پاکستانی خاتون صحافی کیلئے آسکر ایوارڈ کی جیت۔چودھری احسن پر یمی




پاکستانی فلمساز شرمین عبید چنوئے نے تیزاب کے حملوں کا شکار افراد پر بنائی گئی اپنی دستاویزی فلم ’سیونگ فیس‘ پر آسکر ایوارڈ جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کر لی ہے کیونکہ اس سے قبل پاکستان کے کسی ہدایتکار کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا۔لاس اینجلس میںگزشتہ اتوار کی شام اکیڈمی ایوارڈ کی شاندار رنگا رنگ تقریب میں آسکر کا اعزاز قبول کرتے ہوئے اپنی تقریر میں شرمین نے اسے پاکستانی خواتین کے نام وقف کر دیا۔”پاکستان کی تمام خواتین جو تبدیلی کے لیے جد و جہد کر رہی ہیں، وہ خواب دیکھنا کبھی مت چھوڑیں، یہ (ایوارڈ) آپ کے لیے ہے۔“آسکر کی تقریب سے قبل دیے گئے انٹرویو میں شرمین نے کہا تھا کہ ان کی دستاویزی فلم کو ملنے والی نامزدگی نہ صرف ان کے لیے ذاتی طور پر بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔”جب پتا چلا کہ آسکر کے لیے نامزد ہوئے ہیں تو بہت خوشی ہوئی پوری ٹیم کو کیونکہ فلم کوئی اکیلا تو بناتا نہیں مگر سب سے زیادہ یہ فخر محسوس ہوا کہ آپ کہیں بھی ہوں، کہیں بھی پلے بڑھے ہوں، کہیں پر بھی کام کر رہے ہیں مگر آپ اچھا کوالٹی کام آگے بڑھائیں گے تو لوگ سراہیں گے اور بین الاقوامی سطح پر آپ کو ایوارڈز ملیں گے۔“دستاویزی فلم کا مختصر خاکہ اور اسے بنانے کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کا خیال ان کے ساتھی ڈائریکٹر ڈینیئل ینگ کے ذہن میں آیا تھا جنھوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر محمد جواد کی زندگی اور پاکستان آکر تیزاب کے حملوں کا شکار ہونے والی خواتین کے علاج کی داستان کو عکس بند کیا جائے۔”میں نے یہ پراجیکٹ دیکھ کر بولا کہ یہ بہت اہم ہے۔ ایک عورت پر ایک دفعہ تیزاب پھینک دیں تو وہ ساری عمر اس کو بھگتتی ہے۔ ڈیڑھ سال لگائے ہیں ہم نے اس فلم پر ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ آسکر تک پہنچے گی لیکن امید تھی کہ اگر ہم اچھا کام کریں گے تو لوگ بین الاقوامی سطح پر سراہیں گے۔“پاکستان کے لئے دستاویزی فلموں میں پہلا آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی شرمین عبید چنائے کراچی میں 1978ءمیں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اسمتھ کالج سے اکنامکس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ۔ بعدازاں اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے انٹرنیشنل پالیسی اسٹیڈیز اور کمیونی کیشن میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔شرمین اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھیں جنہوں نے پڑھائی کی غرض سے غیر ملک (امریکا) کا چناو کیا۔ وہ کہتی ہیں ”بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لئے انہیں اپنے والدین کو تھوڑاسا منانا پڑا۔“انہوں نے صحافت، سیاسیات اور دوسرے علوم بھی پڑھے۔ قابل قدر بات یہ ہے کہ انہوں نے فلم میکنگ کی کہیں سے بھی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ایک مرتبہ جب وہ چھٹیوں پرپاکستان آئی ہوئی تھیں تو انہوں نے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے کیمپس کا دورہ کیا جہاں کی حالت زار دیکھ کر انہیں فلم سازی کا پہلی مرتبہ خیال آیا۔ ”شرمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے سوچا کہ فلم سازی اور خصوصاً دستاویزی فلموں کے ذریعے ہی وہ لوگوں تک اپنی بات زیادہ موثر انداز میں پہنچا سکتی ہیں۔اس خیال کے ساتھ ہی وہ واپس امریکا گئیں اور اپنی کالج انتظامیہ سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔ کالج نے ان کی سوچ اور خیالات کا خیر مقدم کیا اور وہ 2002ءمیں پاکستان آکر فلم سازی کے کام میں جٹ گئیں۔ پہلی دستاویزی فلم کے لئے انہیں ان کے کالج اسمتھ کالج اور نیویارک ٹائمز ٹیلی ویژن پروڈکشن نے ہی فنڈز فراہم کئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ فلم سازی کے لئے آلات اور تربیت بھی انہی دو اداروں نے فراہم کی ۔ان کی فلمیں ”سی این این، سی بی سی ، چینل فور، پی بس ایس فرنٹ لائن ورلڈ ، الجزیزہ“ اور” ایج بی او“ جیسے بڑی ٹی وی چینلز سے دکھائی جاچکی ہیں۔انہیں سن 2010ءمیں فلم ”چلڈرن آف دی طالبان“ کے لئے ایمی ایوارڈ دیا گیا تھا۔وہ پاکستان میں سٹیزنز آرکائیو آف پاکستان نامی ادارے کی بانی ہیں ۔یہ غیر منافع بخش اور رفاعی ادارہ ہے۔ ادارے کا کام بنیادی طور پر تاریخ پاکستان کو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ بنانا ہے۔ وہ فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی صحافی بھی ہیں ۔ وہ اب تک16دستاویزی فلمیں بناچکی ہیں۔ ان کی زیادہ تر فلمیں امریکا اور برطانیہ کے بڑے نیٹ ورکس پر نمائش کے لئے پیش کی گئیں۔ان کی فلموں میں ” چلڈرن آف دی طالبان“، دی لاسٹ جنریشن“، ”پاکستانز ڈبل گیم“ ، ”ٹیررز چلڈرن“ ، ” وومن آف دی ہولی کنگ ڈم“ اور ” افغانستان ان ویلڈ“ شامل ہیں۔”وومن آف دی ہولی کنگ ڈم “سعودی عرب میں رہنے والی خواتین کے متعلق ہے ۔ اس فلم کی شوٹنگ کے لئے سعودی حکومت نے پہلی مرتبہ انہیں اپنی سرزمین پر فلم سازی کی اجازت دی تھی۔انہیں ”سیونگ فیس“ کے لئے آسکر ایوارڈ دیا گیا ہے۔ ”سیونگ فیس“ جنوبی پنجاب میں رہنے والی دو ایسی خواتین ، رخسانہ اور ذکیہ ،کی کہانی ہے جن پر تیزاب پھینکا گیا۔کہانی میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹرمحمد جواد کو پاکستان آکر ایسی خواتین کا علاج کرتے دکھایا گیا ہے جن کے چہرے اور جسم تیزا ب سے جھلسا دیئے گئے۔فلم میں دونوں خواتین کی سسٹم کے ساتھ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کو فوکس کیا گیا ہے۔ ذکیہ راولپنڈی میں مقیم اور پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں ۔ وہی ذکیہ کا کیس لڑتی اور اس کے لئے آواز اٹھاتی ہیں۔ ذکیہ کے چہرے پر اس کے شوہر نے تیزاب پھینکا تھا۔ اسے اس جرم کے لئے جیل جانا پڑتا ہے۔”سیونگ فیس “ کے گونج پاکستان کے ایوانوں تک بھی پہنچی جس کے سبب پارلیمنٹ نے خواتین پر تیزاب پھینکنے کو سنگین جرم قرار دیا اور اس کے حق میں ایک بل بھی پاس کیا۔ اس بل پر عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ شرمین کہتی ہیں کہ دیر سویر سے ہی سہی خواتین کو ان کا حق تو مل سکے گا۔” سیونگ فیس“ کو اسکرایوارڈ کے لئے اکتوبر 2011ءمیں نامزد کیا گیا تھا۔ فلم کی شوٹنگ اسلام آباد، راولپنڈی اور پنجاب کے دیگر مضافاتی شہروں میں کی گئی ہے۔ فلم گزشتہ سال نومبر میں امریکا میں ریلیز ہوئی جبکہ برطانیہ میں یہ اگلے ماہ یعنی مارچ میں ریلیزہوگی۔ اس کے بعد اسے پاکستان میں بھی ریلیز کیا جائے گا۔آسکر ایوارڈ کے لئے امریکہ جانے سے پہلے ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی بھی پاکستان ٹی وی چینل نے ان سے” سیونگ فیس“ دکھائے جانے کے حوالے سے رابطہ نہیں کیا۔شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ سے پہلے متعددقابل ذکر ایوارڈز مل چکے ہیں جن میں ”انٹرنیشنل ایمی ایوارڈ“ ،” لیونگسٹن( Livingston) ایوارڈ فار ینگ جرنلسٹ “(شرمین یہ ایوارڈ جیتنے والی پہلی غیر امریکی شہری ہیں )، ”ساو ¿تھ ایشین ایسوسی ایشن ایوارڈ“،” ون ورلڈمیڈیا جرنلسٹ آف دی ائیر ایوارڈ“، ”ایلکوڈ ڈیو پوائنٹ ایوارڈ “اور” سنے(CINE) گولڈن ایگل ایوارڈ“ شامل ہیں۔شرمین اپنی کامیابی کا سہرا اپنے گھر والوں اورخاص کر والد اور شوہر کی مکمل حمایت اور حوصلہ افزائی کو دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہے مگر ان کے والد کہتے ہیں کہ ان کی پانچ بیٹیاں نہیں، چھ بیٹے ہیں۔شرمین کی تین چھوٹی بہنیں ٹیکسٹائل فرم چلارہی ہیں ۔ یہ ان کے والدکی ملکیت ہے جہاں ان کی بہنیں مردوں کی طرح تمام کام انجام دیتی ہیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بہن کالج میں زیر تعلیم ہے جبکہ ایک بھائی 12 سال کا ہے ۔شرمین کی ایک اٹھارہ ماہ کی بیٹی بھی ہے جس کا نام امیلیا ہے ۔ امیلیا کی دیکھ بھال یا پرورش کے حوالے سے شرمین بتاتی ہیں کہ چونکہ وہ جوائنٹ فملی سسٹم میں رہتی ہیں لہذا ان کی ساس ، ان کے شوہر کی دادی اور باقی تما م افرادان کے ساتھ ساتھ امیلیا کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں ۔ امیلیا اپنی دادی کی سب سے بڑی اور پہلی پوتی ہے لہذا دادی اور نانی دونوں کی طرف سے اسے خوب پیار ملتا ہے ۔شرمین کہانی کار یعنی مصنفہ بھی ہیں ۔ ان کی لکھی پہلی کہانی چودہ سال کی عمر میں شائع ہوتی تھی۔ شرمین کا کہنا ہے کہ میری کہانیوں کا موضوع وہی ہوتا ہے جو اکثر لوگ چھوڑ دیتے ہیں۔ شرمین کا کہنا ہے کہ ان کام معاشرے میں تبدیلی کا سبب بنے گا ان کا کہنا ہے کہ وہ گیارہ سال سے فلم میکنگ میں ہیں ، اب جاکر یہ مقام انہیں ملا ہے ورنہ ان کے پہلے کام کو 80چینلز مسترد کرچکے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کام کو مسترد کرنا حوصلے پست کردینے کے لئے کافی ہوتا ہے مگر انہوں نے اس پر بھی ہمت نہیں ہاری اور تن من سے لگی رہیں۔ اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج وہ کامیابی ان کے قدم چوم رہی ہے۔شرمین کا کہنا ہے کہ وہ ٹائم منیجمٹ پر بہت توجہ دیتی ہیں۔ مصروفیت کے باوجود گھر کا سودا سلف وہ خود لاتی ہیں ، خود پکاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان
میں سنیماہالز دستاویزی فلمیں نہیں دکھاتے ،ہوسکتا ہے جس طرح غیر ملکی فلموں کی پاکستان میں نمائش شروع ہوئی ہے، دستاویزی فلمیں بھی مارکیٹ ہونے لگیں۔ البتہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان کی فلمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ شرمین کے کارنامے سے دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستانی خواتین کس قدر ذہین اور باصلاحیت ہیں۔”شرمین نے دوسرے لوگوں کی طرح پاکستان کے معاشرے کی بدصورتی بیچ کے شہرت کمانے کی کوشش نہیں کی بلکہ امید کی کرن دکھائی ہے۔ تو اچھا پہلو اس کام کا یہ ہے کہ پاکستان کو بدنام نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان میں جو ذی شعور لوگ ہیں ان کے کام کو سامنے لایا گیا ہے۔“ آسکر ایورڈ جیت کر شرمین نے یقینا دیگر نوجوان پاکستانیوں میں اس شعبے میں ایسے ہی کارنامے سرانجام دینے کی ہمت پیدا کردی ہے۔ ”اب دیکھیے شرمین کہیں سے تربیت یافتہ نہیں ہیں انھوں نے اپنی جستجو سے کیا ہے اس لیے راستہ سب کے لیے کھلا ہے اور شرمین کے ایوارڈ لینے سے اور شرمین پہلے ایمی ایوارڈ بھی لے چکی ہیں تو یہ ذرا زیادہ مشہور ایوارڈ ہے تو دنیا کی زیادہ توجہ اس پر آئے گی۔ یقین ہے کہ بہت سے لڑکے لڑکیوں کو نوجوانوں کو بزرگوں کو پرانے لوگوں کو پھر خیال آئے گا کہ بہت سا اچھا کام کیا جاسکتا ہے اور دنیا اس کو پہچاننے کے لیے آمادہ ہے۔“افغانستان اور ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو کے بعد پاکستان دنیا میں خواتین کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے جہاں ہر سال 100 سے زائد افراد پر تیزاب پھینک کر ان کے چہروں کو مسخ کر دیا جاتا ہے۔خاندانی غیرت جیسی دیگر دقیانوسی روایات کے نام پر کیے جانے والے ان حملوں کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت خواتین اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسے جرائم پر دیگر موضوعات کے مقابلے میں بہت کم کھل کر بحث ہوتی ہے۔شرمین کے بقول ان کی دستاویزی فلم میں جن خواتین نے حصہ لیا ہے وہ اپنی آواز کے ذریعے لوگوں کی توجہ اس جرم کی طرف مبذول کروانا چاہتی تھیں۔دستاویزی فلم میں ایک لڑکی اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ 13 سال کی تھی جب اسکول میں اس نے اپنے استاد کو دست درازی کرنے سے روکا اور جس کی پاداش میں بعد میں اس پر تیزاب پھینک دیا گیا۔25 سالہ رخسانہ بھی فلم میں اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہوئے کہتی ہے کہ اس کے شوہر نے اس پر تیزاب پھینکا اور اس کی نند نے اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔صابرہ بی بی بھی تیزاب سے کیے گئے حملوں کا شکار ہونے والی سینکڑوں پاکستانی خواتین میں شامل ہیں، اور وہ محض 15 برس کی عمر میں اس اذیت سے گزریں۔لیکن ان کی خوش قسمتی کہ ڈاکٹر محمد جواد نے دو مرتبہ پلاسٹک سرجری کرکے ان کے چہرے پر آئے زخموں کو کسی حد تک کم کر دیا ہے، اور اب وہ لاہور میں اپنی جیسی خواتین کی مفت پلاسٹک سرجری سے متعلق غیر سرکاری تنظیم اسمائل اگین یعنی ’دوبارہ مسکراو‘ میں نوکری کر رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ”شرمین نے جو کچھ کیا ہے اس سے میری جیسی کئی مظلوم خواتین کا درد کم ہوا ہے ،اور امید ہے کہ اس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی میں مدد ملے گی۔“اسمائل اگین کی سربراہ اور نامور میک اپ آرٹسٹ مسرت مصباح کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں خواتین کو حقوق کی فراہمی اور ان پر ظلم کی روک تھام سے متعلق کی گئی قانون سازی بلا شبہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔”شرمین کو آسکر ایوارڈ ملنے سے (پاکستان میں) متعلقہ حکام پر دباو بڑھے گا کہ وہ ان قوانین پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائیں۔“پاکستانی پارلیمان میں تیزاب کے حملوں میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزائیں دینے کا ایک قانون گزشتہ سال منظور کیا گیا تھا جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے خاصی پذیرائی کی۔نئے قانون کے تحت تیزاب پھینکنے کے جرم کے مرتکب افراد کو کم از کم 14 سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دی جا سکے گی ۔ جبکہ مجرم کو 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔اس جرم کے خلاف سرگرم عمل تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2009ءکے دوران 53 افراد پر تیزاب پھینکنے کے واقعات پیش آئے تھے، لیکن 2011ءمیں ان کی تعداد بڑھ کر 150 ہو گئی۔شرمین متعدد دستاویزی فلمیں (ڈاکیومنٹریز) بنا چکی ہیں اور 2010ءمیں ان کی فلم ”پاکستان: چلڈرن آف دی طالبان“ ایمی ایوارڈ حاصل کر چکی ہے۔وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرمین عبید چنوئے کو پاکستان کے لیے پہلا آسکر ایوارڈ جیتنے پر انھیں ملک کا اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔شرمین عبید چنوئے کا فن و ثقافت کے شعبے میں پاکستان کا نام روشن کرنا ان کے اہل خانہ کے لیے بھی فخر کا باعث بنا ہے، جس کا اظہار انھوں نے کراچی میں ایک نیوز کانفرنس میں کیا۔شرمین کی والدہ صبا عبید کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کا کارنامہ یقیناً پاکستانی خواتین کے مسائل کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔”(آنے والے دنوں میں) پاکستان ایسا ملک ہو گا جہاں خواتین پر تیزاب پھینک کر ان کے چہروں کو مسخ نہیں کیا جا سکے گا۔“امریکہ کی 'اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹس اینڈ سائنسز' نے فلمی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈز 'آسکر' کے لیے نامزدگیوں کا اعلان کیا ۔فیملی ایڈونچر ڈراما 'ہیوگو' 11 نامزدگیوں کے ساتھ سرِ فہرست جبکہ بلیک اینڈ وائٹ خاموش فلم 'دی آرٹسٹ' کو 10 مختلف شعبہ جات میں نامزد کیا گیا ۔بیس بال کے کھیل سے متعلق فلم 'منی بال' اور جنگِ عظیم اول کی ایک کہانی پہ بنی اسٹیون اسپیل برگ کی 'وار ہورس' کو چھ، چھ نامزدگیاں حاصل ہوئیں۔بہترین فلم کے 'آسکر' کے لیے کل نو فلمیں میدان میں آئیں جن میں مذکورہ بالا چار فلموں کے علاوہ فیملی ڈراما 'دی ڈیسنڈنٹس'، شہری حقوق سے متعلق فلم 'دی ہیلپ' ووڈی ایلن کی 'مڈنائٹ ان پیرس'، ٹیرنس ملک کی 'دی ٹری آف لائف' اور 11/9 کے سانحے سے متعلق 'ایکسٹریملی لائوڈ اینڈ انکریڈبلی کلوز' شامل تھیں۔بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی خاموش فلموں کے دور کی عکاسی کرنے والی فرانسیسی فلم 'دی آرٹسٹ' کی کہانی خاموش فلموں کے ایک ایسے اداکار کے گرد گھومتی ہے جس کا فلمی کیریئر بولتی فلموں کی آمد کے باعث تاریک ہوتا جارہا ہے۔جب کہ 'دی ڈیسنڈنٹس' اپنے خان دان کو اکٹھا رکھنے کی کوششوں میں مصروف جزائرِ ہوائی میں بسنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کی بیوی کشتی کے ایک حادثے کے بعد 'کوما' میں چلی گئی ہے۔بہترین اداکار کے 'آسکر' کے لیے کل پانچ امیدوار میدان میںتھے جن میں 'دی ڈیسنڈنٹس' کے جارج کلونی، 'دی آرٹسٹ' کے جین ڈجارڈن، 'منی بال' کے بریڈ پٹ، 'ٹینکر ٹیلر سولجر اسپائے' کے گیری اولڈ مین اور 'اے بیٹر لائف' کے ڈیمین بچر شامل ہیں۔ بہترین اداکارہ کے شعبے میں سرِ فہرست میرل اسٹریپ ہیں جنہیں فلم 'دی آئرن لیڈی' میں برطانوی وزیرِاعظم مارگریٹ تھیچر کا کردار نبھانے پر نامزد کیا گیا ۔فلمی ناقدین ماضی میں دو بار 'آسکر' جیتنے والی اسٹریپ کو اس فلم میں ان کی اداکاری کے باعث پہلے ہی 'آسکر' کے لیے 'ہاٹ فیورٹ' قرار دے چکے ہیں۔ اسٹریپ سب سے زیادہ بار 'آسکر' کی نامزدگی حاصل کرنے والی اداکارہ بھی ہیں جنہیں 17 ویں بار اس اعلیٰ ترین فلمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔اس شعبے میں ان کے مدِ مقابل اداکارائوں میں 'مائے ویک ود مارلن' میں ماضی کی معروف گلوکارہ و اداکارہ مارلن منرو کا کردار اداکرنے والی مشیل ولیمز، 'دی ہیلپ' کی ویولا ڈیوس، 'البرٹ نوبس' کی گلین کلوز اور 'دی گرل ود ڈریگن ٹیٹو' کی رونی مارا شامل ہیں۔بہترین ہدایت کار کے ایوارڈ کے لیے 'دی آرٹسٹ' کے مائیکل ہزاناویشس، 'دی ڈیسنڈنٹس' کے الیگزنڈر پین، 'ہیوگو' کے مارٹن اسکورسیس، 'دی ٹری آف لائف' کے ٹیرنس ملک اور 'مڈنائٹ ان پیرس' کے ووڈی ایلن نامزد کیے گئے ۔حیر ت انگیز طور پر بہترین فلم کے ایوارڈ کے لیے نامزد 'وار ہارس' کے ہدایت کار اور ماضی میں دوبار 'آسکر' جیتنے والے اسٹیون اسپیل برگ اس سال بہترین ہدایت کار کی نامزدگی حاصل نہیں کرپائے ہیں جب کہ گزشتہ برس ریلیز ہونے والی اور 'گولڈن گلوب ایوارڈ' کی فاتح ان کی پہلی اینی میٹڈ فلم 'دی ایڈونچر آف ٹِن ٹن' بھی 'آسکر' کی نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔بہترین اینی میٹڈ فلم کے 'آسکر' ایوارڈ کی دوڑ میں 'اے کیٹ ان پیرس'، چیکو اینڈ ریٹا'، کنگ فو پانڈا2'، 'پس ان دی بوٹس' اور 'رینگو' شامل ہیں۔84 ویں سالانہ 'آسکرز' کے فاتحین کا اعلان 26 فروری کو ہالی ووڈ کے 'کوڈک تھیٹر' میں منعقد ہونے والی تقریب میں کیا گیا۔اے پی ایس