ڈرون حملوں پر میزبان ملک کا تعاون، امریکی اعتراف۔چودھری احسن پر یمی





پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ جمہوری نظام کے تسلسل پر یقین رکھتے ہیں ،آئین میں واضح طور پر قومی اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین ہے اور تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ عالمی برادری کو ہماری آزادی اور خودی مختاری کا احترام کرنا ہو گا۔ جی ایچ کیو راولپنڈ ی میں ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت کا مقصد صرف اور صرف عوام کی فلاح ہونا چاہیے۔آئین کے معاملات ایسے نبھائیں کہ ملک اور قوم کی عزت و وقار میں اضافہ ہو۔یہی واحد راستہ ہے جس سے ملکی سلامتی مزید مستحکم ہو گی۔ ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں انصاف سب کیلئے برابر ہو۔ نظریہ پاکستان پر مکمل یقین سے ہی ہم سرخرو ہو سکتے ہیں۔ ملکی سا لمیت کا تحفظ ، خود ختاری کا دفاع ہم سب کی اولین ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن اورسلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں ہمارے فوجیوں کو شہید کر دیا گیا لیکن قربانیوں کے باوجود بعض قوتوں نے ایک مہم کے تحت قوم کے عزم و حوصلے توڑنے کی کوشش کی،قوم کو ذہنی خلفشار میں مبتلا کیا گیا۔ لیکن پاکستان کے عوام کے جذبہ حب الوطنی کو سلام پیش کرتے ہیں۔مسلح افواج اپنی قوت اور عوام کی حمایت سے ملکی سلامتی کا تحفظ کرسکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سانحہ گیاری کے بعد جس طرح عوام نے فوج سے اظہار یکجہتی کیا وہ قابل فخر ہے۔ زندہ قومیں اپنے شہدا پر فخر کرتی ہیں۔گیاری میں برف تلے دبے آخری جانباز کی تلاش تک جدوجہد جاری رہے گی۔فوجی سربراہ نے کہا کہ قربانیوں کے باوجود ملک حالت جنگ میں ہے لیکن قوم کی دعاوں سے فوج اس امتحان میں کامیاب ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ گیاری پر پوری قوم افسردہ ہے۔جنرل کیانی کا خطاب ملکی ترقی ،استحکام و خود مختاری کیلئے ایک واضح مشعل راہ روڈ میپ ہے۔اب حکومت اور پارلیمنٹ میں بیٹھے عوامی نمائندوں نے دیکھنا ہے کہ کونسے ایسے معاملات نبھائیں جس سے ملکی وقار میں اضافہ ہو اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے کیا عملی اقدامات کئے جائیں جس سے یہ تاثر قائم ہو کہ معاشرے میں سب کیلئے یکساں انصاف ہو۔یوم شہداء کے موقع پر جنرل کیا نی کا ان قوتوں کیلئے پیغام ہے جنھوں نے جمہوریت کا لبادہ پہن رکھا ہے اور آئے روز نہ صرف قانون شکنی کا مرتکب ہورہی ہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کو بھی داو پر لگایا ہوا ہے۔کیو نکہ یہ حرف عام ہے کہ اگر چہ جمہوریت کے دعویدار اپنے کو اٹھارہ کروڑ عوام کا نمائندے ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک کو نسی عوامی مفاد میں ایسی پالیسی بنائی ہے جس سے عام آدمی کو ریلیف ملا ہو۔پاکستان کی خود مختاری کو تحفظ ملا ہو۔یا کو ئی طاقتور مجرم تک قانون کے ہاتھ لگے ہوں۔ ہر گز ایسا نہیں ہوا۔پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری اسی میں ہے جس کا واضح اشارہ جنرل کیا نی نے کردیا ہے کہ" جمہوریت کا اصل مقصد؟ ایسا ہر گز نہیں کہ ہر کو ئی اپنے اپنے مفاد کیلئے جمہوریت کے اصل مقصد کی اپنے اپنے الفاظ میں تشریح کرے۔بہرحال پا کستان کو داخلی و خارجی محاذ پر کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے جس پر پاکستان کے اندر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے نہ ہونے کی بجائے ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر ہے۔لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان پر ڈرون حملوں پر ہر کسی کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ سب اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر منافقت کا لبادہ پہنے ہوئے ہیں۔جبکہ امریکہ میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے صدر براک اوباما کے مشیر نے کہا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں شدت پسندوں کے نیٹ ورک کے خلاف جنگ جیتنے میں مدد مل رہی ہے۔امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ گزشتہ برس ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے مکان سے جو دستاویزات ملی تھیں انھیں اس ہفتے کے آخر میں آن لائن کر دیا جائے گا۔ امریکی صدر کے مشیر نے کہا ڈرون حملے قانونی ہیں، ان کا اخلاقی جواز ہے اور یہ ضروری اور متناسب ہیں۔ ڈرون حملے انتہائی احتیاط اور غورو فکر کے بعد کیے جاتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب ہدف کوئی امریکی شہری ہو۔صدر اوباما کے مشیر جان برینن نے یہ بات واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب میں کہی۔ان کے اس خطاب کو پاکستان میں ڈرون حملوں سے القاعدہ کے اراکین کو ہلاک کرنے کی پہلی مفصل امریکی توجیہہ قرار دیا گیا ہے۔امریکی صدر کے مشیر نے کہا کہ ڈرون حملے عموما میزبان ملک کے تعاون سے کیے جاتے ہیں یہ پوری طرح قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔خیال ہے کہ ڈرون حملوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور یمن میں بھی سینکڑوں شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔تاہم جان برینن نے یہ تسلیم کیا کہ کچھ ڈرون حملوں میں عام لوگوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔امریکی کمانڈوز نے گزشتہ برس دو مئی کو پاکستان کے شہرایبٹ آباد میں ایک آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔ جان برینن کا بیان اس کارروائی کے ایک برس مکمل ہونے پر آیا ہے۔امریکی صدر کے مشیر کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں القاعدہ کے اراکین کے خلاف کارروائی کے بارے میں صدر اوباما مزید کھل کر بات کرنا چاہتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ امریکہ نے پاکستان میں ڈرون حملوں کی تصدیق کی ہو۔ان کے نزدیک یہ حیرانی کی بات نہیں کہ امریکی صدر القاعدہ کے سربراہ اسامہ کی موت کو ایک علامت کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی انتظامیہ کی پہلی کامیابی نہیں لیکن یہ وہ کامیابی ہے جس کی اہمیت سیاست یا سیاسی جماعتوں کی وجہ سے کم نہیں ہوئی۔جنوری میں صدر اوباما نے ایک ویب کاسٹ کے ذریعے پاکستان میں شدت پسندی کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ڈرون حملوں کی بات کی تھی۔ تاہم جان برینن نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس امریکی پالیسی کا عقلی جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو اب تک متنازع ہے۔جان برینن کا کہنا تھا کہ جب سے امریکہ نے القاعدہ کے خلاف جنگ شروع کی ہے، ایک ایسی دنیا کا تصور کیا جا سکتا ہے جس میں مرکزی طور پر القاعدہ کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں۔جان برینن نے کہا کہ گزشتہ برس ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے مکان سے جو دستاویزات ملی تھیں انھیں اس ہفتے کے آخر میں آن لائن کر دیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ان دستاویزات میں اسامہ کے اپنے ساتھیوں سے رابطوں کا تذکرہ ہے اور ان کا ہاتھ سے لکھی ہوئی ڈائری ہے۔ان کاغذات کے مطابق اسامہ نے اپنی تنظیم کا نام تبدیل کرنے پر غور کیا تھا کیونکہ اس تنظیم کے کئی سینیئر رہنما مارے جا چکے تھے۔ جان برینن کے بقول دستاویزات میں اسامہ نے اعتراف کیا کہ القاعدہ کو ایک کے بعد دوسری آفت کا سامنا ہے۔جبکہ پاکستان نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں تازہ ترین امریکی ڈرون حملے کی شدید مذمت کی ہے۔وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں حکومت کا موقف دہراتے ہوئے ان امریکی کارروائیوں کو علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔یہ حملے بین الاقوامی قوانین اور بین الریاستی تعلقات کے تسلیم شدہ قواعد کی صریحا خلاف ورزی ہیں۔پاکستانی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اسلام آباد اور واشنگٹن میں سفارتی سطح پر اٹھایا جائے گا۔شمالی وزیرستان کے انتظامی مرکز میران شاہ کے قریب گزشتہ اتوار کی سہ پہر بغیر ہواباز کے پرواز کرنے والے جاسوس طیارے سے کیے گئے میزائل حملے میں تین مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔پاکستانی پارلیمان میں رواں ماہ متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد کے بعد یہ پہلا امریکی ڈرون حملہ تھا۔ پارلیمانی قرار داد میں امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعلقات اور قومی سکیورٹی پالیسی کے لیے رہنما اصول پیش کیے گئے تھے، اور اس میں خصوصی طور پر ڈرون حملوں کی فوری بندش کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت قرار داد پر من و عن عمل درآمد کی ہرممکن کوشش کرے گی۔لیکن گزشتہ پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ پارلیمان نے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو اوباما انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات سے متعلق اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ابھی (امریکہ کے ساتھ) ابتدائی بات چیت ہو رہی ہے، جب کوئی حتمی فیصلے ہوں گے تو پھر ہم اس پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔وزیر اعظم گیلانی نے حکومت کے ناقدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات یاد رکھنا بھی ضروری ی ہے کہ پارلیمانی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو بے دخل کیا جائے اور پاکستانی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کی اجازت نا دی جائے۔مبصرین کا خیال ہے کہ مسٹر گیلانی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ اس وقت تک موثر ثابت نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان میں غیر ملکی شدت پسندوں کی موجودگی سے متعلق مغربی دنیا کے تحفظات دور نا کر دیے جائیں۔اطلاعات کے مطابق امریکی حکام نجی حیثیت میں یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ ان کا ملک ڈرون حملے بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا کیوں کہ یہ شدت پسندوں کے خلاف ایک انتہائی موثر ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں۔جبکہ امریکی انتظامیہ کے ایک اعلی اہلکار نے بیرونِ ملک کیے جانے والے امریکی ڈرون حملوں کا قانونی اور اخلاقی جواز موجود قرار دیاہے اور یہ حملے امریکہ کی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کا ایک دانشمندانہ طریقہ ہیں۔پیر کو واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر براک اوباما کے سینیئر مشیر برائے انسدادِ دہشت گردی جان برینن نے ڈرون حملوں کو 'لیزر اور سرجری' سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ذریعے عام شہریوں کو نقصان پہنچائے بغیر دہشت گردی کے "کینسر " کے خاتمے میں مدد ملی ہے۔برینن نے ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے پاس اس سے قبل ایسا کوئی ہتھیار موجود نہیں تھا جس کے ذریعے انتہائی احتیاط سے متعین کردہ کسی القاعدہ راہنما کو ایسے نشانہ بنایا جاسکتا ہو جس میں دیگر لوگوں کی ہلاکت کا امکان کم سے کم ہو۔امریکی عہدیدار نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کسی بھی ہدف کے خلاف ہلاک خیز طاقت کے استعمال کا فیصلہ "انتہائی ممکنہ معیارات" کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کرتی ہے۔انہوں نے تقریب کے شرکا کو بتایا کہ حکام کی جانب سے ہدف منتخب کیے جانے کے بعد یہ جانچا جاتا ہے کہ وہ امریکی مفادات کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے اور آیا مطلوب فرد کی گرفتاری کا کوئی راستہ موجود ہے۔امریکی صدر کے مشیر نے کہا کہ جن ممالک میں یہ ڈرون حملے کیے جاتے ہیں ان میں سے بیشتر کی حکومتیں ان میں تعاون کرتی ہیں۔ لیکن انہوں نے واضح کیا کہ اگر متعلقہ حکومت مطلوبہ ہدف کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی، یا کرسکتی، تو ان کے بقول امریکہ "انسانی جان لینے پر مجبور" ہوتا ہے۔برینن نے کہا کہ وہ ان اہدافی ہلاکتوں کی کاروائیوں کو اتنی تفصیل سے اس لیے بیان کر رہے ہیں کیوں کہ پاکستان میں امریکی اسپیشل کمانڈوز کے ہاتھوں القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ایک برس مکمل ہونے کے موقع پر اوباما انتظامیہ چاہتی ہے کہ اس نوعیت کی کاروائیوں کی تفصیلات عوام کے علم میں لائی جائیں۔واضح رہے کہ امریکہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کر رہا ہے جنہیں پاکستانی حکومت اپنی خود مختاری کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔حکومتِ پاکستان کا موقف ہے کہ ان حملوں میں عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی ماری جارہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے میں امریکہ مخالف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔اے پی ایس