صدر زرداری کا نتیجہ خیز دورہ بھارت۔چودھری احسن پر یمی




بھارت کے وزیرِ اعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات میں ”تمام دوطرفہ امور پر دوستانہ انداز میں تبادلہ خیال کیا گیا“ اور وہ اس کے نتائج سے ”بہت مطمئن“ ہیں۔
دونوں رہنماوں کے درمیان یہ ملاقات گزشتہ اتوار کو نئی دہلی میں مسٹر سنگھ کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی جو آدھ گھنٹے تک جاری رہی۔علیحدگی میں ہونے والی بات چیت کے بعد مسٹر زرداری کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ دوطرفہ تعلقات معمول پر آ جائیں۔”ہمارے درمیان متعدد (تصفیہ طلب) معاملات ہیں اور ہم ان تمام کا قابل عمل اور نتیجہ خیز حل تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو صدر زرداری اور میں دینا چاہتے ہیں۔“بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ مسٹر زرداری نے انھیں اپنے ملک آنے کی دعوت بھی دی اور دونوں ممالک کی سہولت کو مدِ نظر رکھ کر طے کی جانے والی تاریخ پر انھیں پاکستان کا دورہ کرکے خوشی ہو گی۔اس موقع پر صدر زرداری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر سنگھ کے ساتھ دوطرفہ امور پر نتیجہ خیز بات چیت ہوئی۔ ”بھارت اور پاکستان ہمسایہ ممالک ہیں، ہم (پاکستان) بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔“اس موقع پر صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ’ہم نے سب ہی باہمی مسائل پر تعمیراتی بات چیت کی ہے۔ بھارت اور پاکستان پڑوسی ہیں اور ہم چاہیں گے کہ ہمارے درمیان بہتر رشتے ہوں۔ ہم نے ان سب ہی موضوعات پر بات چیت کی جن پر کرسکتے تھے۔‘صدر زرداری نے کہا ’میں امید کرتا ہوں کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ سے میری اگلی ملاقات جلد ہی پاکستان میں ہو گی۔‘بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کا کہنا تھا ’حالانکہ صدر زرداری نجی دورے پر بھارت آئے ہیں لیکن میں نے اس دورے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے سب ہی اہم باہمی مسائل پر بات چیت کی ہے۔ میں بات چیت کے نتائج سے بہت مطمئن ہوں۔ بھارت اور ہندوستان کے رشتے ’نارمل‘ ہونے چاہئیں۔ ہمارے درمیان بہت سے مسائل ہیں اور ہم ان کو حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘اس سے قبل صدر آصف علی زرداری ایک بڑے قافلے کے ساتھ دلی پہنچے تھے تاہم دلی کے پالم ایئر پورٹ پر ان کے استقبال کے لیے بھارت کے پارلیمانی امور کے وزیر پون کمار بنسل موجود تھے۔ اگرچہ صدر زرداری اجمیر میں واقع خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کی زیارت کے لیے ایک روز کے نجی دورے پر بھارت آئے ہیں لیکن وزیر اعظم نے اس موقع پر انہیں ظہرانے پر مدعو کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امید ایک پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی ناامیدی، ایسا ہی بھارت اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔گزشتہ چند دنوں میں یہ ثابت ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کس قدر نازک ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ بھارت نے صدر آصف علی زرداری کے دورے کا خیرمقدم کیا ہے جو کہ گزشتہ سات برس میں کسی بھی پاکستانی صدر کی جانب سے بھارت کا پہلا نجی دورہ ہے تاہم بھارتی میڈیا صدر آصف علی زرداری کے بھارتی دورے کے بارے میں نہایت پرجوش رہا۔بھارتی میڈیاکے بقول پاکستانی صدر کو بھارت کے خلاف تجارتی تفریق ختم کرنے، پٹرولیم برآمدات کو آسان بنانے اور ویزوں کی باآسان فراہمی کے لیے اقدامات کرنے پر سراہا جانا چاہیے۔بھارتی اخبار دی انڈین ایکسپریس کے مطابق ’صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں بھارت اور پاکستان کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ ایک غیر معمولی اقتصادی تعاون کے بارے میں سوچ وچار کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیرِاعظم کے پاس تمام تر وجوہات ہیں کہ وہ پاکستانی صدر کے دورے کا خیرمقدم کریں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات پر توجہ دیں۔‘بھارتی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر زرداری کے دورے کے بعد بھارتی وزیرِاعظم کو بھی پاکستان کے دورے پر جانا چاہیے۔ ان کے بقول ’منموہن سنگھ کو یہ بات پاکستانی صدر تک پہنچانی چاہیے کہ وہ اسی رفتار اور اسی حد تک قدم بڑھانے پر آمادہ ہیں جس حد اور رفتار تک صدر زرداری جانے کو تیار ہیں۔‘دوسری جانب دیگر بھارتی تجزیہ کاروں کی نظر میں صدر زرداری کے اس مشکل وقت میں اجمیر شریف جانے کے فیصلے کی بہت سی علامتیں ہیں۔ان کے بقول یہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے اجمیر شریف جانے کے لیے پاکستان اور بھارت کی تلخ تاریخ میں سے ’ایک پر تخیل مرحلہ چنا ہے‘۔واضح رہے کہ دونوں ممالک کے آپس میں تعلقات پیچیدہ ہیں۔ سنہ دو ہزار دس کے پیو سروے کے مطابق، تریپن فیصد پاکستانی جواب دینے والوں کے خیال میں بھارت، ملک کے لیے طالبان اور القاعدہ سے زیادہ خطرناک تھا۔ جبکہ 72 فیصد کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا ضروری ہے اور 75 فیصد کا خیال تھا کہ بھارت کے ساتھ بات چیت اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہونا چاہیے۔جبکہ بعض ماہرین کے مطابق ’پاکستان کو بھارت کے ساتھ پالیسی میں واضح تبدیلی لانے کے لیے پاکستانی فوج کی اطاعت، مستحکم سیاسی قیادت اور روشن خیال وزرائے خارجہ کی ضرورت ہے‘۔لیکن فی الحال ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔دونوں ممالک کی حکومتیں اس قدر کمزور ہیں کہ ان کا کسی قسم کے اعتماد پر مبنی تعمیراتی اقدامات کی جانب جانا نہیں ہوتا۔ ان حالات میں صدر زرداری کے دورے کو اس سمت ایک چھوٹا سا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ صدر آصف علی زرداری گزشتہ اتوار کونجی دورے پر دلی پہنچے جہاں انہوں نے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کی اور اس کے بعد راجستھان کے شہر اجمیرچلے گئے۔صدر آصف علی زرداری گزشتہ ساتھ برس میں بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی سربراہِ مملکت ہیں۔صدر زرداری کا طیارہ دلی کے پالم ہوائی اڈے پر اترا جہاں سے وہ سیدھے بھارتی وزیرِاعظم منموہن سنگھ کی سرکاری رہائش گاہ پر گئے۔اگرچہ آصف علی زرداری اجمیر میں واقع خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کی زیارت کے لیے ایک روز کے نجی دورے پر بھارت آئے لیکن وزیر اعظم نے اس موقع پر انہیں ظہرانے پر مدعو کیا صدر آصف علی زرداری اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے درمیان بات چیت میں تجارتی معاملات پر توجہ مرکوز رہی اور اس طرح کے اشارے ملے ہیں کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے صدر زرداری کو بھارت سے بجلی اور پٹرولیم کی مصنوعات کی فراہمی کی پیشکش کی۔ صدر زرداری اور وزیرِ اعظم سنگھ کی بات چیت کا کوئی باضابطہ ایجنڈا طے نہیں کیا گیا تھا اور دونوں رہنماءمعاونوں اور مشیروں کے بغیر بات چیت کی ہے۔دونوں رہنمائوں کے درمیان یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب آئندہ ہفتے واہگہ سرحد پر تجارت کے لیے دوسرا گیٹ کھلنے والا ہے ۔ صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ ان کے بیٹے بلاول بٹھو زرداری، وزرا اور اعلیٰ اہلکاروں کا ایک وفد بھی اس دورے میں شامل تھا۔صدر زرداری نے منموہن سنگھ کو اس برس کے اواخر میں اسلام آباد آنے کی دعوت دی ہے۔ سنہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور رفتہ رفتہ مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئندہ دنوں میں بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس ایم کرشنا بھی اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ایس ایم کرشنانے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ’باہمی دلچسپی کے سبھی سوالوں پر بات چیت ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کافی بہتری آئی ہے اور تعلقات صحیح سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔بات چیت کے بعد صدر کے اعزاز میں دیے جانے والے ظہرانے میں بھارت کی طرف سے چندہ سیاسی اور اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا ۔ اگرچہ وہ بھارت کے نجی دورے پر تھے لیکن ان کا پورے صدارتی پروٹوکول کے تحت استقبال کیا گیا۔وہ ایک طیارے کے ذریعے جے پور گے اور وہاں سے وہ بھارتی فضائیہ کے ایک ہیلی کاپٹر سے اجمیر تک کا سفرکیا۔ اجمیر کی درگاہ میں انہوں نے تقریبآ چالیس منٹ گزارے۔ درگاہ میں ان کے استقبال کے لیے موروثی عملے اور سجادہ نشینوں کی ایک استقبالیہ کمیٹی بنائی گئی ۔ صدر زرداری کی حفاظت کی کمان راجستھان کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کو سونپی گئی اور اجمیر میں ہیلی پیڈ سے لے کر درگاہ تک ریاست کے چھ ضلعوں کے سپرینٹنڈنٹ سلامتی کے انتظامات کے انچارج بنائے گئے ۔صدر زرداری درگاہ
