جوہری تحفظ کانفرنس۔چودھری احسن پر یمی



جنوبی کوریا میں ہونے والی دو روزہ جوہری تحفظ کانفرنس میں دنیا کو سب کے لیے محفوظ بنانے کیلئے سخت محنت کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، سئیول میں جوہری تحفظ کا نفرنس میں 53 ممالک کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تمام ممالک کوجوہری دہشت گردی کے خطرے کے خلاف مل کر مضبوط کارروائی کرنا ہوگی اور انتہائی افزدہ یورنیم کے سول استعمال کو کم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا.اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چار سال کے اندر تمام ایٹمی مواد کو محفوظ بنایا جائے جس میں عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب اہم کردار ہونا چاہیے.جوہری دہشت گردی عالمی تحفظ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے. جس سے نمٹنے کے لیے مضبوط اقدامات، سیاسی ، اقتصادی ، سماجی اور نفسیاتی بنیادوں پرعالمی تعاون کرنے ہوں گے. شمالی کوریا اور ایران کا جوہری پروگرام اجلاس میں زیر بحث نہیں لایا گیا۔جبکہ امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں تخفیف کے لیے ”سنجیدہ اور مسلسل“ کوشش کرنی چاہیئے۔جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں جوہری تحفظ سے متعلق سربراہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے متنبہ کیا کہ ”برے عناصر“ کی بڑی تعداد اب بھی جوہری مواد کی تلاش میں ہے اور کئی مقامات پر یہ خطرناک مواد تاحال غیر محفوظ ہے۔”اس مواد کی بہت تھوڑی مقدار ہزاروں معصوم افراد کو ہلاک کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں، یہ وہ حقیقت ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔“مسٹر اوباما نے امریکہ کی میزبانی میں دو برس قبل واشنگٹن میں ہونے والی پہلی سربراہ کانفرنس کے بعد جوہری تحفظ سے متعلق پیش رفت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ اجلاس میں شریک ممالک کی تعداد بڑھ کر 50 سے زائد ہو گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ پیش رفت بین الاقوامی برادری کو جوہری توانائی کا پرامن مقاصد کے لیے ”محفوظ اور موثر“ استعمال جاری رکھنے کا موقع فراہم کرے گی۔ جبکہ امریکہ کے صدر براک اوباما نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ مہینوں میں پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات تناو کا شکار رہے ہیں اور دونوں ملکوں کو اس شراکت کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بات انھوں نے جنوبی کوریا کی میزبانی میں جوہری تحفظ کے سربراہ اجلاس کے موقع پر سیول میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ہونے والی ملاقات سے قبل صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کہی۔صدر اوباما نے کہا کہ وہ پاکستانی پارلیمان میں پاک امریکہ تعلقات پر نظرثانی کے عمل کا خیر مقدم کرتے ہیں کیوں کہ دونوں ملک دہشت گردی کا خاتمہ اور اقتصادی ترقی چاہتے ہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ ان معاملات پر بلا تکلف، تعمیری اور شفاف انداز میں مذاکرات دونوں ملکوں کے لیے بہت اہم ہیں۔صدر اوباما نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ پارلیمان میں نظر ثانی کے عمل میں متوازن سوچ اپنائی جائے گی جس میں پاکستان کی خود مختاری کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی اور امریکہ پر دہشت گرد حملہ کرنے والوں کے حوالے سے امریکی خدشات کا بھی احترام کیا جائے گا۔اس موقع پر وزیراعظم گیلانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کا عزم کر رکھا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرح پاکستان بھی افغانستان میں سیاسی مفاہمت کے عمل کی حمایت کرتا ہے۔دونوں رہنماوں کے درمیان ملاقات کے بعد امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان بن روڈز نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں جانب سے بات چیت میں خوش آئندہ پیش رفت ہوئی ہے کیوں کہ طرفین کو براہ راست ایک دوسرے کا موقف جاننے کا موقع ملا ہے۔امریکی صدر براک اوباما نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان پارلیمان کی سفارشات کی روشنی میں تعلقات کا از سر جائزہ لیتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے خدشات کو مدنظر رکھے۔