملوں کی حمایت میں قانونی جواز پیش کریں گے۔ تنظیم نے کہا کہ امریکی انتظامیہ کو اس میں ڈرون حملوں کے متعلق قانونی اور حقیقی دستاویزات پیش کرنی چاہیے۔تنظیم کے بقول صرف یہ کہہ دینا کہ ہم پر اعتبار کیجیے، یہ حملے قانونی ہیں، کافی نہیں ہوگا۔ ماضی میں امریکی حکام کا یہ جواز کہ امریکہ اور القاعدہ کے درمیان ’عالمی جنگ‘ جاری ہے قانونی تھیوری کی بنیاد بنتا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون اسے تسلیم نہیں کرتا۔امریکی صدر براک اوباما نے پہلی بار باضابطہ طور پر تصدیق کی ہے کہ امریکی جاسوس طیارے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مشتبہ شدت پسندوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ یہ حملے غیر قانونی اور ناقابلِ قبول ہیں۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کی پوزیشن بہت واضح ہے اور اصولوں پر مبنی ہے۔امریکی صدر نے ڈرون حملوں کی تصدیق گوگل اور یوٹیوب کے ساتھ ایک گھنٹہ کے طویل ’ہینگ آو ¿ٹ‘ کے دوران کہی۔گوگل اور یو ٹیوب کا ہینگ آو ¿ٹ شروع ہونے سے پہلے ایک لاکھ تیس ہزار سوالات آئے۔ چھ افراد نے صدر اوباما سے آن لائن سوالات پوچھے۔ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ڈرون طیاروں کے ذریعے بیشتر حملے پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا میں کیے گئے۔انہوں نے ان حملوں کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی قرار دیا۔انہوں نے دعوٰی کیا کہ یہ حملے القاعدہ کے مشتبہ دہشت گرووں کے خلاف کیے گئے جو افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میںموجود تھے۔امریکی صدر کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے دفترِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ ڈرون حملے غیر قانونی، خلافِ منشا اور ناقابلِ قبول ہیں۔ ’ہم اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی کو درگزر نہیں کر سکتے‘۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گزشتہ کئی سالوں سے جاسوس طیاروں کے حملے ایک معمول بن چکا ہے۔امریکی غیر سرکاری اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں دو ہزار چار سے لے کر اب تک کل دو سو تراسی ڈرون حملے ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔پاکستان میں پہلا ڈرون حملہ اٹھارہ جون دو ہزار چار کو جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا کے قریب ہوا تھا جس میں طالبان کمانڈر نیک محمد مارے گئے تھے۔امریکی اداروں کے مطابق دو ہزار چار سے لے کر دو ہزار سات تک پہلے چار سالوں میں کل نو حملے ہوئے جبکہ دو ہزار آٹھ میں تینتیس، دو ہزار نو میں تریپن، دو ہزار دس میں سب سے زیادہ یعنی ایک سو اٹھارہ اور دو ہزار گیارہ میں ستر امریکی حملے ہوئے۔پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج ہوتا رہتا ہے اور ان حملوں کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان میں زیادہ تر بے گناہ افراد نشانہ بنتے ہیں۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف قبائلی عمائدین نے بین الاقوامی عدالتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات جب بھی تلخی کا شکار ہوئے ہیں ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی تعطل کا شکار رہا ہے تاہم یہ تعطل مستقل بندش کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔گزشتہ سال چھبیس نومبر کو مہمند ایجنسی میں سلالہ کے سرحدی علاقے میں پاکستانی چوکیوں پر نیٹو کے فضائی حملے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے ڈرون حملوں کا سلسلہ تقریباً ڈیڑھ ماہ کے لیے تعطل کا شکار رہا تھا تاہم رواں برس جنوری کے دوسرے ہفتے سے یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو چکا ہے۔اس سے پہلے دو ہزار گیارہ کے شروع میں بھی چوبیس روز تک ڈرون حملے بند رہے تھے جب امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تلخی میں اضافہ ہوا تھا تاہم بعد میں جاسوس طیاروں کے حملے دوبارہ شروع ہوگئے تھے۔پاکستان ظاہراً امریکی ڈرون حملوں کو ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دے کران کی مذمت کرتا آیا ہے۔ لیکن دفاعی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ میزائل حملے زمین پر موجود پاکستانی خفیہ ایجنٹوں کی مدد سے کیے جاتے ہیں۔وکی لیکس کے توسط سے 2010 ءکے اواخر میں افشا کی گئی خفیہ امریکی سفارتی دستاویزات نے بھی اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ کھلے عام ڈرون حملوں کی مذمت کرنے والے پاکستان کے سیاسی وفوجی رہنماوں نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں غیر سرکاری طور پر ان کارروائیوں کی حمایت کی تھی۔ جبکہ گزشتہ دسمبر میںتقریباً دو ماہ کے وقفے کے بعد جو ڈرون حملہ پاکستان کے اندر کیا گیا، اس پر ’کرسچن سائنس مانٹر‘ کہتا ہے کہ کیا اِس کے یہ معنی لیے جائیں کہ دونوں اتحادیوں کے مابین تعلقات میں بہتری آئی ہے۔اے پی ایس