وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا دورہ کابل۔چودھری احسن پر یمی



وزیر خارجہ حنا ربانی کھر گزشتہ بدھ کو افغانستان کے سرکاری دورے پرکابل پہنچی ۔جہاں انہوں نے افغان رہنماوں کے ساتھ بات چیت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قیام امن کے سلسلے میں مفاہمتی عمل کے لیے اسلام آباد کی حمایت سمیت دوطرفہ تعلقات سے متعلق امور زیر بحث آئے ۔ اپنے افغان ہم منصب ظلمے رسول کے ساتھ باضابطہ بات چیت کے علاوہ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی۔”یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے ایک نئے باب کی شروعات ثابت ہوا ہے۔ طرفین دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں امن عمل کے لیے پاکستان کی ناگزیر حمایت پر بات چیت کی گئی۔ افغان امن عمل میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے اور امن مذاکرات کی طرف پیش رفت کے لیے ”افغانستان کو اپنے ہمسایہ ملک کی ایک مخلصانہ کوشش درکار ہے وزیر خارجہ حنا ربانی نے ایک ایسے وقت افغانستان کا دورہ کیا ہے جب افغان طالبان نے حال ہی میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ان کے نمائندوں اور امریکی حکام کے درمیان ابتدائی رابطوں کے نتیجے میں امن بات چیت شروع کرنے سے پہلے طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اپنا ایک سیاسی دفتر کھولنے پرآمادگی ظاہر کر دی ہے۔اطلاعات کے مطابق امریکی حکام کےساتھ بات چیت کو ممکن بنانے کے لیے پاکستان نے بھی کردار ادا کیا ہے کیونکہ طالبان کے نمائندے اس مشن پر براستہ پاکستان قطر گئے ہیں۔ لیکن نہ تو امریکہ اور نہ ہی پاکستان نے ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے۔گزشتہ ہفتے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطوں میں اسلام آباد کے کردار سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے کسی بھی ایسی کوشش کی حمایت کرے گا جس کی قیادت خود افغان کریں گے۔پاکستانی ترجمان کے بقول افغانستان میں امن صرف طاقت کے استعمال سے نہیں آسکتا اس لیے ضروری ہے کہ مفصل امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے جس میں تمام فریقوں کو نمائندگی حاصل ہو۔جبکہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر میں ہونے والی ابتدائی ملاقاتوں میں اعتماد سازی سے متعلق اقدامات اور قیدیوں کی ممکنہ رہائی پر بھی تجاویز کا تبادلہ ہوا ہے۔طالبان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی جیل، گوانتانامو بے سے اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں لیکن کابل کے حالیہ دورے کے دوران امریکی خصوصی ایلچی مارک گراسمین نے واضح کیا تھا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں امریکہ نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ان کے بقول قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے سے قبل عسکریت پسندوں کو بین الاقوامی دہشت گردوں سے لاتعلقی اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات میں اپنی شمولیت کا واضح اعلان کرنا ہوگا۔جبکہ پاکستان نے طالبان شدت پسندوں کی براہ راست معاونت کے تازہ ترین الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس کا افغانستان میں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے۔وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کابل میں افغان قیادت کے ساتھ بات چیت کے بعد اپنے ہم منصب زلمے رسول کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف ماضی میں بھی اس نوعیت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔”میرے خیال میں یہ (ایسا ہی ہے جیسے) پرانی شراب اس سے بھی زیادہ پرانی بوتل میں بھر دی گئی ہو۔“اس سے قبل برطانوی ذرائع ابلاغ نے حسب روایت پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان قیدیوں کی آراءپر مشتمل نیٹو کی ایک من گھڑت دستاویز کی تفصیلات جاری کی تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان، شدت پسندوں کو اتحادی افواج پر حملوں میں براہ راست معاونت فراہم کر رہا ہے۔لیکن پاکستانی وزیر خارجہ نے اس تاثر کی کھلے الفاظ میں نفی کی کہ ان کا ملک افغانستان میں کسی ”اسٹریٹیجک ڈیپتھ“ کا متلاشتی ہے۔ ان کے بقول مخصوص عناصر اس مفروضے کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔”تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے ایک قبرستان تو ثابت ہوا ہے لیکن کوئی بھی اس کی سرزمین سے اپنے اسٹریٹیجک مفادات حاصل نہیں کر سکا۔“انھوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے کابل دنیا کا اہم ترین دارالحکومت ہے کیوں کہ افغانستان میں لڑائی کا تسلسل ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہے۔حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ دونوں ہمسایہ ممالک گزشتہ تین دہائیوں کے دوران تباہ حالی دیکھ چکے ہیں، اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ الزام تراشی کی بجائے باہمی اعتماد کی بنیاد پر حکومتوں اور عوام کے درمیان پائیدار تعلقات استوار کیے جائیں تاکہ مشترکہ چیلنجوں سے موثر انداز میں نمٹا جا سکے۔”خطے میں استحکام کا راستہ کابل سے گرزتا ہے اور افغانستان میں امن و خوشحالی کے عزم کی عدم موجودگی میں پاکستان میں امن و استحکام کی بات کرنا غیر سنجیدہ فعل ہوگا۔“ انھوں نے کہا کہ ان کے دورہ کابل کا مقصد بھی افغان حکومت اور عوام کے لیے اپنے ملک کی طرف سے امن، امید اور خیر سگالی کا پیغام پہنچانا تھا۔ اس سے قبل وزیر خارجہ کی قیادت میں پاکستان وفد نے افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے علاوہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔حنا ربانی کھر نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے پاکستان نے ”افغانوں کی سربراہی میں کی جانے والی کسی بھی کوشش کی مکمل حمایت کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے“۔ستمبر میں طالبان سے مصالحت کے لیے قائم اعلیٰ سطحی افغان امن کونسل کے سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی کی خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد پاک افغان تعلقات تناو کا شکار ہو گئے تھے لیکن پاکستانی وزیر خارجہ کا دورہ کابل بظاہر اس کشیدگی میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ادھر پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ ”ہم (پاکستان) افغانستان میں عدم مداخلت کے عزم پر قائم ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ تمام دیگر ممالک بھی اس اصول پر کاربند رہیں گے۔“جبکہ امریکہ نے کہا ہے کہ طالبان کو قطر میں سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دینے اور ان کے ساتھ امن و مفاہمت کے عمل کو فروغ دینے کی کوششوں میں”معتدل پیش رفت“ ہوئی ہے۔افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی نمائندے مارک گروسمین نے خطے کے دورے سے واپسی پر واشنگٹن میں میڈیا سے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان امریکی سفارتی کوششوں کا واحد مقصد افغان دھڑوں کی آپس میں بات چیت کے لیے ماحول فراہم کرنا ہے۔لیکن امریکی ایلچی نے براہ راست یہ اعتراف کرنے سے گریز کیا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ اگر میں نے آپ کے اس سوال کا جواب دے دیا تو آپ کو بہت زیادہ حیرت ہوگی۔ لیکن اس سلسلے میں ہم جو بھی کوششیں کر رہے ہیں ان کا واحد مقصد امریکی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں افغانوں کی آپس میں بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔“مارک گروسمین نے کہا کہ ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بھارت، قطراور افغانستان کے حالیہ دورے کے دوران ان کی بات چیت کا بنیادی مقصد بھی افغان امن و مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے تمام متعلقہ فریقین کو اعتماد میں لینا تھا۔”لیکن قطر میں سرکاری طور پر (طالبان کا) دفتر کھولنے سے قبل کچھ کام ہونا ابھی باقی ہیں۔ طالبان کو اس سلسلے میں واضح بیانات دینے اور قطری حکام کوافغانوں (حکومت) سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا کام ان کوششوں میں معاونت کرنا ہے، اور میرا خیال ہے ہم نے اس سلسلے میں معتدل پیش رفت کی ہے۔“امریکی خصوصی نمائندے نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ امن و مفاہمت کے عمل سے صدر حامد کرزئی کی حکومت کو باہر رکھا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر افغان اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے طالبان کا دفتر سعودی عرب میں قائم کرنے کی خواہاں ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود افغانوں کو کرنا ہے۔مارک گروسمین نے کہا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے آغاز سے پہلے امریکہ نے کوئی شرائط نہیں رکھی ہیں۔ ”سیکرٹری کلنٹن نے گزشتہ سال فروری میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ تین حتمی شرائط پر بات کرے گا جس
میں القاعدہ سے تعلق توڑنا، تشدد ترک کرنا اور افغان آئین بشمول عورتوں اوراقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنا شامل ہے۔ لیکن یہ قبل از بات چیت شرائط نہیں بلکہ حتمی شرائط ہیں اور وہ (کلنٹن) واضح کرچکی ہیں کہ جو کوئی بھی مفاہمت کا حصہ بننا چاہتا ہے اسے ان حتمی شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔“افغانستان کے مستقبل میں پاکستان کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے مسٹر گروسمین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان کے مسئلے کے پر امن حل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ پڑوسی ملک ہونے کے ناطے وہ اس عمل کا حصہ ہے۔انہوں نے پاکستانی حکومت کی طرف سے امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے پاکستان کا حق قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے تعلقات باہمی احترام پر مبنی ہونے چاہئیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر سکیں گے۔مسٹر گروسمین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے حق میں امریکہ نے کوئی خفیہ سفارتی کوششیں نہیں کیں۔ بلکہ جو کچھ کیا گیا کھلے عام کیا گیا۔اس سلسلے میں انہوں نے محکمہ خارجہ کے بیانات اور پاکستانی اعلٰی حکام کو لکھے گئے خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے بھی تنہائی میں حکام سے وہی باتیں کیں جو کھلے عام میڈیا کے سامنے کیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سفر کی اجازت ملنے کے بعد اب مسٹر حقّانی کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں وہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ امریکہ کا ہمیشہ سے یہ موقف تھا کہ یہ معاملہ شفّاف طریقے سے آئین اور قانون کے مطابق حل ہو اور اس سلسلے میں جو کوششیں کی گئیں کھلے عام کی گئیں۔اے پی ایس