متنازع میمو: منصور اعجاز کا بیان۔چودھری احسن پر یمی



امریکی شہری منصور اعجاز کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے پیغام زبانی طور پر امریکی افواج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔امریکی شہری منصور اعجاز نے متنازع میمو کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا جس کی سربراہی بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائض عیسی کر رہے ہیں۔ منصور اعجاز کا بیان ابھی مکمل نہیں ہوا اور سماعت اگلے روزبھی جاری رہی ۔منصور اعجاز نے اپنے بیان میں دو مئی کے واقعہ کے بعد امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اور ان کے درمیان بلیک بیری پر ہونے والے رابطوں کے بارے میں بتایا۔منصور اعجاز نے بلیک بیری سے پیغامات بھی پڑھے جس کی تصدیق لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں موجود کمیشن کے سیکرٹری نے کی۔منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ نو مئی سنہ دو ہزار گیارہ کو حسین حقانی سے لندن میں ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دو مئی سنہ دو ہزار گیارہ کے واقعہ کے بعد جس میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں امریکی سیکورٹی فورسز نے ہلاک کردیا تھا، پاکستانی فوج صدر زرداری اور موجود حکومت پر دباو ڈال رہی ہے اور فوج حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے لہذا امریکی افواج پاکستانی افواج کو ایسا کرنے سے روکیں۔انہوں نے کہا کہ حسین حقانی چاہتے تھے کہ امریکی افواج جلد از جلد پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یہ پیغام دیں کہ وہ موجودہ جمہوری حکومت کا تختہ نہ الٹیں۔انہوں نے کہا کہ اس گفتگو میں حسین حقانی نے پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو ختم کرنے ، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو مزید ڈسپلن میں لانے اور امریکہ کی خواہش کے مطابق ممبئی حملوں کی تحقیقات میں بھارتی حکومت کے ساتھ پاکستانی حکومت کے مزید تعاون کا اشارہ بھی دیا۔منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ اس ٹیلی فونک گفتگو میں حسین حقانی نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ یہ پیغام اس وقت کے امریکی مسلح افواج کے کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچایا جائے۔منصور اعجاز نے کہا کہ انہوں نے حسین حقانی کو بتایا تھا کہ وہ مائیک مولن ان کے دوست نہیں ہیں تاہم وہ ایسے افراد تلاش کریں گے جو مائیک مولن کے دوست ہیں۔منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز ان کے دوست ہیں اور یہ بات امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی جانتے تھے۔انہوں نے کہا کہ جیمز جونز نے پوچھا تھا کہ کے اس معاملے میں حسین حقانی کو پاکستانی شخصیات کی حمایت بھی حاصل ہے جس پر منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ انہوں نے جنرل جیمز جونز سے کہا تھا کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ پیغام کتنی اہمیت کا حامل ہے یا اس کی مستند ہونے کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حسین حقانی کے ساتھ گفتگو میں کچھ خفیہ کوڈ بھی رکھے گئے تھے جو آئندہ گفتگو میں استعمال ہوں گے اس میں امریکہ کو اصفحانی، پاکستانی حکومت کو فرینڈز اور صدر زرداری کے لیے فرینڈ اور باس کا لفظ استعمال ہوگا۔منصور اعجاز نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ انہوں نے سنہ دو ہزار تین میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احسان الحق سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف سے سنہ دو ہزار پانچ یا چھ میں لندن میں ملاقات کی تھی۔منصور اعجاز کے مطابق انہوں نے پاکستان کے صدر آصف علی زردای سے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی خواہش پر مئی سنہ دو ہزار نو میں ملاقات کی تھی اور انہیں امریکی کانگریس میں اس وقت جو سیاسی معاملات چل رہے تھے اس کے متعلق بھی آگاہ کیا تھا۔منصور اعجاز نے حسین حقانی کے ساتھ ہونے والی ٹیلی فونک کالوں کا ریکارڈ بھی کمیشن کے سیکرٹری کے حوالے کیا۔لندن میں پاکستانی سفارت خانے میں ویڈیو کانفرنسگ کا انتظام کیا گیا تھا جہاں سے منصور اعجاز نے اسلام آباد میں موجود کمیشن کے سامنے اپنا بیان قلمبند کرایا۔لندن میں منصور اعجاز مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر پاکستانی ہائی کمیشن ایک ٹیکسی کے ذریعے پہنچے۔ سفارت خانے کی مرکزی عمارت کے ایک کمرے میں ویڈیو کانفرنسگ کا انتظام تھا اور اس کمرے میں اخبار نویسوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ دورانِ کانفرنس اس کمرے میں صرف منصور اعجاز، نواز شریف کے وکلاءکی پانچ رکنی ٹیم اور کمیشن کے سیکریٹری راجہ جواد موجود رہے۔