سہ فریقی سربراہی کانفرنس۔چودھری احسن پر یمی




ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ خطے کو درپیش مسائل بیرونی طاقتوں کی وجہ سے ہیں اور تینوں ملکوں کو ملِ کر ان مشکلات کا حل نکالنا ہوگا۔اسلام آباد میں سہ فریقی سربراہی کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ خطے میں کسی بیرونی طاقت کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ایوانِ صدر میں ہونے والی اس بات چیت کی سربراہی صدر آصف علی زرداری نے کی اور اس میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور افغان صدر حامد کرزئی بھی شریک ہوئے۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ اس خطے کے مسائل بیرونی طاقتوں کی جانب سے مسلط کیے گئے ہیں اور صرف متحد ہو کر ہی ان کا حل نکالا جا سکتا ہے۔انہوں نے کسی عالمی طاقت کا نام لیے بغیرکہا کہ ’تمام مسائل باہر سے آ رہے ہیں اور اس سے ان کا مقصد اپنے مقاصد کا حصول اور عزائم کی ترویج ہے۔ وہ ہماری قوموں کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے‘۔انہوں نے کہا کہ تینوں ملکوں کے سربراہ خطے میں مسائل کے حل کے لیے پرعزم ہیں اور انہیں امید ہے کہ مشترکہ مفاد کے حصول کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف زرداری نے کہا کہ ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور کسی عالمی دباو سے پاکستان اور ایران کے تعلقات متاثر نہیں ہو سکتے۔ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ کسی بھی قسم کے عالمی دباو سے متاثر نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کو اس منصوبے سے متعلق اگر کوئی خدشات ہیں تو انہیں دور کرنے کے لیے پاکستان لابیئنگ کر رہا ہے۔اس سوال پر کہ پاکستانی فوج افغانستان کو غیر مستحکم کر رہی ہے، صدر زرداری نے اس تاثر کو غلط قرار دیا اور کہا کہ مستحکم افغانستان پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ پاک افغان سرحد کے قریب افغان جنگ کی باقیات میں شامل کچھ افراد ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن اس کی وجہ منشیات کی سمگلنگ ہے۔انہوں نے کہا کہ منشیات کی سمگلنگ عالمی مسئلہ ہے اور تینوں ملکوں کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ صدر زرداری کا کہنا تھا کہ منشیات سے حاصل کی گئی رقم انتہا پسندی اور شدت پسندی میں استعمال ہو رہی ہے۔ بیرونی مداخلت کی وجہ سے افغانستان میں موجود مسائل سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔پاکستانی صدر کا کہنا تھا کہ سوویت جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا اور اب اس موجودہ صورت حال میں پاکستان شدت پسندی اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ نبرد آزما ہے۔انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی لیڈر بینظیر بھٹو کی جان کی بھی قربانی دی اور ہمیں آج تک یہ نہیں پتہ چلا کہ تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود کو فنڈز کون فراہم کر رہا تھا۔صدر زرداری کا کہنا تھا کہ تینوں ملکوں کو خطے سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ تینوں ملکوں کو کان کنی ، زراعت اور توانائی کے شعبے میں ملکر کام کرنا چاہیے۔صدرِ پاکستان نے ایران کے صدر کو پاکستان کا دوبارہ دورہ کرنے کی دعوت دی۔پریس کانفرنس میں افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ تینوں ملکوں کے درمیان مذاکرات ساز گار ماحول میں ہوئے اور اس کانفرنس میں ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ مسائل اور موجودہ مواقع کا ادراک تینوں ملکوں کو ہے۔اس سے قبل سہ فریقی سربراہی مذاکرات میں خطے کی مجموعی صورتِ حال، طالبان سے بات چیت اور دہشت گری کے خلاف جنگ جیسے موضوعات کے علاوہ دیگر اہم امور پر بات چیت ہوئی۔ اس سربراہی اجلاس کا مقصد مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ حکمتِ عملی بنانا تھا۔اس سے پہلے ایک مشرکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس پر تینوں ملکوں کے سربراہان نے دستخط کیے۔اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تینوں ملکوں کے صدور امن، سلامتی ، استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے تعاون میں مزید اضافہ کریں گے۔ اس کے علاوہ تینوں ملکوں کے وزیر تجارت ان ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لیے لائحہ عمل تیار کریں گے۔مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف اپنی حدود کسی کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ایک دوسرے کی آزادی اور خود مختاری کو یقینی بنائیں گے۔اس مشترکہ اعلامیے میں افغان مہاجرین کی ان کے ملک باعزت واپسی میں تعاون کرنے کا بھی اعادہ کیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تینوں ملکوں کے وزیر داخلہ چھ ماہ کے دوران انسداد منشیات، شدت پسندی کا مقابلہ کرنے اور سرحدی انتظام سے طریقہ کار وضح کریں گے۔ اعلامیہ کے مطابق سہ فریقی سربراہی کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے تینوں ملکوں کے نائب وزیر خارجہ کی سطح کے افسران باقاعدہ ملاقاتیں کریں گے جبکہ سہ فریقی سربراہ کانفرنس کا اگلا اجلاس اس سال کے آخر میں کابل میں ہوگا۔خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے پاکستان، ایران اور افغانستان نے تعاون کو وسعت دینے کا عزم کیا ہے۔