بلوچستان پر امریکی بحث کرائے جانے پر تشویش۔ چودھری احسن پر یمی




پاکستان دشمن بیرونی طاقتوں کا وطن عزیز کو عدم استحکام کرنے ،انتشار پھیلانے،اور اسے تقسیم کر نے کا ایجنڈا تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ پاکستان میں موجود سامراجی طاقتوں کے ایجنٹوں کی اولادرقص ابلیس سرعام کھیل رہی ہے۔ایک طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود پاکستان کے غدار ایسی حکمت عملیاں اپنا رہے ہیںجن کے رد عمل میں وہ لوگ باغی ہورہے جن کے حقوق کی حق تلفی ہو رہی ہے جن کا براہ راست فائدہ اٹھا تے ہوئے پاکستان دشمن طاقتیں ان کو اپنے ہاتھوں میں لیکر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کو کسی بڑے سقوط ڈھاکہ کے ناخوشگوار واقعہ ہونے سے روکا جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہر کسی کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔امریکی ایوانِ نمائندگان کی امورِ خارجہ کی کمیٹی میں بلوچستان کی صورتحال پر عوامی سماعت کے دوران کہا گیا ہے کہ پاکستان پر دباو ڈالا جائے کہ وہ اس شورش زدہ صوبے کے حالات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔سماعت کے دوران بیشتر امریکی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اتفاق کیا کہ بلوچستان کی خودمختاری مسائل کا حل نہیں ہے۔دوسری جانب پاکستان کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے بلوچستان پر بحث کرانے پر واشنگٹن سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان عبدالباسط نے کہا ’ہم نے اسلام آباد اور واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کی جانب سے بلوچستان پر بحث کرائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے مسائل، پرامن سیاسی عمل کے ذریعے حل کیے جانے چاہئیں اور امریکہ بلوچستان کی خودمختاری کا حامی نہیں۔امریکی ایوانِ نمائندگان کی امورِ خارجہ کی کمیٹی میں بلوچستان کے معاملے پر عوامی سماعت، کیلیفورنیا سے ایوان کے رکن ڈینا روباکر نے کی جو ایک مضمون میں مطالبہ کر چکے ہیں کہ امریکہ کو خودمختار بلوچستان کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ شدت پسندی پر قابو پایا جا سکے۔ڈینا روباکر کانگریس کے وہی رکن ہیں جنہوں نے حال ہی میں اسامہ بن لادن کے بارے میں سی آئی اے کو معلومات دینے والے پاکستانی، ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی شہریت دینے کا بِل بھی کانگریس میں پیش کیا تھا۔ گزشتہ بدھ کو’اوور سائٹ اینڈ انویسٹیگیشن‘ کے لیے ذیلی کمیٹی کے تحت ہونے والی سماعت کے دوران پانچ ماہرین نے اپنے بیانات کمیٹی کو جمع کرائے جن میں واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹاو ¿ن یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹین فیئر، امریکی فوجی تجزیہ نگار اور مصنف رالف پیٹرز اور انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان کے لیے ڈائریکٹر علی دایان حسن بھی شامل ہیں۔سماعت کے دوران پروفیسر کرسٹین فیئر نے رائے دی کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے علیحدگی پسندگروہ ہتھیار پھینک دیں اور حکومتِ پاکستان فوج کے استعمال کا راستہ ترک کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان کے جذبات کو سمجھتی ہیں لیکن بلوچ ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث ہیں۔کرسٹین فیئر نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کے موجودہ نظام کے تحت بلوچستان کو وہ حکومتی توجہ ملنے کا امکان نہیں جس کا وہ حقدار ہے۔ تاہم انہوں نے بلوچستان کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے جو پاکستان کے موجودہ ملکی ڈھانچے کا حصہ رہتے ہوئے حل نہ کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نسلی تنوع، پیچیدہ تاریخ اور موجودہ جغرافیائی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہ اس وقت آزاد بلوچستان کے خیال کی حمایت نہیں کر سکتیں۔کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ پاکستان پر تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے زور دیا جانا چاہیے کہ اس اہم صوبے میں حالات معمول پر لائے اور عشروں سے جاری بدانتظامی اور سرکاری حمایت یافتہ تشدد کا سلسلہ ختم کرے۔دفاعی امور کے ماہر رالف پیٹرز نے زور دیا کہ امریکہ کو پاکستان سے پوچھنا چاہیے کہ بلوچوں کو آزادی کا حق کیوں نہیں دیا جا سکتا۔علی دایان حسن نے اپنے بیان میں کہا ہیومن رائٹس واچ بلوچستان کی آزادی کے معاملے پر کوئی موقف اختیار نہیں کرنا چاہتی اور سجھتی ہے کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے اور اسے پاکستانی حکومت سے توقع ہے کہ وہ حقوقِ انسانی کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی حکومت خصوصاً فوج کی حقوقِ انسانی کے تحفظ کے معاملے میں کارکردگی کمزور ہے‘۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک ایسا تنازع ہے جس کے کئی پہلو ہیں اور یہاں کئی فریق تشدد میں شریک ہیں لیکن صوبے میں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کا سرخیل بلاشبہ پاکستانی فوج، نیم فوجی اور خفیہ ادارے ہیں۔علی دایان حسن کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں قابض فوج کا سا کردار ادا کر رہی ہے لیکن بلوچ قوم پرست مزاحمت کار بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اور غیر بلوچ آبادکاروں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ان کے مطابق بلوچستان میں رہنے والے وہ افراد جو پنجابی اور اردو بولتے ہیں، بلوچ قوم پرست مزاحمت کاروں کے حملوں کے خوف کا شکار ہیں۔انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت پاکستان پر دباو ¿ ڈالے کہ بلوچستان میں اغواءکے واقعات، ماورائے عدالت قتل اور غیر قانونی گرفتاریوں کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور ان جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بغیر کسی تحفظات کے مکمل تحقیقات اور کارروائی کی جائے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ جبری گمشدگیوں اور دیگر خلاف ورزیوں میں ملوث اداروں سے جن میں فوج، آئی ایس آئی، آئی بی، ایف سی اور پولیس شامل ہیں،براہِ راست رابطہ کر کے ان اقدامات کے خاتمے کا مطالبہ کرے اور یہ واضح کر دیا جائے کہ اغواء کے واقعات نہ رکنے کی صورت میں ان ایجنسیوں کو پابندیوں یا تعلقات کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔دریں اثناءامورِ خارجہ کی کمیٹی میں بلوچستان کی سماعت پرصحافیوں سے بات کرتے ہوئے، امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وِکٹوریہ نیولینڈ نے کہا کہ اِن کمیٹیوں کی رائے، امریکی حکومت کی پالیسی کی ترجمانی نہیں کرتی۔ان کے بقول امریکہ بلوچستان کی خودمختاری کا حامی نہیں اور وہاں کے مسائل، پاکستان کے اندر ہی پرامن سیاسی عمل کے ذریعے حل ہونے چاہیے۔ترجمان نے کہا کہ ’کانگریس بہت سے خارجی امور پر سماعت کا اہتمام کرتی رہتی ہے اور ایسی سماعتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امریکی حکومت کسی ایک موقف کی حامی ہے یا اس کی توثیق کرتی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ نہ تو اس سماعت میں شریک ہے اور نہ ہی اس کا حصہ ہے۔اس سوال پر کہ کیا یہ سمجھا جائے کہ امریکہ بلوچستان کی آزادی کے مطالبے کا حامی نہیں، وکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ ’اس معاملے پر ہمارا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے بارے میں ہمارا موقف کیا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت بلوچستان کی تمام جماعتوں پر زور دیتی ہے کہ وہ (پاکستان میں رہتے ہوئے) اپنے اختلافات کا پرامن اور قابلِ قبول سیاسی طریقے سے حل نکالیں۔امریکہ نے بلوچستان میں لوگوں کی پراسرار گمشدگیوں سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان سے کہا ہے کہ وہ مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے ہفتہ وار ٹوئٹر بریفنگ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ امریکہ نے بلوچستان کے ایشوز پر پاکستانی حکام سے بات بھی کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ہم نے پاکستانی حکام سے ان ایشوز پر بات بھی کی ہے اور ہم نے ان سے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے حقیقتاً ایسے مذاکرات کا آغاز کریں اور ان کی قیادت کریں جس سے پیش رفت ہوسکے‘۔ بلوچستان میں زیادہ ترقوم پرست رہنماوں نے امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری لیبر اور سابق ایم پی اے رحمت اللہ بلوچ نے امریکی وزارت خارجہ کے اس بیان کومثبت عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔کیونکہ حکومت رٹ ختم ہوچکی ہے۔رحمت بلوچ نے کہا کہ امریکہ سمیت دیگرعالمی قوتوں کو بلوچستان کے مسئلے کا بہت پہلے ہی نوٹس لیناچائیے تھا لیکن دیرآید درست آید۔دوسری جانب انسانی حقوق کی مختلف عالمی تنظیموں نے کئی بار بلوچستان کے مسئلے پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ حکومت پاکستان سے بلوچستان کے پرامن حل نکالنے کا مطالبہ بھی کیاہے۔اس بارے میں بلوچستان کے ممتاز صحافی صدیق بلوچ نے امریکہ کے اس بیان کوغیرمعمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چند ہفتے قبل امریکی سفیر نے بلوچستان کا دورہ کیا اور کہا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے خلاف آئے روز احتجاج بھی ہورہا ہے لیکن حکومت ابھی تک ان خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔امریکی وزارت خارجہ کے حالیہ بیان کے بارے میں جب میں کوئٹہ میں ممتاز بلوچ قوم پرست سیاستدان اور بلوچ ری پبلیکن پارٹی کے مرکزی رہنماءڈاکٹرحکیم لہڑی سے غیر ملکی میڈیا نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اب بلوچستان کے مسئلے پر آزادی سے کم کسی نقطے پر بات نہیں ہوسکتی ہے۔