افغانستان :معاملے کا سیاسی پہلو واضح نہیں۔چودھری احسن پر یمی



وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ پانچ فروری کو کشمیر کے حوالے سے منعقدہ تقریب کے موقع پر کہا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب کوئی فرد واحد نہیں بلکہ منتخب پارلیمان بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں کیونکہ وہ بھی ایک آمر نے بنائی تھی۔ وہ دن گئے جب ایک شخص بیٹھ کر خارجہ پالیسی بناتا تھا۔ اب ملک کی پارلیمان منتخب نمائندوں کے ذریعے خارجہ پالیسی بنائے گی اور کوئی نہیں بنائے گا‘۔ وزیرِاعظم نے ملک کی موجودہ افغان پالیسی پر تنقید کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پالیسی اس وقت بنائی گئی تھی جب یہاں ڈکٹیٹر تھے جو بیک وقت پاکستان کی مسلح افواج کے جوائنٹ چیف بھی تھے اور آرمی چیف بھی تھے، چیف ایگزیکٹو بھی تھے اور ساتھ ہی ساتھ ملک کے صدر بھی تھے۔‘وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ ’ان (جنرل مشرف) کو جب امریکہ کے ایک انڈر سیکریٹری نے فون کیا تو وہ دھڑام سے گرگئے اور انہوں نے تمام مطالبات مان لیے اور اسکا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینے کے بعد جو سفارشات دی ہیں ان پر پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں بحث ہوگی اور اس پر عوام کے منتخب نمائندے عوامی امنگوں کے مطابق حتمی فیصلہ کریں گے۔ اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ڈرون حملوں پر حکمرانوں سمیت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی پارٹیوں کی خموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہر کو ئی اقتدار کی ہوس میں امریکہ سے ناراضی نہیں لینا چاہتا لیکن ان کے اس طرز عمل اور سوچ سے یہ بات نمایاں ہو جاتی ہے کہ یہ لوگ کتنے بڑے امریکہ کے دلاگیر ہیں۔جبکہ پاکستان، ایران اور افغانستان کے درمیان ہونے والے سہ فریقی مذاکرات سے قبل ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور افغان صدر حامد کرزئی نے اسلام آباد میں پاکستانی صدر اور وزیرِ اعظم سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ۔ سہ فریقی سربراہی مذاکرات میں خطے کی مجموعی صورتِ حال، طالبان سے بات چیت اور دہشت گری کے خلاف جنگ جیسے موضوعات کے علاوہ دیگر اہم امور پر بات چیت ہوئی ہے۔ تینوں ممالک کے رہنماو ¿ں نے علحیدہ علیحدہ ملاقاتوں میں علاقائی امن و استحکام، انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون اور اقتصادی شعبے میں دو طرفہ روابط کو مزید مضبوط بنانے کے امکانات کا جائزہ اس کے علاوہ مذاکرات میں منشیات اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے مشترکہ حکمت عملی مذاکرات کا اہم موضوع تھی۔ایران اور پاکستانی قیادت کے درمیان ملاقاتوں میں گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔خیال رہے کہ امریکہ کی جانب سے مخالفت کے باوجود پاکستان ایران کے ساتھ اس منصوبے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ منصوبہ سنہ 2014 میں مکمل ہو جائے گا۔ادھر افغانستان نے توقع ظاہر کی ہے کہ دہشت گردی روکنے کے لیے پاکستان افغانستان سے ہر طرح کا تعاون کرے گا۔ سربراہی مذاکرات کے سلسلے میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی ،ایرانی صدر محمود احمدی نژاد دونوں صدور نے صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقاتیں کیں۔ان ملاقاتوں کے بعد صدر کرزئی اور وزیرِاعظم گیلانی کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات بھی ہوئے ۔ جن میں طالبان سے بات چیت سمیت دوطرفہ دلچسپی کے اہم امور زیرِ بحث آئے ۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ افغان رہنما برہان الدین ربانی کے قتل کی تحقیقات کے لیے پاکستان افغان حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گا۔پاکستان کے وفد میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، وزیر دفاع چوہدری احمد مختار کے علاوہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی شامل تھے جبکہ افغان وزیر خارجہ اور وزیرِ دفاع سمیت دیگر وفاقی وزراءافغان وفد کا حصہ تھے۔ پاکستانی وزیراعظم نے افغان صدر کو پاک افغان پیس کونسل کے سربراہ برہان الدین ربانی کے قتل کی تحقیقات میں تعاون کی یقین دہانی کروائی جس پر افغان صدر نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔خیال رہے افغان رہنما برہان الدین ربانی کی ہلاکت کا الزام افغانستان، پاکستان کے خفیہ اداروں پر عائد کرتا رہا ہے ۔ افغان صدر حامد کرزئی نے افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے لیے ہونے والی کوششوں سے آگاہ کیا۔