پاک ایران گیس منصوبہ پر امریکی انتباہ مسترد۔چودھری احسن پر یمی



وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ایران سے تجارتی تعلقات کے متعلق امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کی دھمکیوں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایران سے توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھائے گا کیونکہ توانائی کا بحران ختم کرنے کےلئے ایسا کرنا ضروری ہے۔یہ بات انہوں نے اپنے دورہ برطانیہ، روس اور افغانستان کے بارے میں دفترِ خارجہ میں بریفنگ کے دوران بتائی۔انہوں نے ایران سے گیس پائپ لائن بچھانے پر امریکی اعتراضات کو رد کیا اور واضح پیغام دیا کہ پاکستان فیصلہ اپنے قومی مفاد میں کرے گا۔ایران سے تجارتی تعلقات بڑھانے پر امریکی پابندیوں کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ’پابندیاں ہمیں کیسے متاثر کرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جب پل آئے گا تو عبور کرلیں گے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ یکطرفہ پابندیوں پر عمل نہیں ہوگا۔ہم اور دنیا بات چیت سے یہ طے کریں گے اور پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ یہ خطہ ایک اور فوجی کارروائی کی وجہ سے عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا‘۔انہوں نے بتایا کہ امریکہ سے باہمی احترام کی بنیاد پر از سر نو تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس رواں ماہ کے وسط میں بلایا جائے گا۔ ان کے مطابق بارہ مارچ کو نصف سے زیادہ سینیٹ کے نئے اراکین منتخب ہوں گے اس لیے وہی فیصلہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمان جو بھی ’روڈ میپ‘ تیار کرے گی حکومت اس کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے امریکہ سے تعلقات قائم کرنے پر بات کرے گا اور نیٹو کی رسد کی فراہمی کا فیصلہ بھی پارلیمان کرے گی۔امریکی حکام کو پاکستان کے دورے سے روکنے اور امریکی حکام سے ملک سے باہر ملاقاتوں کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس لیے امریکی حکام کو روکا کہ جب تک پارلیمان کوئی حتمی فیصلہ کرے اس کے بعد آئیں۔ ان کے بقول جہاں تک امریکی حکام سے ملک سے باہر ملنے کا تعلق ہے تو وہ ’سائیڈ لائن‘ پر ملاقات ہوئی اور یہ ان کا کام ہے کہ بات چیت کریں۔وزیرِ خارجہ نے کہا کہ بھارت سے تجارتی تعلقات معمول پر لانے سے مسئلہ کشمیر کے معاملے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ان کے بقول تعلقات بہتر ہونے سے تمام متنازعہ مسائل بات چیت سے حل کرنے میں مدد ملے گی۔انہوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کے حوالے سے کہا کہ وہ بھارت سے معمول کے تعلقات کے حامی تھے اور انیس سو سینتالیس سے انیس سو پینسٹھ تک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول کے مطابق رہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ چند برسوں میں بھارت کے ساتھ اعتماد کی فضا پیدا کی ہے جو کہ بہتر تعلقات اور تمام مسائل کے حل کے لیے معنی خیز بات چیت کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’قومی مفاد‘ کا حتمی فیصلہ کابینہ نے کرنا ہے اور بھارت سے معمول کے مطابق تجارتی تعلقات کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا ہے۔ حنا ربانی کھر نے یہ واضح پیغام دیا کہ معاملہ ایران کا ہو یا ہندوستان کا، قومی مفاد کا تعین عوام کی منتخب قوتیں کریں گی۔ ایک موقع پر تو انہوں نے کہا کہ ملک کا قومی مفاد اس کے شہریوں کا ہی قومی مفاد ہوگا۔حنا ربانی کھر نے حال ہی میں پاکستان، ایران اور افغانستان کے صدور کی ملاقات کو خطے کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ تینوں ممالک کا آپس میں تعاون ضروری ہے کیونکہ جو کچھ بھی اس خطے میں ہوگا اس کا نفع یا نقصان سب سے پہلے تینوں ممالک کو ہی ہوگا۔انہوں نے خلیجی ممالک سے آزادانہ تجارت کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس بارے میں خلیجی ممالک کی کونسل سے بات چیت ہو رہی ہے اور اب تک دو دور ہوچکے ہیں۔جبکہ پاکستان نے ایران سے گیس کی درآمد کے مجوزہ پائپ لائن منصوبے سے دور رہنے کے امریکی انتباہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہ اس منصوبے پر کام جاری رکھا جائے گا۔ ایران پاکستان کا ایک قریبی ہمسایہ ہے اور اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان اس کے ساتھ کئی اہم منصوبوں پر کام کر رہا ہے جن میں بجلی کا حصول اور مجوزہ پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس کی درآمد شامل ہے۔ جبکہ ایران کے ساتھ تجارتی روابط کو مضبوط کرنے کے لیے بھی ایک ٹھوس ڈھانچہ تشکیل دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ایک روز قبل امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی طرف سے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے سے گریز کرنے کے انتباہ کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک کسی بھی بیرونی دباو ¿ کو خاطر میں لائے بغیر ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن اور توانائی کے حصول کے تمام منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا کیونکہ یہ ا ±س کے ”ترجیحی قومی مفادات“ کا حصہ ہیں۔”پاکستان ایران کے ساتھ تعاون کو جاری رکھے گا اور اس کے تمام دوست ممالک کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اس وقت توانائی کے ایک سنگین بحران سے دوچار ہے۔ ان حالات میں ہم یہ سوچنے کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ توانائی کہاں سے حاصل کی جائے“۔مزید برآں ان کا کہنا تھا کہ ایران یا کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں پیش رفت کی پالیسی میں پاکستان کسی تیسرے ملک کی سوچ یا ترجیحات کو مدنظر نہیں رکھتا۔امریکہ کی طرف سے چار ملکی ’ٹیپی‘ گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت پر تبصرہ کرتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان تمام منصوبوں پر بیک وقت کام کر رہا ہے۔”یہ کہنا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر ہم نے بہت کم پیش رفت کی ہے تو ٹیپی پر ہم ابھی اس سے بھی پیچھے ہیں کیوں کہ اس (مجوزہ پائپ لائن) کو کئی ملکوں سے گزرنا ہے۔“ٹیپی منصوبے کے تحت ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان کے راستے بھارت تک پائپ لائن بچھانے کی تجویز زیر غور ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کا مکمل انحصار افغانستان میں قائم امن سے مشروط ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کے عمل میں پاکستان کی جانب سے تاخیر کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دو مارچ کو سینیٹ کے انتخابات کے بعد رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا جس میں امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کا تعین کیا جائے گا۔ ”پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے، مگر جب پارلیمان کے 25 فیصد ارکان کا انتخاب ہونا باقی ہو ایسے میں اس قدر اہم موضوع پر دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا“۔اس سے ایک روز قبل امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کرنا پاکستان کے لیے منفی نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکی ایوانِ زیریں کی خارجہ امور سے متعلق فنڈز مختص کرنے والی سب کمیٹی کی سماعت کے دوران ایک کانگریس مین کی طرف سے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پائپ لائن کی تعمیرایران سے تیل و گیس کی تجارت پر پابندی کے امریکی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ اور اگر یہ منصوبہ بات چیت کے مراحل سے آگے بڑھا، تو امریکہ کو مجبوراً اپنے قوانین پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔انھوں نے مزید کہا کہ: ” خصوصاً ، پاکستان کے لیے یہ معاملہ بہت نقصان دہ ثابت ہوگا، کیونکہ اس کی معیشت پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ امریکہ کو مجبوراً پاکستان پر اضافی دباو ڈالنا پڑے گا، جِس سے پاکستان کو مزید معاشی مشکلات لاحق ہو جائیں گی۔”اِس سے پہلے بھی امریکہ پاکستان پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ ایران کے بجائے ترکمانستان کے راستے گیس پائپ لائن بچھانے پر غور کرے۔ امریکی وزیر خارجہ کے مطابق اِس پائپ لائن کے سلسلے میں امریکی پوزیشن پاکستانی حکومت پر واضح کر دی گئی ہے۔قبل ازیں، امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نیولینڈ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے پاکستانی منصوبے کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اِس بیان کا تعلق پاکستان سے کم اور ایران سے زیادہ ہے، کیونکہ، آج کل امریکہ پوری دنیا میں ایران کو تنہا کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ شاید امریکہ ایران کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی، چاہے اِس سلسلے میں امریکہ کو اپنے حلیفوں پر ہی دباو کیوں نہ ڈالنا پڑے۔ اِسی ضمن میں، امریکہ کی طرف سے بھارت پر بھی دباو ڈالا جا رہا ہے کہ ایران سے تیل یا گیس کی کوئی تجارت نہ کی جائے۔اگرچہ، ایران پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بھی کچھ پابندیاں عائد ہیں، لیکن امریکی پابندیاں ان کے علاوہ ہیں۔ اِن تمام پابندیوں کا تعلق ایران کے ایٹمی پروگرام سے ہے۔ امریکہ اور کئی یورپی ممالک کا کہناہے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی
کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ، ایران کا اصرار ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ .امریکی حکومت نے ایران کو اس کی تیل کی منڈیوں سے محروم کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں تاکہ اسے تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے آمدنی سے محروم کیا جاسکے۔واضح رہے کہ ایران دنیا میں خام تیل کا تیسرا بڑا برآمد کنندہ ہے جس کے بڑے خریداروں میں چین، جاپان، بھارت اور یورپی یونین شامل ہیں۔لیکن امریکہ ایران کو ان بڑی منڈیوں سے محروم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کیوں کہ اس کا دعویٰ ہے کہ ایران تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال کر رہا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک دنیا بھر میں موجود اپنے اتحادیوں اور دوستوں کو ایران سے کم سے کم تیل خریدنے اور توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے متبادل ذرائع تلاش کرنے پر آمادہ کرنے میں مصروف ہے۔ترجمان کہتی ہیں کہ ایرانی خام تیل کی عالمی کھپت میں کمی آنے سے تہران حکومت مالی بحران کا شکار ہوگی اور اس پر اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں عالمی برادری کے خدشات دور کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاسکے گا۔لیکن چین کا کہنا ہے کہ ایران سے تیل کی خریداری پر پابندیاں عائد کرنے کا کوئی جواز نہیں کیوں کہ تہران جوہری پروگرام کے مسئلے پر عالمی قوتوں کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہے۔چین کے نائب وزیرِ خارجہ ما زاگڑو کاکہنا ہے کہ ایران جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون بڑھانے اور جوہری تنازع پر چین، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ کے ساتھ معنی خیز مذاکرات کے نئے دور کے آغاز پر آمادگی کا اظہار کرچکا ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ پابندیوں کے نفاذ سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی ایرانی کوششیں تاخیر کا شکار ہوں گی۔لیکن ایران کے پڑوسی ممالک، ترکی اور عراق جوہری تنازع پر بڑھتی ہوئی کشیدگی، ایران پر پابندیوں کے خطے پہ اثرات اور نتیجتاً اپنے ہاں آنے والے ایرانی سیاحوں کی تعداد میں متوقع کمی پر تشویش کا شکار ہیں۔ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد اوغلو کا کہنا ہے کہ ان کا ملک تنازع کا ایسا حل چاہتا ہے جس سے ایران کے حقوق متاثر کیے بغیر خطے کی سلامتی یقینی بنائی جاسکے۔ان کے بقول، ایران کو یہ یقین دہانی کرانی چاہیئے کہ اس کے جوہری پروگرام کے پیچھے کوئی عسکری مقصد کارفرما نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ عالمی برادری کو ایران سمیت کسی بھی ملک کا پرامن جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کا حق تسلیم کرنا چاہیئے۔پاکستان اور ایران نے مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے کو جاری رکھنے کے عزم کو دہراتے ہوئے وہ اس پر کسی بھی طرح کا بین الاقوامی دباو ¿ قبول نہیں کریں گے۔اسلام آباد میں سہ فریقی سربراہ اجلاس کے اختتام پر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ توانائی کا حصول پاکستان کے قومی مفاد میں ہے اور اس موقف کو اب عالمی برادری میں بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔ بحیثیت پڑوسی ایران اور پاکستان اقتصادی ترقی کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔”ہمارے دوطرفہ تعلقات کو کسی بھی طرح کے بین الاقوامی دباو سے نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا ہے۔“ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے بھی اپنے پاکستانی ہم منصب کے موقف کی تائید کرتے ہوئے گیس پائپ لائن منصوبے پر کسی بھی بیرونی دباو کو مسترد کیا۔دونوں ملکوں نے اس موقع پر اپنے سیاسی، اقتصادی اور تجارتی روابط کو وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا جب کہ ایرانی صدر نے پاکستانی ہم منصب کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے جلد پاکستان کا دورہ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔پاکستانی عہدیدار پہلے بھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ ایران سے قدرتی گیس کی درآمد کا یہ منصوبہ ملک توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کی کوششوں میں انتہائی اہم ہے۔سات ارب ڈالر مالیت کے اس منصوبے کے تحت ایران اور پاکستان کو ملانے والی 2,100 کلومیٹر طویل پائپ لائن کے ذریعے روزانہ 70 کروڑ کیوبک فٹ سے زائد قدرتی گیس درآمد کی جائے گی۔دونوں ملکوں کا کہنا ہے کہ پائپ لائن بچھانے کا کام جاری ہے اور 2014ءمیں ایران سے گیس درآمد شروع ہو جائے گی۔ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے تناظر میں اقوام متحدہ کی طرف سے تہران پر پابندیوں کے علاوہ واشنگٹن نے اپنے طور اس ملک کے خلاف تیل اور بینکاری کے شعبے میں اضافی تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔لیکن پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ یہ پابندیاں مجوزہ پائپ لائن کے ذریعے ایرانی سے قدرتی گیس درآمد کرنے کے دوطرفہ منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔اے پی ایس