وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا مجرم قرار دئے جانے کی خبر کی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں بڑی تشہیر ہوئی ہے ۔ انہیں عدالت نے جو علامتی سزا دی ہے۔اس سے اس کیس کی وجہ سے ان پر دبا تو ختم ہو گیا ہے، لیکن وہ اب بھی اپنا عہدہ کھو سکتے ہیں ، کیونکہ مجرم قرار دئے جانے کی وجہ سے ان کی گردن پر آئین کی اس شق کی تلوار لٹکتی رہے گی جس کے تحت کوئی مجرم کسی پبلک عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا ۔لیکن، برطرفی کے طریق کار کے دو مرحلے ہیں جس میں سپیکر قومی اسمبلی ، اور الیکشن کمیشن کی کچھ ذمہ داریاں ہیں اوراس میں کم از کم ایک مہینہ یا اس سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے اور اِس دوران حکمران پیپلز پارٹی مسٹر گیلانی کو کشتہ عدالت اور شہید کے طور پر پیش کرے گی ۔ فیصلہ آنے کے بعد ان کی پارٹی والوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ انہیں اس لئے نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ عدالت کا ملک کی طاقتور فوج کے ساتھ ملاپ ہے ۔جبکہ وفاقی وزیر نذر محمد گوندل کے حوالے سے بتایا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ عدالتیں صرف پیپلز پارٹی والوں کو مجرم قرار دیتی ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کے ایک حامی وکیل افتخار شاہد نے ججوں کا سخت گیر فوجی ڈکٹیٹرجنرل ضیا الحق سے موازنہ کرتے ہوئے کہا ، کہ ان ججوں کا یہ فیصلہ سیاسی ہے اور غیر جانب دار نہیں ہے۔ کچھ اور نے چیف جسٹس افٹخار چوہدری پر الزام لگایا ،کہ ان کا فیصلہ ذاتی انتقام کی بنا پر تھا کیونکہ صدر آصف علی زرداری نے ایک مرتبہ ان کا عہدہ سنبھالنے میں اڑچن ڈالی تھی۔ تجزیہ کار وںکے درمیان اس پر اختلاف رائے ہے کہ آیا مسٹر گیلانی کے مجرم قرار دئے جانے سے انہیں پارلیمنٹ کی نشست اور پھر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ اور یہ سب کچھ ہفتوں یا پھر مہینوں میں ہو سکتا ہے۔ اور اس کا دارومدار قانونی رسہ کشی پر ہوگا۔مسلم لیگ کے رہنما، نوازشریف نے ، جن پر1997 میں اپنی وزارت عظمی کے دوران توہین عدالت کا الزام لگ چکا ہے مسٹر گیلانی کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں استعفی دے دینا چاہئے۔اور مزید بحران نہیں پیدا ہونے دینا چاہئے۔ پاکستان میں سیا سی عدم استحکا م کی وجہ سے دوسرے مسائل سے نمٹنے سے توجہ ہٹ گئی ہے ۔ اگر سپریم کورٹ کومسٹر گیلانی کو ہٹانے پر اصرار رہا ۔ توپیپلز پارٹی غالبا اس عہدے کے لئے ایک نیا امیدوارتیار کر رہی ہے جبکہ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی ، عدلیہ کے ساتھ اپنے اس بحران کو توڑنے کے خیال سے اس سال کے دوسرے نصف میں قبل از وقت انتخابات کرائے گی ، اگر مسٹر گیلانی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تو اس سے صدر زرداری کے اندرونی حلقے میں بڑا خلا پیدا ہوگا۔ گیلانی کا اپنی پارٹی کے رفقائے کار میں یہ شہرہ ہے،کہ وہ مسٹر زرداری کے سب سے مشکل حریفوں کے ساتھ مصالحت کی راہ نکالنے کے ماہر ہیں۔ اور یہ کہ انہوں نے مسٹر زرداری اور ان کی اہلیہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے انتہا درجے کی وفاداری برتی ہے۔ اور 2001 میں جب سابق حکمران پرویز مشرف نے یوسف رضا گیلانی اور دوسرے پیپلز پارٹی لیڈروں کیخلاف سیاسی مقاصد کی بنیاد پر مقدمے کھڑے کئے اور ان سے کہا کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر جنرل کا ساتھ دیں ۔ تو مسٹر گیلانی نے صاف انکار کردیا ۔ اور انہوں نے پانچ سال سے زیادہ عرصہ راولپنڈی کی ایک جیل میں گزارا۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی سزا سنائے جانے کے بعد جمعرات کی شام کو ایوان صدر میں حکمراں پیپلز پارٹی کا ایک اہم اجلاس منعقدہ ہوا جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ یوسف رضا گیلانی ایک منتخب وزیر اعظم ہیں اور انھیں آئین میں درج طریقہ کار کے تحت ہی ان کے عہدے سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ایوان صدر میں منعقد اجلاس کی صدارت صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے مشترکہ طور پر کی جس میں وفاقی وزرا، جماعت کے اعلی عہدے داروں کے علاوہ توہین عدالت کے کیس میں وزیر اعظم کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی شرکت کی۔اجلاس میں کہا گیا کہ ملک کے منتخب وزیراعظم کو آئین اور پارلیمان کی بالادستی کے دفاع کی سزا دی گئی ہے۔جمعرات کی صبح پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو صدر زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت کی برخاستگی تک قید کی علامتی سزا سنائی تھی۔یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی وزیراعظم کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں سزا ہوئی ہے۔ایوانِ صدر میں منعقد اجلاس کے بعد صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں اس امر پر مایوسی ظاہر کی گئی کہ جہاں کسی بھی ڈکٹیٹر کو آئین معطل یا منسوخ کرنے پر سزا نہیں ملی وہیں ایک جمہوری طور پر منتخب ہونے والے وزیراعظم کو آئین کے دفاع پر سزا دے دی گئی ہے۔صدارتی ترجمان نے کہا ہے کہ اجلاس میں وزیراعظم سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا وہی ملک کے منتخب وزیراعظم ہونے کے ناتے انہیں صرف آئین میں وزیراعظم کی برطرفی کے طریق کار کے تحت ہی ان کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ حکمران جماعت کے رہنماں نے وزیراعظم گیلانی کو آئین کے دفاع کے لیے وقار اور حوصلے سے ڈٹے رہنے پر مبارکباد دی۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال پر غوروخوص کے لیے بعد سیاسی بلوغت اور فہم و فراست کے ساتھ نئے چیلنجز کا مناسب جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے اس اہم اجلاس سے قبل حکومت کی اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں بھی وزیراعظم کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ان سے اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔اس سے قبل وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی منعقد ہوا تھا جس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ آئین کی پاسداری کی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مولوی تمیز الدین کے کیس میں نظریہ ضرورت نہ ہوتا تو پاکستان کا مستقبل مختلف ہوتا۔خیال رہے کہ وزیراعظم کو سزا سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ان کی جانب سے عدالت کی حکم عدولی انصاف کے لیے نقصان دہ ہے اور اس وجہ سے عدالت کی توہین ہوئی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی سے متعلق آئین کے آرٹیکل تریسٹھ ون جی کا بھی ذکر کیا۔فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اس آرٹیکل کے تحت نااہل بھی ہو سکتے ہیں جبکہ وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی اور وزیراعظم کو جس الزام کے تحت سزا دی گئی اس کا ان پر عائد کی گئی فردِ جرم میں ذکر ہی نہیں تھا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف جہاں حکمران پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور اس کے اتحادیوں نے ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے وہیں حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم سے فوری مستعفی ہونے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم گیلانی کے پاس اپنے منصب پر فائز رہنے کا مزید کوئی جواز نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے پر یقینا کسی کو بھی خوشی نہیں ہوئی اور نہ ہی میرے خیال میں سپریم کورٹ نے خوشی کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہو گا۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اب سزا پانے بعد وزیراعظم کو فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیئے۔معروف قانون دان اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما حامد خان نے پارٹی کے سربراہ عمران خان کے ہمراہ ایک ہنگامی نیوز کانفرنس سے خطاب میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس آدمی کو ایک مرتبہ ملک کی اعلی ترین عدالت کی طرف سے مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ وہ ایک دن کے لیے بھی وزیراعظم کے منصب پر بیھٹے۔لیکن وفاقی وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ نے حزب اختلاف کے مطالبات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم گیلانی کو کسی اخلاقی جرم میں سزا نہیں سنائی گئی اور مخلوط حکومت کی کابینہ کو یقین ہے کہ وہ اب بھی ملک کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔اخلاقیات کا درس ہمیں دینے کے ضروری ہے کہ وزیراعظم پاکستان پر جو الزام ہیں، وہ وزیراعظم سر تسلیم خم کر کے تین دفعہ اس عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ اس میں ایک وزیراعظم پہلے بھی پیش ہوا اور عدالت کے ساتھ جو حشر ہوا تھا وہ بھی اس ملک کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔وزیراعظم گیلانی کے مستقبل کے بارے میں آئینی و قانونی ماہرین نے منقسم رائے کا اظہار کیا ہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے عدالت عظمی کے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔جہاں تک وزیراعظم کا سوال ہے میں نے تو کوئی ایسی بات نہیں دیکھی کہ تضحیک کی گئی ہو۔ وہ اس عدالت میں پیش بھی ہوئے اور با ادب طریقے سے بات کی۔ اگر اس طریقے سے نا اہل قرار دیا جاتا ہے تو لوگ کہیں کہ اراکین پارلیمنٹ کو بندوق کے ذریعے باہر نکالا جاتا تھا اب ان کو آئین کی شق (63- جی) کے تحت باہر نکالا جائے گا۔ یہ اچھی روایت نہیں ہے، جمہوری روایت نہیں ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم گیلانی کی بحیثیت رکن پارلیمان اہلیت کا تعین ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور وکیل صفائی اعتزاز احسن نے بھی واضح کیا ہے کہ وزیراعظم گیلانی کو ان کے منصب سے ہٹانے کے لیے آئینی طریقہ کار درج ہے لیکن اس سے قبل وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے جس کے لیے ان کے پاس 30 دن کا وقت ہے۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں عدالت کے برخواست ہونے تک کی سزا سنائی۔جمعرات کو عدالت عظمی کے سات رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم (یوسف رضا گیلانی) دانستہ طور پر عدالتی حکم کا تمسخر اڑانے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی بنیاد بننے والی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بیان کی جائیں گی۔وزیرِ اعظم کو سنائی گئی سزا ایک منٹ سے بھی کم رہی کیوں کہ فیصلہ سنانے کے فورا بعد ساتوں جج صاحبان واپس اپنے چیمبرز میں چلے گئے۔اس کارروائی کے بعد مسٹر گیلانی حکمران پیپلز پارٹی کے رہنماں اور محافظوں کے حصار میں مسکراتے ہوئے سپریم کورٹ کی عمارت سے نکلے اور اپنی سرکاری گاڑی میں وزیر اعظم ہاس کی طرف روانہ ہو گئے۔ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی وزیر اعظم کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے اور وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق رکھتے ہیں۔عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد بیشتر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی پارلیمان کی رکنیت اور نتیجتا وزارت عظمی کے منصب کے لیے اہل نہیں رہے کیوں کہ ملک کی اعلی ترین عدالت کی جانب سے انھیں سزا سنائی جا چکی ہے۔سپریم کورٹ کے سابق جج وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ سزا کا دورانیہ اہمیت نہیں رکھتا۔جرم ثابت ہو چکا ہے اور سزا بھی ہو چکی ہے کیوں کہ عدالت حکم دینے کے بعد برخواست ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم ایک ایسی صورت حال میں ہیں جہاں ہمیں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل شروع کرنا چاہیئے۔مگر بعض وکلا کا کہنا ہے کہ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں اس پہلو کی وضاحت نہیں کی کہ آیا وہ وزارتِ عظمی کے منصب پر فائض رہ سکتے ہیں یا نہیں اور نا ہی اسپیکر قومی اسمبلی کو وزیر اعظم کی نا اہلی کے لیے آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق کارروائی کا آغاز کرنے کی کوئی ہدایت جاری کی گئی ہے۔وزیراعظم گیلانی کے وکیل اعتزاز احسن نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کے مکل نے انھیں عدالت عظمی کے سات رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے کہا ہے۔اپیل میں میرے خیال میں یہ مختصر فیصلہ کم از کم اس حد تک برقرار نہیں رہے گا جس حد تک اس میں نا اہلیت کی علامتیں ہیں۔ کیوں کہ فرد جرم میں عدالت کی تضحیک کا وزیراعظم پر الزام نہیں تھا۔متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس این آر او کو کالعدم قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے پر من و عن عمل درآمد نا کرنے پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کے خلاف 16 جنوری سے توہینِ عدالت کی سماعت شروع کی تھی اور 13 فروری کو ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔عدالتی حکم کے مطابق مسٹر گیلانی کو صدر زرداری کے خلاف بیرون ملک مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے کہا تھا جس کا وہ مسلسل یہ کہہ کر انکار کرتے رہے کہ ایسا کرنا آئین کی خلاف ورزی ہوگا کیوں کہ مسٹر زرداری کو اندرون و بیرون ملک استثنی حاصل ہے۔ادھر مسٹر گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا کے فیصلے کے بعد ان کے آبائی ضلع ملتان اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ صوبہ سندھ میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔عدالت عظمی کے سات رکنی بینچ نے جوں ہی فیصلہ سنایا صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع میں پیپلز پارٹی کے حامی وزیر اعظم کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئے جس کے بعد اکثر علاقوں میں کاروباری مراکز بند ہو گئے۔کراچی کے علاقے لیاری میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔اطلاعات کے مطابق بعض علاقوں بشمول ملتان میں عدالت سے اظہار یکجہتی کے لیے بھی مظاہرے کیے گئے۔جبکہ جمعرات کو ایوان میں خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ 3 ہفتوں کی عدالتی کارروائی کے بعد حکومت کی طرف سے ایوان میں ایک اور عدالت لگائی گئی ہے، جس انداز سے عدالتی فیصلے کیخلاف پی پی پی کے لوگوں نے جلوس نکالے اور احتجاج کرکے پتھر مارے اس پر حکومت کو معافی مانگنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آصف زرداری سچے ہیں تو سوئس عدالتوں میں پیش کیوں نہیں ہوئے۔انہوں نے کہا کہ کرپشن کا اصل کردار تو ایوان صدر میں بیٹھا ہے کیا اس پر منتخب وزیراعظم کو قربان کیا جائیگا؟ عدالتی فیصلے کے مطابق وزیراعظم سزا یافتہ ہوگئے اور ضروری ہوگیا ہے کہ وزیراعظم اپنی پوزیشن کو درست کریں۔چوہدری نثار نے کہا کہ اب مسئلہ سیاسی جماعتوں اور و زیراعظم کا نہیں بلکہ عدلیہ کے فیصلوں کی عزت اور پارلیمنٹ کی عزت کا مسئلہ ہے ہمیں وزیراعظم کی طرف سے اپیل دائر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں وہ اپیل دائر کرکے خود کو عدالت سے بری کراکر آئیں ہم کھڑے ہو کر ان کا استقبال کریں گے جب سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کیاجائیگا تو اس پر ردعمل ہوگا ۔وزیراعظم انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنے عہدے سے مستعفی ہوں اور عدالت سے رجوع کریں اور اپنی بے گناہی ثا بت کریں پھر ایوان میں آئیں ۔ دریں اثنا قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے مقدمہ کے پس منظر کے بارے میں بتایا کہ وزیراعظم کیخلاف توہین عدالت کا کیس احکامات نہ ماننے کے الزام میں بنایا گیا جس کا فیصلہ ایک جملے پر مشتمل ہے جس کی کاپی بھی نہیں دی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت وزیراعظم کو بطور پارلیمنٹیرین نااہل قرار نہیں دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 63 نااہلی کے بارے میں ہے۔ وزیراعظم نے کبھی بھی عدلیہ کی آزادی میں رخنہ ڈالا اور نہ ہی عدلیہ کی تضحیک کی اور نہ عدلیہ کا تمسخر اڑایا۔ آرٹیکل 63 عدلیہ کا تمسخر اڑانے یا اس کی آزادی میں رخنہ ڈالنے سے متعلق ہے۔اے پی ایس
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا مجرم قرار دئے جانے کی خبر کی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں بڑی تشہیر ہوئی ہے ۔ انہیں عدالت نے جو علامتی سزا دی ہے۔اس سے اس کیس کی وجہ سے ان پر دبا تو ختم ہو گیا ہے، لیکن وہ اب بھی اپنا عہدہ کھو سکتے ہیں ، کیونکہ مجرم قرار دئے جانے کی وجہ سے ان کی گردن پر آئین کی اس شق کی تلوار لٹکتی رہے گی جس کے تحت کوئی مجرم کسی پبلک عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا ۔لیکن، برطرفی کے طریق کار کے دو مرحلے ہیں جس میں سپیکر قومی اسمبلی ، اور الیکشن کمیشن کی کچھ ذمہ داریاں ہیں اوراس میں کم از کم ایک مہینہ یا اس سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے اور اِس دوران حکمران پیپلز پارٹی مسٹر گیلانی کو کشتہ عدالت اور شہید کے طور پر پیش کرے گی ۔ فیصلہ آنے کے بعد ان کی پارٹی والوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ انہیں اس لئے نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ عدالت کا ملک کی طاقتور فوج کے ساتھ ملاپ ہے ۔جبکہ وفاقی وزیر نذر محمد گوندل کے حوالے سے بتایا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ عدالتیں صرف پیپلز پارٹی والوں کو مجرم قرار دیتی ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کے ایک حامی وکیل افتخار شاہد نے ججوں کا سخت گیر فوجی ڈکٹیٹرجنرل ضیا الحق سے موازنہ کرتے ہوئے کہا ، کہ ان ججوں کا یہ فیصلہ سیاسی ہے اور غیر جانب دار نہیں ہے۔ کچھ اور نے چیف جسٹس افٹخار چوہدری پر الزام لگایا ،کہ ان کا فیصلہ ذاتی انتقام کی بنا پر تھا کیونکہ صدر آصف علی زرداری نے ایک مرتبہ ان کا عہدہ سنبھالنے میں اڑچن ڈالی تھی۔ تجزیہ کار وںکے درمیان اس پر اختلاف رائے ہے کہ آیا مسٹر گیلانی کے مجرم قرار دئے جانے سے انہیں پارلیمنٹ کی نشست اور پھر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ اور یہ سب کچھ ہفتوں یا پھر مہینوں میں ہو سکتا ہے۔ اور اس کا دارومدار قانونی رسہ کشی پر ہوگا۔مسلم لیگ کے رہنما، نوازشریف نے ، جن پر1997 میں اپنی وزارت عظمی کے دوران توہین عدالت کا الزام لگ چکا ہے مسٹر گیلانی کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں استعفی دے دینا چاہئے۔اور مزید بحران نہیں پیدا ہونے دینا چاہئے۔ پاکستان میں سیا سی عدم استحکا م کی وجہ سے دوسرے مسائل سے نمٹنے سے توجہ ہٹ گئی ہے ۔ اگر سپریم کورٹ کومسٹر گیلانی کو ہٹانے پر اصرار رہا ۔ توپیپلز پارٹی غالبا اس عہدے کے لئے ایک نیا امیدوارتیار کر رہی ہے جبکہ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی ، عدلیہ کے ساتھ اپنے اس بحران کو توڑنے کے خیال سے اس سال کے دوسرے نصف میں قبل از وقت انتخابات کرائے گی ، اگر مسٹر گیلانی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تو اس سے صدر زرداری کے اندرونی حلقے میں بڑا خلا پیدا ہوگا۔ گیلانی کا اپنی پارٹی کے رفقائے کار میں یہ شہرہ ہے،کہ وہ مسٹر زرداری کے سب سے مشکل حریفوں کے ساتھ مصالحت کی راہ نکالنے کے ماہر ہیں۔ اور یہ کہ انہوں نے مسٹر زرداری اور ان کی اہلیہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے انتہا درجے کی وفاداری برتی ہے۔ اور 2001 میں جب سابق حکمران پرویز مشرف نے یوسف رضا گیلانی اور دوسرے پیپلز پارٹی لیڈروں کیخلاف سیاسی مقاصد کی بنیاد پر مقدمے کھڑے کئے اور ان سے کہا کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر جنرل کا ساتھ دیں ۔ تو مسٹر گیلانی نے صاف انکار کردیا ۔ اور انہوں نے پانچ سال سے زیادہ عرصہ راولپنڈی کی ایک جیل میں گزارا۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی سزا سنائے جانے کے بعد جمعرات کی شام کو ایوان صدر میں حکمراں پیپلز پارٹی کا ایک اہم اجلاس منعقدہ ہوا جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ یوسف رضا گیلانی ایک منتخب وزیر اعظم ہیں اور انھیں آئین میں درج طریقہ کار کے تحت ہی ان کے عہدے سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ایوان صدر میں منعقد اجلاس کی صدارت صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے مشترکہ طور پر کی جس میں وفاقی وزرا، جماعت کے اعلی عہدے داروں کے علاوہ توہین عدالت کے کیس میں وزیر اعظم کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے بھی شرکت کی۔