بے نظیر قتل کیس ۔چودھری احسن پر یمی





تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے بے نظیر شہید کے قاتلوں بارے سنجیدگی کا مظاہرہ اور پرویز مشرف کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے پاکستان لانا محض آئندہ کے الیکشن سے قبل انتخابی مہم کیلئے رائے عامہ اور ان حلقوں کی جانب تو جہ مبذول کرنا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ " بی بی ہم شرمندہ ہیں،تیرے قاتل زندہ ہیں"اس بارے مبصرین کا یہ بھی خیال ہے اگر حکمران بی بی قتل کیس میں ذرا بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تو پرویز مشرف کو گرفتار کرتے نا کہ پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک بھیجتے۔جبکہ بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت کا یہ کہنا کہ بے نظیر کے قتل کی منصوبہ بندی جنوبی وزیر ستان میں ہوئی یہ بھی حکومتی دعوی ان بیرونی پاکستان دشمن طاقتوں کے اس ناپاک ارادے کو تقویت فراہم کر تا ہے جو جنوبی وزیر ستان میں فوجی آپریشن کرنا چاہتی ہیں اور اس کیلئے طرح طرح کے جواز ڈھونڈرہی ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو پاکستان اور عوام کیلئے وطن واپس آئیں تھی اور جو پاکستان دشمن طاقتیں خطے میں پرویز مشرف کے دور میںدہشت گردی کے نام پر شیطانی کھیل کھیل رہی تھیں۔ آئندہ کے الیکشن میں اگر بے نظیر اقتدار میں آجاتیں تو شاید بیرونی طاقتوں کا پاکستان کو عدم استحکام کر نے کا ایجنڈا رک جاتا۔اس ضمن میں مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر اس وقت پی پی پی کی حکومت اقتدار میں آتے ہی بے نظیر بھٹو کے امکانی قاتلوں کو گرفتار کر لیتی تو آج اس بارے کامیاب ہوجاتی لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکی۔جبکہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں سابق فوجی صدر جنرل مشرف کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا۔ یہ بات وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف پر بینظیر بھٹو کو وطن آنے اور انتخابات میں حصہ لینے پر دھمکانے کا الزام ہے۔’پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کو واپس آنے اور انتخابات میںحصہ نہ لینے کا مشورہ دیا تھا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکی دی تھی۔ دنیا گواہ ہے کہ وطن واپسی کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا۔‘یاد رہے کہ سندھ اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے بارے میں ارکان کو آگاہ کیا جائے۔ رحمان ملک کے ساتھ بینظیر بھٹو قتل کیس کے تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ خالد قریشی نے بھی بریفنگ دی۔ انہوں نے مختلف چارٹ اور ویڈیوز کے ذریعے طالبان کی کارروائیوں، نیٹ ورک اور منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔رحمان ملک کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کی کراچی آمد سے لے کر راولپنڈی میں ہلاکت تک ان پر حملے کی کوشش کی گئی مگر ملزمان کو کامیابی راولپنڈی میں ہوئی۔’دو خودکش بمبار مدرسہ حقانیہ میں رکے۔ انہوں نے چھبیس دسمبر کو بھی حملے کا منصوبہ بنایا تھا مگر انہیں وقت پر فیوز نہیں مل سکے۔ اس کے علاوہ کچھ میزائل منگوائے گئے جو اکوڑہ خٹک کی دوسری طرف سے منگوائے گئے۔ بینظیر نے جب اسلام آباد سے حسن ابدال جانا تھا اس وقت انہوں نے فائر کیے لیکن ٹائمنگ آو ¿ٹ ہونے کے باعث میزائل کسی اور جگہ جاگرے۔ اس کے بعد لاڑکانہ اور سکھر میں بھی کوشش ہوئی مگر پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے متحرک ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئے۔‘تفتیشی ٹیم نے بینظیر بھٹو کی آمد سے پہلے کی صورتحال کے بارے میں بتایا اور کہا کہ لال مسجد آپریشن ہوچکا تھا اور تحریک طالبان پاکستان بھی وجود میں آچکی تھی۔ اسی سال خودکش حملوں میں بہت اضافہ ہوا۔رحمان ملک نے ارکان کو بتایا کہ بینظیر بھٹو پر حملے کی منصوبہ بندی جنوبی وزیرستان میں ہوئی۔تفتیشی ٹیم کا کہنا تھا کہ شوکت عزیز اور چوہدری شجاعت حسین کو بطور سابق وزیر اعظم جو سکیورٹی فراہم کی گئی، وہ سکیورٹی دو بار وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود بینظیر بھٹو کو فراہم نہیں کی گئی تھی۔رحمان ملک نے شکوہ کیا کہ افغان صدر حامد کرزئی نے خود بینظیر بھٹو کو بتایا تھا کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے مگر انہوں نے اقوام متحدہ کے کمیشن کے روبرو بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کیا تھا۔ ’اسی طرح ایک مسلم ملک کے نمائندہ خصوصی پیغام لے کر آئے تھے کہ بینظیر کی زندگی خطرے میں ہے لیکن انہوں نے بھی بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کیا تھا۔ اراکین اسمبلی نے تفتیشی ٹیم اور رحمان ملک سے سوالات کیے جس میں انٹلیجینس بیورو کے سابق سربراہ اعجاز شاہ کے کردار کے بارے میں بھی دریافت کیا گیا۔ تفتیشی افسرخالد قریشی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس بارے میں کسی قسم کے شواہد نہیں ہیں اور اس عرصے کی ٹیلیفون ریکارڈنگ بھی دستیاب نہیں ہے۔ بقول خالد قریشی کہ دنیا میں کسی بھی انٹلیجینس بیورو کے خلاف شواہد جمع نہیں کیے جاسکتے ۔ارکان کے سوالات پر رحمان ملک کو بینظیر بھٹو کے ساتھ ان کی موجودگی اور حیثیت کی وضاحت کرنی پڑی۔ ’میں بینظیر بھٹو کے مفاہمتی عمل میں شریک تھا۔ میں مسلم لیگ نواز، متحدہ قومی موومنٹ اور جنرل پرویز مشرف سے بھی رابطے میں تھا۔ بینظیر بھٹو نے مجھے رابطہ افسر بنایا تھا۔ وطن واپسی کے وقت بینظیر نے مجھے یہ عمل جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔‘انہوں نے بتایا کہ کراچی میں اٹھارہ اکتوبر کی سکیورٹی جنرل احسان اور ستائیس دسمبر کے جلسے کی سکیورٹی کی ذمہ داری ناہید خان کے حوالے تھی۔سندھ اسمبلی کے ارکان نے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو بینظیر بھٹو کی آمد کے موقع پر ہونے والے بم حملوں کی بھی تحقیقات اور اس کی پیش رفت سے آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ رحمان ملک نے یقین دہانی کرائی کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت معاونت کے لیے تیار ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے سن 2007ءمیں سابق وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کی راہنما بے نظیر بھٹو کے قتل سے متعلق تحقیقات پرسے پردے اٹھا دیئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ قتل القاعدہ کے رکن بیت اللہ محسود اور ابو عبید المصری کی سازش کا نتیجہ تھا ۔ سازش جنوبی وزیرستان میں مکین کے مقام پر تیار کی گئی تھی۔ وفاقی وزیر نے سندھ اسمبلی میں بے نظیر بھٹو قتل سے متعلق تحقیقات ایوان کے روبرو پیش کیں جو کئی گھنٹوں پر محیط تھیں۔ تحقیقاتی بریفنگ کے دوران رحمن ملک نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر سندھ اسمبلی کے ارکان کے سامنے ویڈیوز، تصاویر اور مختلف چارٹس بھی پیش کئے ۔ ان کی جانب سے ارکان کو بتایا گیا کہ سازش بیت اللہ محسود اور القاعدہ کے دہشت گرد ابوعبیدہ المصری نے تیار کی تھی ۔ ویڈیو میں مذکورہ دونوں افراد کو ایک ساتھ نماز پڑھتے اور بعد ازاں ہدایات لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔بریفنگ کے وقت ارکان سندھ اسمبلی کو بینظیربھٹو پر حملے سے پہلے کی ویڈیو بھی دکھائی گئی اور اس وقت کی صورتحال سے بھی آگاہ کیا گیا۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر بیت اللہ محسود اور مولوی صاحب کی گفتگو کا متن بھی دکھایا گیا جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ بریفنگ کے دوران ارکان اسمبلی کو اسکرین پر رپورٹ کے کچھ حصے کی نقل اور ملزمان کے اقبالی بیانات سمیت مختلف دستاویزات دکھائی گئیں ۔ ساتھ ہی 2007ءمیں طالبان قیادت کا مکمل چارٹ بھی دکھایا گیا۔ ادھر بے نظیر بھٹو قتل کیس کے تفتیشی افسر خالد قریشی کا کہنا ہے کہ طالبان اور پرویز مشرف بے نظیر کو خطرہ سمجھتے تھے۔ سندھ اسمبلی میں بریفنگ کے دوران خالد قریشی کا کہنا تھا کہ قاری حسین نام کے ایک شخص نے جو القاعدہ کا ٹرینر ہے ، بمبار تیار کئے جبکہ ایک اور شخص قاری اسماعیل نے جیکٹس فراہم کیں۔خالد قریشی کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کو وطن واپسی پر خطرات کا سامنا تھا۔ طالبان اور مشرف محترمہ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے، بینظیربھٹو کو قتل کرنے کیلئے کالعدم تحریک طالبان کے جھنڈے تلے 27 دہشت گرد گروپ منظم ہوئے، جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں منصوبہ بندی کی گئی۔ منصوبہ ساز اور رقم فراہم کرنے والے کا تعلق فاٹا سے ہے۔ قاری حسین جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کا ٹرینرتھا اور اسی نے درجنوں خودکش بمبار تیار کئے۔ الیاس کشمیری اور میجر ہارون بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو پر حملے کے بعد بیت اللہ محسود اورمولوی صاحب کی بات چیت ریکارڈ ہوئی۔ یہ گفتگو پشتو میں کی گئی جس میں بیت اللہ محسود پوچھتا ہے کہ ہمارے لوگ تھے، بیت اللہ محسود نے ٹیلی فونک گفتگو میں مبارکباد بھی دی۔مولوی صاحب نے جواب میں بتایاکہ لڑکے دلیر تھے،آکرسب بتاو ¾ں گا، سربراہ تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ مولوی صاحب کی شخصیت ابھی تک پراسرار ہے،ممکنہ طور پر مولوی صاحب کا نام مولوی انور ہے۔ خالد قریشی کے مطابق قاری اسماعیل نے بمباروں کو جیکٹس فراہم کیں، خودکش بمباروں بلال اور قاضی کوایک اور شخص نصراللہ نے راولپنڈی پہنچایا، رفاقت خودکش بمباروں کو راولپنڈی تک لے کرگیا، بمباروں کو پیرودھائی سے لیاقت باغ پہنچایا گیا، ان کے پاس پستول اور دستی بم بھی تھے جو موبائل فون نصراللہ اور عبادالرحمن استعمال کررہے تھے ، اسی نمبر سے کراچی سے اغوا ہونے والے فلمساز ستیش آنند کے گھر والوں کو تاوان کی کال آئی تھی۔ اور ایک سال بعد وہی سم استعمال کرنے سے ملزمان کا پتہ چلا۔خالد قریشی کے مطابق راولپنڈی پولیس نے اعتزاز، قاری حسین شاہ ، رشید ترابی کو گرفتار کیا، جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ان افراد نے اقرار جرم کیا۔ خالد قریشی نے بتایا کہ ایک موبائل فون صرف ایک آپریشن میں استعمال کیا جاتا تھا جو کسی دہشت گرد کے نام پر نہیں ہوتا تھا۔ بینظیربھٹو کے قتل کے کچھ ماہ بعد عبادالرحمن نے ٹیکسلا میں شادی کی۔خالد قریشی نے بتایا کہ نوجوان لڑکوں کو خودکش حملوں کے لئے تیارکیاجاتا تھا،رشیداحمد ترابی زیادہ پڑھا لکھا تھااور وہ کامرہ حملے میں بھی ملوث تھا۔خالدقریشی کے مطابق حسین گل کو خودکش حملے کے لیے راضی کیا گیا۔ کیس میں نصراللہ نامی شخص بھی شامل ہے۔خالد قریشی کے مطابق بے نظیربھٹو کی موت سر میں شدید چوٹ لگنے سے ہوئی۔ بے نظیربھٹو کو سر کے اطراف دو چوٹیں لگیں۔ ایوان کو رحمن ملک نے بتایا کہ پرویزمشرف نے مذاکرات کے دوران بینظیربھٹو سے کہا تھا کہ انتخابات سے پہلے پاکستان نہ آئیں۔ اس پر بینظیر بھٹو نے کہا کہ یہ فیصلہ وہ خود کریں گی۔ رحمن ملک کے مطابق بینظیر بھٹو کی طرف سے پاکستان نہ آنے کی بات نہ ماننے پر پرویزمشرف نے دھمکی دی تھی کہ واپسی پر نتائج کی ذمہ دار وہ خود ہوں گی۔رحمن ملک نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو طویل عرصے سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ نوازشریف کے دور میں سیف الرحمن کی طرف سے جھوٹے مقدمات درج کرائے جانے کا سلسلہ پرویز مشرف کے دور میں بھی جاری رہا۔ تاہم محترمہ بینظیربھٹو نے تمام زیادتیوں کے باوجود مفاہمت کا فیصلہ کیا۔ ان تحقیقات کے حوالے سے سابق صدر پرویز مشرف کا مقامی ٹی وی چینل کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کہنا ہے کہ بے نظیر انہیں کبھی خطرہ نہیں سمجھتی تھیں بلکہ وہ تو مجھ سے ڈیل کررہی تھیں۔ صدر نے ا نکشاف کیا کہ ان کی بے نظیر بھٹو سے دبئی میں دو مرتبہ ملاقات ہوچکی تھیں۔ بے نظیر اگر گاڑی میں ہوتیں تو محفوظ رہتیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے بے نظیر کو خود فون کرکے بتایا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ پرویزمشرف کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فراہم کرنا صدرمملکت کا کام نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ میری اور بے نظیر کی ملاقات میں رحمن ملک شامل نہیں ہوتے تھے۔پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ بے نظیر چاہتی تھیں کہ مقدمات ختم ہوں۔ ویسا ہی ہوابھی۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی پاکستان آیا ، عدالت جاوں گا ، اس میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کا 18 اکتوبر کے بعدسے بے نظیر سے کوئی رابطہ نہیں ہواتھا۔جبکہ گزشتہ دنوںسپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے نئے مقدمے کے اندراج کے لیے دائر کی جانے والی درخواست پر بارہ افراد سے دو ہفتوں میں تفصیلی جواب طلب کیا ہے۔ان افراد میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے علاوہ سینیئر وفاقی وزیر چوہدری پرویز الہی، وزیر داخلہ رحمان ملک، حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے نائب صدر بابر اعوان، سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل حامد نواز، سابق سیکرٹری داخلہ کمال شاہ، انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ اعجاز شاہ، نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کے سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ جاوید اقبال، سابق ڈی آئی جی راولپنڈی سعود عزیز، ضلعی رابطہ افسر عرفان الہی، ایس ایس پی آپریشنز یاسین فاروق اور ایس ایس پی خرم شہزاد شامل ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بینظیر بھٹو کے سابق پروٹوکول افسر چوہدری اسلم کی درخواست کی سماعت شروع کی تو چیف جسٹس نے صدر آصف علی زرداری کے بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کا کیا بنا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور معلوم نہیں کہ حکومت اس کو ترجیح کیوں نہیں دیتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کچھ غلط ہوا ہے تو اس کو غلط کہنا چاہیے۔بینچ میں موجود جسٹس طارق پرویز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کسی قانونی وارث کی طرف سے بینظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ درج نہیں کروایا گیا جبکہ اس واقعہ کا جو مقدمہ درج ہے وہ سرکار کی جانب سے دائر کیا گیا ہے۔اس مقدمے میں پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو گزشتہ چار سال سے اڈیالہ جیل میں ہیں اور ا ±ن افراد پر فرد ج ±رم بھی عائد کی جا چکی ہے۔یاد رہے کہ درخواست گ ±زار چوہدری اسلم نے مذکورہ افراد کے خلاف بینظیر کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جو مسترد کردی گئی اور اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جو منظور کرلی گئی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے اور اس درخواست میں بنائے گئے فریق سے تفصیلی جواب کے بعد لارجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔عدالت نے بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے اس مقدمے کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے۔سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں اشتہاری قرار دیا ہے جبکہ ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس ایس پی خ ±رم شہزاد ان دنوں ضمانت پر ہیں۔درخواست گزار چوہدری اسلم کے وکیل رشید اے رضوی نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے اور ستائیس دسمبر سنہ دو ہزار سات کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر جب بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ ہوا تو ان کی گاڑی کے پیچھے جو گاڑی تھی وہ اچانک وہاں سے کیوں غائب ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ اس گاڑی میں وزیر داخلہ رحمان ملک جو اس وقت بینظیر بھٹو کی سکیورٹی کے انچارج تھے، سوار تھے اس کے علاوہ بابر اعوان بھی موجود تھے۔رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس واقعہ کی تحقیقات میں تاخیر کی گئی ہے لیکن کسی بیگناہ کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ گناہ گاروں کو سزا دی جائے۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مقتول چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقع پر جلسہءعام سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ ہم تاریخ بنانا چاہتے ہیں ہیڈ لائن نہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ بی بی کے کیس کا کیا بنا؟۔میں بھی پوچھتا ہوں چوہدری افتخار جج صاحب سے کہ بی بی کے کیس کا کیا ہوا؟‘۔صدر زرداری کا کہنا تھا کہ ’عدالتیں میرے ماتحت نہیں ہیں۔ کاش ایسا ہوتا کہ ہوتیں، مگر ایسا نہیں ہے۔‘صدر نے چیف جسٹس سے پوچھا ’آپ کو دوسرے کیس بڑی جلدی نظر آ جاتے ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا جو کیس میں نے آپ کے پاس بھیجا ہوا ہے وہ آپ کو نظر نہیں آتا۔سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل چوہدری ذوالفقار کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اگر اس مقدمے کی پیروی روزانہ کی بنیاد پر نہ کی تو وہ اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ا ±نہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں قتل ہونے والے سرفراز شاہ کے مقدمے کا فیصلہ ایک ماہ میں اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا فیصلہ چھ ماہ میں ہوسکتا ہے تو بینظیر بھٹو کے قتل کا فیصلہ جلد کیوں نہیں ہوسکتا حالانکہ وہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو جو راولپنڈی میں ستائیس دسمبر سنہ دو ہزار سات کو ایک خودکش حملے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ اس واقعہ کی تفتیش ابھی تک مختلف مراحل طے کر رہی ہے۔ پنجاب پولیس کے بعد اس مقدمے کی تفتیش وزارت داخلہ کے ماتحت ایف آئی اے یعنی وفاقی تحقیقاتی ادارہ کر رہا ہے۔اس مقدمے میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد کی ضبط کرنے کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔سکاٹ لینڈ یارڈ اور پھر اقوام متحدہ سے اس واقعہ کی تحقیقات کروائی گئیں اور ان تحقیقات سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن متفق نہیں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی کارکن پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت سے بینظیر بھٹو کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کردی جاتی ہے۔پارٹی کے کارکن بینظیر بھٹو کی سیکورٹی کے انچارج اور موجودہ وزیر داخلہ رحمان ملک اور بابر اعوان کا جائے حادثہ سے نکل جانے پر بھی شکوک شہبات کا اظہار کرتے ہیں۔پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی طرف سے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی حمایتی جماعت پاکستان مسلم لیگ قاف کو اقتدار میں شامل کرنے پر بھی پارٹی کے کارکنوں کو شدید تحفظات ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد قاف لیگ کو قاتل لیگ بھی کہا ہے۔اے پی ایس