جنوبی کوریا میں جوہری ہتھیاروں کے تحفظ سے متعلق جاری اجلاس کے دوران صدر براک اوباما اور پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ملاقات کے بعد امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ایسے توازن کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کی خود مختاری کی عزت بھی ہو لیکن امریکہ کے قومی سلامتی کے خدشات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ امریکی صدر نے کہا کہ ایسے دہشتگرد جنہوں نے ماضی میں امریکہ کو نشانہ بنایا ہے ان سے لڑنا امریکہ کی مجبوری ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ دونوں ملکوں کو اپنے تعلقات کے حوالے سے کھلے ذہن کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ کچھ عرصے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔گزشتہ برس پاکستان میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد دونوں ملکوں کے مابین یہ سب سے اعلیٰ سطح کا رابطہ ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان دہشتگردوں کے خلاف لڑنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے اور ایک مستحکم پاکستان کے لیے پرامن، خوشحال اور خود مختار افغانستان انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی امن و استحکام کے لیے پاکستان اور افغانستان دونوں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ وہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کے حوالے سے پاکستانی پارلیمنٹ کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ’ہمارے لیے ضروری ہے کہ ایسا توازان پیدا کیا جائے جس میں پاکستان کی خود مختاری کا احترام کیا جائے لیکن امریکی کے سکیورٹی خدشات کو بھی ذہن میں رکھا جائے‘۔اس سے قبل امریکی صدر نے جوہری دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون بڑھانے کا مطالبہ کیا۔جنوبی کوریا میں جوہری ہتھیاروں سے تحفظ سے متعلق اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر جوہری ہتھیار دہشت گرد گروہوں کے ساتھ لگ جاتے ہیں تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔ان کا کہنا تھا ’اب بھی بہت سے شر پسند عناصر جوہری مواد کی تلاش میں ہیں اور اس کے لیے بہت زیادہ مواد نہیں چاہیے۔ مٹھی بھر مواد بھی لاکھوں معصوم لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔ ‘امریکی صدر کا کہنا تھا کہ مزید ممالک بھی اس صورتِ حال کے خلاف عملی اقدمات کے لیے آگے بڑھے ہیں۔’اس اجلاس کے نتیجے میں مزید معاہدے کیے جائیں گے اور ہمارے مزید لوگ جوہری دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ ہو جائیں گے۔‘امریکی صدر نے مزید کہا کہ’یہ وہ چیلنجز ہیں جو پوری دنیا کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتے ہیں اور ان سے صرف اسی صورت میں نمٹا جا سکتا ہے جب ہم بین الاقوامی برادری کی طرح کام کریں۔‘اجلاس سے قبل امریکی صدر براک اوباما اور چینی صدر ہو جنتاو ¿ کی ملاقات میں چین اور امریکہ نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ اگر شمالی کوریا نے متنازع راکٹ لانچ کے منصوبے پر کام جاری رکھا تو وہ دونوں کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب مربوط طریقے سے دیں گے۔شمالی کوریا نے کہا ہے کہ دور مار کرنے والا میزائل سیٹیلائٹ لے کر جائے گا۔امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ لانچ ایک میزائل کا تجربہ ہے اور اس طرح اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔یہ راکٹ لانچ اپریل میں متوقع ہے۔ایک امریکی اہلکار نے کہا ہے کہ صدر ہو جنتاو نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ اس تنازعے کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور انہوں نے شمالی کوریا کے رہنماوں کو اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے۔اس سے قبل امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر کم کرنے کے لیے تیار ہے۔یہ بات انہوں نے جوہری مواد اور ہتھیاروں کے تحفظ کے بارے میں، جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں ہونے والے سربراہ اجلاس سے قبل کہی۔انہوں نے شمالی کوریا اور ایران سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ جوہری پروگرام ترک کر دیں اور تصادم سے گریز کریں۔اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم بھی شرکت کی ہے ۔صدر اوباما نے کہا کہ اگرچہ امریکہ کو اپنے دفاع کے لیے جوہری ہتھیاروں کی ضرورت ہے لیکن اِنہیں کم کرنا ممکن ہے جس کے لیے روس کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔اجلاس کے دوران صدر براک اوباما اور بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کی بھی ملاقات ہوئی انہوں نے کہا ’ہم روس کے ساتھ ایسے اقدامات کے بارے میں مذاکرات کریں گے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں کیے۔ ہم اپنے سٹریٹجِک جوہری ہتھیاروں کے ذخائر کم کرنے پر بات کریں گے۔ میں مئی میں صدر پیوتن سے ملاقات میں، ان کے سامنے یہ پیشکش رکھوں گا۔ یورپ میں میزائل کا دفاعی نظام بھی ایجنڈے میں شامل ہو گا اور میرے خیال میں یہ معاملہ، تنازعے نہیں بلکہ تعاون کے لیے اٹھایا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر، اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر کم کر سکتے ہیں۔‘جوہری تحفظ کی دوسری سربراہی کانفرس جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں ہوئی۔اس کانفرس میں امریکہ، روس، چین، جرمنی اور فرانس سمیت پچاس سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کی ہے۔اس کانفرس میں توجہ دہشت گردوں یا شدت پسند تنظیموں کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے پر مرکوز تھی۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی سیول پہنچے جہاں انہوں نے امریکی صدر براک اوباما سمیت دیگر عالمی رہنماو ¿ں سے ملاقاتیں کی ہیں ۔جوہری تحفظ کانفرنس پہلی بار دو ہزار دس میں منعقد ہوئی۔ امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے کروائی گئی اس کانفرنس کا ہدف یہ رکھا گیا تھا کہ چار سال کے اندر تمام ایٹمی مواد کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔اس سمت میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن یہ ترقی سست رو ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ دو ہزار دس میں ہونی والی پہلے جوہری تحفظ کی کانفرنس میں ابتدائی ہدف واضح نہیں تھا اور نہ اس کے لیے کوئی منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔سیول کانفرنس میں ایسے تابکار مادوں پر بھی بات ہوئی ہے جن کا استعمال سخت گیر ’ڈرٹی بم‘ بنانے کے لیے کر سکتے ہیں۔ وہ بم جو تابکاری پھیلاتا ہے لیکن اس میں دھماکہ نہیں ہوتا۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سول کانفرنس میں کچھ ٹھوس کامیابی ملنے کے آثار کم ہیں۔پاکستان کو جوہری توانائی کے محفوظ استعمال سے متعلق چار دہائیوں پر محیط تجربے کی بنیاد پر اسے اس پیچیدہ ٹیکنالوجی تک ”بلا امتیاز“ رسائی کا حق حاصل ہے۔ جوہری سلامتی کے موضوع پر جنوبی کوریا میں ہونے والے بین الاقوامی سربراہ اجلاس میں وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی شرکت نے ’سیول نیوکلیئر سمٹ 2012ء‘ میں پاکستان کے اس اصولی موقف کو دہرایا ہے۔”پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے انتہائی محفوظ انداز میں جوہری توانائی سے بجلی کی پیداوار کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور اس کے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت کے علاوہ ان تنصیبات کے تحفظ کا ایک مربوط نظام بھی موجود ہے اس تجربے کی بنیاد پر جوہری ٹیکنالوجی کے ”بلا تعصب“ حصول کے لیے پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ اور اس جیسے دیگر بین الاقوامی اداروں کی رکنیت کا اہل ہے۔وزیرِ اعظم گیلانی سربراہ اجلاس کے افتتاحی عشائیے سے خطاب بھی کیا جس میں عالمی رہنماو ¿ں کو پاکستان کی جوہری تنصیبات کے تحفظ سے متعلق اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔سال 2006ءمیں امریکہ اور بھارت کے مابین سول نیوکلیئر تعاون کے معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان بھی اس ٹیکنالوجی تک رسائی کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت جوہری توانائی اور دیگر متبادل ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں اضافے کی کوششوں پر بھی بھرپور توجہ دے رہی ہے۔اس اجلاس کا مقصد جوہری مواد اور تنصیبات کو دہشت گرد گروہوں سے لاحق خطرات سے محفوظ بنانے کی کوششوں اور عالمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔اس سے قبل جوہری سلامتی سے متعلق پہلا سربراہ اجلاس اپریل 2010ءمیں واشنگٹن میں ہوا تھا۔جبکہ اسلام آباد میں جنوبی کوریا کے سفارت خانے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کسی ملک کی نشاندہی کیے بغیر کہا گیا کہ سیول کانفرنس میں غیر قانونی جوہری منصوبوں کے ذریعے ریاستوں کی طرف سے اس ٹیکنالوجی کے پھیلاو کا معاملہ زیر بحث نہیں آئے گا۔”البتہ توقع ہے کہ سربراہان مملکت اجلاس کے دوران مختلف موقعوں پر شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے غیر مسلح کرنے، اصلاحات ... اور کوریائی خطے میں امن کی حمایت کا مطالبہ کریں گے۔“اے پی ایس