افغان عوام غیر ملکی قبضے سے عاجز۔چودھری احسن پر یمی




گزشتہ دنوں ایک امریکی فوجی کے ہاتھو ں 16 افغان شہریوں کی افسوسناک ہلاکت پر افغان امریکی تعلقات کو چکرا دینے والا دھچکہ پہنچا ہے ۔ ایک سفارتی تباہی اور ایک دلدوز انسانی سانحہ قرار دیا جاسکتاہے۔بلکہ صدر حامد کر زئی کے اس الزام کے بعدکہ یہ سب کچھ ارادتاً کیا گیا ہے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ نہ صرف اس بات کی بھر پور تحقیقات کی جائے کہ یہ کیسے ہوا بلکہ اس کی بھی کہ ایسا کیوں ہونے دیاگیا۔ا مریکی فوجی کی اس حرکت کی طرح ہونے والے ہر ایسے واقعہ کے بعد افغان حکومت کی نگاہ میں امریکی وقار کو دھچکہ پہنچتا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کو بڑی مایوسیوں کا سامنا رہا ہے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ افغان عوام دس سال کے غیر ملکی قبضے سے عاجز آ چکے ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ قبضہ جلد سے جلد ختم ہو بلکہ اس وجہ سے بھی کہ امریکی عوام کی اکثریت اب یہ باور کرتی ہے کہ افغانستان کی جنگ نے نہ صرف ان کی توقّع سے کہیں زیادہ طول پکڑا ہے۔ بلکہ اس میں کامیابی بھی نہیں ہوئی ہے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والے امریکی اور اتّحادی فوجوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔ جب کہ ملک میں ایک سِوِ ل معاشرے کی تعمیر نہائت ہی سست رہی ہے۔ اور کابل کی حکومت کرپشن اور نا اہلی کا شکار ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سول ہلاکتوں کی طرح کی افسوسناک وارداتیں ناگزیر ہو جاتی ہیں ۔ جب فوج اتنی طویل مدت سے بر سر پیکار ہو۔ کامیابی کی امید ہی نہ ہو ۔ اور بہت زیادہ فوجیوں کو بار بارمیدان جنگ میں بھیجا جائے۔ اور کچھ نہ سہی اس سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنا مشن رفتہ رفتہ ختم کرنے میں حق بجانب ہے اور اسے یہ عمل جلدی لیکن ذمّہ داری اور انسان دوستی کے ساتھ مکمّل کرنا چاہئے۔ اوباما انتظامیہ کی کوشش ہے کہ سنہء2014 تک نیٹو کی ذمہ داریوں کو افغان فوجوں کو سونپ دی جائیں ، لیکن ان تازہ ہلاکتوں کی وجہ سے افغان اور امریکی فوج کے مابین مزید تناو ¿ بڑھ جائےگا اور مسٹر اوباما کی وہ حکمت عملی بھی متاثّر ہوگی۔ جس کے تحت افغان فوجیں اپنے امریکی رفقائے کار سے جنگی فرائض سنبھالیں گی۔ افغانستان کا مسئلہ مسٹر اوباما کی عوامی مقبولیت کی ایک اہم علامت بن گیا ۔ جب سپیشل اوپریشنز فورس نے اوسامہ بن لاد ن کے خلاف کامیاب کاروائی کی۔ لیکن اگر کشیدگیاں اسی طرح بڑھتی رہیں تو یہ مسٹر اوبا ما کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی راہ میں روکاوٹ ثابت ہوگا۔ امریکہ کو اس تازہ واقعے سے ماورا دیکھنا پڑے گا۔ اور اسے اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ اس کی رواں پالیسی محض ایک دکھاوا بنتی جا رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے حالات مزید ابتری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتّحادیوں نے ، سنہ 2014 تک مکمل طور پر تربیت یافتہ اور سازو سامان سے لیس افغان فوج کو ذمہ داریاں سونپنے کی جو حکمت عملی بنائی ہے۔ اس کے لئے نہ وقت ہے، نہ پیسہ اور نہ تربیت دینے والا عملہ۔قندھار میں امریکی فوجی کے ہاتھوں کم از کم 16 افراد کی ہلاکت کی وجہ سے امریکہ کی ان کوششوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں ، جو اس طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لئے جاری ہیں۔ اور ایک امریکی اڈے پر قرآن کی بے حرمتی کے بعداس واقعے سے واشنگٹن اور کابل کے مابین تناومیں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے۔ افغان قانون ساز پہلے ہی مطالبہ کر چکے ہیں۔ کہ ملزم کے خلاف مقدّمہ افغان سرزمین پر چلایا جائے۔جس کا امکان نہیں کیونکہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجی براہ راست امریکی عمل داری میں ہیں۔ یہ واقعہ پہلے ہی امریکی سیاسیات پر اثر انداز ہو چکا ہے اورایک ری پبلکن صدارتی امّیدوار نیوٹ گِنگرِچ نے افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک ٹیلی وژن انٹر ویو میں کہا کہ ا مریکی جانیں ایک ایسے مشن کے لئے خطرے میں ڈالی گئی ہیں جس کا حصول شائد ممکن نہیں۔ قرآن کی بے حرمتی کے واقعے کے بعد طالبان سے کہیں زیادہ حکومت کے حامی ارکانِ پارلیمنٹ نے غیر ملکی فوجوں کے خلاف کشیدگی کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی ۔ بلکہ بعض نے جہاد کا نعرہ بلند کیا۔ خود طالبان نے وقت ضائع کئے بغیر قندھار کی ہلاکتوں کی مذمّت کرتے ہوئے ایک ایک شخص کا قصاص لینے کا عہد کیا۔ 16افغان شہریوں کی ہلاکت پر غم و غصّے کے تناظر میں امریکہ کو اس جنگ سے عوام کی اکتاہٹ کا سامنا ہے۔ امریکہ اس ملک میں جو کچھ حاصل کرنے چاہتا ہے۔ اس ملک کے عوام کی بھاری اکثریت یعنی 55 فی صد باور کرتے ہیں۔ کہ افغانستان کے بیشتر لوگ اس کے خلاف ہیں۔ 54 فی صد چاہتے ہیں کہ امریکی فوجوں کو اس ملک سے افغان فوج کو خود کفیل بنانے کے اس فرض پورا کئے بغیر ہی واپس آ جانا چاہئے۔ جو صدر اوبامہ کی حکمت عملی کا ایک ستون ہے ۔اس جائزے سے ظاہر ہے کہ بیشتر ڈیموکریٹ اور آزاد خیال لوگ تو بہت عرصے سے اس جنگ سے عاجز آچکے ہیں ۔ لیکن اب ری پبلکن بھی ا س بات پر تقریباً برابر برابر بٹے ہوئے ہیں۔کہ دس سال سے جار ی اس جنگ کو جاری رکھنے کا کوئی فائدہ ہے۔ری پبلکن صدارتی امید واروں میں نیوٹ گنگرچ اور ران پال افغانستان سے امریکی فوجیں ہٹا نے کے لئے تیار ہیں۔ البتہ سابق گورنر مِٹ رامنی اور سابق سینیٹر رِک سینٹورم کا موقّف اس کے برعکس ہے اور انہوں نے مسٹر اوبامہ کے 2014 تک اس ملک سے فوجیں واپس لانے کی مخالفت کی ہے ۔ جو چیز پہلے صدر کے لئے سیاسی طاقت کا ذریعہ مانی جاتی تھی۔ وہی اب نومبر کے آتے آتے کہیں ان کے لئے گھاٹے کا سودا نہ بن جائے۔یہ حقیقت ہے کہ ساٹھ فی صد امریکی محسوس کرتے ہیں۔ کہ اس جنگ میں جتنی انسانی جانیں ضا ئع ہوئی ہیں اور اس پر جتنا بھاری خرچ اٹھا ہے۔ اس کے ماحصل سے اس کا جواز نہیں بنتا۔ اور تسلسل کے ساتھ امریکی عوام کی اکثریت نے اس جنگ کی مخالفت کی ہے۔اے پی ایس