اور بلوچ قوم کو اس وقت پاکستان پر کوئی اعتماد نہیں رہا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے رواں مہینے سے ہر جمعہ کو ٹوئٹر بریفنگ کا آغاز کیا ہے جس میں دفتر خارجہ کو ٹوئٹر پر موصول ہونے والے پیغامات کے جواب دیے جاتے ہیں۔بلوچستان کے بارے میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ ’پاکستان بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہا ہے، امریکہ بلوچستان میں مداخلت کیوں نہیں کرتا اور ہمیں آزادی کیوں نہیں دلاتا؟۔محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ دفتر خارجہ کی ٹوئٹر فیڈ پر یہ ایک بہت مقبول سوال ہے اس لیے ہم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ آج ہم اس کا جواب دیں۔انہوں نے کہا کہ ’امریکہ کو بلوچستان میں تشدد پر گہری تشویش ہے خاص طور پر وہاں جاری ہدف بناکر قتل کرنے کے واقعات، پراسرار گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی دوسری خلاف ورزیوں پر‘۔انہوں نے بلوچستان کی صورتحال کو پیچیدہ قرار دیتے ہوئے اس کے حل کے لیے پرامن مذاکرات پر زور دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور ہمیں اس بات پر پختہ یقین ہے کہ بلوچستان میں پیش رفت کا بہترین راستہ یہی ہے کہ تمام فریق پرامن مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کا حل نکالیں‘۔ بلوچستان میں شورش اور تشدد پر امریکہ کا یہ بیان غیرمعمولی ہے کیونکہ یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جبکہ پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے فضائی حملے کے بعد دونوں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں اور پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ اپنا روایتی تعاون بھی معطل کرچکا ہے۔بلوچستان میں حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی پراسرار گمشدگیوں کے علاوہ لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات میں بھی تیزی آئی ہے۔پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے مسئلے نے امریکہ میں اہمیت اختیار کر لی ہے اور اب امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ کی جانب سے بلوچستان پر ایک عوامی سماعت کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں امریکی ماہرین، تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اپنا موقف پیش کیا۔امریکی ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کی کمیٹی کے ایک اعلامیے کے مطابق، آٹھ فروری کو واشنگٹن ڈی سی میں بلوچستان کے بارے میں ’اوور سائٹ اینڈ انویسٹیگیشن‘ یا ’نظرداری و تحقیقات‘ کے عنوان سے ایک کھلی سماعت کی گئی ہے جس میں بلوچستان صورتحال پر امریکی ماہر اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے اپنی گواہی پیش کی۔ امریکی کانگرس کے اعلامیے میں اس تقریب میں شرکت کے لیے دعوتِ عام دی گئی تھی۔گزشتہ چند سالوں سے عموماً اور چند ماہ سے خصوصاً بلوچستان کا مسئلہ امریکی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ساز شخصیات اور اداروں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز رہا ہے۔واشنگٹن میں بلوچستان پر مسئلے کی بازگشت اس وقت بھی سنائی دی جب گزشتہ ماہ امریکی وزراتِ خارجہ کی ترجمان سے انٹرنیٹ پر پبلک بریفنگ میں بلوچستان اور گمشدگیوں پر سوال پوچھا گیا تھا۔ اس سوال کے جواب میں امریکی وزرات خارجہ کی ترجمان نے کہا تھا کہ امریکہ کو بلوچستان میں تشدد اور انسانی حقوق کی پامالیوں پرگہری تشویش ہے۔یاد رہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے لیے امریکی کانگریس اپنی ایک رپورٹ میں بلوچستان میں گمشدہ افراد کے بارے میں پہلے ہی اپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔مقامی امریکی بلاگرز اور تھنک ٹیکس نے حال ہی میں بلوچستان کی صورتحال پر بلاگس شائع کیے ہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل بلوچستان پر بلوچ قوم پرستوں نے کانفرنس بھی منعقد کی تھی جس میں دنیا بھر سے جلاوطن بلوچ رہنما اور قوم پرست کارکن شریک ہوئے تھے۔گزشتہ ماہ بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار مگسی نے صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال اور مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیرِاعلیٰ کو حالات بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے اور صرف بے بسی کا اظہار کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔گورنر نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا جب وزیراعلیٰ بلوچستان گزشتہ چھ ہفتے سے کوئٹہ میں موجود نہیں تھے۔کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کی دسویں کانووکیشن سے خطاب کرنے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی نے کہا کہ وہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں۔انھوں نے کہا ’اغواءبرائے تاوان ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے اور اس میں اضافہ ہوگا کیونکہ لوگوں کو رقم کی ضرورت ہے‘۔گورنر کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنا وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی ذمہ داری ہے۔نواب مگسی نے مزید کہا ’صوبائی حکومت کی کارکردگی پر رائے دینے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے اور عوام نے اس حکومت کو منتخب کیا ہے اور وہ ہی بہتر فیصلہ کریں۔ تاہم بلوچستان کا نمائندہ ہونے کے ناطے مسائل کی نشاندہی کرنا میرا فرض ہے‘۔ گورنر نے لوگوں کی گمشدگی اور مسخ لاشیں ملنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگوں کا اغواءاور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنا باعثِ تشویش ہے اور میں نے اس بارے میں فوج کے سربراہ سے بھی بات کی ہے اور انہیں کہا ہے کہ جن لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے‘۔ امریکی کانگریس میں پاکستان کاکس کے رکن، کیلی فورنیا کے کانگریس مین، ڈینا روہرا باکر کی سربراہی میں امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ نے بدھ کو بلوچستان کے حالات اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک سماعت میںکانگریس مین روہرا باکر کے مطابق بلوچستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جس کا استحکام دنیا بھر کے لیے بے حد اہم ہے چنانچہ اس سماعت کا مقصد تھا علاقے کے مسائل کو سمجھنا تاکہ مستقبل میں پالیسی سازی میں مدد مل سکے۔ سماعت کے دوران خاص طور پر بلوچستان میں لوگوں کے اغوا، ”ٹارچر“ کرنے یا غائب“ کر دینے کے واقعات اور ٹارگٹ کلنگ کا ذکر رہا۔ جس کا الزام تقریبًا تمام ماہرین اور انسانی حقوق کے نمائندوں نے پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر لگایا۔ جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بات چیت کے بجائے طاقت کے زور پر مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ بھی کہا گیا کہ بلوچ قوم پرست گروہ بھی جواباً ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کے واقعات کے ذمّہ دار ہیں۔ اور بلوچستان میں کام کرنے والے دیگر صوبوں کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ایک بہت اہم بیان کانگریس مین روہراباکر نے یہ دیا کہ امریکہ کو اس وقت تک کوئی سنجیدگی سے نہیں لے گا جب تک اس کی پالیسی ہر ایک کے لیے یکساں نہیں ہوگی اس لیے جہاں بلوچستان کے لوگوں کو انسانی حقوق حاصل ہیں وہیں کشمیر کے عوام کو بھی حق خود ارادیت حاصل ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے کوئی اس سماعت میں شریک نہیں تھا اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان وکٹوریہ نیولینڈ کے مطابق پاکستان کے اندر مختلف پارٹیوں کو مل کر اس مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔جبکہ پاکستان نے کہا ہے کہ امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے صوبہ بلوچستان کی صورت حال پر کرائی گئی سماعت اس کے لیے باعث تشویش ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہم نے واشنگٹن اور اسلام آباد میں متعلقہ امریکی حکام سے رابطہ کرکے ا ±نھیں اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے۔“انھوں نے کہا کہ بظاہر امریکی انتظامیہ بھی پاکستان کا موقف بخوبی سمجھتی ہے کیوں کہ واشنگٹن میں محکمہ خارجہ نے کانگریس کی کمیٹی کی کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وِکٹوریا نولنڈ نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان کے معاملے پر امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔”ہم بلوچستان کے تمام فریقین کو اپنے اختلافات پرامن اور سیاسی عمل کے ذریعے حل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔“ادھر پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے ہونے والے اجلاس میں اراکین نے امریکی کانگریس کی کمیٹی کے اقدام کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔کانگریس کی کمیٹی کی عوامی سماعت میں پانچ امریکی قانون سازوں کے علاوہ حقوق انسانی کی علم بردار تنظیموں کے نمائندوں اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی تھی۔