سینیٹ الیکشن: سیاسی سرمایہ کاری اب خدمت کی بجائے کاروبار۔چودھری احسن پریمی



حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید نیر حسین بخاری اور صابر بلوچ پارلیمان کے ایوانِ بالا کے نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں۔ان دونوں اراکین نے سیکرٹری سینیٹ کے پاس ان عہدوں کے لیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے تھے اور گزشتہ پیر کو ہی ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ نیر بخاری اور صابر بلوچ کے مقابلے میں کسی اور جماعت نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا اس لیے وہ بلامقابلہ ہی اپنے عہدوں پر منتخب ہوئے ہیں۔ان کی کامیابی کا باضابطہ اعلان گزشتہ پیر کی سہ پہر سینیٹ کے اجلاس میں کیا گیا جس کے بعد اجلاس کی صدرات کرنے والے سینیٹر افراسیاب خٹک نے نیر بخاری سے اور بعد ازاں نیر بخاری نے ڈپٹی چیئرمین صابر بلوچ سے حلف لیا۔نیر بخاری موجودہ چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک جبکہ صابر بلوچ نائب چیئرمین جان محمد جمالی کی جگہ لیں گے اور ان کے عہدے کی مدت تین سال ہوگی۔اس سے قبل گزشتہ پیر کی صبح سینیٹ کا خصوصی اجلاس افراسیاب خٹک کی صدارت میں شروع ہوا تو پارلیمان کے ایوان بالا کے نو منتخب چوّن ارکان نے حلف اٹھایا۔حلف اٹھانے کے بعد ان ارکان نے باری باری ‘رول آف ممبرز‘ پر دستحظ کیے۔ دستخط کے لیے پہلے عبدالحفیظ شیخ کو اور آخر میں سردار ذوالفقار کھوسہ کو بلایا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید سرخ رومال گلے میں ڈال کر ایوان میں آئے۔ان چوّن اراکینِ سینیٹ میں اقلیتی نشستوں پر منتخب ہونے والے چار سینیٹرز بھی شامل ہیں جن کا انتخاب اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔اسی اجلاس میں سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے محمد اسحٰق ڈار کو اپوزیشن لیڈر بنانے پر بھی اتفاق ہوا۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ نواز سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔خیال رہے کہ دو مارچ کو ایوانِ بالا کے انتخابات میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی انیس نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ سرفہرست رہی تھی اور ان انتخابات کے بعد سینیٹ میں اس کے ارکان کی تعداد اکتالیس ہوگئی ہے۔ اجلاس کے موقع پر سینیٹ کی گیلریاں پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں اور انہوں نے بھرپور انداز میں تالیاں بجائیں اور’شیروں کا شکاری، زرداری، خطروں کا کھلاڑی زرداری، اگلی باری پھر زرداری اور زرداری تیرا ایک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا‘ جیسے نعرے لگائے۔ایوان میں نعرہ بازی پر مسلم لیگ (ن) کے سید ظفر علی شاہ نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ ایوان کی توہین ہے تاہم کارکنوں نے نعرے بازی کا سلسلہ جاری رکھا جس پر ظفر علی شاہ احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔بعد ازاں چیف وہپ اسلام دین شیخ نے کارکنوں کو نعرے بازی سے منع کیا لیکن اس کے باوجود بھی وقفہ وقفہ سے نعرے لگتے رہے۔ کچھ مواقع پر سکیورٹی اہلکار نعرے لگانے والوں کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں نعرہ بازی روکتے رہے۔سندھ سے نو منتخب سینیٹر سعید غنی نے حلف اٹھانے کے بعد جب روسٹرم پر دستحظ کرنے گئے تو انہوں نے وہاں بھی جیے بھٹو کا نعرہ لگادیا۔سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے بعد مولانا عبدالغفور حیدری، بابر غوری، فرحت اللہ بابر، حاصل بزنجو، مظفر شاہ، حاجی عدیل، جہانگیر بدر، چوہدری شجاعت حسین اور دیگر نے نو منتخب سینیٹرز، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ پورے ایوان نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو منتخب کیا ہے۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ سینیٹ کے انتخاب سے پہلے الیکشن رکوانے کے لیے سازشیں ہوئیں لیکن صدر آصف علی زرداری نے بردباری اور حوصلے سے کام لیا اور الیکشن کروائے جس پر وہ انہیں مبارکباد دیتے ہیں۔ پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ کی چون نشستوں پر انتخاب کے بعد حکمران پاکستان پیپلز پارٹی انیس نشستیں جیتنے کے بعد ایوان میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ایک سو چار نشستوں والے سینیٹ میں مجموعی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی اکتالیس نشستیں ہوگئی ہیں جبکہ حکومتی اتحادی جماعتوں کی تعداد ستر ہوگئی ہے اور یوں انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ بلوچستان میں دھاندلی کے الزامات کے بعد پانچ مارچ کو دوبارہ گنتی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور حتمی صورتحال اس کے بعد ہی سامنے آئے گی۔سینیٹ کی پہلے ایک سو نشستیں تھیں لیکن اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے پہلی بار ایوان بالا میں اقلیتوں کے لیے ہر صوبے سے ایک ایک یعنی کل چار نشستیں مختص کی گئیں اور اب سینیٹ کے اراکین کی مجموعی تعداد ایک سو چار ہوگئی۔آئین اور قانون کے مطابق جو چار اقلیتوں کے اراکین منتخب ہوئے ہیں ان کی قرعہ اندازی کے ذریعے یہ طے کیا جائے گا کہ ان میں سے کن دو سینیٹرز کی مدت چھ سال ہوگی اور کن دو کی تین سال ہوگی۔ایک سو چار اراکین والے سینیٹ میں فاٹا کے آٹھ اراکین سمیت آزاد اراکین کی تعداد بارہ ہوگئی ہے جبکہ بانوے سینیٹرز کا تعلق نو سیاسی جماعتوں سے ہے جس میں پیپلز پارٹی کے اکتالیس، مسلم لیگ (ن) کے چودہ، عوامی نیشنل پارٹی کے بارہ، متحدہ قومی موومیٹ اور جمیعت علماءاسلام (ف) کے سات سات، مسلم لیگ (ق) پانچ، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) چار، مسلم لیگ (ف) اور نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے۔سینیٹ میں پہلے تیرہ سیاسی جماعتیں تھیں لیکن اب نو رہ گئی ہیں۔ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی شیرپاو ¿، جمہوری وطن پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی سینیٹ سے نمائندگی ختم ہوگئی ہے۔شیر پاو ¿ کے علاوہ باقی تینوں جماعتوں نے سنہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات کا میاں نواز شریف کے ہمراہ ’آل پارٹیز ڈیموکریٹک الائنس‘ کے پلیٹ فارم سے بائیکاٹ کا فیصلہ تھا لیکن آصف علی زرداری کی درخواست پر میاں نواز شریف کی جماعت نے عین وقت پر بائیکاٹ کا فیصلہ ختم کرکے انتخاب میں حصہ لیا اور دیگر نے نہیں لیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے بظاہر سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ف) کو ایک ایک نشست کا تحفہ دیا ہے جو کہ مستقبل کے سیاسی تعاون کے لیے ان کی ایک لحاظ سے سیاسی سرمایہ کاری لگتی ہے کیونکہ وہ دوسری بار بھی صدرِ پاکستان منتخب ہونا چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوئی شخص دو بار صدر منتخب ہوگا۔پیپلز پارٹی نے پنجاب میں غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ایک نشست کھو دی ہے جہاں مسلم لیگ (ق) فارورڈ بلاک کے محسن لغاری کامیاب قرار پائے اور پیپلز پارٹی کے کارکن محمد اسلم گِل غیر متوقع طور پر ہار گئے۔انہیں دوسری ترجیح کے ووٹ نہ مل پائے۔ پیپلز پارٹی کے لاہور کے بعض رہنما اس کا ذمہ دار بابر اعوان کو قرار دے رہے ہیں اور ان کے خلاف جلوس بھی نکالا لیکن صدر آصف علی زرداری نے سرزنش راجہ ریاض کی ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے سینیٹ الیکشن میں ووٹ کا استعمال کیسے کرنا ہے؟خود پیپلز پارٹی کی قیادت نابلد نظر آئی ایک روز قبل گورنر ہاو ¿س میں تمام لیڈر شپ کے اجلاس میں کوئی حکمت عملی سمجھ نہ آ سکی تو راجہ ریاض راجہ پرویز اشرف امتیاز صفدر وڑائچ کو الیکشن کمیشن بھیجاگیاوہاں تکنیکی مشاورت بھی کام نہ آ سکی اور پیپلز پارٹی محسن لغاری کے ترجیحی ووٹوں کے ہاتھوں ایک کنفرم سیٹ سے محروم ہوگئی۔پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق سینیٹ انتخابات میں اسلم گل کی شکست پر ابتدائی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے جس کے مطابق پارٹی کو 6ارکان پر شک ہے جن کا تعلق ناہید خان گروپ سے بتایا جاتا ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے ووٹ نہ دینے والے مشکوک ارکان سے حلف لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اپنے جن اراکین اسمبلی پر شک ہے ان میں رعنا رضوی، ثمینہ ناہید، رانا بابر، نشاط ڈاہا، جاوید علاو ¿الدین اور عبدالرحمن شامل ہیں۔ ادھر گورنر پنجاب نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس سے محسن لغاری کے معاملے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی ذرائع نے مزید بتایا کہ بعض ممبران نے اپنے حلقے کے ایم این اے سے ناراضی باعث ووٹ نہ دیا۔ پارٹی نے رانا بابر کو دبئی میں خصوصی طیارہ بھجوانے کی بھی پیشکش کی تاہم رانا بابر نے واپس آنے سے انکار کر دیا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق میجر (ر) عبدالرحمن مسلم لیگ (ن) سے رابطوں میں رہے۔ پارٹی ذرائع نے مزید بتایا کہ بعض نے اپنے حلقے کے ایم این اے سے ناراضی کے باعث ووٹ نہ دیا۔ نشاط ڈاہا پر شک کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے پارٹی رہنما کو ووٹ نہیں دیا۔ نشاط ڈاہا کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ چند دن پہلے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سے ملاقات کر چکے تھے۔ تاہم ان رہنماو ¾ں نے الزامات کو مسترد کر دیا ۔ اس ضمن میں رعنا رضوی کے خاوند ابن رضوی کا کہنا ہے کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے اور ان کی اہلیہ نے اسلم گل کو ہی ووٹ دیا ہے۔ پارٹی کے بعض قائدین اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے اس طرح شک کرتے رہے۔ اسلام آباد میں پنجاب میں سینیٹ میں پارٹی شکست کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس بھی بلایا گیا۔ ادھر گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا کہ جس نے پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل کو ووٹ نہیں دیا اس نے بینظیر بھٹو سے غداری کی۔ لاہور میں کانفرنس سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو میں گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے بھی اسلم گل کو ووٹ نہ دینے والوں کو غدار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں تحقیقات جاری ہیں اور وفاداری بدلنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔صدر آصف علی زرداری نے سینیٹ الیکشن میں ہارنے والے پارٹی کے سینئر رہنما اسلم گل کو فون کرکے ان کی شکست پر اظہار افسوس کیا۔ صدر نے کہا کہ میں خود آپ کی افسوسناک شکست پر بہت افسردہ ہوں۔ پنجاب اسمبلی میں بدترین ہارس ٹریڈنگ اور غداروں نے ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے، آپ فکر نہ کریں ہم اس کی مکمل تحقیقات کریں گے اور وفاداریاں بدلنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ اسلم گل نے صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ نے مجھے ٹکٹ دے کر عزت افزائی کی۔ صدر نے اسلم گل سے کہا کہ میں بہت جلد آپ سے ملاقات کروں گا۔اسلم گل کی سینیٹ الیکشن میں شکست کے خلاف پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے لاہور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ کارکنوں نے وفاداریاں بدلنے والے ارکان پنجاب اسمبلی کے خلاف زبردست نعرے لگائے اور صدر آصف زرداری، فریال تالپور اور اسلم گل سے اظہار یکجہتی کیا۔ کارکنوں نے ڈاکٹر بابر اعوان اور راجہ ریاض کے خلاف بھی نعرے لگائے اور انہیں اسلم گل کی شکست کا ذمہ دار قرار دیا۔ مظاہرے میں پیپلز پارٹی لاہور کے نائب صدر اجمل ہاشمی، سیٹھ بشیر، کاظم شاہ، مانی پہلوان اور دیگر بھی شریک تھے۔ پیپلز پارٹی لاہور کے نائب صدر اجمل ہاشمی نے کہا کہ بابر اعوان اور راجہ ریاض کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہوا۔ انہوں نے ذاتی مفاد کے لئے پارٹی کو برباد کر دیا۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب سے سینیٹ الیکشن میں اسلم گل کی شکست کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اس ضمن میں فریال تالپور نے 10سینیٹر ارکان پنجاب اسمبلی کا اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا جنہیں سینیٹ الیکشن کے لئے مختلف گروپوں کا انچارج بنایا گیا تھا جن ارکان کو بلایا گیا ان میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض پارلیمانی لیڈر میجر (ر) ذوالفقار گوندل قاسم ضیاءشوکت بسرا تنویر اشرف کائرہ شاہ رخ ملک شامل ہیں اس سلسلہ میں سرگرمیوں اور ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ اکٹھا کر لیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے رہنما اسلم گل نے سینیٹر محسن لغاری کے انتخاب کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اس مقصد کے لئے سینیٹر بیرسٹر اعتزاز احسن سے مشاورت بھی مکمل کر لی گئی تھی ۔ محسن لغاری نے مسلم لیگ (ن) کی مدد سے آزاد حیثیت میں سینیٹ کی نشست جیتی ہے سینیٹ کے انتخاب کے بعد جمیعت علماءاسلام (ف) نے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ کھو دیا ہے اور یہ عہدہ اب مسلم لیگ (ن) کو مل گیا ہے اوراب اسحٰق ڈار سینیٹ کے نئے اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔آصف علی زرداری نے سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ف) کو ایک ایک نشست کا بظاہر تحفہ دیا ہے۔موجودہ سینیٹ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کی اتنی بڑی تعداد یعنی اکتالیس نشستیں ملی ہیں اور آئندہ انتخابات میں سینیٹ میں ان کی افرادی قوت نئے سیاسی سیٹ اپ میں پیپلز پارٹی کی ’بارگیننگ پوزیشن‘ کو بھی مضبوط بنائے گی۔ بالفرض اگر پیپلز پارٹی آئندہ سیاسی سیٹ اپ سے اگر باہر بھی ہوگئی تو نئی حکومت کے لیے پیپلز پارٹی ایک مضبوط اپوزیشن ہوگی۔بصورت دیگر اگر موجودہ حکومتی اتحاد برقرار رہتا ہے تو مسلم لیگ (ن) کے لیے مستقبل کے حکومتی سیٹ اپ میں سیاسی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اگر کوئی معجزہ ہوجائے تو وہ اور بات ہے لیکن ایسا نہ ہونے کی صورت میں ان کے پاس پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے آپشن ہی بچتے ہیں۔جبکہ سینٹ الیکشن کے امیدوار کو کامیاب کرانے کیلئے ایم پی ایز کے ووٹ خریدنے کے خلاف سپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی نے چیف الیکشن کمشنر کو تحریری درخواست دے کر بے مثال قدم اٹھایا ۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی نے اپنی درخواست میں لکھا کہ سید عبدالقادر گیلانی کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے ووٹ خریدنے کیلئے 650 ملین روپے دینے کے اعلان کا نوٹس لیا جائے اور ووٹ کے بدلے بھاری رقم دینے پر ایم پی اے کے خلاف فوری کارروائی کی جائے، کیونکہ ووٹ خریدنے کا یہ اقدام صریحاً شفاف الیکشن اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رولز کیخلاف ہے۔ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ سینٹ الیکشن کی 45 نشستوں کیلئے بھاری رقوم دی گئیں ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے سپیکر کی طرف سے الیکشن کمیشن کی توجہ دلانے کا یہ ایک اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف بلوچ کو کامیاب کرانے کیلئے ووٹ خریدے گئے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست ہیں۔ یہ پتہ بھی چلا ہے کہ یوسف بلوچ کیلئے ہر قیمت پر ووٹ خریدنے کا کام پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر میر صادق عمرانی اور صوبائی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی مدد جائک کے سپرد کیا گیا ۔ اس سلسلے میں محمد اسلم بھوتانی نے صوبائی چیف الیکشن کمشنر کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو درخواست لکھنے کی تصدیق کی جس میں انہوں نے عبدالقادر گیلانی کی پریس کانفرنس کے بارے میں لکھا ہے جس میں انہوں نے لسبیلہ کے حلقے کیلئے 650 ملین روپے ترقیاتی فنڈز دینے کا کھلم کھلا اعلان کیا۔ جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک درمیانے درجے کی ٹیکسٹائل مل کے قیام پر 50 کروڑ روپے لاگت آتی ہے جبکہ سینیٹ کی ایک سیٹ پر 65 کروڑ لگتے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے ایک ایم پی اے کی بولی مبینہ طور پر 5 کروڑ روپے لگی ہے، اس طرح سینیٹ کی نشست کیلئے 40 کروڑ روپے بنتے ہیں، 2 مارچ نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مثلاً پی پی سینیٹ میں واحد اکثریتی پارٹی بن گئی ہے، دوسرا یہ کہ پاکستانی سیاست اب ملک اور ووٹرز کی خدمت سے زیادہ کاروبار بن گئی ہے۔ تیسرا یہ کہ خیبر پختونخوا اسمبلی نے صنفی امتیاز پیدا کرتے ہوئے ایک مرد رکن صوبائی اسمبلی کیلئے 2کروڑ اور خاتون رکن اسمبلی کیلئے 50 لاکھ روپے قیمت مقرر کی۔ دو ماہ سے زائد عرصے سے پی پی کے بڑے رہنماو ¿ں نے یہ الزام لگایا تھا کہ سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو مل کر سینیٹ انتخابات موخر کرنے کی سازش کر رہے ہیں لیکن پی پی اس حوالے سے غلط ثابت ہو گئی۔ پی پی اس وقت نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ سینیٹ میں بھی واحد اکثریتی پارٹی ہے۔ گزشتہ چار سال میںپاکستان سینیٹ نے سالانہ 13 بل پاس کئے جبکہ راجیہ سبھا نے سالانہ 44 بل پاس کئے۔ پاکستان سینیٹ نے ہر اجلاس میں اوسطاً 3.2 گھنٹے جبکہ ان کے بھارتی ہم منصبوں نے 4.2 گھنٹے گزارے۔ 2010-11ءمیں سینیٹ آف پاکستان میں 2503 سوالات اٹھائے گئے جن میں سے صرف 874 کے جوابات دیئے گئے۔ 157 ممالک کی قومی پارلیمان پر مشتمل انٹر پارلیمانی یونین نے پاکستانی سینیٹ کو مجموعی طور پر 44 نمبر دیئے ہیں۔ آئی پی یو سینیٹ کی نمائندگی، قانون سازی کی صلاحیت، سینیٹ کی موثریت اور خارجہ پالیسی کے عمل میں شمولیت کے امور کا جائزہ لیتی ہے۔ واضح طور پر انتخابی نظام کام کر رہا ہے نہ اس کا کوئی فائدہ رہا ہے اور جب تک بڑی اصلاحات پر عملدرآمد نہیں ہو جاتا، یہ نظام پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ جہاں تک پاکستان سینیٹ کا تعلق ہے تو ”بڑے کاروبار“ کو روکنا ہوگا اور اس کا تیز تر طریقہ تمام سینیٹرز کا براہ راست انتخاب کرانا ہے۔ اگر سینیٹ اصلاحات جو سینیٹ کو بااختیار بنا دیں گی اور وفاق کو مضبوط بنائیں گی، ان میں منی بل کو سینیٹ سے منظور کرانا اور ملکی یا غیر ملکی سرحدوں پر فوجی آپریشنز کی پیشگی منظوری حاصل کرنا شامل ہے۔ سینیٹ کے یہ کامیاب انتخابات جن پر تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھرپور اعتماد اور انتخابات میں مکمل تعاون کا مظاہرہ کیا گیا بلاشبہ جمہوریت کے استحکام اور کامیابی کی جانب جہاں ایک مثبت پیش رفت ہے وہاں صوبوں کی نمائندگی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نہ صرف صوبوں کی محرومیوں اور وفاق سے ان کی شکایات کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ جمہوریت محض انتخابی عمل کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو حکومت، سیاست اور سیاست دانوں پر عوام کے اعتماد کو تقویت دیتا ہے اور آئینی اور قانونی طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد ایک اچھی مثال ہے لیکن اس کے بعض پہلو آج بھی توجہ طلب ہیں۔ پی پی پی کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ اسلم گل کی شکست کی بنیادی وجہ اور اس کے پس پردہ عوامل کیا ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کو اقبال جھگڑا کی ناکامی کا بھی حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ہو گا۔ جہاں تک ق لیگ کے محسن لغاری کی طرف سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے اور کامیاب ہونے کا تعلق ہے تو یہ ان کی سیاسی صلاحیتوں پر دلالت کرتا ہے۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ ایوان کی بحث میں حصہ لیتے اور سوالوں کے مثبت جواب دیتے رہے جو ان کی دور اندیشی اور سیاسی بصیرت پر دلالت کرتا ہے۔ ان انتخابات نے جہاں پارٹیوں کی پوزیشن واضح کر دی ہے وہاں انتخابی نظام کی جانب مزید ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔ جمہوری عمل سے اس انتخابی مرحلے کی تکمیل بلاشبہ قابل مبارکباد ہے۔ حکمران جماعت اس کے اتحادیوں اور باقی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس انتخابی عمل میں خوشی و مسرت اور اطمینان کا اظہار بلاشبہ باعث اطمینان ہے۔ اگرچہ بعض نتائج غیر متوقع نظر آتے ہیں اور بعض قابل ذکر سیاستدانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن بہرحال یہ بھی جمہوریت کا حصہ ہے بلکہ بقول شخصے یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں حکومت کی کارکردگی اور اعتماد پر بھروسہ بڑھنے سے کارکردگی میں مثبت اور نتیجہ خیز تبدیلی محسوس کی جانی چاہئے سب سے اہم مسئلہ عوام کے بنیادی مسائل کا ہے کہ حکومت عوام سے کئے گئے وعدوں اور اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے میں اب کوئی رکاوٹ محسوس نہ کرے۔ عوامی مسائل کی طرف بھرپور توجہ دے تاکہ جمہوریت کا دوسرا مرحلہ یعنی عام انتخابات کا انعقاد بھی عوامی توقعات اور ملکی و قومی مفادات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہونے کا ایک واضح تاثر پیش کر سکے تمام انتخابی مراحل خوش اسلوبی سے طے ہو سکیں اس کے لئے خود حکومت کو ایک لائحہ عمل بنا کر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔ اے پی ایس