دھوکے باز سیاسی کلچر۔چودھری احسن پر یمی





پا کستان میں موجودہ دھوکے باز سیاسی کلچر اور کمزور اقتدار کے ڈھانچے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حالیہ قانونی رسہ کشی کے تناظر میں ہر کو ئی اپنے اپنے مفاد کے پیش نظر تشریح کر رہا ہے کہ" سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کومجرم قرار دیے جانے کے علاوہ کو ئی ایسا حکم جاری نہیں جس میں یہ لکھا ہو کہ یوسف رضا گیلانی اب وزیر اعظم نہیں رہے"اس فیصلے کی دھوکے باز سیاسی تشریح دانوں سے اتنا کہنا کافی ہے کہ جب کو ئی مجرم قرار پا جائے تو کیا وہ کو ئی پبلک عہدہ رکھ سکتا ہے؟۔۔اس کا بچہ بچہ جانتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔جبکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیراعظم سے فوری طور پر اقتدار چھوڑنے کے مطالبات کو حکومت نے ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے تک انتظار کرے اور اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی جلد بازی محاذ آرائی کو ہوا دے سکتی ہے جو کہ حکومت ہر گز نہیں چاہتی۔گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک کیہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اپنے بیانات سے عدلیہ کو جانبدار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہم نے تصادم کی طرف نہیں جانا نہ آپ کو جانے دینا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کا بہت نقصان ہوا ماضی میں اور ہم نے اس فریکچرڈ فیڈریشن کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔ہمیں یہ بھی لگ رہا ہے کہ اس سارے عمل میں کچھ جلدی جلدی ہے اور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ میاں صاحب کا یہ طرز عمل ایک طرف عدالت پر حملہ ہے اور دوسری طرف مہران بینک سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔وفاقی وزیر قانون فارق نائیک نے عدالت کے مختصر فیصلے کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ملک میں کی جانے والی قیاس آرائیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں چونکہ کہیں بھی وزیراعظم کو نا اہل قرار دینے سے متعلق اسپیکر قومی اسمبلی یا چیف الیکشن کمشنر کو ہدایت نہیں کی گئی لہذا حکومت کی قانونی و آئینی حیثیت بدستور جوں کی توں ہے۔ کیونکہ انھیں (عدالت کو) پتا ہے کہ یہ اسپیکر اور پھر چیف الیکشن کمشنر کی صوابدید ہے۔۔۔۔۔ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا ابھی ہم نے اپیل فائل کرنی ہے۔۔۔ اور جب تک اپیل کا فیصلہ نہیں ہوتا تو یہ ٹرائل جاری رہے گا۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں انھیں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت کی برخاستگی تک قید کی سزا سنائی تھی جو ایک منٹ سے بھی کم رہی کیوں کہ فیصلہ سنانے کے فورا عدالت برخاست کر دی گئی۔عدالت عظمی کے اس فیصلے کے بعد وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ انھیں صرف آئینی طریقے ہی سے اقتدار سے ہٹایا جا سکتا ہے اور انھیں صرف ملک کے آئین کا تحفظ کرنے کی پاداش میں مجرم قرار دیا گیا، اس لیے وہ فکرمند نہیں ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے اپنی جماعت کے ایک اعلی سطحی اجلاس کے بعد ایک ہنگامی نیوز کانفرنس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ایک پھر فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔انھوں نے کہا تھا کہ عدالت عظمی کی طرف سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر سنائی گئی سزا کے بعد وہ ملک کے اس اعلی ترین انتظامی منصب پر کسی طور فائز نہیں رہ سکتے۔مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نے متبنہ کیا تھا کہ اگر وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نا کیا تو ان کی جماعت پارلیمان کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کرے گی۔جبکہ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ سے قومی اسمبلی کے سپیکر کو لکھے گئے خط کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں قومی اسمبلی کی سپیکر سے کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے فیصلے پر مزید ضروری کارروائی کی جائے۔وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزماں کائرہ کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ اسسٹنٹ رجسٹرار اقبال نصیر کا یہ اقدام اختیارات سے تجاوز ہے اس لیے سپریم کورٹ اس کی چھان بین کرے۔ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وزیر اعظم گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مختصر فیصلے کی نقل کے ساتھ یہ خط گزشتہ جمعرات کو قومی اسمبلی کی سپیکر، کابینہ ڈویژن کے سیکریڑی اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیجا گیا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے اس خط کے مندرجات پڑھے جس میں درج ہے مجھے مزید ہدایت کی گئی ہے کہ عدالت کے فیصلے میں دیے گئے احکامات پر فوری تعمیل کے لیے آپ کی توجہ دلاں۔لیکن وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قومی اسمبلی کی سپیکر یا چیف الیکشن کمشنر کو کوئی ہدایت دی ہی نہیں ہے۔وزیر قانون نے کہا سپریم کورٹ کا ایک تنخواہ دار ملازم یہ خط قومی اسمبلی کی سپیکر کو لکھتا ہے جو قومی اسمبلی کی کسٹوڈین ہیں جہاں عوام کی ترجمانی ہوتی ہے۔فاروق ایچ نائیک نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اقبال نصیر ایسے احکامات کی تعمیل کرانے کے لیے من مانی کررہے ہیں جو فیصلے میں ہے ہی نہیں۔ اقبال نصیر صاحب ایسے اختیارات استعمال کررہے ہیں جو ان کے پاس ہیں ہی نہیں۔ ان کے پاس صرف انتظامی اِختیارات ہیں۔ کہاں سپریم کورٹ نے اپنے مختصر آرڈر میں کوئی ہدایت دی ہے؟ یہ اختیارات کا غلط استعمال ہے۔وزیر قانون نے کہا کہ خط لکھ کر پارلیمان کا مذاق اڑایا گیا اور اس سے پارلیمنٹ اور سپیکر صاحبہ کا استحقاق مجروع ہوا ہے۔انہوں نے کہا استحقاق مجروع کرنے پر قومی اسمبلی میں تحریک جمع کرائی جائے گی تا کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ یہ کیسے ہوا۔واضح رہے گزشتہ جمعرات کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کو عدالتی حکم کے تحت صدر زرداری کے خلاف مبینہ بداعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا تھا اور انہیں عدالت کی برخاستگی تک کی سزا سنائی تھی۔ اس علامتی سزا کا دورانیہ ایک منٹ سے بھی کم تھا۔وزیر قانون نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم تیس دن کے اندر عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو نااہل قرار نہیں دیا کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ یہ اختیار قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیف الیکشن کمیشن کا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ابھی تفصیلی فیصلہ آیا ہی نہیں اور توہین عدالت کے قانون کے تحت ایک ملزم کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی فیصلے کے خلاف تیس دن کے اندر اپیل کرے۔انہوں نے کہا کہ ابھی ہم نے اپیل کرنی ہے اگر یوسف رضا گیلانی نے اپیل کا فیصلہ کیا۔ اتنی جلدی کیا ہے، رجسٹرار صاحب کو بھی لگتا ہے جلدی ہے جس طرح انہوں نے خط لکھا ہے! بھائی تیس دن کا تو آپ انتظار کریں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وزیر اعظم گیلانی اب بھی وزیر اعظم ہیں اور اب بھی قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور کابینہ آئین اور قانون کے مطابق کام کررہی ہے۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعظم گیلانی کے بارے میں آئین اور قانون کے مطابق نااہلی کا کوئی فیصلہ آیا تو اس کو تسلیم کیا جائے گا۔جبکہ پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ توہین عدالت کے مقدمے میں سزا ملنے اور مجرم قرار دیے جانے کے بعد وہ سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نہیں مانتے ہیں۔میاں نواز شریف نے کہا کہ اگر وزیراعظم گیلانی نے عہدہ نہیں چھوڑا تو انہیں ناقابل توقع نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے لاہور میں مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنماں کے ایک اجلاس کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزارت عظمی اور کابینہ کے عہدے ختم ہو چکے ہیں اور اس وقت ملک کسی بھی حکومت کے بغیر چل رہا ہے۔گزشتہ جمعہ کو ہی قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ انہیں سازش کر کے اقتدار سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور جو انہیں ہٹانے کا خواہشمند ہے وہ تحریکِ عدم اعتماد لے آئے۔مسلم لیگ نون کے صدر میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ان کی جماعت نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر پاکستان کے آئین کی سر بلندی اور عدلیہ کی آبرو کے لیے بھرپور جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چھبیس اپریل کے صبح سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے اب تک یہ ملک کسی بھی حکومت کے بغیر چل رہا ہے۔وزیراعظم کو سزا ملنے اور عدالت سے مجرم قرار پانے کے بعد سے نہ صرف وزارت عظمی کا عہدہ بلکہ کابینہ کا عہدہ بھی ختم ہو چکا ہے اور اس وقت حکومت کے نام سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔اب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی یا کسی بھی وزیر کی بات یا اقدام کی کوئی آئینی یا قانونی حثیت نہیں۔نواز شریف نے کہا کہ وزیراعظم اس ملک، دستور، نظام اور جمہوریت پر رحم کریں اور وزیراعظم کے عہدے کا ناجائز قبضہ چھوڑ دیں اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انہیں ناقابل توقع نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کی نہ تو یہ اصول کی جنگ ہے نہ نظریے کی نہ کسی مقصد کی اور نہ قومی مفاد کی جنگ ہے۔ پورے ملک کو چھ کروڑ ڈالر کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملک کے ساتھ نا انصافی ہے اور نہ ہم اس چیز کو قبول کرتے ہیں نہ برداشت کرتے ہیں۔وزیراعظم نے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا کسی شخص سے وفاداری کا نہیں؟ انہوں نے اپنے حلف سے غداری کی ہے اور اب وہ ملک کو کسی امتحان میں نہ ڈالیں۔یہ ملک پہلے ہی بحرانوں کی زد میں گھرا ہوا ہے وہ پاکستان کے غریب لوگوں پر رحم کریں اور اپنا عہدہ فی الفور چھوڑ دیں۔میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگر وہ پاکستان میں اس طرح کے سلسلے پر توجہ نہیں دیتے ہیں یا بغیر کسی احتجاج کے جانے دیتے ہیں اور جو کچھ حکومت کرنا چاہتی ہے اس کو ہونے دیتے ہیں تو پھر کم از کم وہ سیاست میں رہنے کے قائل نہیں ہیں اور ان کو جماعت اس طرح کی سیاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اگر حکومت اپنی ضد پر قائم رہتی ہے تو ان کی جماعت ہر طرح کا احتجاج کرے گی اور یہ احتجاج قومی اسمبلی کے اندر بھی ہو گا اور باہر بھی اور سڑکوں پر بھی ہو گا اور لانگ مارچ کو صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ مزید مشاورت کے لیے اسلام آباد میں اجلاس کرے گی۔جبکہ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون کے سینیئر پارلیمنٹرین سمیت بیشتر اراکین لاہور میں اجلاس کے لیے آئے ہوئے تھے اس موقع پر یوسف رضا گیلانی چوری چھپے ایوان میں آئے۔چوہدری نثار نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے سابقہ اور مجرم وزیراعظم کو غیر تحریر شدہ قانون کے تحت اور قواعد و ضوابط کے خلاف ورزی کرتے ہوئے وقفہ سوالات میں تقریر کی اجازت دی۔چوہدری نثار نے کہا کہ آئندہ پورے ہفتے بھی اسمبلی کا اجلاس ہونا ہے اور وہ اور ان کی جماعت اس موقف پر قائم ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو اب اپنی نشست پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر وہ آ کر بیٹھیں گے تو یہ قانون کے خلاف ہے اور ان کی جماعت یہ کسی صورت بھی قبول نہیں ہے۔ جبکہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے حزب اختلاف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میںاگر ہمت ہے تو پارلیمان میں ان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک لائی جائے۔توہینِ عدالت کے جرم میں ایک روز قبل سزا پانے کے بعد مسٹر گیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں صرف پارلیمانی طریقہ کار کے تحت اقتدار سے ہٹایا جا سکتا ہے۔اگر وہ اصولوں اور اخلاقیات پر یقین رکھتے ہیں تو میں انھیں چیلنچ کرتا ہوں کہ آئیں میرے خلاف عدمِ اعتماد (کا اظہار) کریں۔مسٹر گیلانی نے کہا کہ وہ متفقہ طور پر منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم ہیں اور انھیں پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے۔ جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی طرف سے صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم پر کڑی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دونوں عہدوں پر منتخب رہنما بِراجمان ہیں اور اپوزیشن کو عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیئے۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر اپنے باضابطہ ردِعمل کا پہلی مرتبہ اظہار کرتے ہوئے مسٹر گیلانی نے کہا کہ انھیں صرف ملک کے آئین کا تحفظ کرنے کی پاداش میں مجرم قرار دیا گیا ہے، اس لیے وہ فکرمند نہیں ہیں۔توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیے جانے کی وجہ سے مستعفی ہونے کے حزب اختلاف کے مطالبات اور ان کی نااہلی سے متعلق قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے مسٹر گیلانی نے کہا کہ صرف قومی اسمبلی کی اسپیکر ان کو نااہل قرار دے سکتی ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک منتخب نمائندے کو، 18 کروڑ عوام کے متفقہ طور پر منتخب نمائندے کو کوئی کہہ دے کہ آپ گھر چلیں جائیں، یہ نہیں ہو سکتا خواہ کئی فیصلے آ جائیں۔انھوں نے کہا کہ اگر عدالت کی جانب سے ان کے خلاف کوئی ریفرنس آیا تو اس پر مزید کارروائی اسپیکر کی صوابدید ہو گی۔میں یہ یاد دہانی بھی کرا دوں کہ آپ کوئی پوسٹ بکس نہیں ہیں، یہ نہیں کہ آپ کے پاس آئے گا کاغذ اور آپ ڈاکیے کی طرح جا کر کسی کو دے دیں گے۔ آپ نے اپنے ذہن سے بھی سوچنا ہوگا، آپ نے خود عدالت لگانی ہے، آپ نے خود سب (اراکینِ پارلیمان) سے پوچھنا ہے، اور اس کے بعد اگر مجھے پارلیمنٹ ڈی نوٹیفائے کر دیتی ہے تو یہ میرے لیے اعزاز ہوگا، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے ایک روز قبل کہا تھا کہ وزیراعظم اب ایوان میں نہ آئیں۔ اسی باعث جب وزیراعظم ایوان میں آئے تو مسلم لیگ ن کے ارکان واک آٹ کرگئے۔اے پی ایس