عدالتی احکامات کا تمسخر۔چودھری احسن پر یمی




سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کر دی ہے۔انتہائی سخت حفاظتی اقدامات میں گزشتہ پیر کو اس مقدمے کی کارروائی شروع ہوتے ہی سات رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس ناصر الملک نے کمرہ عدالت میں موجود وزیراعظم کو فرد جرم پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے عدالت کے احکامات کا ”دانستہ طور پرتمسخر اڑایا، ان کی نافرمانی اور بے ادبی کی“۔”آپ قانونی طور پر (عدالتی احکامات) کو بجا لانے کے پابند تھے لہذا (ایسا نہ کر کے) آپ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں اور ہم ہدایت کرتے ہیں کہ یہ عدالت مندرجہ بالا الزامات کی روشنی میں آپ پر مقدمہ چلائے۔“چارج شیٹ پڑھ کر سنانے کے بعد جسٹس ناصر الملک نے وزیراعظم سے پوچھا کہ کیا انھوں نے فرد جرم سن لی ہے تو مسٹر گیلانی نے کہا ”ہاں“ اور پھر جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس کا اقرار کرتے ہیں تو وزیراعظم نے جرم کی صحت سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی آئندہ سماعت کے لیے 22 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے اور اٹارنی جنرل کو وکیل استغاثہ مقرر کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ 16 فروری تک ضروری قانونی دستاویزت و شہادتیں عدالت میں جمع کرائیں جبکہ وزیراعظم کو آئندہ سماعت کے دوران حاضری سے مستثنی قرار دیا گیا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم پر توہین عدالت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی ہے اور اگرعدالت عظمٰی میں مسٹر گیلانی اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہے تو انھیں چھ ماہ قید اور وزارت عظمٰی سے مستففی ہونا پڑے گا۔ا ±ن کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی بنیاد دسمبر 2009 میں قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد سے انکار ہے۔اس فیصلے میں عدالت عظمٰی نے وزیراعظم کو پابند کیا تھا کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف پاکستان اور بیرون ملک خاص طور پر سوئٹزرلینڈ میں دائر بدعنوانی کے مقدمات کو بحال کرنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھیں لیکن ا ±نھوں نے ایسا نہیں کیا۔ مسٹر گیلانی کا موقف ہے کہ آئین پاکستان انھیں سربراہ مملکت کے خلاف ایسی قانونی چارہ جوئی کی اجازت نہیں دیتا۔وزیر اعظم گیلانی جب عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لیے اپنے وکیل کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچے تو دارالحکومت کے اس علاقے میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے اور عدالت عظمی کو جانے والی تمام سڑکوں کو غیر متعلقہ گاڑیوں کے لیے بند جبکہ ہیلی کاپٹروں کو فضائی نگرانی پر مامور کیا گیا تھا۔حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے متعدد رہنماو ¿ں سمیت حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے نمائندے بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ پہنچنے پر صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کہا تھا کہ ”وزیراعظم کی بے گناہی کی دلیل دینے جا رہا ہوں۔“جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 2 فروری کو اپنے حکم نامے میں وزیراعظم گیلانی پر 13 فروری کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انھیں عدالت کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔اس کے بعد اعتزاز احسن نے اپنے موکل پر توہین عدالت کے الزام میں فرد جرم عائد کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف 200 صفحات پر مشتمل انٹرا کورٹ اپیل میں 50 سے زائد قانونی نکات اٹھائے تھے۔گزشتہ ہفتے چیف جسٹس کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ کے سامنے اپنے دلائل میں اعتزاز احسن نے وزیراعظم گیلانی کے خلاف توہین عدالت پر فرد جرم عائد کرنے کا نوٹس واپس لینے کی استدعا کی۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے توہین عدالت کے مقدمے میں دائر’انٹرا کورٹ‘ اپیل کو سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے خارج کرتے ہوئے سات رکنی بینچ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔عرب نیوز چینل الجزیرہ کو دیے گئے اپنے تازہ انٹرویو میں وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ الزام ثابت ہونے کی صورت میں ان کا اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا سوال اس لحاظ سے بے موقع ہے کہ وہ خود بخود پارلیمان کی رکنیت کھو دیں گے۔ ”اس لیے مستعفیٰ ہونے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔“انھوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف تمام مقدمات ”سیاسی بنیادوں“ پر قائم کیے گئے تھے، اور عدالتیں انھیں بری بھی کر چکی ہیں۔مسٹر گیلانی پر توہین عدالت کے الزام میں فرد جرم عدلیہ کی حکم عدولی کی پاداش میں عائد کی جا رہی ہے کیوں کہ ان کی حکومت صدر زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں مبینہ بدعنوانی کے مقدامات دوبارہ کھلوانے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے سے گریزاں ہے۔پاکستانی وزیر اعظم نے فرد جرم مرتب کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف گزشتہ ہفتے بین العدالت اپیل دائر کی تھی، لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں قائم آٹھ رکنی بینچ نے اس کو مسترد کر دیا تھا۔مسٹر گیلانی بدستور اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ عدالتی حکم کے باوجود سوئس حکام کو خط نہیں لکھا جا سکتا کیوں کہ جب تک مسٹر زرادری عہدہ صدارت پر فائض ہیں ان کو ناصرف ملک میں بلکہ پاکستان سے باہر بھی اس نوعیت کے مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہے۔وزیر اعظم گیلانی حالیہ بیانات میں یہ عندیہ بھی دے چکے کہ اس موقف پر قائم رہنے کی وجہ سے ممکن ہے انھیں اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑے۔ایک روز قبل حکمران پیپلز پارٹی کے کارکن سے خطاب کرتے ہوئے بھی انھوں نے بظاہر اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا۔”وہ وقت گزر گیا جب کارکن قربانیاں دیا کرتے تھے، اب قربانیاں رہنما دیا کریں گے۔“مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم گیلانی کے خلاف توہین عدالت کا جرم ثابت ہونے سے ملک میں نیا سیاسی بحران شروع ہونے کا بھی خدشہ ہے۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو استغاثہ مقرر کرتے ہوئے سولہ فروری تک دستاویزات جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔ تاہم وزیرِ اعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے جواب داخل کروانے کے لیے عدالت سے چوبیس فروری تک کا وقت مانگا۔مقدمے کی آئندہ سماعت بائیس فروری کو ہوگی جس میں اٹارنی جنرل کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ ستائیس فروری کو وکیل صفائی وزیرِ اعظم کی جانب سے شہادتیں اور دستاویزات پیش کریں۔ اٹھائیس فروری کو ہونے والی سماعت میں وزیرِاعظم کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔وزیرِ اعظم گیلانی کو آئندہ سماعت کے دوران حاضری سے مستثنٰی قرار دیا گیا ہے۔یوسف رضا گیلانی ملک کے پہلے وزیراعظم ہیں جن پر توہینِ عدالت کے مقدمے میں فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔ اس سے پہلے دو سابق وزراءِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں اظہارِ وجوہ کے نوٹس جاری کیے گئے تھے۔اس سے قبل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے دس فروری کو وزیر اعظم پر فردِ جرم عائد کیے جانے سے متعلق اس سات رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی انٹرا کورٹ اپیل مسترد کردی تھی۔انیس جنوری کو وزیر اعظم نے سات رکنی بینچ کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ آئین میں درج ہے کہ صدر کو اندرون اور بیرون ملک استثنی حاصل ہے اس لیے وہ آئین کے پابند ہیں۔متعدد موقعوں پر وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ صدر زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط نہیں لکھیں گے چاہے انہیں توہینِ عدالت کے مقدمے میں جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔قانونی ماہر ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا ہوجاتی ہے تو نئے وزیر اعظم پر بھی این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل کرنا لازمی ہوگا ورنہ انہیں بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔جبکہ پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت نے کہا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کیے جانے کے باوجود صدر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا جائے گا۔پیر کو توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فرودس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیراعظم گیلانی نے عدالت عظمیٰ کے سامنے جرم کی صحت سے انکار کر کے اپنے حق کو استعمال کیا ہے۔”شہیدوں کی قبروں کا ٹرائل ہماری پالیسی نہیں ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی قبر کا ٹرائل ہم نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی کریں گے۔“وزیر اطلاعات نے مسٹر گیلانی کا بھرپور انداز میں دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے اور اس کی برخواستگی کا آئین میں طریقہ کار وضع
ہے اور وہ ہی اختیار کیا جائے گا۔انھوں نے کسی ادارے یا جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں انھیں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ”سینیٹ کے انتخابات پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کا فوکس ہیں اور ہم سینیٹ الیکشن کے وقت پر انعقاد کو یقینی بنائیں گے“۔فردوس عاشق اعوان نے دعویٰ کیا کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں ناصرف دو مارچ کو ایوان بالا کے انتخابات میں اکثریت حاصل کریں گی بلکہ آئندہ الیکشن میں بھی انھیں عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو گی۔”پاکستان پیپلز پارٹی کا ورکر یہ سمجھ رہا ہے کہ اس کی قیادت کو دیوار سے لگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں … ہمیں توقع ہے کہ عدالتوں سے ہمیں انصاف ملے گا“۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کسی کے مفاد میں نہیں اور معاشی خوشحالی کے لیے جمہوری نظام کا تسلسل ضروری ہے۔جبکہ قائد حزب اختلاف چودھری نثار نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے قانون اور آئین کی نفی کی ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی سب سے متنازعہ سیاسی شخصیت صدر آصف علی زرداری کی ہے جن کے متعلق اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ محض اتفاق سے ملک کے صدر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ وہ اپنی اہلیہ اور ملک کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہمدردری کی لہر کی وجہ سے ستمبر دو ہزار آٹھ میں اقتدار میں آئے تھے لیکن جب سے وہ صدر کی کرسی پر براجمان ہوئے اس وقت سے سیاسی بحران جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ صورت حال مزید غیر مستحکم ہوتی گئی۔ان کی قیادت میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے رشتے مزید خراب ہوتے گئے کیونکہ امریکہ مستقل یہ سوال اٹھاتا رہا ہے کہ شدت پسندی کے خلاف اسلام آباد مناسب کارروائی نہیںکر رہا ہے۔آصف علی زرداری کا کریئر بدعنوانی کے الزامات سے بھی داغدار ہوتا رہا ہے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ ان کے خلاف ایک مقدمہ دوبارہ شروع کرنے کی کارروائی میں ہے جس میں وہ پہلے ہی آٹھ برس جیل میں رہ چکے ہیں۔ اسی کیس کی مناسبت سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی دو بار عدالت میں طلب کیے جا چکے ہیں اور اب انہیں خود توہین عدالت کے مقدمہ کا سامنا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ صدر زرداری پاکستانی عوام میں بہت کم مقبول ہیں اور صحت کی خرابی کے سبب جب ملک کو اہم مسائل کا سامنا رہا ہے تب وہ چیک اپ کے لیے باہر جاتے رہے ہیں۔حال ہی میں ان سے منسوب ایک اور معاملہ ’میمو‘ کا سامنے آیا جب اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد انہوں نے مبینہ طور پر فوجی بغاوت کو روکنے کے لیے امریکہ سے مدد کی درخواست کی تھی۔ مسٹر زرداری اس الزام کو مسترد کر چکے ہیں لیکن اس کی تفتیش سپریم کورٹ کی نگرانی میں چل رہی ہے اور اگر وہ قصوروار پائے گئے تو ان کا مواخذہ بھی ہوسکتا ہے۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو پاکستان کی سیاست میں خاموش مزاج رہنما خیال کیا جاتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں وہ فوج پر کھلے عام نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ دسمبر کے اواخر میں انہوں نے حکومت گرانے کی سازش کے متعلق یہ کہتے ہوئے خبر دار کیا تھا کہ ’ریاست میں ہی دوسری ریاست نہیں ہوسکتی اور سبھی پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔‘ اس بیان کا اشارہ فوج کی طرف تھا لیکن فوج نے اس الزام کو فوری طور پر مسترد کر دیا تھا۔لیکن اس کے چند روز بعد ہی مسٹر گیلانی نے میمو سے متعلق تفتیش میں حکومت کے خلاف ثبوت فراہم کرنے پر فوج اور آئی ایس آئی پر سخت نکتہ چینی کی اور جب فوج نے اس پر اپنے سخت رد عمل میں کہا ’اس سے ملک کے لیے سنگین نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں‘، تو انہوں نے اپنے سیکریٹری دفاع کو برطرف کر دیا۔اسی دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری سمیت دیگر سیاسی رہنماوں کے خلاف بد عنوانی سے متعلق کیس دوبارہ نا کھولنے کی پاداش میں انہیں وزارت عظمی کے عہدے کے لیے نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس محمد افتخار چوہدری موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ وہ ان ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر سوال اٹھائے تھے اور جنہیں مسٹر مشرف نے سن دو ہزار سات میں برطرف کر دیا تھا۔ ان کی بحالی کے لیے وکلاءنے ایک طویل تحریک چلائی جس کے بعد مارچ سنہ دو ہزار نو میں انہیں دو بارہ بحال کیا گیا تھا۔چیف جسٹس کو ملک میں ایک وقت تک قانون کی پاسبانی کے لیے بڑی احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا رہا اور تاریخ میں پہلی بار کسی فوجی جنرل کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ان کی تعریف بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن اب ان پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ بعض خاص لوگوں کے خلاف ہی کارروائی کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ تاریخی طور پر فوجی بغاوتوں کی حامی رہی ہے لیکن افتخار چوہدری نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور آئی ایس آئی کے خلاف بدعنوانی کے عدالتی کارروائی میں انہوں نے کچھ زیادہ ہی سخت رویہ اپنایا ہے۔ عدالت میمو اور بدعنوانی کے کیس کے حوالے سے اس وقت حکومت کے پیچھے پڑی ہے۔ اب لگتا ایسا ہے جیسے فوج عدالت کی پشت پناہی کر رہی ہو تاکہ عدالت حکومت کو برطرف کر دے۔اے پی ایس