اسلام اباد میں جمعہ کو تینوں ہمسایہ ممالک کا تیسرا سہ فریقی سربراہ اجلاس منعقد ہوا جس کی میزبانی صدر آصف علی زرداری نے کی، جب کہ ان کے ایرانی ہم منصب محمود احمدی نڑاد اور افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے اپنے ملکوں کے وفود کی قیادت کی۔اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق تینوں ملکوں نے سیاسی، سلامتی، اقتصادی، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے، جب کہ افغانستان میں ترقی و تعمیر نو کی کوششوں میں بھی کردار ادا کرنے کے عزم کو دہرایا گیا۔مزید برآں ایران اور پاکستان نے افغان قیادت کو امن و مفاہمت کی کوششوں میں اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی۔سہ فریقی اجلاس کے بعد تینوں صدور نے ایوان صدر میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ مذاکرات کا یہ مفید سلسلہ رواں سال کے اواخر میں کابل میں ہونے والے اگلے سہ فریقی اجلاس میں بھی جاری رہے گا۔ایرانی صدر احمدی نژاد نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خطے کو درپیش مسائل بیرونی طاقتوں کے ”مسلط“ کردہ ہیں۔”ایسے ممالک موجود ہیں جو ہمارے خطے پر غلبہ حاصل کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اپنی برتری قائم کرنے کے لیے انھوں نے ہمارے خطے کو ہدف بنایا ہوا ہے۔“ان کا اشارہ مغربی ملکوں بالخصوص امریکہ کی طرف تھا۔ ایرانی جوہری پروگرام پر تہران کو امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے شدید دباو کا سامنا ہے اوراس منصوبے سے اسے باز رکھنے کے لیے حال ہی میں ایران پر نئی اقتصادی تعزیرات لگائی گئی ہیں جن کا ہدف تیل کا شعبہ ہے۔ایرانی صدر نے کہا کہ تینوں ملکوں کو اپنے معاملات میں غیر ملکی مداخلت کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔”علاقائی ممالک کے درمیان کوئی بنیادی مسئلہ نہیں ہے، تمام مسائل بیرونی طور پر پیدا کیے جا رہے ہیں۔افغان صدر حامد کرزئی نے اسلام آباد میں قیام کے دوران پاکستانی رہنماوں کے ساتھ افغانستان میں امن کی کوششوں کے بارے میں بات چیت کو مفید اور مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سہ فریقی اجلاس میں بھی یہ معاملہ زیر بحث رہا۔جبکہ پاکستان اور ایران نے مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے کو جاری رکھنے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس پر کسی بھی طرح کا بین الاقوامی دباو قبول نہیں کریں گے۔ سہ فریقی سربراہ اجلاس کے اختتام پر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ توانائی کا حصول پاکستان کے قومی مفاد میں ہے اور اس موقف کو اب عالمی برادری میں بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ بحیثیت پڑوسی ایران اور پاکستان اقتصادی ترقی کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔”ہمارے دوطرفہ تعلقات کو کسی بھی طرح کے بین الاقوامی دباو سے نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا ہے۔“ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے بھی اپنے پاکستانی ہم منصب کے موقف کی تائید کرتے ہوئے گیس پائپ لائن منصوبے پر کسی بھی بیرونی دباو کو مسترد کیا۔دونوں ملکوں نے اس موقع پر اپنے سیاسی، اقتصادی اور تجارتی روابط کو وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا ۔پاکستانی عہدیدار پہلے بھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ ایران سے قدرتی گیس کی درآمد کا یہ منصوبہ ملک توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کی کوششوں میں انتہائی اہم ہے۔سات ارب ڈالر مالیت کے اس منصوبے کے تحت ایران اور پاکستان کو ملانے والی 2,100 کلومیٹر طویل پائپ لائن کے ذریعے
روزانہ 70 کروڑ کیوبک فٹ سے زائد قدرتی گیس درآمد کی جائے گی۔دونوں ملکوں کا کہنا ہے کہ پائپ لائن بچھانے کا کام جاری ہے اور 2014ءمیں ایران سے گیس درآمد شروع ہو جائے گی۔ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے تناظر میں اقوام متحدہ کی طرف سے تہران پر پابندیوں کے علاوہ واشنگٹن نے اپنے طور اس ملک کے خلاف تیل اور بینکاری کے شعبے میں اضافی تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔لیکن پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ یہ پابندیاں مجوزہ پائپ لائن کے ذریعے ایرانی سے قدرتی گیس درآمد کرنے کے دوطرفہ منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔جبکہ پاکستان نے افغانستان کوانتباہ کیا ہے کہ امن مذاکرات کے لیے طالبان کے رہنما ملا عمر کو پیش کرنے کا اس کا مطالبہ نہ صرف غیر حققیت پسندانہ بلکہ بعید از قیاس بھی ہے۔افغان اور پاکستانی رہنماوں کے درمیان مذاکرات کے اختتام پر ایوان صدر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ افغانستان میں امن و مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے افغانوں کی کسی بھی کوشش کی ان کا ملک حمایت کرے گا۔”اگر ہم سے یہ توقع کی جارہی ہے (کہ ہم ملا عمر کو پیش کریں) تو یہ نا صرف حقائق کے منافی بلکہ بعید از قیاس ہے۔“پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان امن عمل کو فروغ دینے کے لیے مختلف سطحوں پر کی جانے والی کوششوں کے بارے میں ضروری ہے کہ افغان اس بارے میں پہلے اپنا ایک واضح موقف پیش کریں اور پھر وہ ”ہمیں بتائیں کہ ہم ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔“اے پی ایس