بریفنگ کے شرکاءنے پاکستانی صوبے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دعویٰ کرتے ہوئے ان میں سے بیشتر کا الزام سرکاری سکیورٹی فورسز پر عائد کیا تھا۔البتہ بریفنگ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ کالعدم بلوچ انتہاپسند تنظیمیں صوبے میں ہدف بنا کر قتل اور تشدد کے دیگر واقعات میں ملوث ہیں۔حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ سابق ادوار میں اپنائی گئی بعض پالیسیوں کی وجہ سے بلوچ عوام احساس محرومی کا شکار رہے، جس کو دور کرنے کے لیے حکومت نے ”آغازِ حقوقِ بلوچستان“ کے نام سے ایک جامع ترقیاتی منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے بلوچ قائدین سے بامعنی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے۔جبکہ پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے پاک امریکہ تعلقات پر نظرِ ثانی کے لیے سفارشات کی تیاری کا عمل مکمل کر لیا ہے۔سترہ رکنی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے اسلام آباد میں کمیٹی کے آخری اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ سفارشات دوطرفہ تعاون سے متعلق تمام امور کا احاطہ کرتی ہیں۔”یہ مجموعی طور پر 16 سفارشات ہیں اور ان کے ساتھ اگر ذیلی سفارشات کو ملا لیں تو یہ 35 سے تجاوز کر جاتی ہیں۔“رضا ربانی نے سفارشات کی تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ قوانین انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کیوں کہ تاحال یہ پارلیمان کے سامنے پیش نہیں کی گئی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ سفارشات تیار کرتے وقت تمام متعلقہ اداروں بالخصوص وزارت خارجہ اور وزارت دفاع سے تفصیلی مشاورت کی گئی تاکہ مجوزہ مسودے میں قومی سلامتی سے متعلق تمام امور پر اتفاق رائے کو یقینی بنایا جا سکے۔”کمیٹی کی سفارشات کے اوپر امور خارجہ اور دفاع کی وزارتوں نے اپنی رائے دی ہے اور ان آراءکو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے کچھ کو قبول کیا اور کچھ سفارشات اصل شکل میں جانے دیں لیکن فی الواقع ان وزارتوں کی طرف سے کوئی اعتراضات نہیں تھے ان کی (اپنی) سفارشات تھیں۔“پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ نے بتایا کہ یہ سفارشات خط کی شکل میں اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ارسال کی جا رہی ہیں تاکہ حتمی منظوری کے لیے انھیں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھا جا سکے۔پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر 26 نومبر کو نیٹو کے حملے میں دو درجن فوجیوں کی ہلاکت کے بعد حکومت نے امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ تعاون پر نظرثانی کا فیصلہ کیا تھا جب کہ پاکستان کے راستے نیٹو کے لیے رسد کی ترسیل پر بھی پابندی لگا دی گئی جس کی بحالی پارلیمان کی منظوری سے مشروط ہے۔جبکہ پاکستان میں امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر نے دوطرفہ تعلقات کی جلد از جلد بحالی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں جاری پارلیمانی عمل مکمل ہونے کے منتظر ہیں۔اسلام آباد میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مسائل کا بہترین حل مذاکرات ہی ہوتے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات معمول پر آنے سے افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔انھوں نے مہمند ایجنسی میں سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے حملے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا کہ یہ ’غیر ارادی‘ تھا۔”ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے رابطے برقرار رکھیں اور ایسا طریقہ کار وضع کریں جس کی مدد سے مستقبل میں ایسے واقعات سے محفوظ رہا جا سکے۔“کمیرون منٹر نے پاک افغان سرحد پر رابطوں کو موثر بنانے کے لیے پاکستان، افغانستان اور نیٹو کے فوجی حکام کے مابین ہونے والے اجلاس کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسائل کو حل کرنے کا یہ ہی طریقہ ہے۔اعلیٰ عسکری عہدیداروں کا یہ اجلاس سرحدی علاقے طورخم میں قائم فوجی رابطوں کے ایک مشترکہ مرکز میں ہوا تھا۔ مہمند ایجنسی میں نیٹو کے فضائی حملے کے بعد تینوں ممالک کا یہ پہلا فوجی رابطہ تھا۔مہمند ایجنسی میں سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک حملے پر پاکستان نے سخت ردعمل کے طور اپنی سرزمین کے راستے افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کو رسد کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی تھی جو تاحال برقرار ہے۔لیکن کمیرون منٹر نے انکشاف کیا کہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کو رسد کی فراہمی کے لیے پاکستانی فضائی حدود کا استعمال جاری ہے۔اے پی ایس