افغانستان:قبل از وقت انخلائ۔چودھری احسن پر یمی




اخبار’نیو یارک ٹائمز‘ " شروع سے آخر"کے عنوان سے شائع ایک مضمون میں، جِس میں افغانستان کی صورتِ حال اور امریکہ کے کردار پر حاشیہ آرائی کی گئی ہے، مضمون نگار افغانستان سے سال 2013ءمیں قبل از وقت انخلا کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ افغانستان کی فوج اور پولیس کی استعداد ِ کار پر بھرپور توجہ دی جائے۔ افغان جنگ پر 1700امریکیوں کی زندگیوں اور 450ارب ڈالر کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے فوجی کمانڈروں کی جانب سے فوجوں میں مزید اضافے کے مطالبے پر عمل درآمد نہیں کیا، جب کہ صدر اوباما نے اپنی فوجی قیادت کی ضرورتوں پر قدرِ توجہ دی اور اضافی فوج اور وسائل فراہم کیے، جس کے نتیجے میں آج افغانستان میں طالبان کمزور پڑ چکے ہیں، القاعدہ کو شدید دھچکا پہنچا ہے اور اس کے سربراہ بِن لادن کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا چکا ہے۔اِن حالات میں، مضمون نگار کے بقول، افغانستان سے انخلا کا فیصلہ ’دانش مندانہ‘ ہے۔تاہم، وہ زور دیتے ہیں کہ کچھ عوامل ہر صورت پیشِ نظر رہنے چاہئیں، جیسے، گورننس۔ اِس ضمن میں، افغانستان کی سول انتظامیہ کو کرپشن یا بدعنوانی جیسے مسائل سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو بھی ترجیحات میں شامل رہنا چاہیئے۔ دوسری اہم بات یہ کہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور ان کی مالی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ تیسری چیز ہوگی طالبان کے ساتھ مذاکرات۔مضمون نگار کے بقول، اگرچہ ریپبلیکنز کی جانب سے صدارتی نامزدگی کے امیدوار مصر ہیں کہ طالبان کو شکست ِ فاش دی جائے، مگر اِس بارے میں امریکہ کے ان فوجی کمانڈروں کی رائے کو مقدم جانا جائے جو سمجھتے ہیں کہ اِس کام کے لیے بڑی تعداد میں فوج اور طویل ماہ و سال درکار ہوں گے اور بہتری کی صورت سیاسی حل میں ہی مضمر ہے۔ صرف افغانستان کی فوج کی مالی امداد کافی نہ ہوگی، مقامی معیشت کو استوار کرنے کے لیے بھی امداد دینا چاہیئے۔یہ بے حد اہم ہوگا کہ پاکستان کے ساتھ کس طرح سے معاملات نمٹائے جاتے ہیں۔مضمون نگار تجویز دیتے ہیں کہ اسلام آباد حکومت پر متواتر دباو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ امریکہ کے پاس اِس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں۔ 100سے زائد جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں الجھاو تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔جبکہ دیگر امریکی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ اب بھی ہو رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ابتدائی بات چیت بھی جاری ہے لیکن اس بات چیت کو امن مذاکرات کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ افغانستان کا مستقبل اور سیاسی منظر اب بھی بہت زیادہ غیر یقینی ہے۔اطلاعات کے مطابق، اس بات چیت میں بیشتر توجہ ان طالبان کی رہائی پر دی گئی ہے جو امریکہ کی تحویل میں ہیں۔ لیکن جیسے جیسے 2014ءکا سال قریب آ رہا ہے، جب امریکہ کے لڑاکا فوجی افغانستان سے واپس چلے جائیں گے، سب کو اس تنازعے کے سیاسی حل کی فکر پڑ گئی ہے۔امریکہ نے بار بار کہا ہے کہ وہ ایسے امن کا حامی ہے جس میں افغان نمایاں کردار ادا کریں۔ سی آئے اے کے سابق افسر بروس ریڈل کہتے ہیں کہ اس تنازعے کے سیاسی حل کی حمایت کرنے میں امریکہ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”ہماری طرف سے سیاسی حل کی مخالفت نہیں ہونی چاہیئے۔ اگر کوئی قابل ِ عمل سیاسی حل نہیں نکلتا، تو اس کی وجہ ہماری مخالفت نہیں ہونی چاہیئے۔ ہمیں یہ ضرور دیکھنا چاہیئے کہ آیا کرزئی حکومت اور طالبان کی بغاوت کے درمیان سیاسی حل کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں۔“لیکن ریڈل کہتے ہیں کہ طالبان اور صدر حامد کرزئی کی حکومت کے درمیان مصالحت کے امکانات بہت کم ہیں۔ طالبان، کرزئی انتظامیہ کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناجائز تخلیق سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں یورپی یونین کے سابق خصوصی مندوب، فرانسسک وینڈرل کہتے ہیں کہ ”وہ کرزئی کے ساتھ مذاکرات کرنا نہیں چاہتے۔ انہیں اس خواہش کی تکمیل میں خود کرزئی سے مدد مل رہی ہے کیوں کہ کرزئی ہر اس چیز کو سبو تاژ کر رہے ہیں جو امریکی کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں حکومتوں کے درمیان دوڑ لگی ہوئی ہے کہ طالبان سے کون پہلے بات کرے گا۔ طالبان اس صورتِ حال سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور بہت خوش ہوں گے۔“اگر صحیح معنوں میں امن مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں، تو فریقین کی توقعات کیا ہوں گی؟۔ تجزیہ کار ، کاہن دی نیٹز کہتے ہیں کہ طالبان چاہتے ہیں کہ تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے چلی جائیں، اور امریکہ اور نیٹو ،اپنی فورسز کو باہر نکالنے کے محفوظ طریقے کی تلاش میں ہیں۔ ان خیال میں، ان امن مذاکرات کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ باغی واپس جانے والی فوجوں پر حملے نہ کریں۔ قطر میں حال ہی میں جو آفس کھلا ہے، اس کا مقصد یہی ہے کہ فوجوں کی واپسی منظم طریقے سے ہو جائے اور باغیوں کے گروپ ان پر حملہ آور نہ ہوں۔جبکہ ڈیوڈ کاٹ رائٹ کہتے ہیں کہ یہ مذاکرات کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ”ہم نے کہا ہے کہ ہم جنگی کارروائیاں ختم کر دیں گے۔ تو پھر اس چیز کو مذاکرات کا حصہ کیوں نہ بنایا جائے۔ ہم طالبان کے نمائندوں کو، جن کے ساتھ ہم نے بات چیت شروع کر دی ہے، یہ پیشکش کر سکتے ہیں کہ ہم ڈرون حملے، گھروں پر چھاپے، جنگی کارروائیاں، سب بند کر دیں گے، اگر آپ بھی ایسا ہی کریں۔ اور پھر ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر یہ طے کر سکتے ہیں کہ کس قسم کی مخلوط حکومت اور اختیارات کی تقسیم کا کس قسم کا انتظام کافی ہوگا جس سے تمام فریق مطمئن ہو جائیں اور تمام تشدد ختم کر دیں۔“لیکن اس معاملے کا سیاسی پہلو واضح نہیں ہے۔ کیا جنگ کے خاتمے کے بعد، طالبان افغانستان میں اختیارات کی تقسیم کے کسی انتظام میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ کرزئی سے انہیں جو شدید نفرت ہے، اس کی روشنی میں بہت سے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ طالبان ان کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہونے سے کترائیں گے۔یورپی یونین کے سابق مندوب فرانسسک وینڈرل جو صدر کرزئی کو اچھی طرح جانتے ہیں، کہتے ہیں کہ صدر کرزئی نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خود کو مشکل شراکت دار ثابت کیا ہے جو اکثر تعاون نہیں کرتا ۔ وینڈرل کہتے ہیں کہ انہیں اس پر مطلق حیرت نہیں ہو گی اگر امریکہ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے، بلکہ لبریز ہو چکا ہو، اور وہ فوجوں کی واپسی کے لیے الگ سے کوئی انتظام کر لے۔ ان کے مطابق ”کرزئی نے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کیا ہے۔ ان کے پاس کوئی مناسب مذاکراتی ٹیم نہیں ہے۔ شمالی اتحاد کے ساتھ، اور کابل میں سیاسی طور پر اہم لوگوں کے ساتھ، ان کا کسی قسم کا اتفاقِ رائے یا مفاہمت نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا اگر امریکی بالآخر طالبان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کر لیتے ہیں، جیسا کہ سوویت یونین نے 1989ءمیں کیا تھا، یا امریکیوں نے 1973ءمیں جنوبی ویتنام کی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے شمالی ویتنام کے ساتھ کر لیا تھا، تو مجھے اس پر حیرت نہیں ہو گی۔“لیکن ڈیوڈ کاٹ رائٹ کہتے ہیں کہ امن کے کسی بھی عمل سے، ہمسایہ ملک پاکستان کو الگ نہیں رکھا جا سکتا۔اگر ہم جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں کسی نہ کسی طرح انہیں شامل کرنا ہوگا۔“تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ ایسے جامع سیاسی سمجھوتے کے بغیر جس سے تمام فریق مطمئن ہوں، افغانستان میں پھر اسی قسم کی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جس نے 1990ءکی دہائی میں پور ے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔رواں ماہ کے آغاز میںامریکی اخبارات میں وزیر دفاع لیو ن پینیٹا کا یہ اعلان تجزیوں کے ساتھ نمایاں طور پر شائع ہوا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی لڑائی میں شرکت اگلے سال کے اوائیل میں بند ہو جائے گی ۔اِس وقت اس ملک میں لگ بھگ 90 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں، جِن میں سے تیس ہزار اسی سال موسم خزاں تک امریکہ واپس پہنچ جائیں گی۔ نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ ابھی یہ طے نہیں ہے ، کہ باقیماندہ 60 ہزار کو کتنی دیر میں واپس امریکہ بلایا جائے گا۔اخبار کا خیال ہے کہ اگلے سال افغانستان کی لڑائی میں امریکی مشن کے خاتمے کا اعلان صدر اوباما کی دوبارہ منتخب ہونے کی مہم کے دوران ان کی تعریف کا باعث ہوگا۔اِسی موضوع پر، واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ افغان فوجی مشن میں تیزی کے ساتھ جو یہ تبدیلی کی گئی ہے وہ اس بات کی تازہ ترین علامت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتّحادی ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جاری اس جنگ سے اپنی وابستگی ختم کر نا چاہتے ہیں ۔ اخبار کہتا ہے کہ فرانسیسی صدر نکولس سر کوزی نے بھی جو اس وقت دوباہ منتخب ہونے کے کڑے امتحان سے گذر رہے ہیں پیرس میں یہ اعلان کیا ہے کہ فرانس اسی سال اس لڑائی سے کنارہ کش ہونے کے لئے عجلت سے کام لے گا۔ اخبار کہتا ہے کہ صدر اوباما کو بھی ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آخر باقی کتنے امریکی فوجی افغانستان میں تعینات رہیں گے اور کتنے عرصے کے لئے ۔امریکی انظامیہ افغان حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے لئے مذاکرات کر رہی ہے جس کا مقصد اس ملک میں انسداد دہشت گردی اور افغان فوجیوں کو تربیت فراہم کرنے والی فوجیں غیر معیّنہ مدّت کے لئے موجود رہیں گی۔ اخبار کہتا ہے کہ اس انتظامیہ نے اسی قسم کی فوج عراق میں غیر معیّنہ عرصے تک برقرار رکھنے کے لئے بھی مذاکرات کئے تھے، جو ناکام ہو گئے تھے۔واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے اگرچہ اب تک امریکہ کی رواں صدارتی انتخابی مہم کے دوران افغانستان نے کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کیا ہے لیکن ری پبلکن صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں اب تک سبقت لے جانے والے امّید وار مِٹ رامنی نے کہہ دیا ہے کہ و ±ہ طالبان کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھیں گے جب تک انہیں شکست نہیں دی جاتی۔’سِن سِنے ٹی انکوائیرر‘ اخبار میں برسلز میں نیٹو وزارتی سطح کے مذاکرات پر ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس تنظیم کے سکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ افغانستان اب بھی نیٹو کی اوّلیں ترجیح ہے، جہاں بقول اس کے، جنگ میں پیش رفت جاری ہے اور یہ کہ سیکیورٹی کی ذمّہ داری کا کام پچھلے سال سے افغان قومی فوج کو سونپنے کا جو عمل شروع ہوا تھا، وہ اگلے سال کے وسط تک جاری رہے گا۔ اور یہ عمل 2014 کو ختم ہو جائے گا، اس وقت تک افغان قومی فوج پورے ملک کی سیکیورٹی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے چکی ہوگی ۔ یہ وزارتی اجلاس نیٹو کی طرف سے اس خفیہ رپورٹ کے افشاءہونے کے ایک روز بعد منعقد ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا ، کہ دس سال گزر جانے کے بعد بھی باغیوں کا مورال بہت اونچا ہے اور یہ کہ طالبان پر امّید ہیں کہ وہ اتّحادی فوجوں پر غالب آ جائیں گے ۔اے پی ایس