مضحکہ خیز امریکی اعلان۔چودھری احسن پر یمی




لشکر طیبہ کے بانی رہنما حافظ محمد سعید کی گرفتاری سے متعلق امریکی اعلان کے ردعمل میں پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ امریکہ کو دو پاکستانیوں کا قاتل ریمنڈ ڈیوس جس نے سر عام دو معصوم پاکستانیوں کا قتل کیا ہے وہ نظر نہیں آتا لیکن حافظ محمد سعید جس کے بارے میں کسی قسم کے کوئی بھی ایسے شواہد نہیں لیکن امریکہ اس کی گرفتاری کیلئے انعامی رقم کا اعلان کرتا پھر رہا ہے۔اس بارے مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ ابھی تک نیٹو سپلائی نہ کھولنے پر امریکہ پاکستان پر مختلف حیلے بہانوں سے اپنا سیاسی دباو بڑھانا چاہتا ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔جبکہ کالعدم لشکر طیبہ کے بانی رہنما حافظ محمد سعید کی گرفتاری سے متعلق امریکی اعلان کا گزشتہ کئی روز سے مقامی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں چرچا ہے مگر امریکی وزارتِ خارجہ کے اعلامیے کا بغور جائزہ لینے والے بعض ناقدین نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ اس بارے میں میڈیا میں شائع ہونے والی زیادہ تر خبریں اصل تحریر کی عکاس نہیں ہیں۔ان ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی اعلامیے میں بالواسطہ طور پر یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ حافظ سعید کے خلاف اب تک ایسے کوئی ٹھوس شواہد دستیاب نہیں ہیں جن کی بنیاد پر ممبئی حملوں سمیت دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی میں ملوث ہونے کے شبہے میں ا ±نھیں گرفتار کرکے کامیاب مقدمہ چلایا جا سکے۔امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کی گئی سرکاری تحریر میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ”حافظ محمد سعید کے بارے میں ایسی معلومات کی فراہمی پر ایک کروڑ ڈالر نقد انعام دیا جائے گا جو اسے گرفتار کرنے یا پھر عدالت سے سزا دلوانے میں مدد دے سکیں۔“مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تحریر میں لشکر طیبہ کے بانی رہنما کے ٹھکانے سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا تقاضا نہیں کیا گیا ہے جب کہ ذرائع ابلاغ نے اکثر خبریں اس کے برعکس شائع کی ہیں۔البتہ ان کا کہنا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے اعلامیے میں زیادہ سنجیدہ تحریر کالعدم لشکر طیبہ کے نائب سربراہ حافظ عبد الرحمٰن مکی سے متعلق ہے کیونکہ اس میں 20 لاکھ ڈالر کی انعامی رقم ایسی معلومات کے عوض دینے کا وعدہ کیا گیا ہے جن سے اس کی قیام گاہ تک پہنچنے اور گرفتاری میں مدد ملے۔”بیس لاکھ ڈالر تک کی انعامی رقم ایسی معلومات کی فراہمی پر دی جائے گی جو لشکر طیبہ کے نائب سربراہ کی موجودگی کے مقام تک رہنمائی کر سکیں۔“مبصرین کا ماننا ہے کہ بظاہر ”حقائق کے برعکس“ میڈیا کی انہی خبروں کو بنیاد بنا کر حافظ سعید نے امریکی اعلان کو ”مضحکہ خیز“ اور خود کو انعامی رقم کا ”حقدار“ قرار دیا ہے۔لیکن پاکستان کے سیاسی اور فوجی قائدین کو شاید امریکی اعلان کے بارے میں کوئی ابہام نہیں، اس لیے حکام نے حافظ سعید کو نیوز کانفرنس کرنے سے نہیں روکا۔ یہ پیش رفت اسلام آباد کے سرکاری موقف کا اعادہ بھی کرتی ہے کہ حافظ سعید کے خلاف ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی تک وہ ایک آزاد پاکستانی شہری ہیں۔ دفتر خارجہ میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان عبد الباسط نے بھی انعامی رقم سے متعلق ایک روز قبل واشنگٹن میں جاری کیے گئے امریکی وضاحتی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے حافظ سعید کے خلاف پاکستانی سرزمین پر کسی ممکنہ امریکی کارروائی کے خدشات کو رد کیا۔ ا ±نھوں نے کہا کہ امریکی اعلان خود پاکستان کے لیے بھی تعجب انگیز ہے۔”