بغیر گرم جوشی کے پاک امریکہ تعلقات کی بحالی۔چودھری احسن پر یمی




پاکستان کے سیاسی نظام کو درپیش مشکلات اور قومی نوعیت کے کئی مسائل کے باوجود ملک کی پارلیمان اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرتی دکھائی دے رہی ہے۔فروری 2008ءمیں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی اپنے پانچوں سال میں داخل ہو چکی ہے اور صدر آصف علی زرداری نے نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر اپنے رسمی خطاب کے لیے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس 17 مارچ کو طلب کر لیا ہے۔ صدر زرداری اس خطاب میں سال کے لیے رہنما اصول متعین کریں گے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ ایسا ہونے سے آئندہ عام انتخابات میں لوگ جذباتی وابستگی کی بجائے کارکردگی کی بنیاد پر کسی جماعت کے حق یا اس کی مخالفت میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ موجودہ پارلیمنٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور عبوری حکومت کے قیام کے طریقہ کار کی وضاحت کے علاوہ کمپوٹرائزڈ انتخابی فہرستوں کی بنیاد پر ہونے والے آئندہ انتخابات ماضی کے برعکس زیادہ شفاف ہونے کی توقع ہے۔”اپوزیشن اور حکومت مل کر ایک چیز پر متفق ہوئے ہیں اور وہ جو نگران حکومت ہو گی وہ دونوں کی اتفاق رائے سے وجود میں آئے گی اور اتفاق رائے نا ہونے کی صورت میں بھی انھوں نے (طریقہ کار) واضح کر دیا ہے۔ یہ بہت ہی خوش آئند پیش رفت ہے اور اس سے جمہوریت اور آزاد الیکشن کے (انعقاد کے) مقصد کو بہت فائدہ پہنچے گا۔“تاہم بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کسی بھی جمہوری ادارے کے تسلسل کے علاوہ اس کی کارکردگی کا بہتر ہونا بھی ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونے کے لیے ناگزیر ہے۔ بلاشبہ پارلیمنٹ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی جانب رواں دواں ہے لیکن گزشتہ چار برسوں میں مہنگائی اور عام آدمی کو درپیش دیگر مشکلات پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔”اس لیے ہمیں اس پر فخر کرنے کی بجائے غور کرنا ہو گا کہ تسلسل ہونے کے باجود، ہم اپنی ان مصیبتوں اور مشکلات کو کم کیوں نہیں کر سکے۔ اور اس کے جواب میں معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اشرافیہ نے اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لیے ان اداروں کو چلایا ہے، حالات کو درست کرنے کے لیے نہیں۔ “لیکن حکمران پیپلز پارٹی کی قیادت کا موقف ہے کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران آئینی مقدمات اور بعض عناصر کی جانب سے فوج اور حکومت کے درمیان تصادم کی کوششوں نے عوامی مسائل پر توجہ دینے کی حکومتی کوششوں کو متاثر کیا۔وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت کا کہنا ہے کہ صورت حال میں حالیہ دنوں میں بہتری کے بعد آئندہ مالی سال کے بجٹ اور آخری پارلیمانی سال کے دوران اس کی زیادہ توجہ عام آدمی کو درپیش مسائل کے حل پر ہو گی۔تاہم ناقدین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں نئے انتخابات کے لیے سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں اور عوامی مسائل پر توجہ دینے کے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے دعوے انتخابی تیاریوں کا حصہ ہیں۔جبکہ پاکستان کے خارجی محاذ پر درپیش چیلنجز پر’واشنگٹن پوسٹ‘ کے معروف کالم نگار ڈیوڈ اِگنے ٹیس کہتے ہیں کہ سالہا سال کی جذباتی رفاقت کے بعدایسا لگ رہا ہے کہ اس وقت دونوں ملک ایک قدم پیچھے ہٹ گئے ہیں اور باہمی تعلّقات کو قدرے مختلف سمت اور ایک حقیقت پسندانہ دائرہ کار کی طرف لے جانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔پچھلے کئی مہینوں سے لگ رہاہے کہ دونوں اپنے درمیان اس بڑھتے ہوئے فاصلے پر مطمئن ہیں اور پاکستانی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی باہمی تعلّقات کا جائزہ لے رہی ہے۔ گردوغبارچھٹ جانے کے بعدحالات جس معمول پرآئیں گے وہ ’ایک نیا معم ±ول ہوگا، جس میں دونوں فریق پھر سے ایک دوسرے کے تعاون کریں گے۔ لیکن، اس تعاون کی شدّت بھی کم ہوگی اوریہ نظر بھی کم آئے گا‘۔ ’اس مرحلے کی تکمیل کے لئے دونوں طرف سے تین کلیدی امور پرخاموشی کے ساتھ مصالحت کرنی ہوگی۔ یعنی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں، افغانستان کو سرحد تک رسائی اورطالبان کے ساتھ مصالحتی مذاکرات پر اور ان میں سے ہر ایک پر ایک ایسا فارمولہ تلاش کرنا پڑے گا، جس کی بدولت پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ اور امریکہ کے سیکیورِٹی کے مفادات کے درمیان توازن پیدا کرنا ممکن ہو‘۔جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے، پاکستان پہلے ہی ’شمسی ہوائی اڈّے‘ سے امریکی ڈرون طیارے نکال چکا ہے اورامریکہ افغانستان کے اڈّوں سے ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن، حالیہ دنوں میں ان کی تعداد کم ہو گئی ہے، جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ پاکستان کو شکایت کا کم موقع مل رہا ہے۔جہاں تک سرحدی راستے کھولنے کا سوال ہے، پاکستانیوں نے نومبرمیں ان راستوں کو یہ سوچ کر بند کیا تھا کہ یہ ان کا ترپ کا پتہ ہے۔ لیکن، افغانستان میں امریکی فوجوں کورسد پہنچانے کے لئے دوسرا راستہ استعمال کیا گیا ہے جوروس اوراس کے جنوبی پڑوسیوں سے افغانستان جاتا ہے۔البتہ، اس متبادل راستے میں یہ قباہت ہے کہ اس پرزیادہ لاگت آتی ہے اوراس کے ذریعے دس سال سے جمع ہونے والا پرانا سازو سامان نہیں بھیجا جا سکتا۔ اس کا امکانی حل یہی ہے کہ پاکستان یہ راستے دوبارہ کھولے اوراس کی فیس وصول کرے اور آمدنی کا نیا ذریعہ پیدا کرے۔ اس سے پہلے بھی ان گذر گاہوں سے پاکستان کو روزانہ دس لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی تھی ۔ڈیوڈ اگنے ٹیس کا کہنا ہے کہ امریکہ ایک سال سے خاموشی کے ساتھ طالبان قیادت کے ساتھ رابطے میں رہا ہے۔اور وہ قطر میں طالبان کے ایک دفتر قائم ہونے پر تیار ہو گیا۔ لیکن اس پر ابھی پاکستان کا ردّعمل واضح نہیں ہے۔افغانستان میں امن کے عمل پر’واشنگٹن ٹائمز‘ میں اشیش کمار سین رقمطراز ہیں کہ اس کے کلیدی فریق یعنی امریکہ، پاکستان، افغان صدر اور طالبان کے درمیان اعتماد کے فقدان کی وجہ سے یہ عمل ڈگمگا رہا ہے اوباما انتظامیہ نے کوشش کی تھی کہ منصوبے کے مطابق2014کے آخر تک فوجیں ہٹانے سے قبل ہی طالبان کے ساتھ جنگ ختم ہو جائے۔ لیکن، باہمی شکوک کی وجہ سے یہ کوششیں تعطّل کا شکارمعلوم ہوتی ہیں۔چنانچہ، مغرب کی حامی کابل حکومت کے ساتھ طالبان کی صلح کرانے میں ناکامی کی وجہ سے افغانستان بھی اسی طرح خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے،جس طرح امریکی فوجیں ہٹائے جانے کے بعدعراق میں ہوا ہے۔مضمون نگار کا کہنا ہے کہ امن کی کوششیں اس وجہ سے بھی خطرے میں پڑگئی ہیں کیونکہ، امریکہ نے طالبان کے اس مطالبے پر کوئی قدم نہیں اٹھایا کہ ان کے پانچ قیدیوں کو گوانتانوبے سے قطر منتقل کیا جائے۔ ادھر، افغان عہدہ داروں کا کہنا کہ اگر امن کے عمل کی کامیابی یقینی بنانا مقصود ہے تو پھریہ عمل افغان قیادت میں ہونا چاہئے۔ ایک افغان عہدہ دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اب تک طالبان کے ساتھ بات چیت کی نوعیت تحقیقی تھی۔اور یہ ضروری ہے کہ بات چیت صحیح لوگوں کے ساتھ ہو۔جبکہ امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی کے بعد افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں جنرل اسلام کی طرف سے ایک اہم کردار ادا کرنے کا امکان ہے. اخبار کے مطابق آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی تعیناتی امریکا کے ساتھ تعلقات کے اس اہم موڑ پر پاک فوج میں اہم تبدیلی کا اشارہ ہے.آئی ایس آئی کے نئے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام 18 مارچ کو لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی جگہ لیں گے. آئی ایس آئی کاسربراہ پا ک فوج میں اور کچھ حلقوں کے خیال میں ملک کی دوسری طاقت ور شخصیت ہے. اگرچہ آئی ایس آئی وزیر اعظم کو باضابطہ رپورٹ کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کنٹرول میں ہے امریکا کے ساتھ ایجنسی کی حالیہ برسوں میں ہنگامہ خیز تعلقات میں جن کے جنرل پاشا کے ساتھ گہرے مراسم تھے . آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے مابین تاریخ میں سب زیادہ کشیدہ تعلقات کا سال 2011 رہا. ریمنڈ ڈیوس،ایبٹ آباد میں اسامہ آپریشن اور مائیک ملن کا طالبان کو آئی ایس آئی کوبازو قرا ر دینا کشیدگی کی بڑی وجوہ تھیں. تاہم آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے تعلقات کی تعمیر نو کے لئے گزشتہ ماہ خاموشی کے ساتھ کام کیا ہے اور دونوں ممالک کے حکام کا کہنا ہے کہ تعلقات بحال ہو رہے ہیں. اخبار کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ جنرل اسلام کی پہلی ترجیح واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی بہتر ی ہوگا. 26نومبر کو چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد عملی طور پر منجمند ہوچکے تھے.اخبار کے مطابق رواں ماہ پاکستا نی پارلیمنٹ کے خصوصی مشترکہ اجلاس میں امریکی تعلقات کے متعلق نئی پالیسی پر بحث کی جائے گی. تاہم ان شک وشبہات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کے بنیادی خدوخال کا حتمی فیصلہ جنرل کیانی اور جنرل اسلام صدر آصف علی زرداری کے ساتھ مشاورت کے ساتھ کریں گے. ممکنہ طور پر ان تعلقات میں ڈرونز حملے رکاوٹ ثابت ہوں گے.اخبار کے مطابق حالیہ برسوں میں آئی ایس آئی کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے، پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں نے 2007 سے آئی ایس آئی کے درجنوں اہلکاروں کو ہلاک کرد یا گیا۔اے پی ایس