افغان صدر نے افغانستان کی سربراہی میں ہونے والی قیام امن کی کوششوں کی کامیابی میں پاکستان کے کردار کو اہم قرار دیا۔خطے میں قیام امن کے لیے پاکستان کے کردار پر بات کرتے ہوے افغان وفد میں شریک اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر حکیم اشر نے ایران کے کردار سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد میں ہم تینوں ملکوں کے اکھٹے ہونے کا مقصد خطے میں امن قائم کرنا اور ایک دوسرے کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات بڑھانا ہے اور ایران ہمارا اہم ہمسایہ ہے اس لیے وہ ہم سے دور نہیں ۔ایران میں دہشت گردی کا مسئلہ پاکستان اور افغانستان کی طرح کا تو نہیں ہے لیکن ایران ہم دونوں ملکوں کی معیشت کی بہتری کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘پاکستان اور ایران کے سربراہان کے درمیان غیر رسمی ملاقات کے بعد ایران اور پاکستان کے وفد کے درمیان بھی مذاکرات ہوئے ۔پاکستان وفد کی قیادت صدر آصف علی زرداری نے کی جبکہ ایرانی وفد کی سربراہی محمود احمدی نژاد نے کی۔ ایرانی صدر نے کہا کہ ایران پاکستان کی ہر شعبہ میں مدد کا خواہاں ہے۔ صدر نے کہا کہ وہ ایران اور پاکستان کے درمیان بجلی اور گیس کے منصوبوں پر جلد عمل درآمد چاہتے ہیں۔دونوں سربراہان نے پاکستان اور ایران کی سرحد پر حفاظتی اقدامات کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔پاکستان ،افغانستان اور ایران کے درمیان سہ فریقی سربراہی اجلاس کا یہ تیسرا دور ہے۔ اس سے پہلے اس کی میزبانی تہران نے کی تھی جبکہ یہ پہلا موقع ہے کہ سہ فریقی سربراہی اجلاس پاکستان میں ہو رہا ہے ۔افغان صدر حامد کرزئی نے اسلام آباد میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی ملاقات کی ہے۔ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے وفود کی سطح پر مذاکرات بھی ہوئے جن میں طالبان سے بات چیت جیسے اہم امور زیرِ بحث آئے ہیں۔خیال رہے کہ طالبان اب تک صدر کرزئی کی حکومت سے بات چیت سے انکار کرتے رہے ہیں اور وہ اسے ایک کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہیں۔اِس سے پہلے ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر عالمی دباو کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان عبداباسط نے کہا کہ ’پاکستان سمجھتا ہے کہ ہر مسئلہ مذاکرات کی میز پر حل کرنا چاہیے اور تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داری نبھائیں تاہم ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جوہری توانائی کے پرامن استعمال کا حق سب کو ہے۔‘ جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ اب بھی ہو رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ابتدائی بات چیت بھی جاری ہے لیکن اس بات چیت کو امن مذاکرات کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ افغانستان کا مستقبل اور سیاسی منظر اب بھی بہت زیادہ غیر یقینی ہے۔اطلاعات کے مطابق، اس بات چیت میں بیشتر توجہ ان طالبان کی رہائی پر دی گئی ہے جو امریکہ کی تحویل میں ہیں۔ لیکن جیسے جیسے 2014ءکا سال قریب آ رہا ہے، جب امریکہ کے لڑاکا فوجی افغانستان سے واپس چلے جائیں گے، سب کو اس تنازعے کے سیاسی حل کی فکر پڑ گئی ہے۔امریکہ نے بار بار کہا ہے کہ وہ ایسے امن کا حامی ہے جس میں افغان نمایاں کردار ادا کریں۔امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق کہ اس تنازعے کے سیاسی حل کی حمایت کرنے میں امریکہ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”ہماری طرف سے سیاسی حل کی مخالفت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی قابل ِ عمل سیاسی حل نہیں نکلتا، تو اس کی وجہ ہماری مخالفت نہیں ہونی چاہیئے۔ ہمیں یہ ضرور دیکھنا چاہیئے کہ آیا کرزئی حکومت اور طالبان کی بغاوت کے درمیان سیاسی حل کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں۔“لیکن طالبان اور صدر حامد کرزئی کی حکومت کے درمیان مصالحت کے امکانات بہت کم ہیں۔ طالبان، کرزئی انتظامیہ کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناجائز تخلیق سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں یورپی یونین کے سابق خصوصی مندوب، فرانسسک وینڈرل کہتے ہیں کہ ”وہ کرزئی کے ساتھ مذاکرات کرنا نہیں چاہتے۔ انہیں اس خواہش کی تکمیل میں خود کرزئی سے مدد مل رہی ہے کیوں کہ کرزئی ہر اس چیز کو سبو تاژ کر رہے ہیں جو امریکی کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں حکومتوں کے درمیان دوڑ لگی ہوئی ہے کہ طالبان سے کون پہلے بات کرے گا۔
طالبان اس صورتِ حال سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور بہت خوش ہوں گے۔“اگر صحیح معنوں میں امن مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں، تو فریقین کی توقعات کیا ہوں گی؟تنازعات کے حل کے ایک تجزیہ کار کہتے ہیں کہ طالبان چاہتے ہیں کہ تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے چلی جائیں، اور امریکہ اور نیٹو ،اپنی فورسز کو باہر نکالنے کے محفوظ طریقے کی تلاش میں ہیں۔ ان کے مطابق ”میرے خیال میں، ان امن مذاکرات کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ باغی واپس جانے والی فوجوں پر حملے نہ کریں۔ قطر میں حال ہی میں جو آفس کھلا ہے، اس کا مقصد یہی ہے کہ فوجوں کی واپسی منظم طریقے سے ہو جائے اور باغیوں کے گروپ ان پر حملہ آور نہ ہوں۔ان تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مذاکرات کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ”ہم نے کہا ہے کہ ہم جنگی کارروائیاں ختم کر دیں گے۔ تو پھر اس چیز کو مذاکرات کا حصہ کیوں نہ بنایا جائے۔ ہم طالبان کے نمائندوں کو، جن کے ساتھ ہم نے بات چیت شروع کر دی ہے، یہ پیشکش کر سکتے ہیں کہ ہم ڈرون حملے، گھروں پر چھاپے، جنگی کارروائیاں، سب بند کر دیں گے، اگر آپ بھی ایسا ہی کریں۔ اور پھر ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر یہ طے کر سکتے ہیں کہ کس قسم کی مخلوط حکومت اور اختیارات کی تقسیم کا کس قسم کا انتظام کافی ہوگا جس سے تمام فریق مطمئن ہو جائیں اور تمام تشدد ختم کر دیں۔“لیکن اس معاملے کا سیاسی پہلو واضح نہیں ہے۔ کیا جنگ کے خاتمے کے بعد، طالبان افغانستان میں اختیارات کی تقسیم کے کسی انتظام میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ کرزئی سے انہیں جو شدید نفرت ہے، اس کی روشنی میں بہت سے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ طالبان ان کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہونے سے کترائیں گے۔یورپی یونین کے سابق مندوب فرانسسک وینڈرل جو صدر کرزئی کو اچھی طرح جانتے ہیں، کہتے ہیں کہ صدر کرزئی نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خود کو مشکل شراکت دار ثابت کیا ہے جو اکثر تعاون نہیں کرتا ۔ وینڈرل کہتے ہیں کہ انہیں اس پر مطلق حیرت نہیں ہو گی اگر امریکہ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے، بلکہ لبریز ہو چکا ہو، اور وہ فوجوں کی واپسی کے لیے الگ سے کوئی انتظام کر لے۔ ان کے مطابق ”کرزئی نے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کیا ہے۔ ان کے پاس کوئی مناسب مذاکراتی ٹیم نہیں ہے۔ شمالی اتحاد کے ساتھ، اور کابل میں سیاسی طور پر اہم لوگوں کے ساتھ، ان کا کسی قسم کا اتفاقِ رائے یا مفاہمت نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا اگر امریکی بالآخر طالبان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کر لیتے ہیں، جیسا کہ سوویت یونین نے 1989ءمیں کیا تھا، یا امریکیوں نے 1973ءمیں جنوبی ویتنام کی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے شمالی ویتنام کے ساتھ کر لیا تھا، تو مجھے اس پر حیرت نہیں ہو گی۔“لیکن ڈیوڈ کاٹ رائٹ کہتے ہیں کہ امن کے کسی بھی عمل سے، ہمسایہ ملک پاکستان کو الگ نہیں رکھا جا سکتا۔ یہی وہ ملک ہے جہاں طالبان پناہ لیتے رہے ہیں۔ دوسرے تجزیہ کاروں اور مغربی عہدے داروں کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس سروسز نے طالبان کی حمایت کی ہے تا کہ افغانستان میں ان کا اسٹریٹجک اثر و رسوخ قائم رہے۔ کاٹ رائٹ کا کہنا ہے کہ ”ہمیں یہ بات کتنی ہی نا پسند کیوں نہ ہو، حقیقت یہ ہے کہ برسوں سے پاکستانی طالبان کو پیسہ دیتے رہے ہیں اور انہیں کنٹرول کرتے رہے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہر کوئی یہ بات جانتا ہے۔ اگر انہیں اس میں شامل نہ کیا گیا، تو وہ امن کے عمل کو مسلسل نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ وہ پہلے کئی بار ایسا کر چکے ہیں۔ امریکیوں یا کرزئی سے جو لوگ مذاکرات کے لیے آئے تھے، وہ انہیں گرفتار کر چکے ہیں۔ وہ اس عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اور اگر ہم جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں کسی نہ کسی طرح انہیں شامل کرنا ہوگا۔“تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ ایسے جامع سیاسی سمجھوتے کے بغیر جس سے تمام فریق مطمئن ہوں، افغانستان میں پھر اسی قسم کی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جس نے 1990ءکی دہائی میں پور ے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔اے پی ایس