ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے کی تیاریاں۔چودھری احسن پر یمی




ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنائی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی دباو میں آکر تہران اپنے جوہری پروگرام کو ترک نہیں کرے گا اور نہ ہی تعزیرات اس منصوبے کو جاری رکھنے کے ایرانی عزم پر اثر انداز ہوں گی۔سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والے نماز جمعہ کے اپنے خطبے میں انھوں نے کہا کہ تیل کے شعبے پر پابندیوں کی دھمکیوں کا ایران بھی مناسب وقت پر جواب دے گا۔ ”ایران کو دھمکانے اور اس پر حملے کا امریکہ کو نقصان ہوگا۔ میں بلاخوف و خطر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کسی بھی ایسی قوم یا تنظیم کی حمایت اور مدد کریں گے جو صیہونی نظام (اسرائیل) کا سامنا اور اس کے خلاف لڑنا چاہتی ہے“۔ جبکہ تہران، یروشلم اور واشنگٹن میں ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے کی قیاس آرائیاں ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کی مبینہ ایرانی کوششوں کو روکنے کے لیے اسرائیل کی بے تابی بڑھتی جارہی ہے اور ایک امریکی عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملہ اب زیادہ دور نہیں رہا۔اسرائیل کے وزیرِ دفاع ایہود بارک کا کہنا ہے کہ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے دنیا کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے جب کہ یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا کو یقین ہے کہ اسرائیل آئندہ پانچ ماہ کے دوران میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کردے گا۔ایرانی حکام مسلسل مغرب کے ان دعووں کی تردید کرتے آئے ہیں کہ تہران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور ایران کے اعلیٰ ترین رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے خبردار کیا کہ اگر ایران کی جوہری تنصیبات پہ حملہ ہوا تو ان کا ملک پوری قوت سے اس کا جواب دے گا۔مشرقِ وسطیٰ پہ منڈلاتی اس نئی جنگ کے خدشات کے بیچ دیرینہ اتحادیوں، امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اس بحران سے نبٹنے کے طریقہ کار پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔سنہ 2007 میں امریکہ کی تمام خفیہ ایجنسیوں کی ایک اعلیٰ ترین مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گو کہ ایران جوہری میدان میں تیکنیکی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے لیکن تہران حکومت نے ابھی تک جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا فیصلہ نہیں کیا۔سنہ 2009 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی خفیہ ایجنسی 'سی آئی اے' کے اس وقت کے سربراہ اور موجودہ وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے بھی پیش گوئی کی تھی کہ ایران 2010ءسے 2015ء کے درمیان جوہری قوت بن سکتا ہے تاہم، ان کے بقول، ایران نے تاحال یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے گزشہ برس دی گئی ایک رپورٹ میں بھی یہی نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ایران نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔تاہم امریکی اداروں کی اس رائے سے یروشلم میں بیٹھے فیصلہ ساز متفق نہیں جو ایرانی جوہری پروگرام کو اپنے ملک کی بقا کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیتے ہیں۔اسرائیلی صحافی رونن برگ مین نے موقر امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز ' کی 25 جنوری کی اشاعت میں شامل اپنے ایک مضمون میں اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرے گا۔ایران اب تک یورینیم کو 20 فی صد تک افزودہ کر پایا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے ہتھیاروں میں استعمال کے لیے یورینیم کو کم از کم 90 فی صد تک افزودہ کرنا ہوگا۔اوباما انتظامیہ فی الوقت ایران کے خلاف کسی فوجی کاروائی کی مخالف ہے اور تہران کو جوہری ہتھیاروں سے باز رکھنے کے لیے ایرانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی تیل کی صنعت کے خلاف سخت بین الاقوامی پابندیوں کا نفاذ چاہتی ہے۔خفیہ اداروں سے منسلک تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تعین کرنا بہت مشکل ہوگا کہ ایران نے کب "سرخ لکیر" عبور کرکے جوہری ہتھیاروں کی تیاری شروع کردی ہے کیوں کہ جوہری پروگرام کی بیشتر تیکنیکی سرگرمیاں پرامن اور فوجی مقاصد کے لیے یکساں ہیں۔سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس نے رواں ہفتے کانگریس کی ایک کمیٹی کو بتایا تھا کہ ایران کی جانب سے یورینیم کی 90 فی صد تک افزودگی اس بات کی ایک اہم علامت ہوگی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی جانب جارہا ہے۔لیکن جہاں واشنگٹن نے کھل کر وہ حد بیان کردی ہے جسے وہ ایران کے لیے "سرخ لکیر" سمجھتا ہے، اسرائیل اس معاملے میں خاصا محتاط ہے۔بعض امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ اسرائیل کی "سرخ لکیر" ایران کی جانب سے اپنی جوہری تنصیبات کے اہم حصوں کی میزائل اور بم حملوں سے محفوظ زیرِ زمین تنصیبات کو منتقلی ہوسکتی ہے اور تہران کی جانب سے ایسی کسی کوشش پر یروشلم کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے۔اسرائیلی وزیرِ دفاع ایہود بارک کا کہنا ہے ہیں کہ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے دنیا کے پاس وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ایک امریکی اخبار کے کالم نگار نے ایہود بارک کے امریکی ہم منصب وزیرِ دفاع لیون پنیٹا کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل اپریل اور جون کے درمیان ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے شروع کر دے گا۔تہران میں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنائی نے انتباہ کیا ہے کہ اگر اس قسم کے حملے ہوئے تو ایران جوابی کارروائی کرے گا۔لیکن ایران کے جوہری عزائم کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ایران کے بارے میں امریکہ کی تمام اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسیوں کے 2007ء کے مجموعی جائزے ’یو ایس نیشنل انٹیلی جنس ایسٹیمیٹ‘ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے تکنیکی شعبے میں پیش رفت تو کی ہے لیکن اس نے اب تک جوہری ہتھیار بنانے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔2009ء میں ایک انٹرویو میں سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا نے کہا تھا کہ ایران 2010ءاور 2015ء کے درمیان جوہری بم بنا سکتا ہے، لیکن اس نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ یہ آخری قدم اٹھایا جائے یا نہیں۔”ہمارا خیال اور ہماری انٹیلی جنس یہ ہے کہ اگرچہ وہ نیوکلیئر توانائی اور نچلی گریڈ کے یورینیم کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں، لیکن ابھی ایران کے اندر یہ بحث جاری ہے کہ انہیں اس کے آگے جانا چاہیئے یا نہیں۔“گزشتہ سال ایک نیا، نظرِ ثانی شدہ اندازہ لگایا گیا۔ اگرچہ اسے عام لوگوں کے لیے تو جاری نہیں کیا گیا، لیکن نجی طور پر عہدے دار کہتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کی سمت کے بارے میں 2007ءاور 2011ءکے اندازوں کے درمیان بہت کم فرق ہے۔ کانگریس کے سامنے بیان دیتے ہوئے نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائرکٹر جیمز کلیپر نے واضح کیا کہ ایران کے لیڈروں نے اپنے لیے تمام راستے کھلے رکھے ہیں۔”وہ یقیناً اس راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ انھوں نے نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کیا ہے۔“لیکن اسرائیل میں اندازِ فکر بہت مختلف ہے۔ وہاں ایران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ میں ایک اسرائیلی صحافی کا ایک اہم مضمون شائع ہوا ہے جس میں یروشلم میں چوٹی کے اسرائیلی عہدے داروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل مزید انتظار کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا اور امکان یہی ہے کہ وہ اس سال ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔”ایران نے یورینیم کو 20 فیصد کی سطح تک افزودہ کر لیا ہے۔ لیکن ہتھیاروں میں استعمال ہونے کے لیے یورینیم کم از کم 90 فیصد کی حد تک افزودہ ہونا چاہیئے اور ایران ابھی اس سطح پر نہیں پہنچا ہے۔“تھامس فنگر جو امریکہ کے سابق اعلیٰ انٹیلی جنس افسر اور یو ایس انٹیلی جنس کونسل کے سابق چیئرمین ہیں، کہتے ہیں کہ اسرائیل بہت زیادہ نروس ہو رہا ہے کیوں کہ اب ایران جوہری اسلحہ بنانے کی منزل کے قریب پہنچ گیا ہے، اگرچہ اس نے اب تک بم بنانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔”اگر ایران واقعی بم بنانے کے گریڈ کا یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اور میں نے اب تک کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ ہم جانتے ہیں، یا ہمیں شبہ ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں، تو پھر وہ بم بنانے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔“اوباما انتظامیہ اس مرحلے پر ایران کے خلاف کسی فوجی کارروائی کے خلاف ہے، اور اس کے بجائے اس کی توجہ اس بات پر ہے کہ ایران کے خلاف اس کی تیل کی صنعت پر سخت بین الاقوامی پابندیاں عائد کر دی جائیں۔تھامس فنگر کہتے ہیں کہ ایران پر حملے سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس طرح ایران کا ارادہ اور مضبوط ہو سکتا ہے اور حکومت کے لیے عوامی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔”اگر یہ صحیح ہے کہ ایران نے اب تک بم بنانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، تو اس کی تنصیبات پر حملے سے اس بات کا امکان بہت بڑھ جائے گا کہ نہ صرف نیوکلیئر پروگرام اور حکومت کو عوامی حمایت حاصل ہو جائے گی، بلکہ دوسروں کو حملوں سے باز رکھنے کی صلاحیت، نیوکلیئر طاقت کی صلاحیت حاصل کرنے کے ضرورت کا احساس پیدا ہو جائے گا۔“انٹیلی جنس کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ ایران کب خطرے کی لائن پار کر کے جوہری بم بنانے کی حد میں داخل ہو جائے گا کیوں کہ بہت سا تکنیکی کام فوجی اور پر امن دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریس نے اس ہفتے کہا کہ ایک اہم اشارہ یہ ہوگا کہ کیا ایران نے اپنے یورینیم کو 90 فیصد تک افزودہ کر لیا ہے۔”اگر وہ یورینیم کو 20 فیصد سے زیادہ افزودہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو یہ بڑا اہم قدم ہو گا۔ 20 فیصد کی حد تک افزودہ شدہ یورینیم بھی ان کی ضرورت سے زیادہ ہے، مثلاً مستقبلِ قریب میں تہران ریسرچ ری ایکٹر کے لیے بھی 20 فیصد افزودہ شدہ یورینیم کافی ہے۔“اسرائیل کے لیے خطرے کی لائن، یا سرخ لائن کیا ہے، اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ لیکن ڈر یہ ہے کہ ایران اپنی جوہری تنصیبات کو سخت زیرِ زمین مقامات میں منتقل نہ کر دے جن پر مزائلوں اور بموں کے حملے بے اثر ہوں گے۔آخری حد چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، اسرائیل کے وزیرِ دفاع بارک نے کہا ہے کہ اسرائیل اس حد تک پہنچنے کا انتظار نہیں کر سکتا۔ انھوں نے کہا کہ جو کوئی بھی بعد میں کارروائی کی بات کرتا ہے، ہو سکتا ہے کہ اسے پتہ چلے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ اور شاید اس نکتے کو مغربی ملکوں کے لوگوں تک پہنچانے کے لیے، انھوں نے یہ آخری جملہ، عبرانی زبان میں نہیں، انگریزی میں ادا کیا۔اخبار ’سی ایٹل ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ امریکہ، چین اور یورپی اتّحاد کی قیادت میں عالمی سیاسی اور اقتصادی لیڈروں نے مل کرایران کے جوہری عزائم کےخلاف آواز بلند کی جِس پر ایران کو توجّہ دینی پڑی ہے اور اسے شائد اپنے جوہری پروگرام پر سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کرنی پڑے گی ۔صدر احمدی نژاد اپنی اکڑ فوں اور جنگجوئی کا تو سہارا لے سکتے ہیں، لیکن ان کے پاس متّحدہ محاذ کا کوئی جواب نہیں ہے۔ کسی کو ایران کا اعتبار نہیں رہا ہے،چاہے اس کے لیڈر لاکھ دلیل دیتے رہیں کہ ان کے جوہری پروگرام کا مقصد توانائی کی پیداوار اور طبّی تحقیق ہے ۔اخبار کہتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے ایران میں جوہری ایندھن کی تیاری کوجو چیلنج کیا ہے وہ تو اہم ہے ہی، لیکن یورپی اتحاد نے ایران سے تیل کی خرید پر جو تعزیر لگائی ہے اس نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔ادھر چینی وزیر اعظم نے بھی وسط مشرق کے دورے میں ایران کا جوہری مسئلہ اٹھایا۔ ظاہر ہے، چین سعودی عرب سے اپنے اقتصادی تعلقات میں اڑچن نہیں پیدا ہونے دینا چاہتا،جہاں سے وہ سب سے زیاد تیل حاصل کرتا ہے اور اب اس نے تیل پیدا کرنے والے تیسرے سب سے بڑے ملک ایران کو کہہ دیا ہے کہ وہ اپنا طرز عمل درست رکھے۔اور اخبار کے بقول، ایران کو توجّہ دینی پڑے گی۔ ویسے بھی بین الاقوامی برادری نے ایران کی گیدڑبھبکی کا پول اس پیشکش سے کھول دیا ہے۔ اگر وہ اپنے افزودہ یورینیم سے دستبردارہوجائے تو وہ اسے ری ایکٹر میں استعمال کے لئے تیا ر فیول راڈ فراہم کرے گی۔جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بن کی مون نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے ساتھ، جنہیں یہ شبہ ہے کہ تہران جوہری ہتھیاروں پر کام کررہاہے، مذاکرات دوبارہ شروع کرے۔ایران کا کہناہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے دوران پریس بریفنگ میں مسٹر بن کی مون نے کہا کہ یہ ایران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا دعویٰ ثابت کرے۔ان کا کہناتھا کہ مجھے جوہری توانائی کے عالمی ادارے کی حالیہ رپورٹ پر شدید خدشات ہیں جن میں یہ نشان دہی کی گئی ہے کہ ایران کے جوہری ترقیاتی پروگرام کا ایک امکانی پہلو اس کا فوجی استعمال ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہناتھا کہ یہ بحران صرف بات چیت کے ذریعے ہی پرامن طورپر حل کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تہران کو لازمی طورپر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مینڈیٹ کے مطابق لازمی طور پر یہ ثبوت پیش کرنا ہوگا کہ اس کے ملک کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔گزشتہ ماہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے اپنے ملک کے متنازع جوہری پروگرام کے معاملے پر مذاکرات پہ آمادگی ظاہر کرتے ہوئے مغربی ممالک سے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنا "دوغلا" رویہ تبدیل کریں۔ ایران کے جنوبی صوبے کرمان کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ ان کی حکومت مغربی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے پہ مذاکرات کی مخالف نہیں تاہم، ان کے بقول، خود مغرب مذاکرات کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔یاد رہے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین تہران کے جوہری پروگرام کے مسئلے پر مذاکرات کا آخری دور ایک برس قبل ہوا تھا تاہم اس کے بعد سے فریقین مذاکراتی عمل کے دوبارہ آغاز کی شرائط پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔رواں ہفتے یورپی یونین نے بھی ایران سے تیل کی برآمد پہ مرحلہ وار پابندی عائد کرنے کی منظوری دی ہے جس کا مقصد ایران پہ اسکی متنازع جوہری سرگرمیاں روکنے کے لیے دبائوبڑھا نا ہے۔امریکہ اور یورپی ممالک کا الزام ہے کہ ایران سویلین نیو کلیئر پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ایران اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔ اپنی گفتگو میں ایرانی صدر نے یورپی یونین کی پابندیوں کو خاطر میں نہ لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ان پابندیوں سے ایران سے زیادہ خود یورپی ممالک متاثر ہوں گے۔دریں اثنا برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے ایک معتبر امریکی تحقیقاتی ادارے کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے قابل نہیں کیوں کہ جوہری ہتھیاروں کے لیے درکار سطح کی یورینیم افزودہ کرنے کی ایران کی صلاحیت محدود ہے۔'رائٹرز' کے مطابق 'انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران کی جانب ہتھیاروں کی تیاری کا فیصلہ اس وقت تک متوقع نہیں جب تک کہ ایران "تیزی سے اور خفیہ طور پر" اعلیٰ سطح کی یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرلیتا۔ایران کے نیوکلیئر پروگرام سے وابستہ کئی لوگوں کی یکے بعد دیگرے ہلاکت، ایران کی فوجی تنصیبات پر سلسلے وار
دھماکے جن کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی، اور اس کے کمپیوٹرز میں ایک انتہائی خطرناک وائرس، تجزیہ کاروں کے خیال میں، یہ سب اس بات کی علامتیں ہیں کہ ایران کی خلاف خفیہ جنگ میں تیزی آ گئی ہے۔تازہ ترین کیس ایران کے نیوکلیئر سائنسدان مصطفی احمدی روشن کا ہے جو 11 جنوری کو ایک مقناطیسی بم سے ہلاک ہوگئے جو ان کی کار میں لگا دیا گیا تھا۔انٹیلی جنس کی پرائیویٹ فرم اسٹراٹفار میں مشرقِ وسطیٰ کی تجزیہ کار ریوا بھالا کہتی ہیں کہ پالیسی ساز خفیہ کارروائیوں کا راستہ اس وقت اختیار کرتے ہیں جب وہ سفارتکاری اور جنگ کے درمیانی مرحلے میں ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ”پالیسی بنانے والے لوگ خفیہ کارروائیوں کی مبہم راہ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ان کے پاس صورتِ حال سے نمٹنے کے بہتر طریقے موجود نہ ہوں۔ خفیہ کارروائیوں کی مہم پر برسوں سے کام ہو رہا تھا، اور ا ب ہم اس میں تیزی دیکھ رہے ہیں کیوں کہ امریکہ اور اس کے تمام اتحادیوں کو ایران کی طاقت پر تشویش ہے اور وہ اسے محدود کرنے کے طریقے معلوم کرنا چاہتے ہیں۔“گزشتہ دو برسوں میں، ایران کے مزید تین سائنسداں ہلاک ہو چکے ہیں۔ کسی نے کھلے عام ان کی موت کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔لیکن ایران نے ان ہلاکتوں کا الزام امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر عائد کیا ہے۔ امریکہ نے واضح الفاظ میں اس کارروائی میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور برطانیہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔اسرائیلی عہدے داروں نے کہا کہ انہیں علم نہیں کہ ہلاکت کے ان واقعات میں کون ملوث تھا، لیکن ایک اسرائیلی ترجمان نے کہا کہ انہیں اس ہلاکت پر کوئی افسوس نہیں ہے۔خفیہ کارروائی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ واقعات کا رخ بدل دیا جائے اور کسی کو یہ پتہ نہ چلے کہ یہ کارروائی کِس کی ہے۔عام طور سے ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس قسم کی کارروائیاں کرتی ہیں اور ان میں بیرونی ملکوں میں انتخابا ت کا رخ بدلنے کی کوششوں سے لے کر سبو تاژ اور قتل تک کی وارداتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس قسم کی سرگرمیوں کا بھانڈا پھوٹ جانے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی کے بیلفر سینٹر فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز میں سینیئر فیلو،ول ٹوبے کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی قتل کی یہ وارداتیں کر رہا ہے، وہ خطرہ مول لینے کو تیار ہے ۔ ان کے مطابق ”میرے خیال میں جو کوئی بھی ایران کے خلاف قتل کی یہ مہم چلا رہا ہے، وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ معاملات کافی سنگین ہو چکے ہیں اور یہ انتہائی اقدامات ضروری ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں خطرہ اور بڑھ جائے گا۔“دی واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مائیکل آئیزن سٹیڈ کہتے ہیں کہ ان حالات میں ذہن اسرائیل کی طرف جاتا ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ اگر وہ فوجی طاقت استعمال کیے بغیر ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو ختم نہیں کر سکتا، تو اس کی پیش رفت کو سست ضرور کر دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”میرے خیال میں اسرائیلی جانتے ہیں کہ وہ خفیہ کارروائی سے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو روک نہیں سکتے۔ یہ ترکیب عراق کے پروگرام کے سلسلے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ انہیں ہدف بنا کر قتل کرنے کا جو تجربہ ہے، اس سے انھوں نے یہ سیکھا ہے کہ آپ بعض لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے سے دہشت گردی کو بھی نہیں روک سکتے۔ لیکن وہ خفیہ کارروائیوں سے تھوڑا بہت فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تا کہ ایران کا پروگرام سست پڑ جائے اور پابندیوں کو اپنا اثر دکھانے کے لیے وقت مل جائے کیوں کہ پابندیوں کا اثر ہونے میں وقت لگتا ہے۔“چند ہی تجزیہ کار ایسے ہوں گے جو یہ سمجھتے ہوں کہ خفیہ کارروائیوں سے ایران کے لیڈر اپنے نیوکلیئر عزائم سے باز آ جائیں گے۔ لیکن ایران بھی اپنی جاسوسی کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔گزشتہ سال کے آخر میں، امریکہ نے اعلان کیا کہ ایران کی ایک سازش کا پتہ چلا ہے جس کے تحت امریکہ میں سعودی سفیر کو قتل کیا جانا تھا۔ لیکن اس سازش کی بہت سی تفصیلات واضح نہیں ہیں۔وقتاً فوقتاً ایران ایسے لوگوں کو گرفتار کرلیتا ہے جو ایران کے دورے پر جاتے ہیں اور ان پر جاسوسی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ اکثر ان لوگوں کو دوسرے معاملات میں سودے بازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اس مہینے کے شروع میں، ایک سابق میرین فوجی، امیر حکمتی کو ایک ایرانی عدالت نے جاسوسی کے الزام میں موت کی سزا سنائی۔ اس کے گھرانے کے افراد اور امریکی حکومت نے جاسوسی کے الزامات سے انکار کیا ہے۔اے پی ایس