اب اگر یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ نقد انعام کا مقصد مزید معلومات اور شواہد کا حصول ہے تو میرے خیال میں اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ خود امریکہ کے پاس بھی ان دونوں افراد کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔“حافظ سعید لشکر طیبہ کے بانی ہیں جسے امریکہ نے 20 دسمبر 2001ءکو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اس پاکستانی رہنما نے بھارتی شہر ممبئی میں اس چار روز تک جاری رہنے والے دہشت گرد حملے کی منصوبہ سازی میں بھی حصہ لیا تھا جس میں چھ امریکی شہریوں سمیت 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔”سعید اور اس کی تنظیم دہشت گردی کی ترغیب دینے والے نظریے کا پرچار، امریکہ، بھارت، اسرائیل اور دیگر تصوراتی دشمن ملکوں کے خلاف سخت زہریلی بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔“امریکی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں حافظ سعید کی تاریخ پیدائش 5 جون، 1950ءاور جائے
پیدائش صوبہ پنجاب بتائی ہے، جبکہ آج کل وہ لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔لشکر طبیہ کے اس بانی رہنما کا نام انفرادی حیثیت میں 10 دسمبر 2008ءکو اقوام متحدہ کی القاعدہ کے خلاف تعزیرات سے متعلق کمیٹی کی فہرست میں بھی یہ کہہ کر شامل کیا گیا تھا کہ حافظ سعید دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے وابستہ ہے۔ان کے نائب حافظ عبد الرحمٰن کو لشکر طیبہ کے سیاسی امور سے متعلق شعبے کا سربراہ بتایا گیا ہے کہ جو ماضی میں تنظیم کے خارجہ تعلقات کے شعبے کی قیادت بھی کر چکے ہیں اور مالی وسائل اکٹھے کرنے میں مدد کرتے رہے ہیں۔”انھوں نے 2007ء کے اوائل میں دہشت گردی کے ایک تربیتی مرکز کے لیے تقریباً دو لاکھ اڑتالیس ہزار ڈالر جبکہ تنظیم سے جڑے ایک مدرسہ کو ایک لاکھ پینسٹھ ہزار ڈالر فراہم کیے تھے۔“پنجاب ہی سے تعلق رکھنے والے مکی کا سن پیدائش 1948ءکے آس پاس بتایا گیا ہے۔”ان دونوں شخصیات کے بارے میں مطلوبہ معلومات کے حامل افراد کی ہم حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ کسی قریبی امریکی سفارت خانے یا کونسل خانے، کسی امریکی فوجی کمانڈر یا پھر انعامی رقوم دینے والے وزارت انصاف کے متعلقہ دفتر کی ویب سائیٹ، یا پھر بذریعہ ڈاک رابطہ کریں۔“انعامی رقوم کے اس امریکی منصوبے کے تحت اب تک دس کروڑ ڈالر ان 70 سے زائد افراد میں تقسیم کیے جا چکے ہیں جنھوں نے دہشت گردوں کو جیل بھیجوانے یا پھر دنیا بھر میں بین الاقوامی دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کے لیے ٹھوس معلومات فراہم کیں۔پاکستان میں 40 سے زائد اسلامی تنظیموں، دائیں بازو کی جماعتوں اور شخصیات پر مشتمل ایک اتحاد نے حافظ محمد سعید کی گرفتاری میں مدد پر نقد رقم کے امریکی اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف جمعہ کو ملک گیر یوم احتجاج کا اعلان کیا۔دفاع پاکستان کونسل نامی اتحاد کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے دیگر قائدین بشمول حافظ سعید کے ہمراہ راولپنڈی میں بدھ کو ایک ہنگامی نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی اقدام پر حکومت کی خاموشی کو ”قابل مذمت“ قرار دیا۔امیر جماعت الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی طرف سے حالیہ اعلان ”انتہائی مضحکہ خیز“ ہے۔”میرا دل چاہتا ہے کہ امریکیوں سے یہ کہہ دوں، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے کہ تم کسی کو کیوں انعام دینا چاہتے ہو یہ انعام مجھے دے دو۔ میں تمہیں روزانہ بتا سکتا ہوں ہر وقت میں فون کے ذریعے رابطے میں ہوں۔ لاکھوں اور ہزاروں کے مجمع کو ہم روزانہ خطاب کرتے ہیں۔“مولانا سمیع الحق نے کونسل کے قائدین کے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے کی تفصیلات صحافیوں کو پڑھ کر سنائیں۔”اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کر کے دفاع پاکستان کونسل کو نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے سلسلہ میں جاری جدوجہد سے روکنے میں کامیاب ہو جائے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک میں مداخلت کر کے قومی رہنماوں کی گرفتاری کے سلسلے میں نقد رقم کے اعلانا ت کرتا پھرے۔“ سمیع الحق نے کہا کہ کونسل طے شدہ شیڈول کے مطابق پشاور، کوئٹہ، مظفرا باد اور دیگر شہروں میں اپنے جلسے منعقد کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ نے حافظ سعید کے خلاف فیصلہ بھارت کے دباو میں آکر کیا ہے۔”حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ وہ کسی قسم کے بیرونی دباو کا شکار نہ ہو۔ صدر پاکستان (آصف علی زرداری) 8 اپریل کو دورہ بھارت احتجاجاً منسوخ کر دیں بصورت دیگر ان کے اس دورے کے خلاف بھی پر امن احتجاج کیا جائے گا۔“مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ممبئی حملوں کے بعد بھارت کی جانب سے حافظ محمد سعید کے خلاف ہزاروں صفحات پر مشتمل مبینہ ثبوت پاکستان کے حوالے کیے گئے اور انہیں ممبئی حملوں میں ملوث کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔”پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے تمام تر بھارتی الزامات مسترد کرتے ہوئے حافظ محمد سعید کو ہر قسم کے الزامات سے بری قرار دیا اور اپنے فیصلوں میں واضح طور پر لکھا کہ جماعت الدعوة کالعدم تنظیم نہیں ہے۔ حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت کو پاکستان میں ہر قسم کی رفاہی، فلاحی اور تبلیغی سرگرمیوں کی مکمل آزادی حاصل ہے۔“امریکہ نے پاکستان کی کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے بانی حافظ محمد سعید کی گرفتاری میں مدد دینے پر ایک کروڑ ڈالر انعام مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس تنظیم پر بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں نومبر 2008ءمیں کی گئی دہشت
گردی کی اس کارروائی کی منصوبہ بندی کا الزام ہے جس میں 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔لشکر طیبہ کے نائب امیر حافظ عبد الرحمٰن مکی کی گرفتاری پر بھی 20 لاکھ ڈالر انعامی رقم مقرر کی گئی ہے۔حافظ سعید ان دنوں پاکستان کی ایک اسلامی تنظیم جماعت الدعوة کے امیر ہیں جو حکام کے بقول ایک فلاحی ادارہ ہے۔ لیکن مبینہ طور پر یہ کالعدم لشکر طیبہ کا نیا نام ہے۔پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے امریکی حکومت کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ حافظ محمد سعید کو صوبائی حکومت نے گرفتار کیا تھا لیکن شواہد کی عدم دستیابی پرعدالت نے ان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔”حکومت کے پاس اس وقت بھی ایسے کوئی شواہد نہیں جن کی بنیاد پرجماعت الدعوة کے امیر کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دوبارہ گرفتار کیا جاسکے۔“صوبائی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ ماسوائے ایک اسکول اور اسپتال کے پنجاب حکومت نے جماعت الدعوة کی تمام تنصیبات کو بہت پہلے بند کردیا تھا۔”اسکول کے نصاب اور اسپتال کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ درس و تدریس اور غریب مریضوں کے علاج معالجے کے علاوہ وہاں کوئی مشتبہ کام نہیں ہو رہا تھا، اور یہ ہی رائے سامنے آئی کہ ان سہولتوں کو بند کرنے سے عام لوگوں میں اس تنظیم (جماعت الدعوة) کے لیے ہمدردی بڑھے گی۔“جبکہ سینیٹر مشاہد حسین نے امریکی فیصلے کو قانونی نہیں بلکہ سیاسی قرار دے کر مسترد کیا ہے۔”حافظ سعید مفرور نہیں ہیں اور نا ہی ان کے خلاف پاکستان یا امریکہ میں کوئی مقدمہ درج ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے ان کو رہا کر دیا تھا۔ دلچسپت بات یہ ہے کہ امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے اچانک اس فیصلے کا اعلان دہلی میں کیا جو پاکستانی عوام کے لیے باعث حیرت بنا ہے۔“مشاہد حسین نے کہا کہ امریکہ کو چاہیئے تھا کہ وہ ایسا فیصلہ کرنے سے قبل پاکستان سے رجوع کرتا کیوں کہ حافظ سعید پاکستانی شہری ہیں۔”دہلی میں اس قسم کا اعلان کرنے سے واضح ہو گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے جسے امریکہ میں متحرک ہندوستان کی لابی کو کامیابی ملی۔“سینیٹر مشاہد نے مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت حافظ سعید کے معاملے میں قانونی راہ اختیار کرے۔”کیوں کہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کچھ طالبان رہنماو ¿ں کے نام بھی اس فہرست میں شامل کیے گئے تھے لیکن اب یہ نام خارج کر دیئے گئے ہیں کیوں کہ امریکی اب طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں“۔جماعت الدعوة کے سربراہ کی حیثیت سے حافظ سعید پاکستان میں آزادانہ جلسے جلسوں سے خطاب کرنے کے علاوہ نجی ٹی وی چینلز پر مباحثوں میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔ان کی گرفتاری پر انعامی رقم کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور یہ پیش رفت صورت حال کو مزید پیچیدہ کرسکتی ہے۔پاکستان کا موقف ہے کہ ممبئی حملوں میں کردار ادا کرنے کے شبے میں سات مشتبہ انتہا پسندوں پر ملک میں مقدمہ چلایا جارہا ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں حافظ سعید کے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں۔ جماعت الدعوة کے امیر کی گرفتاری پر مقرر کی گئی انعامی رقم افغانستان میں طالبان باغیوں کے مفرور رہنما ملا محمد عمر کے سر کی قیمت کے برابر ہے۔بھارتی اخبار ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ نے کہا ہے کہ حافظ سعید کے سر کی قیمت کا اعلان معاون امریکی وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے نئی دہلی کے دورہ کے موقع پر کیا۔جماعت الدعوة کے امیر حافظ سعید کی گرفتاری کے لیے امریکہ کی جانب سے انعامی رقم کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشیدگی شکار ہیں اور پارلیمان میں دوطرفہ رابطوں پر نظرثانی کا عمل جاری ہے.حافظ سعید نے امریکی فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ نیٹو سپلائی لائنز کی ممکنہ بحالی کے خلاف ان کی ملک گیر مہم کی پاداش میں امریکہ نے ان کے خلاف یہ کارروائی کی ہے۔ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں انھوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت ہیں تو امریکی حکام انھیں منظر عام پر لائیں۔پاکستان نے تنظیم لشکر طیبہ کے بانی حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھی حافظ عبدالرحمٰن مکی کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے امریکہ سے”ٹھوس شواہد“ کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔وزارتِ خارجہ نے اپنے باضابطہ ردعمل پر مبنی بیان اس امریکی اعلان کے ایک روز بعد جاری کیا ہے جس میں حافظ سعید کی گرفتاری میں مدد دینے پر ایک کروڑ ڈالر کی انعامی رقم کا وعدہ کیا گیا تھا۔اپنے ایک مختصر بیان میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان اس معاملے پر عوامی بحث میں الجھنے کی بجائے قانونی کارروائی کے لیے ٹھوس شواہد کی وصولی کو ترجیح دے گا۔”پاکستان جیسے ایک جمہوری ملک میں جہاں عدلیہ آزاد ہے کسی (مشتبہ) شخص کے خلاف ثبوت اس قابل ہونے چاہیئں کہ وہ عدالتی معیار پر پورے اتر سکیں۔“ادھر وفاقی وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے بھی اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں امریکی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حافظ سعید کی گرفتاری پر انعامی رقم کا علان کرنے سے پہلے حکومتِ پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔”امریکی حکام کو چاہیئے تھا کہ کم از کم ہم کو لکھ دیتے، اگر ہمیں نہیں لکھنا تھا تو انٹرپول کو لکھ دیتے جو (یہ معاملہ) ہمارے سامنے اٹھاتا۔“رحمٰن ملک نے کہا کہ بھارتی حکام کے ساتھ بات چیت میں بھی کسی مرحلے پر بھی پاکستان کو ایسے ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے گئے جن کی بنیاد پر حافظ محمد سعید پر نومبر 2008ءمیں ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ قائم کرکے انھیں گرفتار کیا جا سکے۔اے پی ایس