منصور اعجاز نے سفارت خانے کی عمارت میں جاتے وقت اور سماعت کے بعد وہاں سے باہر نکلتے وقت ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے کسی سوال کو کوئی جواب نہیں دیا۔نواز شریف کے وکیل رشید رضوی نے سماعت کے بعد اخبار نویسوں سے کہا کہ ابھی سماعت چل رہی ہے اور منصور اعجاز کا بیان ختم نہیں ہوا۔انھوں نے قانونی اصطلاح میں کہا کہ ’ایگزامینیشن ان چیف‘ چل رہا ہے اورآپ اسے نہیں سمجھ سکتے۔ نواز شریف کے وکلاء کی ٹیم میں شامل ایک اور وکیل نے کہا کہ ایسے کاموں میں وقت لگتا ہے اور اس میں مزید وقت لگے گا۔اس سے پہلے حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری اور اٹارنی جنرل انوار الحق نے منصور اعجاز کا بیان ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ریکارڈ کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ اس کے علاوہ بلیک بیری کے ذریعے پیغامات کے مستند ہونے کے بارے میں بھی اعتراضات اٹھائے تھے۔زاہد بخاری نے کہا کہ قانونِ شہادت ایکٹ کے مطابق یہ پیغامات اس وقت تک مستند نہیں ہو سکتے جب تک فرنزک ماہرین اس کی تصدیق نہ کریں۔ یاد رہے کہ اس کمیشن کو کارروائی مکمل کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی گئی تھی لیکن منصور اعجاز کی جانب سے بیان ریکارڈ کروانے میں تاخیر کے باعث اس کمیشن کو مذید دو ماہ کی مہلت دی گئی تھی۔لندن میں پاکستان کے سفارت خانے نے متنازع میمو کے معلاملے کے اہم کردار منصور اعجاز کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے انتظامات کرنے سے معذوری ظاہر کر دی تھی۔پاکستان کے سفارت خانے میں فروری کی بائیس تاریخ کو منصور اعجاز کا بیان ریکارڈ کیا جانا تھا اور ان ہی دنوں میں پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بھی برطانیہ کے دو روزہ دورے پر لندن میں ہوں گی۔سفارت خانے نے اسلام آباد کو مطلع کر دیا ہے کہ سفارت خانے کا عملہ ان دنوں میں وزیر خارجہ کے سرکاری دورے کی بنا پر مصروف ہو گا اس لیے منصور اعجاز کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے انتظامات نہیں کیے جا سکتے۔امریکی شہری منصور اعجاز کو مبینہ طور پر پاکستان کے کسی اعلیٰ اہلکار کی طرف ایک متنازعہ میمو لکھے جانے کے معاملے پر پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔کمیشن نے ایک مختصر حکم نامے میں کہا تھا کہ لندن میں پاکستانی سفارت خانے بائیس فروری کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے منصور اعجاز کا بیان ریکارڈ کرانے کے انتظامات کرے۔متنازع میمو کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے کمیشن میں بلوچستان کے چیف جسٹس قاضی فائض عیسی، سندھ کے ہائی کورٹ کے جج جسٹس مشیر عالم اور اسلام آباد کے جسٹس اقبال حمید الرحمان شامل ہیں۔ عدالتی کمیشن نے سیکریٹری راجہ جواد عباس کو بھی لندن جا کر منصور اعجاز سے متعلقہ دستاویزات اور آلات حاصل کرنے کا حکم دیا تھا۔ لندن میں پاکستانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسلام آباد سے درخواست کی ہے کہ یا تو وزیر خارجہ کے دورے کی تاریخ یا پھر منصور اعجاز کا بیان ریکارڈ کرنے کی تاریخ بدل دی جائے۔امریکہ کے سابق فوجی سربراہ کو پاکستان کے سابق سفیر کی جانب سے مبینہ طور پر تحریر کیے گئے متنازعہ خط کی تفتیش کرنے والے عدالتی کمیشن کے سربراہ کی ہدایت پر کمرہ عدالت میں ویڈیو کانفرنس کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے جس کے ذریعے بیرون ملک رابطہ بھی کیا جا سکے گا۔کمیشن کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ ویڈیو لنک کسی خاص شخصیت کے لیے لگایا جا رہا ہے یا کمیشن کے لیے کسی عمومی ضرورت کے تحت اس کی تنصیب کی جا رہی ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں یہ کمیشن متنازعہ مراسلے کی تفتیش کے لیے قائم کیا تھا۔ کمیشن کے پہلے اجلاس میں متنازعہ خط کے مبینہ تحریر کنندہ سابق سفیر حسین حقانی پیش ہوئے تھے اور انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔کہا جا رہا تھا کہ اس سکینڈل کے ایک اور مرکزی کردار منصور اعجاز جنہوں نے حسین حقانی پر ایڈمرل مائیک مولن کے نام مراسلہ تحریر کرنے کا الزام عائد کیا تھا، وہ کمیشن کے دوسرے اجلاس میں پیش ہوں گے جو سولہ جنوری کو منعقد ہونا ہے۔تاہم منصور اعجاز کی جانب سے اجلاس میں شرکت نہیں کی گئی۔منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے کمیشن کے سامنے اپنے موکل کی زندگی کو لاحق خطرات کا ذکر کیا تھا جس پر کمیشن نے انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔کمیشن حکام کمرہ عدالت میں بین الاقوامی ویڈیو لنک کا انتظام کیاجس کے ممکنہ استعمال کے بارے میں کوئی بات یقینی نہیں تھی کیونکہ منصور اعجاز کے علاوہ بعض دیگر امریکی حکام بھی اس مقدمے میں فریق ہیں جنہوں نے اپنے تحریری بیانات پاکستانی عدالت کے سامنے پیش کیے تھے۔ذرائع کہ کمیشن ان افسران سے بھی انٹرویو کرنا چاہتا ہے۔جبکہ متنازع میمو کے قضیئے کے مرکزی کردار اور پاکستانی نڑاد امریکی شہری منصور اعجاز کے وکیل نے اعلان کیا کہ ان کے مو ¿کل پاکستان نہیں آ رہے۔منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ کے مطابق ان کے موکل نے وفاقی حکومت اور فوج کی طرف سے سکیورٹی خدشات دور کرنے کی یقین دہانی نہ کروانے کی بنا پر پاکستان میں اس میمو کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن ان کا بیان لندن، زیورخ یا کسی بھی دوسرے ملک میں ریکارڈ کرے۔لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن نے منصور اعجاز کو اس عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے پاکستان کا ایک سال کا ملٹی پل ویزہ جاری کیا اور ان کے وکیل اکرم شیخ نے کمیشن کو بتایا تھا کہ ان کے موکل چوبیس جنوری کو کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے۔ منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منصور اعجاز کے ساتھ ہونے والی ٹیلی کانفرنس میں ان کی سکیورٹی سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے منصور اعجاز کی سکیورٹی سے متعلق رواں ماہ نو جنوری اور سولہ جنوری کو جو احکامات جاری کیے تھے ان میں کی گئیں بنیادی تبدیلیوں کے سلسلے میں تبادلہ خال کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ان کے موکل کی سکیورٹی پر مامور اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی سکیورٹی ڈاکٹر مجیب الرحمنٰ نے ملاقات کی، اس میں یہ معاملہ اٹھایاگیا کہ کیا وفاقی حکومت اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ منصور اعجاز کے کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے بعد اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر نہیں ڈالا جائے گا جس پر پولیس افسر نے ایسی کوئی بھی ضمانت دینے سے معذرت کر لی۔اکرم شیخ نے الزام عائد کیا کہ وفاقی حکومت نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ جونہی ان کے موکل کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے بعد باہر نکلیں تو انہیں کسی مقدمے میں پھنسا دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ اپنے ملک نہ جا سکیں۔انہوں نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیان پر افسوس کا اظہار کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ منصور اعجاز کے پاکستان آنے کے بعد ان کی حفاظت ایک تھانے کا ایس ایچ او کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ کہ ان کے موکل کو خدشتہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے انہیں سکیورٹی فراہم کی تو ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس جو الیکٹرانک شواہد موجود ہیں وہ ضائع کردیے جائیں تو اس میں ردوبدل کردیا جائے۔ایک سوال کے جواب میں اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ’بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سربراہی میں بارہ جنوری کو کور کمانڈر کانفرنس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ منصور اعجاز کے پاکستان آنے پر فوج انہیں سکیورٹی فراہم کرے گی لیکن انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی یقین دہانی کروائی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں آرمی چیف کو خط بھی لکھا گیا ہے لیکن ابھی تک انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ایک سوال پر کہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے منصور اعجاز کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کے بارے میں کہا کہ، اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ وہ رحمان ملک کی بجائے اس متنازع میمو کے اہم کردار حسین حقانی پر زیادہ اعتبار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔اس متنازع میمو کی تحقیقات کرنے والی قومی سلامتی کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے متعلق اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ کمیٹی کسی بھی غیر ملکی کو طلب کرنے کا اختیار نہیں رکھتی البتہ اس پارلیمانی کمیٹی چاہے تو منصور اعجاز کا بیان لندن یا زیورخ میں ریکارڈ کر سکتی ہے اور یا پھر کمیشن کو دیے گئے بیان کو بھی استعمال کر سکتی ہے۔یاد رہے کہ پارلیمانی کمیٹی نے چھبیس جنوری کو منصور اعجاز کو پیش ہونے کے بارے کہا ہے۔اے پی ایس