کی زیارت کے بعداسی شام ہی پاکستان واپس چلے گے۔ جبکہ امریکہ نے صدر آصف زرداری کے اس دورے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’تعمیری‘ قرار دیا ہے۔امریکہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا ہے کہ مسٹر زرداری کا بھارت دورہ ’ بے حد تعمیری ہے اور ہم اس کے حق میں ہیں۔ہمارے لیے ہر لحاظ سے یہ فائدے مند ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے بات چیت کررہے ہیں اور بہتر اشتراک اور تعاون کے تعلقات بنارہے ہیں۔بھارتی وزیرِ خارجہ ایس ایم کرشناکا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ان کے ملک کے تعلقات فروغ پا رہے ہیں اور صدر آصف علی زرداری کے دورہِ نئی دہلی سے اس ضمن میں مثبت پیش رفت کی توقع ہے۔بھارتی دارالحکومت میں صحافیوں سے گفتگو میں مسٹر کرشنا نے اعتراف کیا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کئی حل طلب مسائل موجود ہیں۔ ”مجھے یقین ہے کہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے بالآخر ان معاملات کو حل کر لیا جائے گا۔ جبکہ پاکستانی صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر اور ا ±ن کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے رہنما بار بار واضح کر چکے تھے کہ مسٹر زرداری نجی دورے پر بھارت جا رہے ہیں جس کا مقصد ”خالصتاً مذہبی“ ہے۔ جبکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر آصف علی زرداری کے دورہ بھارت کے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ خالصتاً نجی دورہ ہے جس کا بنیادی مقصد اجمیر شریف میں حضرت خواجہ غریب نواز کے مزار پر حاضری دینا ہے۔صدر زرداری کے اس دورے اور اس دوران دوپہر کے کھانے پر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ان کی ملاقات کے بارے میں حزب اختلاف کی تنقید اور تحفظات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ بھارتی رہنماءسے صدر مملکت کے مذاکرات کے بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے گا۔”خالصتاً ایک عقیدے کے مطابق صدر بھارت جا رہے ہیں اور یہ ان کا نجی دورہ ہے۔ (اپوزیشن) نے کہا کہ وہاں بنیادی دوطرفہ مسائل پر بات ہو گی تو میں (ایوان کو) یہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ آپ کی حکومت ذمہ دار ہے اور بھارت کے ساتھ جاری مذاکرات میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات پر بات چیت ہو رہی ہے۔“حزب اختلاف کی جماعتیں صدر زرداری کے بھارت کے دورے کی مخالفت کرتی رہی ہیں جس کا اظہار پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بھی کیا گیا۔ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت کے دورے سے قبل حکومت کا فرض تھا کہ وہ اس بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں لیتی۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ صدر زرداری کی بھارتی رہنماو ¿ں سے بات چیت کے بارے اراکین پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے۔حزب اختلاف کی تنقید پر وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے پاکستانی صدر کے دورہ بھارت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ا ±نھوں نے اس نجی دورہ کے دوران کسی بھارتی رہنماءسے ملاقات کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی اور وزیراعظم منموہن سنگھ کی طرف سے ظہرانے کی دعوت قبول کرنے کا مشورہ وزارت خارجہ نے ہی دیا ہے۔”ہم سارے جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کی روایات ہیں کہ جب بھی کوئی آپ کے گھر آتا ہے تو اسے ضرور دن یا رات کے کھانے پر مدعو کرتے ہیں اور مجھے اس میں کوئی برائی نہیں لگتی۔“ اس سے قبل دفتر خارجہ کی ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں ترجمان عبدالباسط نے کہا کہ صدر زرداری کی نئی دہلی میں بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے خطے میں امن و خوشحالی کی کوششوں کو فروغ ملے گا۔”بات چیت میں وہ تمام معاملات زیر بحث آئیں گے جنھیں دو طرفہ تعلقات میں ترجیحی حیثیت حاصل ہے اور پاکستان دونوں رہنماوں کے درمیان ایک تعمیری رابطے کی توقع کر رہا ہے۔“ترجمان نے کہا کہ سربراہان کی سطح پر ایسی ملاقاتیں دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ہمیشہ مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر ان قیاس آرائیوں کی نفی کی کہ تنازع کشمیر سے متعلق پاکستان کے روایتی موقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔”پاکستان کا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ناگزیر ہے اس لیے کشمیر تنازع سے متعلق موقف میں تبدیلی کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔“صدر زرداری آٹھ اپریل کو نجی دورے پر بھارت جائیں گے، تاہم وزیرِاعظم من موہن سنگھ کی طرف سے نئی دہلی میں مختصر قیام اور دوپہر کے کھانے کی دعوت قبول کرنے کے بعد صدر زرداری کا یہ دورہ ذرائع ابلاغ اور مبصرین کے تبصروں اور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔گزشتہ سات سال کے دوران کسی بھی پاکستانی صدر کا یہ پہلا دورہ بھارت ہو گا اور دونوں پڑوسی ملکوں کے رہنماوں کے درمیان یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب حالیہ مہینوں میں دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔اے پی ایس