افغانستان :پسپائی میں فتح، نیٹو کانفرنس شکاگو۔چودھری احسن پر یمی




پاکستان نے باضابطہ طور پر تصدیق کر دی ہے کہ صدر آصف علی زرداری بیس مئی سے امریکہ کے شہر شکاگو میں شروع ہونے والے نیٹو کے دو روزہ سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔اس اجلاس میں 2014 کے اختتام پر افغانستان سے غیر ملکی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد بین الاقوامی برادری کے تعاون پر بحث کی جائے گی اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل اینڈرس راسموسن نے ٹیلی فون کر کے پاکستانی صدر کو اجلاس میں شرکت کی باضابطہ دعوت دی تھی۔ صدر زرداری شکاگو کانفرنس سے خطاب کے علاوہ اجلاس میں شریک عالمی رہنماں سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔ وزیرخارجہ حنا ربانی کھر اور سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی صدر کے ہمراہ ہوں گے۔ڈی سی سی (کابینہ کی دفاعی کمیٹی) اور وفاقی کابینہ کی طرف سے (صدر) کو بھیجے گئے دعوت نامے کی توثیق کے بعد اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جبکہ پاک امریکہ مذاکرات کے بارے میں ذرائع ابلاغ کی قیاس آرائیوں پر مبنی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ حکومت پارلیمان کی سفارشات پر من وعن عمل کرے گی۔کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نیٹو سپلائی لائنز، (امریکی) معافی، سرحدوں کے لیے نئے قواعد اور ڈرون حملوں کی بندش پر شفاف انداز میں مذاکرات جاری ہیں۔ پاکستان تمام امور پر امریکہ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے اور فیصلے بہترین قومی مفاد میں کیے جائیں گے۔وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں ایک تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ صدر زرداری کو نیٹو کانفرنس میں غیر مشروط شرکت کی دعوت دی گئی ہے جس کا پاکستان نے خیر مقدم کیا ہے۔صدر شکاگو جائیں گے اور اجلاس میں شرکت کریں گے۔ مگر امریکہ کے ساتھ ہمارے مذاکرات جاری ہیں اور ہم نے تمام متعلقہ اداروں اور وزارتوں کو اس عمل کو مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیے امریکہ کی جانب سے تسلسل سے کیے جانے والے مطالبے کے جواب میں وزیرِاعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ پارلیمانی سفارشات میں بھی حکومت سے کہا گیا ہے کہ غیر ملکی جنگجوں کو ملک بدر کیا جائے۔اب یہ کام فوج اور متعلقہ اداروں کا ہے کہ وہ کب اور کس وقت (آپریشن) کرنا چاہتے ہیں، اس بارے میں ہمیں ابھی فیصلہ کرنا باقی ہے۔سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ مذاکرات میں نیٹو افواج کو رسد کی ترسیل کے قافلوں پر پاکستان کی جانب سے محصولات کی ادائیگی کا مطالبہ سپلائی لائن کی بحالی میں تاخیر کی بڑی وجہ ہے۔گزشتہ ایک عشرے سے نیٹو کے قافلے پاکستان کے راستے افغانستان سامان لے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے قومی شاہراوں کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ وزارت خارجہ کے توسط سے نقصانات کے اس تخمینے سے امریکی عہدے داروں کو آگاہ کر دیا گیا ہے جس میں فی کنٹینر پچیس سو ڈالر یا تقریبا دو لاکھ تیس ہزار روپے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔پاکستان پچیس سو ڈالر فی ٹرک مطالبہ کر رہا ہے لیکن جب دو فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں تو اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔جبکہ اٹھائیس ارکان پر مشتمل نارتھ ایٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو شکاگو میں ہونے والے اجلاس میں سربراہان مملکت اور حکومت شرکت کریں گے، جس میں افغانستان پر بات ہوگی۔نیٹو سنہ 2003سے افغانستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بر سر پیکار ہے، جہاں اقوام متحدہ کی ہدایات پر 130000فوج تعینات ہے، جسے انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹینس فورس ایساف کہا جاتا ہے۔سکیورٹی سے متعلق بین الاقوامی افواج کا مقصد افغان حکام کو سلامتی اور استحکام فراہم کرنا ہے، تاکہ ملک میں تعمیرنو اور ترقی کے حصول کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں مدد دی جا سکے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شکاگو سربراہ اجلاس 2014 میں افغانستان سے لڑاکا فوجوں کے انخلا سے متعلق نیٹو کے فیصلے کی تائید کے علاوہ، افغان عوام کے ساتھ طویل المدت ساجھے داری کے عزم کا اعادہ کیا جائے گا۔ اگر نیٹو ممالک کی داخلی سیاست پر نگاہ ڈالی جائے، توچاہے فرانس ہو یا امریکہ، اس لڑائی کی حمایت میں کمی آتی جارہی ہے، جس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ دراصل لوگ کیا چاہتے ہیں۔ 2014 میں فوج کے انخلا کی تاریخ کو سامنے رکھنا ضروری ہے، دراصل اس نظام الاقات کے بارے میں آپ کرزئی حکومت اور افغانستان کے دیگر لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہیں گے کہ وہ غیرمعینہ مدت تک کے لیے امریکہ پر انحصارنہیں کر سکتے۔افغانستان میں نیٹو کا نعرہ ایک ساتھ آئے ہیں اور ایک ہی ساتھ جائیں گے رہا ہے۔ تاہم، تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ ایک مشکل معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ سربراہ اجلاس میں نیٹو حکام فرانس کے نئے منتخب صدر فرانسواں اولاں کو اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ وہ اسی سال کے اواخر تک افغانستان سے اپنی 3300فرانسیسی فوجیں واپس نہ بلائیں، جیسا کہ وہ صدارتی مہم کے دوران عہد کرچکے ہیں۔صدراوباما اپنے شہر شکاگو میں اس اختتام ہفتہ ایک سربراہ کانفرنس میں نیٹو کے لیڈروں کا خیر مقدم کریں گے۔ اس کانفرنس میں افغانستان رکن ممالک میں ذمہ داریوں کی تقسیم اور نیٹو اتحاد کو درپیش دوسرے چیلنجوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔امریکہ اور نیٹو افغانستان سے ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق افغانستان سے اپنی فوجیں نکال رہے ہیں جس کے تحت تمام غیر ملکی لڑاکا فوجیں 2014 تک افغانستان چھوڑ دیں گی۔طالبان کے کئی بڑے حملوں کے باوجو، نیٹو کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سرکاری فورسز ملک کی سیکورٹی کی بوجھ اٹھانے کی اہلیت حاصل کرنے کی طرف اطمینان بخش طریقے سے پیش رفت کر رہی ہیں۔اس مہینے کے شروع میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ شکاگو میں ہمارا اتحاد یہ ہدف مقرر کرے گا کہ افغان فورسز اگلے سال پورے ملک میں جنگی کارروائیوں کی ذمہ دار ہوں گی۔ بین الاقوامی فوجی افغانوں کو تربیت، مشاورت اور مدد فراہم کرتی رہیں گے اور جب ضروری ہوگا، تو ان کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیں گے۔ لیکن جیسے جیسے افغان پیش قدمی کریں گے، ہم امدادی رول اختیار کر لیں گے۔حال ہی میں جس امریکہ افغانستان اسٹریٹیجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اس میں نیٹو کی طرف سے طویل مدت کی مدد کی اسٹریٹجی کے اعلان کا اضافہ ہوگا۔لیکن نیٹو اتحاد کے ملکوں کے دفاعی بجٹ کم ہوتے جا رہے ہیں اور رکن ممالک کو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے بعض فیصلے کرنا ہوں گے۔امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سکریٹری فار یورپین اینڈ یورایشین افیئرز فلپ گورڈن کہتے ہیں کہ یورپ میں دفاع پر خرچ کا رجحان اچھا نہیں ہے اور لمبے عرصے میں اگر اخراجات کی موجودہ سطح کو برقرار نہ رکھا گیا تو نیٹو اتحاد وہ سب کچھ نہیں کر سکے گا جو وہ بہت برسوں اور عشروں کے دوران کرتا رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال لیبیا کی ہے۔نیٹو کے سکریٹری جنرل اینڈرس راسموسن اسمارٹ ڈیفینس پر زور دے رہے ہیں اور شکاگو میں اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اس طریقے میں رکن ممالک وسائل کا مل جل کر استعمال کریں گے۔جبکہ دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ نیٹو کے ممالک کس طرح مل جل کر پیسہ خرچ کریں تاکہ ایک ادارے کی حیثیت سے نیٹو کی صلاحیت میں اضافہ ہو جائے، بجائے اس کے کہ رکن ممالک الگ الگ فیصلے کریں۔اس کے علاوہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین جان کیری کہتے ہیں کہ نیٹو کے بہت سے ارکان اپنی مالی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں اور اس سے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ہم سب یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ آج کل سب کو مالی مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ تو سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ ہمیں ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کون سی چیز واقعی اہم ہے اور کون سی کم اہم ہے۔ایک اور بڑا مسئلہ میزائل کے دفاعی نظام کا اور ایران کے میزائل کے حملے کے خلاف امریکہ کے دفاعی ڈھال کا نظام قائم کرنے کا ہے۔ اس پروگرام پر روس کو اعتراض ہے۔ لیکن نیٹو نے طے کیا ہے کہ یہ نظام بہر حال قائم کیا جائے گا۔شکاگو میں نیٹو کے لیڈر اس موضوع پر تبادلہ خیال کریں گے کہ افغانستان اور لیبیا سے ہم نے کیا سبق سیکھے ہیں۔ ایک بنیادی چیلنج یہ ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ مستقبل میں نیٹو کا رول کیا ہونا چاہیئے۔ گذشتہ سات یا آٹھ برس سے نیٹو کی توجہ افغانستان پر رہی ہے۔ اس وقت نیٹو کے سامنے ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ یہ پوچھیں کہ نیٹو کا مقصد کیا ہے تو مختلف ممالک مختلف جواب دیں گے۔شکاگو میں نیٹو کا سربراہ اجلاس گذشتہ 13 برسوں میں پہلا موقع ہو گا جب نیٹو کے لیڈر امریکہ میں جمع ہو رہے ہیں۔امریکہ نیٹو رسد کی
بحالی کے عوض پاکستان کو لگ بھگ 10 لاکھ ڈالر یومیہ ادا کرے گا۔ امریکہ اور پاکستان کے حکام کے درمیان گزشتہ چھ ماہ سے معطل نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔یاد رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کی دو سرحدی چوکیوں پر امریکی طیاروں نے بمباری کی تھی جس سے 24 فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ واقعے کے بعد اسلام آباد حکومت نے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے اپنے زمینی راستے سے جانے والی رسد روک دی تھی جو تاحال معطل ہے۔ طویل مذاکرات کے بعد پاکستانی حکومت نے بالآخر نیٹو سپلائی بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے جس کے عوض اتحادی ممالک رسد لے جانے والے ہر ٹرک کے عوض پاکستان کو 1500 سے 1800 ڈالر تک ادا کریں گے۔ پاکستان کو نیٹو سپلائی کے عوض یومیہ 10 لاکھ ڈالر تک ادائیگی کی جائے گی جس کے باعث اتحادی ممالک، خصوصا امریکہ کو سالانہ 36 کروڑ ڈالر کا اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔اس وقت نیٹو ممالک افغانستان میں تعینات اپنی افواج کے لیے خوراک اور دیگر سازو سامان بحرِ سیاہ کے راستے جارجیا پہنچاتے ہیں جہاں سے اس رسد کو سائبیریا اور پھر وسطی ایشیا کے راستے افغانستان بھیجا جارہا ہے۔ یہ زمینی مسافت لگ بھگ چھ ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے مقابلے پر پاکستان کے راستے سامان لے جانے والے ٹرک محض 500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے افغانستان پہنچ جاتے ہیں۔ امریکی حکام نے اس بھاری معاوضے کی ادائیگی کے عوض پاکستانی حکام سے نیٹو کنیٹنرز کی بحفاظت نقل و حرکت یقینی بنانے اور ان کے کسٹم اور جانچ پڑتال کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔پینٹاگون کے مطابق معطلی سے قبل اتحادی افواج کو افغانستان بھیجی جانے والی کل رسد کا 30 فی صد پاکستان کے راستے جاتا تھا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی راستے کی بحالی اس لیے بھی ضروری ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کی ڈیڈلائن نزدیک آرہی ہے۔ افغانستان سے اپنے ساز و سامان اور بھاری ہتھیاروں کو پاکستانی بندرگاہوں تک پہنچانا اور وہاں سے ان کی متعلقہ ممالک تک منتقلی غیر ملکی افواج کے لیے ایک سستا اور آسان راستہ ہوگا۔ امریکی اور پاکستانی حکام اس معاہدے کی جزیات طے کرنے میں مصروف ہیں اور امکان ہے کہ آئندہ ہفتے یہ عمل مکمل ہوجائے گا۔ معاہدے کے بعد روزانہ لگ بھگ 600 ٹرک نیٹو رسد پاکستان سے افغانستان لے جائیں گے۔ پاکستان امریکہ سے سلالہ چیک پوسٹ حملے پہ معافی مانگنے کے مطالبے سے بھی دستبردار ہوگیا ہے جب کہ فریقین میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے امریکی ڈرون حملوں کے خاتمے پہ بھی اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا ہے۔یاد رہے کہ پاکستانی پارلیمان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی امریکہ کی جانب سے سلالہ چیک پوسٹ حملے پہ معافی مانگنے اور ڈرون حملے بند کرنے سے مشروط کی تھی۔جبکہ ایک نئی رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کی صورت میں وہ تمام پیش رفت اور کامیابیاں زائل ہونے کا اندیشہ ہے جو غیر ملکی افواج نے گزشتہ ایک عشرے کی جنگ کے دوران میں وہاں حاصل کی ہیں۔'افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک' کی جانب سے یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب نیٹو ممالک کے سربراہان جنگِ افغانستان کے مستقبل پر غور کے لیے رواں ہفتے امریکی شہر شکاگو میں جمع ہورہے ہیں۔'افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک' کے جرمنی میں موجود نمائندے تھامس رٹیگ اپنے ادارے کی اس نئی رپورٹ کے بارے میں کہتے ہیں کہ مغربی ممالک اور خود افغان حکومتوں کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ 2014 میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں 1989 کی تاریخ نہیں دہرائی جائے جب افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کے نکلنے کے بعد اسے تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔یورپی یونین کی سابق مشیر باربرا اسٹیپلٹن 'بیٹنگ دی ری ٹریٹ' یعنی "پسپائی میں فتح" نامی اس رپورٹ کی مصنفہ ہیں۔ رپورٹ میں نیٹو پر زور دیا گیا ہے کہ اگر وہ خطے میں سلامتی سے متعلق اپنے طویل المدتی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے لچک دار حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔رپورٹ کی مصنفہ کا اصرار ہے کہ سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کی مقامی حکام کو منتقلی اس بات پر منحصر ہے کہ افغانستان میں سلامتی، ترقی اور انتظامی معاملات کی صورتِ حال کیا ہوگی۔'افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک' کا کہنا ہے کہ اس وقت اتحادی ممالک اپنے ایجنڈے کی تشکیل میں افغانستان کی ضروریات کو مدِ نظر نہیں رکھ رہے۔رٹیگ کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سیکیورٹی مقامی حکام کو منتقل کرنے کا جو نظام الاوقات ترتیب دیا گیا ہے وہ ان ممالک کی خواہشات کے مطابق ہے جن کی فوجیوں وہاں تعینات ہیں۔ ان کے بقول اس نظام الاوقات میں افغانستان کی برسرِ زمین صورتِ حال اور وہاں کے مقامی حالات کو مکمل طور پر مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔اتحادی ممالک اعلان کرچکے ہیں کہ افغانستان میں موجود غیر ملکی فوجیں 2014 تک ملک سے نکل جائیں گی اور نیٹو حکام کا کہنا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز توقعات کے عین مطابق ملکی سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت حاصل کر رہی ہیں۔اس فوجی انخلا کی تفصیلات اتوار کو شکاگو میں ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس میں طے کیے جانے کی توقع ہے۔رٹیگ کہتے ہیں کہ نیٹو ممالک کو انخلا سے قبل افغانستان میں موثر سیاسی اداروں کا قیام اور استحکام یقینی بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ ان کے بقول اس سمت میں بنیادی کام پہلے ہی کیا جاچکا ہے اور اب اس جانب مزید پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ان کے مطابق وہاں ایک نسبتا بہتر آئین تشکیل دیا جاچکا ہے۔ وہاں قوانین موجود ہیں جن میں ایک اجتماعی سیاسی نظام کے قیام کی یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ لیکن اس پیش رفت کا بیشتر حصہ تاحال کتابوں میں ہی ہے اور اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ڈیوڈ لونگ اسٹون لندن میں واقع تحقیقی ادارے 'چیٹم ہاس' کے ساتھ افغان امور کے ماہر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ دنیا افغانستان میں سماجی بہبود اور زراعت، آب پاشی اور بجلی سمیت قومی ڈھانچے کو ترقی دینے کے مختلف منصوبوں میں طویل المدت اعانت جاری رکھے۔ان کا کہناہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو اسے اپنا مقصد بنا لینا چاہیے۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ اگر اس معاملے کو صحیح طور پر منظم نہیں کیا گیا تو 90 کی دہائی کی صورتِ حال اور مسائل دوبارہ جنم لے سکتے ہیں۔اے پی ایس