جبر اور ناانصافی مزید جاری نہیں رہ سکتی۔چودھری احسن پر یمی



انسانی حقوق کی عالمی تنظیم، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2012 کے لیے اپنی سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ سال چین، شمالی کوریا، مشرق وسطی، روس، جنوبی سوڈان، پاکستان، بھارت اور افغانستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔رپورٹ میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ جو ممالک اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے مرتکب ہوئے ہیں، انھیں اسلحے کی فروخت پر پابندی کے لیے عالمی سطح پر قانون سازی کی جائے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل بحرالکاہل کی ڈائریکٹر نے کہا کہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جو کہ سلامتی کونسل کے رکن ہیں اور عالمی سطح پر اسلحے کی ترسیل کرتے ہیں۔ان کے الفاظ میں، ہمیں معلوم ہے کہ یہ ممالک اسلحے کی تجارت کے لیے ایک مضبوط عالمی معاہدے کے حق میں نہیں۔لیکن، ان مسائل کے حل کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور شمال مغرب میں شدت پسند کارروائیوں میں عام لوگوں کی ہلاکتوں، لاپتا افراد کی عدم بازیابی، اقلیتوں کے خلاف مبینہ کارروائیوں اور گذشتہ برس قتل کیے گئے صحافیوں کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ گذشتہ ایک برس پاکستانی عوام کے لیے نہایت خراب ثابت ہوا۔ خصوصا بلوچستان اور شمال مغرب میں لڑائیاں، کراچی میں فریقین کے درمیان ٹکرا واور ان کا تحفظ کرنے والوں کو دی جانے والی سزا اور میڈیا پر کیے گئے حملے قابلِ ذکر ہیں۔رپورٹ میں طالبان کی جانب سے خودکش حملوں میں عام لوگوں کیجانی نقصان، اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کے نامساعد حالات، سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے مذہب کے نام پر قتل کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ماضی میں پاکستانی حکومت انسانی حقوق کی صورتِ حال میں بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کے عزم کا اعادہ کر چکی ہے جب کہ ان کے مطابق لاپتا افراد کا کیس ابھی عدالت میں زیر غور ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سال 2012 کی رپورٹ آزادی اظہار پر کم از کم 93ممالک کے مخصوص قدغنوں کا احاطہ کرتی ہے، جب کہ 100کے قریب ممالک نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے مظاہرین پر تشدد کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنٹسی انٹرنیشنل نے سال دو ہزار گیارہ کے حالات پر مبنی اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں حقوق انسانی کی صورتحال خراب ہی رہی اور سکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار اکثر خلاف ورزیوں میں ملوث رہے۔رپورٹ کے مطابق سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ادارے عمومی طور پر بغیر کسی روک ٹوک کے سرگرم رہے ۔ ان پر جبری گمشدگیوں، تشدد اور شہریوں، صحافیوں، کارکنوں اور مسلح گروہوں کے مشتبہ افراد پر بلاامتیاز تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات کا سامنا رہا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز پر اب بھی بلوچستان اور شمال مغرب کے علاقوں میں جبری گمشدگیوں، تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام سال اعلی امریکی اہلکار پاکستان پر افغانستان میں طالبان کی مدد کے الزامات سرعام عائد کرتے رہے۔ماورائے عدالت ہلاکتوں کی زیادہ خبریں بلوچستان کے ساتھ ساتھ شمال مغرب اور تشدد سے متاثرہ کراچی میں عام رہیں۔ایمنٹسی نے الزام عائد کیا کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے تک نہیں لاسکی اور اکثر شکار افراد لاپتہ رہے۔حکومت نے گزشتہ برس مارچ میں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک نیا کمیشن تشکیل دیا۔ لیکن سابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال کو اس کمیشن کے سربراہ کے طور پر تعینات کرنے میں مزید چھ ماہ کا وقت لیا۔اس سے پہلے ایک دوسرے کمیشن نے مارچ دو ہزار دس میں کام شروع کیا تھا جو سینکڑوں لاپتہ افراد میں سے دو سو بیس کو تلاش کرنے میں کامیاب رہا۔ دونوں کمیشنوں پر شاہدین کو تحفظ فراہم نہ کرنے اور خصوصا ان واقعات کی مناسب تحقیقات نہ کرنے پر تنقید کی گئی جن میں سکیورٹی فورسز اور خفیہ ادارے پر مبینہ طور پر ملوث ہونے کا شک تھا۔ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جاری لڑائی کی وجہ سے تقریبا دس لاکھ افراد اس سال گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ان علاقوں میں جنہیں شدت پسندوں سے خالی کروا لیا گیا وہاں بھی عدم تحفظ اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کی شکایات عام رہیں۔ گزشتہ جون میں صدر زرداری نے شمال مغرب صوبہ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کو مقدمات سے بعد از تاریخ استثنا اور بغیر کسی روک ٹوک کے نظربندی اور سزا کا بیتہاشہ اختیار دیا۔رپورٹ کے مطابق عورتوں اور بچیوں کو لڑائی سے متاثرہ ملک کے شمال مغربی علاقوں اور بلوچستان میں تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔پاکستانی طالبان نے شہریوں کو نشانہ بنایا اور خودکش حملوں اور خودساختہ دھماکہ خیز مواد یعنی آئی ای ڈیز کے ذریعے بلاامتیاز حملے کیے۔ کئی قبائلی عمائدین کو نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا۔طالبان نے عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک کئی سیاستدانوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کے مطابق خیبر پختونخوا میں دو سو چھیالیس سکولوں کو (انسٹھ لڑکیوں کے اور ایک سو ستاسی لڑکوں کے) تباہ کیے جبکہ سات سو تریسٹھ (دو سو چوالیس لڑکیوں اور پانچ سو انیس لڑکوں کے) نقصان پہنچایا گیا۔ اس سے ہزاروں بچے تعلیم تک رسائی سے محروم ہوگئے۔پاکستانی طالبان کے تشدد کے خوف کی وجہ سے صحت کی سہولتوں، تعلیم اور عوامی سرگرمیوں تک عورتوں اور بچیوں کی رسائی محدود رہی۔آزادی اظہار کا مسئلہ بھی ایمنسٹی کے مطابق ایک بڑا تشویشناک پہلو رہا۔ دو ہزار گیارہ میں اس کے مطابق کم از کم نو صحافی ہلاک کیے گئے۔ میڈیا کے نمائندوں کو سکیورٹی فورسز، خفیہ اداروں، سیاسی جماعتوں اور مسلح گروہوں سے متعلق رپورٹنگ پر دھمکیوں کا سامنا رہا۔ پاکستانی حکام ان واقعات میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے یا صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔تنظیم کے مطابق فرقہ وارانہ گروہ اقلیتی احمدی، مسیحی، ہندو اور شیعوں کے ساتھ ساتھ معتدل سنیوں کو ڈراتے دھمکاتے اور ملک میں رائج توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی بات کرنے والوں کے خلاف تشدد کے لیے ورغلاتے رہے۔ ریاست مذہبی اقلیتیوں کے خلاف فرقہ ورانہ حملے روکنے یا ان میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہی۔عورتوں کو قانونی اور غیرارادی امتیازی سلوک اور تشدد کا اندرون و بیرون خانہ سامنا رہا۔ عورت فاونڈیشن نے عورتوں کے خلاف تشدد کے مجموعی طور پر آٹھ ہزار پانچ سو انتالیس واقعات ریکارڈ کیے۔ان میں پندرہ سو پچھتر قتل، آٹھ سو ستائیس زنا بلجبر، چھ سو دس گھریلو تشدد، سات سو پانچ غیرت کے نام پر قتل اور چوالیس تیزاب گرانے کے واقعات تھے۔دسمبر میں پاکستانی پارلیمان نے ان مسائل پر قابو پانے کی خاطر ایسڈ کنٹرول اور ایسڈ کرائم پریوینشن بل 2010 اور خواتین مخالف واقعات (کریمنل لا امینڈمنٹ) بل 2008 منظور کیے تشدد میں ملوث افراد کی سزائیں مزید سخت کرکے عورتوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں تیزاب پھینکنے اور جبری شادیوں کو جرم قرار دیا گیا۔سزائے موت کے مسئلے پر پیپلز پارٹی حکومت کو حتمی فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں آٹھ ہزار سے زائد قیدیوں کو سزائے موت کا سامنا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق کم از کم تین سو تیرہ افراد کو جن میں آدھے سے زائد قتل کے مقدمات تھے سزائے موت سنائی گئی۔ تین افراد کو توہین رسالت کے مقدمات میں سزائے موت سنائی گئی۔ البتہ آخری مرتبہ سزائے موت سال دو ہزار آٹھ میں دی گئی تھی۔کراچی مختلف سیاسی اور نسلی گروہوں کے ساتھ منسلک مخالف گینگز کے درمیان میدان جنگ بنا رہا۔ مون سون سیلاب کے دوسرے سال نے مزید نقل مکانی اور ملک بھر میں ڈینگو بخار کی بیماری عام کی۔ بجلی کی جاری شدید قلت ملک بھر میں پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سبب اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی۔اے پی ایس