فرد جرم۔سیاسی ماحول ایک بار پھر کشیدہ۔چودھری احسن پر یمی



وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پہلے بھی طلب کیے جانے پر وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور اب نئے حکم پر بھی وہ عدالت کے سامنے حاضر ہوں گے۔قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ ’اگر ہم اداروں کا احترام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گاہم نہیں چاہتے کہ اس ملک میں اداروں کو کمزور کریں اور جتنا بھی ہوسکتا ہے، اور جتنا بھی ہوا ہے اور جتنا اس دور میں آپ نے آئین کا تحفظ کیا ہے، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور اس کو مزید بہتر بنانے کے لیے اگر اپوزیشن کی کوئی تجاویز ہوں گی تو انشاءاللہ ہم اس کی حمایت کریں گے۔ اپوزیشن کی طرح ہم بھی اس بات کے حق میں ہیں کہ ہر ادارے کو اپنے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔’ہر شخص کو آئین کی پاسداری کرنی چاہیے، اور اگر 73 کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام ادارے اپنا اپنا کام کریں گے تو کسی قسم کی کوئی تنقید نہیں ہوگی۔‘وزیر اعظم نے اپنی یہ بات دہرائی کہ تمام ادارے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں اور اس لیے جو بھی پارلیمنٹ چاہے گی ہم وہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔قبل ازیں سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو تیرہ فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جہاں ان پر توہینِ عدالت کے معاملے میں فردِ جرم عائد کی جائے گی۔عدالت نے یہ حکم گزشتہ جمعرات کی صبح سماعت کے بعد اپنے مختصر فیصلے میں دیا تھا۔این آر او عملدرآمد مقدمے میں سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کرنے پر وزیراعظم پاکستان کو توہینِ عدالت میں اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا تھا جس کے بعد وہ انیس جنوری کو عدالت میں حاضر بھی ہوئے تھے جہاں انہیں مزید حاضری سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا۔ اس معاملے کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے وزیراعظم گیلانی کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر عدالت حکم دے گی تو سوئس حکام کو صدر زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے سلسلے میں خط لکھ دیا جائے گا جس پر عدالت نے کہا کہ یہ تو بارہا کہا جا چکا ہے۔ کہ خط لکھا جائے لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔اعتزاز احسن نے کہا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ عدالت کی عزت بچائی جائے کیونکہ اگر یہ خط لکھا جائے اور سوئس عدالتوں میں کوئی کارروائی نہ ہو تو پھر عدالت کی عزت پر بھی حرف آئے گا جس پر بینچ میں شامل جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’آپ یہ چاہتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ کے لوگوں کے سامنے ہم بے عزت نہ ہوں جبکہ اپنے لوگوں کے سامنے بے شک بے عزت ہوتے رہیں‘۔بینچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک کا کہنا تھا کہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اگر حکومت سوئس حکام کو خط لکھتی ہے تو سوئس عدالتوں میں اس کے کیا نتائج نکلیں گے اور بہرحال سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ کا فیصلہ اس پر واضح ہے کہ این آر او سے مستفید ہونے والے افراد کے خلاف اس وقت سے مقدمات بحال کیے جائیں جب یہ لاگو ہوا تھا۔عدالت کا کہنا تھا کہ جب سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق سمری لکھی گئی تو اس وقت کے سیکرٹری قانون نے اس کو سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو نہیں بھجوایا اور جب عدالت نے ان سے پوچھا تو انہوں نے استعفٰی دے دیا۔بینچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک کا کہنا تھا کہ جو سمری لکھی گئی ہے اس میں سیکرٹری قانون نے رائے دی ہے کہ سوئس عدالتوں میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف معاملہ ختم ہوچکا ہے اس لیے خط لکھنے کی ضرورت نہیں جبکہ وزیرِ اعظم کہہ رہے ہیں کہ صدر کو استثنٰی حاصل ہے حالانکہ سمری میں ا س بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔اس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو جو سمری بھیجی گئی اس پر انہوں نے عملدرآمد کیا ہے اور اس پر وزیرِاعظم کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں بنتی، ’انہیں جو رائے دی گئی انہوں نے اس پر عمل درآمد کیا اس لیے شک کا فائدہ وزیراعظم کو ہی ملنا چاہیے‘۔انہوں نے کہا کہ سیاسی حکومتوں اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے پہلے بھی دو مرتبہ وزرائے اعظم کو نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک کسی بھی جرنیل کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں کی گئی۔اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ یہ سارا معاملہ وفاقی حکومت کی جانب سے این آر او مقدمے میں پیروی نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور انہیں یہ علم نہیں تھا کہ اس معاملے میں سوئس مقدمات کو بھی لایا جائے گا۔آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کی طرف سے ان پر توہین عدالت کے الزام کے تحت فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف لارجر بنچ میں اپیل کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو طلب کر کے یہ واضح کر دیا تھا کہ عدالت اپنے فیصلے پر عملدرآمد چاہتی ہے کیونکہ اس سے پہلے ایسا ایک تاثر پایا جاتا تھا کہ شاید سپریم کورٹ وزیر اعظم کو توہین عدالت کے مقدمے میں طلب نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے سوئس حکام کو صدر زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے سلسلے میں خط لکھ دینا چاہیے۔اس سوال پر کہ اگر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو پھر وزیر اعظم کا کیا مقام ہوگا تو ایسی صورتحال میں وزیر اعظم نااہل ہو جاتے ہیں اور پھر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن سے کہے گا اوران کو عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ حالانکہ مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا اور ایسی صورتحال میں تو اعلی عہدیدار خود ہی مستعفیٰ ہو جاتے ہیں۔جبکہ بعض قانونی ماہرین کے نزدیک ایسا کچھ نہیں ہے کہ تیرہ تاریخ کو کوئی بڑی بات ہوگی بلکہ تیرہ تاریخ سے پہلے اگر وزیر اعظم خط نہیں لکھتے تو پھر رسمی طور پر مقدمہ شروع کیا جاتا ہے اور شہادتیں گزاری جاتی ہیں اور شہادتوں کی روشنی میں موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنی صفائی پیش کریں۔ان سے جب پوچھا کہ اگر تیرہ تاریخ کو فرد جرم عائد کر دیا جاتا ہے تو ایسی صورتحال میں کیا ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ قانون اس وقت تک کسی بھی شحص کو مجرم نہیں گردانتی جب تک جرم ثابت نہیں ہو جاتا۔ اس لیے فرد جرم عائد ہو جانے کے بعد بھی یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم رہیں گے۔اس سوال پر کہ کیا وزیر اعظم اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہاں وہ سپریم کورٹ کے ہی لارجر بنچ میں اپیل کر سکتے ہیں جہاں تمام شواہد کے بعد اس مقدمے کے رخ کا تعین کیا جائے گا کہ آیا یہ فیصلہ برقرار رکھا جائے یا اسے ختم کیا جائے گا۔ مقدمہ چلنے کے بعد جب جرم ثابت ہوجاتا ہے اور عدالت سزا سنا دیتی ہے تو ایسی صورت میں ایسے عہدوں پر فائز افراد خود بخود نااہل ہوجاتے ہیں۔وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن کے اس بیان پر کہ جرنیلوں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں طلب نہیں کیا گیا صرف سویلین وزراءاعظم کو طلب کیا جاتا ہے تو ان ماہرین نے کہا کہ تاریخی حوالے سے یہ درست ہے اب تک چار وزراءاعظم کو ایسے مقدمات میں عدالت میں طلب کیا گیا ہے جبکہ ان جرنیلوں کو جنہوں نے آئین کو روندا انھیں کبھی عدالت میں نہیں بلایا گیا ۔قانونی اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ توہین عدالت کے الزام میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر فرد جرم عائد کر دیتی ہے تو ایسی صورت میں وہ ناصرف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز نہیں رہ سکیں گے بلکہ وہ قومی اسمبلی کی اپنی رکنیت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔لیکن سابق جج طارق محمود نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرحلے پر عدلیہ کے فیصلے پر مقدمے کی آئندہ سماعت تک اس بارے میں کوئی بھی تبصرہ قبل از وقت ہو گا۔”قومی اسمبلی کی نشست اور وزارت عظمیٰ جائے گی یا نہیں یہ انحصار 13 فروری کو ان پر عائد کیے جانے والے فرد جرم کی نوعیت پر ہو گی۔ اگر عدالت کہتی ہے کہ اس کے حکم پر عمل درآمد نا کر کے انھوں نے عدالت کی (تضحیک) یا (بدنام) کرنے کی کوشش کی ہے تو پھر تو اس صورت میں ان کی قومی اسمبلی کی نشست جانے کے امکانات واضح ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر فرد جرم یہ لگتا ہے کہ آپ نے آرڈر کی حکم عدولی کی ہے تو سزا تو اس میں شاید چھ ماہ ہو سکے لیکن سیٹ بچ جاتی ہے“۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ وزیراعظم گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے نے ملک کو اس وقت غیر معمولی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔”پاکستان کی تاریخ میں یہ منفرد کیس آئے گا، اگر ان پر فرد جرم عائد کر دی جاتی ہے تو آئندہ پانچ سال تک قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کا انتخاب لڑنے کے لیے نا اہل ہو جائیں گے پبلک آفس کے لیے“۔پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے کہا کہ ان کی جماعت کی کوشش ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم نا ہو اور ان کی پارٹی اپنے وزیراعظم کے پیچھے کھڑی ہو گی۔”لوگ جتنا بھی چاہیں، ہم نہیں چاہیں گے کہ ادارے تصادم کی
طرف جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کو آنا چاہیئے فیس کرنا چاہیئے۔۔۔۔ وہ متفقہ طور پر منتخب ہونے والے وزیراعظم ہیں اور میں یہ نہیں سمجھتی کہ وہ کسی چیز سے گھبرائیں گے اور ہم اپنے وزیراعظم کے ساتھ ہیں“۔مبصرین کا خیال ہے کہ میمو اسکینڈل کی وجہ سے ملک بظاہر جس سیاسی عدم استحکام سے دوچار تھا، امریکی شہری منصور اعجاز کی طرف سے اس مقدمے میں گواہی کے لیے پاکستان آنے سے بار بار انکار اور عدالت عظمیٰ کی طرف سے حسین حقانی کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے فیصلے کے بعد اس تناو میں کمی آئی تھی۔ تاہم اب وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت پر فرد جرم عائد کرنے کے اعلان سے سیاسی ماحول ایک بار پھر کشیدہ ہو گیا ہے۔اے پی ایس