اجلاس میں کہا گیا کہ ملک کے منتخب وزیراعظم کو آئین اور پارلیمان کی بالادستی کے دفاع کی سزا دی گئی ہے۔جمعرات کی صبح پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو صدر زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت کی برخاستگی تک قید کی علامتی سزا سنائی تھی۔یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی وزیراعظم کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں سزا ہوئی ہے۔ایوانِ صدر میں منعقد اجلاس کے بعد صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں اس امر پر مایوسی ظاہر کی گئی کہ جہاں کسی بھی ڈکٹیٹر کو آئین معطل یا منسوخ کرنے پر سزا نہیں ملی وہیں ایک جمہوری طور پر منتخب ہونے والے وزیراعظم کو آئین کے دفاع پر سزا دے دی گئی ہے۔صدارتی ترجمان نے کہا ہے کہ اجلاس میں وزیراعظم سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا وہی ملک کے منتخب وزیراعظم ہونے کے ناتے انہیں صرف آئین میں وزیراعظم کی برطرفی کے طریق کار کے تحت ہی ان کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ حکمران جماعت کے رہنماں نے وزیراعظم گیلانی کو آئین کے دفاع کے لیے وقار اور حوصلے سے ڈٹے رہنے پر مبارکباد دی۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال پر غوروخوص کے لیے بعد سیاسی بلوغت اور فہم و فراست کے ساتھ نئے چیلنجز کا مناسب جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے اس اہم اجلاس سے قبل حکومت کی اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں بھی وزیراعظم کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ان سے اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔اس سے قبل وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی منعقد ہوا تھا جس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ آئین کی پاسداری کی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مولوی تمیز الدین کے کیس میں نظریہ ضرورت نہ ہوتا تو پاکستان کا مستقبل مختلف ہوتا۔خیال رہے کہ وزیراعظم کو سزا سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ان کی جانب سے عدالت کی حکم عدولی انصاف کے لیے نقصان دہ ہے اور اس وجہ سے عدالت کی توہین ہوئی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی سے متعلق آئین کے آرٹیکل تریسٹھ ون جی کا بھی ذکر کیا۔فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اس آرٹیکل کے تحت نااہل بھی ہو سکتے ہیں جبکہ وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی اور وزیراعظم کو جس الزام کے تحت سزا دی گئی اس کا ان پر عائد کی گئی فردِ جرم میں ذکر ہی نہیں تھا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف جہاں حکمران پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور اس کے اتحادیوں نے ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے وہیں حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم سے فوری مستعفی ہونے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم گیلانی کے پاس اپنے منصب پر فائز رہنے کا مزید کوئی جواز نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے پر یقینا کسی کو بھی خوشی نہیں ہوئی اور نہ ہی میرے خیال میں سپریم کورٹ نے خوشی کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہو گا۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اب سزا پانے بعد وزیراعظم کو فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیئے۔معروف قانون دان اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما حامد خان نے پارٹی کے سربراہ عمران خان کے ہمراہ ایک ہنگامی نیوز کانفرنس سے خطاب میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس آدمی کو ایک مرتبہ ملک کی اعلی ترین عدالت کی طرف سے مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ وہ ایک دن کے لیے بھی وزیراعظم کے منصب پر بیھٹے۔لیکن وفاقی وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ نے حزب اختلاف کے مطالبات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم گیلانی کو کسی اخلاقی جرم میں سزا نہیں سنائی گئی اور مخلوط حکومت کی کابینہ کو یقین ہے کہ وہ اب بھی ملک کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔اخلاقیات کا درس ہمیں دینے کے ضروری ہے کہ وزیراعظم پاکستان پر جو الزام ہیں، وہ وزیراعظم سر تسلیم خم کر کے تین دفعہ اس عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ اس میں ایک وزیراعظم پہلے بھی پیش ہوا اور عدالت کے ساتھ جو حشر ہوا تھا وہ بھی اس ملک کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔وزیراعظم گیلانی کے مستقبل کے بارے میں آئینی و قانونی ماہرین نے منقسم رائے کا اظہار کیا ہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے عدالت عظمی کے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔جہاں تک وزیراعظم کا سوال ہے میں نے تو کوئی ایسی بات نہیں دیکھی کہ تضحیک کی گئی ہو۔ وہ اس عدالت میں پیش بھی ہوئے اور با ادب طریقے سے بات کی۔ اگر اس طریقے سے نا اہل قرار دیا جاتا ہے تو لوگ کہیں کہ اراکین پارلیمنٹ کو بندوق کے ذریعے باہر نکالا جاتا تھا اب ان کو آئین کی شق (63- جی) کے تحت باہر نکالا جائے گا۔ یہ اچھی روایت نہیں ہے، جمہوری روایت نہیں ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم گیلانی کی بحیثیت رکن پارلیمان اہلیت کا تعین ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور وکیل صفائی اعتزاز احسن نے بھی واضح کیا ہے کہ وزیراعظم گیلانی کو ان کے منصب سے ہٹانے کے لیے آئینی طریقہ کار درج ہے لیکن اس سے قبل وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے جس کے لیے ان کے پاس 30 دن کا وقت ہے۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں عدالت کے برخواست ہونے تک کی سزا سنائی۔جمعرات کو عدالت عظمی کے سات رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم (یوسف رضا گیلانی) دانستہ طور پر عدالتی حکم کا تمسخر اڑانے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی بنیاد بننے والی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بیان کی جائیں گی۔وزیرِ اعظم کو سنائی گئی سزا ایک منٹ سے بھی کم رہی کیوں کہ فیصلہ سنانے کے فورا بعد ساتوں جج صاحبان واپس اپنے چیمبرز میں چلے گئے۔اس کارروائی کے بعد مسٹر گیلانی حکمران پیپلز پارٹی کے رہنماں اور محافظوں کے حصار میں مسکراتے ہوئے سپریم کورٹ کی عمارت سے نکلے اور اپنی سرکاری گاڑی میں وزیر اعظم ہاس کی طرف روانہ ہو گئے۔ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی وزیر اعظم کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے اور وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق رکھتے ہیں۔عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد بیشتر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی پارلیمان کی رکنیت اور نتیجتا وزارت عظمی کے منصب کے لیے اہل نہیں رہے کیوں کہ ملک کی اعلی ترین عدالت کی جانب سے انھیں سزا سنائی جا چکی ہے۔سپریم کورٹ کے سابق جج وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ سزا کا دورانیہ اہمیت نہیں رکھتا۔جرم ثابت ہو چکا ہے اور سزا بھی ہو چکی ہے کیوں کہ عدالت حکم دینے کے بعد برخواست ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم ایک ایسی صورت حال میں ہیں جہاں ہمیں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل شروع کرنا چاہیئے۔مگر بعض وکلا کا کہنا ہے کہ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں اس پہلو کی وضاحت نہیں کی کہ آیا وہ وزارتِ عظمی کے منصب پر فائض رہ سکتے ہیں یا نہیں اور نا ہی اسپیکر قومی اسمبلی کو وزیر اعظم کی نا اہلی کے لیے آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق کارروائی کا آغاز کرنے کی کوئی ہدایت جاری کی گئی ہے۔وزیراعظم گیلانی کے وکیل اعتزاز احسن نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کے مکل نے انھیں عدالت عظمی کے سات رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے کہا ہے۔اپیل میں میرے خیال میں یہ مختصر فیصلہ کم از کم اس حد تک برقرار نہیں رہے گا جس حد تک اس میں نا اہلیت کی علامتیں ہیں۔ کیوں کہ فرد جرم میں عدالت کی تضحیک کا وزیراعظم پر الزام نہیں تھا۔متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس این آر او کو کالعدم قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے پر من و عن عمل درآمد نا کرنے پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کے خلاف 16 جنوری سے توہینِ عدالت کی سماعت شروع کی تھی اور 13 فروری کو ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔عدالتی حکم کے مطابق مسٹر گیلانی کو صدر زرداری کے خلاف بیرون ملک مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے کہا تھا جس کا وہ مسلسل یہ کہہ کر انکار کرتے رہے کہ ایسا کرنا آئین کی خلاف ورزی ہوگا کیوں کہ مسٹر زرداری کو اندرون و بیرون ملک استثنی حاصل ہے۔ادھر مسٹر گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا کے فیصلے کے بعد ان کے آبائی ضلع ملتان اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ صوبہ سندھ میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔عدالت عظمی کے سات رکنی بینچ نے جوں ہی فیصلہ سنایا صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع میں پیپلز پارٹی کے حامی وزیر اعظم کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئے جس کے بعد اکثر علاقوں میں کاروباری مراکز بند ہو گئے۔کراچی کے علاقے لیاری میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔اطلاعات کے مطابق بعض علاقوں بشمول ملتان میں عدالت سے اظہار یکجہتی کے لیے بھی مظاہرے کیے گئے۔جبکہ جمعرات کو ایوان میں خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ 3 ہفتوں کی عدالتی کارروائی کے بعد حکومت کی طرف سے ایوان میں ایک اور عدالت لگائی گئی ہے، جس انداز سے عدالتی فیصلے کیخلاف پی پی پی کے لوگوں نے جلوس نکالے اور احتجاج کرکے پتھر مارے اس پر حکومت کو معافی مانگنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آصف زرداری سچے ہیں تو سوئس عدالتوں میں پیش کیوں نہیں ہوئے۔انہوں نے کہا کہ کرپشن کا اصل کردار تو ایوان صدر میں بیٹھا ہے کیا اس پر منتخب وزیراعظم کو قربان کیا جائیگا؟ عدالتی فیصلے کے مطابق وزیراعظم سزا یافتہ ہوگئے اور ضروری ہوگیا ہے کہ وزیراعظم اپنی پوزیشن کو درست کریں۔چوہدری نثار نے کہا کہ اب مسئلہ سیاسی جماعتوں اور و زیراعظم کا نہیں بلکہ عدلیہ کے فیصلوں کی عزت اور پارلیمنٹ کی عزت کا مسئلہ ہے ہمیں وزیراعظم کی طرف سے اپیل دائر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں وہ اپیل دائر کرکے خود کو عدالت سے بری کراکر آئیں ہم کھڑے ہو کر ان کا استقبال کریں گے جب سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کیاجائیگا تو اس پر ردعمل ہوگا ۔وزیراعظم انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنے عہدے سے مستعفی ہوں اور عدالت سے رجوع کریں اور اپنی بے گناہی ثا بت کریں پھر ایوان میں آئیں ۔ دریں اثنا قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے مقدمہ کے پس منظر کے بارے میں بتایا کہ وزیراعظم کیخلاف توہین عدالت کا کیس احکامات نہ ماننے کے الزام میں بنایا گیا جس کا فیصلہ ایک جملے پر مشتمل ہے جس کی کاپی بھی نہیں دی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت وزیراعظم کو بطور پارلیمنٹیرین نااہل قرار نہیں دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 63 نااہلی کے بارے میں ہے۔ وزیراعظم نے کبھی بھی عدلیہ کی آزادی میں رخنہ ڈالا اور نہ ہی عدلیہ کی تضحیک کی اور نہ عدلیہ کا تمسخر اڑایا۔ آرٹیکل 63 عدلیہ کا تمسخر اڑانے یا اس کی آزادی میں رخنہ ڈالنے سے متعلق ہے۔اے پی ایس