ضمنی انتخابات ۔چودھری احسن پریمی




قومی اسمبلی کی چھ نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے دو، مسلم لیگ نون، اے این پی اور مسلم لیگ فنکشنل نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ قصور سے قومی اسمبلی کی نشست پر نتائج کو معطل کر دیاگیا ہے۔چار صوبائی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر مسلم لیگ نون اور سندھ کی دو صوبائی نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ضمنی انتخابات میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی پنجاب سے اور سپیکر قومی اسمبلی فیمہدہ مرزا کے صاحبزادے حسنین مرزا صوبہ سندھ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ان انتخابات میں دو خواتین بھی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں اور ان دونوں نومنتخب ارکان اسمبلی کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔پنجاب کے جنوبی اضلاع میں قومی اسمبلی کی چار نشتوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں غیر حتمی نتائج کے مطابق دو نشستیں پیپلز پارٹی، ایک نشست مسلم لیگ نون اور ایک نشت مسلم لیگ فنکشنل نے جیت لی ہے۔قصور کے قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو چالیس میں دو آزاد امیدواروں میں جوڑ پڑا اور غیر سرکاری نتائج کےمطابق پہلے اس حلقہ سے ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کامیاب ہوئے اور بعد ازں یہ اعلان کیا گیا کہ تہتر ووٹوں کی برتری سے ملک رشید خان جیت گئے ہیں۔ ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کے حامیوں کے احتجاج کے بعد ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے نتائج منسوخ کر دیئے اور اب دوبارہ گنتی ہوگی۔ ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو اڑتالیس کی نشست وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسی گیلانی نے جیت لی ہے۔اس نشست پر ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک عبدالغفار ڈوگر سے ہوا۔ سید علی موسیٰ گیلانی نے ترانوے ہزار تین سو پینتالیس ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل ملک عبدالغفار ڈوگر کوچوالیس ہزار چھ سو تراسی ووٹ ڈالے گئے۔ملتان ہی سے مخدوم جاوید ہاشمی کی خالی کردہ نشست پر مسلم لیگ نون کے شیخ محمد طارق رشید اڑتیس ہزار ایک سو چھہتر ووٹ حاصل کرکےکامیاب ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار لیاقت علی ڈوگر کو پچیس ہزار سات سو ساٹھ ووٹ ملے۔ٹریفک حادثہ میں جاں بحق ہونے والے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عظیم دولتانہ کی وہاڑی سے خالی ہونے والی نشست ان کی بہن نتاشہ دولتانہ نے ستر ہزار پانچ سو اکاون ووٹ حاصل کرکے بھاری اکثریت سے جیت لی ہے۔ مسلم لیگ نون کے امیدوار بلال اکبر بھٹی نے چھیالیس ہزارسولہ ووٹ حاصل کیے۔رحیم یار خان سے قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ فنکشنل کے صوبائی صدر مخدوم احمد محمود کے بیٹے مخدوم مصطفی? محمود اکیاسی ہزار سات سو پینتالیس ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ ان کے مدمقابل آزاد امیدوار مولوی طارق چوہان نے سترہ ہزار نو سوچالیس ووٹ حاصل کر پائے۔میانوالی کی صوبائی نشست پر مسلم لیگ نون کے عادل عبداللہ روکڑی کامیاب ہوئے انہوں نے اپنے مدِمقابل طارق مسعود کو شکست دی۔پنجاب کے ضلع اٹک سے مسلم لیگ نون کے میجر ریٹائرڈ اعظم اڑتالیس ہزار چار سو چھہتر ووٹ لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔صوبہ سندھ کے علاقے بدین کے صوبائی حلقہ ستاون سے سپیکر قومی اسمبلی فیمہدہ مرزا کے کے بیٹے حسنین مرزا کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ نشست حسنین مرزا کے والد ذوالفقار مرزا نے خالی کی تھی۔ حسنین کا مقابلہ مسلم لیگ ہم خیال کے سیدعلی بخش شاہ عرف پپو سے ہوا۔ٹنڈو محمد خان کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی کے رہنما سید محسن شاہ بخاری کی بیوہ وحیدہ شاہ انیتس ہزار نو سو اٹھتہر ووٹوں سے منتخب ہوئیں۔ ان کے مدمقابل کسی سیاسی جماعت نے امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔خیبر پختونخوا میں مردان سے قومی اسمبلی کی نشست پر اے این پی کے امیدوار حمایت اللہ یار منتخب ہوئے ہیں انہوں نے اپنے مخالف جمعیت علماءاسلام ف کے امیدوار مولانا شجاع الملک کو شکست دی۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی دس نشستوں پر ہفتہ کو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں جن میں ایک سو چودہ امیدواروں نے حصہ لیا۔یہ دس نشستیں تحریک انصاف میں شامل ہونے والے رہنماو ¿ں کے مستعفی ہونے کے باعث خالی ہوئیں جن پر ضمنی انتخابات ہوئے۔پاکستان الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں نو سو اسّی پولنگ سٹیشنز قائم کیے جہاں ووٹرز نے چھ قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدواروں کو منتخب کیا۔قومی اسمبلی کی ایک نشست پر مردان میں جبکہ پانچ نشستوں پر پنجاب میں انتخابات ہوئے۔ صوبہ سندھ کی دو نشستوں پر جبکہ پنجاب کی بھی دو نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے گئے ہیں۔صوبہ پنجا ب میں قومی اسمبلی کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں میں چناو ¿ کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ تحریک انصاف کے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے ان انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ ان ضمنی انتخابات میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسٰی گیلانی بھی امیدوار تھے۔پنجاب کے ضلع قصور سے قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو چالیس کی نشست پیپلز پارٹی کے رہنماءسردار آصف علی احمد کے تحریک انصاف میں شامل ہونے سے خالی ہوئی تھی۔ اس حلقہ میں گزشتہ انتخابات میں سابق وزیر خارجہ سردار آصف علی کا مقابلہ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سے ہوا تھا تاہم خورشید قصوری بھی تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں اس لیے ان دونوں رہنماو ¿ں کی ان ضمنی انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔اس حلقے سے سردار سرور ڈوگر پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے اور ان کا مقابلہ آزاد امیدوار ڈاکٹر عظیم الدین لکھنوی اور ملک رشید خان سے تھا۔ مسلم لیگ نون نے اس حلقے سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو اڑتالیس سے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسی گیلانی امیدوار تھے۔ یہ قومی اسمبلی کی وہی نشست ہے جو پیپلز پارٹی کے سابق رہنماءاور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مستعفی ہونے سے خالی ہوئی تھی۔ مسلم لیگ نون نے وزیر اعظم کے بیٹے کے مدمقابل عبدالغفار کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ملتان سے ہی قومی اسمبلی حلقہ ایک سو اننچاس کی نشست مسلم لیگ نون کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کے تحریک انصاف میں شمولیت کی وجہ سے خالی ہوئی اور مسلم لیگ نون کے اس حلقہ سے شیخ طارق رشید کو اپنا امیدوار نامزد کیا جن کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے امیدوار لیاقت علی ڈوگر سے تھا۔جنوبی پنجاب کے ہی ضلع رحیم یار خان سے رکن قومی اسمبلی جہانگیر خان ترین اپنی جماعت مسلم لیگ قاف چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور ان کے مستعفی ہونے سے اب قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو پچانوے میں مسلم لیگ فکشنل پنجاب کے صدر اور رکن پنجاب اسمبلی مخدوم احمد محمود کے بیٹے سید مصطفی محمود امیدوار تھے ان کا مقابلہ آزاد امیدواروں سے تھا۔ضلع وہاڑی سے قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو اڑسٹھ کی نشست پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی عظیم دولتانہ کے کار حادثے میں ان کی ہلاکت کی وجہ سے خالی ہوئی تھی اور اب اس نشست پر عظیم دولتانہ کی چھوٹی بہن نتاشا دولتانہ امیدوار اور ان کے مدمقابل مسلم لیگ نون کے امیدوار بلال اکبر بھٹی تھے۔پنجاب اسمبلی کی اٹک سے خالی ہونے والی نشست پر مسلم لیگ نون کے امیدوار ملک اعظم اور پیپلزپارٹی کے ملک ثمین خان کے درمیان مقابلہ ہوا۔ یہ نشست پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی ملک خرم خان کے تحریک انصاف میں شامل ہونے سے خالی ہوئی تھی۔ضلع میانوالی سے پنجاب اسمبلی کے رکن اسمبلی اور مسلم لیگ نون کے رہنماءعامر حیات خان روکھڑی کے انتقال کے باعث صوبائی حلقہ چوالیس میں ضمنی انتخاب ہواہے اور اس نشست پر عامر روکھڑی کے بیٹے عادل عبداللہ خان روکھڑی امیدوار تھے۔ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار بہادر خان سے تھا۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی چناو ¿ کا ہونا ناصرف ایک معمول ہے بلکہ ایک آئینی تقاضہ بھی ہے لیکن اٹھارہ فروری دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد جو ضمنی انتخابات ہوئے وہ کئی لحاظ سے منفرد تھے۔ضمنی انتخابات میں جہاں بڑے سیاست دانوں کے قریبی رشتہ داروں کو اسمبلی میں پہنچے کا موقع ملا۔ وہیں ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد نے اپنے کاغذات جمع کرانے کے باوجود ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ضمنی انتخابات کے منفرد ہونے کی ایک وجہ ان انتخابات میں ا ±ن ارکان اسمبلی کا امیدوار حصہ لینا تھا جو اسمبلی کے رکن تھے لیکن انہوں نے استعفی دیا۔ عام طور پر ملک میں ضمنی انتخابات ہونے کی پہلی وجہ اسمبلی کی ان نشستوں کو پر کرنا ہوتا ہے جو بیک وقت ایک ہی امیدوار کئی نشست پر منتخب ہونے کی وجہ سے خالی ہوتی ہیں کیونکہ ایک وقت میں رکن اسمبلی صرف ایک
نشست رکھ سکتے ہیں اور باقی انہیں چھوڑنی پڑتی ہیں۔لیکن صرف تین ماہ کے دوران جعلی تعلیمی اسناد کی وجہ ایک درجن کے قریبی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوچکے ہیں اور اسی وجہ سے مزید چار نشستوں پر ضمنی چناو ¿ کے لیے الیکشن ہوچکا ہے۔ان نشستوں میں صرف تین قومی اسمبلی کی اور ایک پنجاب اسمبلی کی نشست شامل تھی۔پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے رہنما اور صوبے کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی ضمنی انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن بنے۔ شہباز شریف پنجاب کے ضلع بھکر کی خالی ہونے والی نشست پر بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔شہباز شریف سے پہلے صوبے کے وزیر اعلیٰ سردار دوست محمد کھوسہ کے والد اور سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار علی کھوسہ بھی ضمنی چناو ¿ کے ذریعے پنجاب اسمبلی پہنچے۔ انہوں نے اپنے بیٹے سردار سیف الدین کھوسہ کی طرف سے خالی کی جانے والی صوبائی نشست پر انتخاب لڑا۔ اس طرح جہاں ذوالفقار علی کھوسہ خود اسمبلی رکن ہیں وہاں ان کا ایک بیٹا دوست محمد کھوسہ صوبائی کابینہ کا حصہ ہے اور دوسرا بیٹا سیف الدین کھوسہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں اپنے آبائی شہر ملتان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب لڑا اور دونوں نشستوں پر کامیاب ہوگئے تاہم انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی اور خالی ہونے والی نشست پر اپنے بھائی مرید حسین قریشی کو امیدوار نامزد کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔سابق وزیر اعلی اور وفاقی وزیر میاں منظور احمد وٹو عام انتخابات میں دو نشستوں پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور ان کی خالی کی جانے والی قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ان کے بیٹے خرم جہانگیر وٹو رکن قومی اسمبلی بنے۔ اس طرح دونوں باپ بیٹا قومی اسمبلی کے جبکہ منظور وٹو کی بیٹی روبینہ شاہین وٹو پنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔لاہور کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ ایک سو ساٹھ میں مسلم لیگ نون کے امیداور ملک سیف الملوک کھوکھر کامیاب ہوئے جو رکن قومی اسمبلی افضل کھوکھر کے بھائی ہیں۔راولپنڈی کے قومی اسمبلی کے حلقہ باون میں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر ضمنی انتخاب میں اسمبلی کے رکن بنے جبکہ مانسہرہ کی خالی ہونے والی نشست پر کیپٹن صفدر کے بھائی طاہر علی کو مسلم لیگ نون نے اپنا امیدوار نامزد کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔مسلم لیگ نون کے رہنما رانا تنویر کی طرف سے خالی کی جانے والی قومی اسمبلی کی نشست پر ان کے بھتیجے رانا افضل حسین ضمنی چناو ¿ میں رکن اسمبلی بنے جبکہ پنجاب کے ضلع وہاڑی سے نا اہل ہونے والے نذیر جٹ کی جگہ ان کے بھتیجے اضعر جٹ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کے حاجی ناصرمحمود کے نااہل ہونے کے بعد صوبائی نشست پر ان کے قریبی رشتہ دار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔راولپنڈی شہر کے قومی اسمبلی کا حلقہ پچپن وہ واحد انتخابی حلقہ ہے جہاں دو سال کے دوران دو مرتبہ ضمنی انتخاب ہوچکے ہیں۔ اس حلقے سے جاوید ہاشمی منتخب ہوئے اور انہوں نے اپنے مد مقابل عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو شکست دی تھی۔ تاہم انہوں نے یہ نشست چھوڑ دی جس پرضمنی چناو ¿ میں مسلم لیگ نون کے حاجی پرویز خان رکن اسمبلی منتخب ہوئے تاہم ان کو جعلی تعلیمی ڈگری کی وجہ سے استعفی دینا پڑا اور دوبارہ اس حلقے میں ضمنی انتخاب ہوا اور شکیل اعوان رکن اسمبلی بنے۔اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو کر دوبارہ ضمنی چناو ¿ میں حصہ لینے والوں میں پیپلز پارٹی کے جمشید دستی، مسلم لیگ قاف کے اعظم چیلہ اور اجمل آصف کے علاوہ مسلم لیگ نون کے سردار بادشاہ خان قیصرانی تو کامیاب ہوگئے لیکن مسلم لیگ قاف کی نغمہ مشتاق دوبارہ منتخب نہ ہوسکیں۔اعظم چیلہ، اجمل آصف اور نغمہ مشتاق نے مسلم لیگ قاف کی جگہ مسلم لیگ نون کی ٹکٹ پر انتخاب لڑا۔مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے کاغذات جمع کرائے لیکن انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔ نواز شریف کے علاوہ قانون دان اور سابق وفاقی وزیر چودھری اعتزاز احسن نے عام انتخابات اور ضمنی چناو ¿ کے لیے کاغذات جمع کرائے لیکن وکلا تحریک کی وجہ سے دونوں مرتبہ اپنے کاغذات واپس لے لیے تھے۔ضمنی انتخابات میں شیخ رشید اور پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدر رانا آفتاب نے عام انتخابات میں شکست کے بعد ضمنی چناو میں حصہ لیا لیکن ضمنی انتخابات میں بھی وہ کامیاب نہ ہوسکے جبکہ پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور سابق قائد حزب مخالف قاسم ضیاءبھی عام انتخابات میں لاہور کے صوبائی حلقہ سے کامیاب نہ ہوسکے لیکن ضمنی چناو میں وہ فیصل آباد کے صوبائی حلقے سے منتخب ہوگئے تھے۔اے پی ایس