بلوچستان کا سیاسی حل۔چودھری احسن پر یمی




آئی جی ایف سی میجر جنر ل عبیداللہ خان نے کہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ملکی اداروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ ملک میں لاقانونیت پھیلے اور عوام کا اعتماد حکومتی اداروں سے اٹھ جائے حالانکہ تمام ریاستی ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں 20 دیگر ممالک کی ایجنسیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم ہیں جن کی حرکتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی ادارے اور انٹیلیجنس ایجنسیاں سرگرداں ہیں۔ ایسی کارروائیوں میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بیٹھے ہوئے عناصر ملوث ہیں۔ان عناصر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ان سازشوں کو ہم عوام کے تعاون سے ناکام بنا دیں گے اور ان سازشوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ صوبے میں قیام امن، پاکستان اور بلوچستان کے استحکام کے لیے آج فورسز کے اہلکار جانیں قربان کر رہے ہیں۔ فرنٹیئر کور بلوچستان ایک وفاقی ادارہ ہے جس کو وفاقی وزارت داخلہ کنٹرول کرتا ہے۔ اس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور صوبے میں قیام امن سمیت دیگر فرائض کی منصبی کے لیے وزیراعلی بلوچستان اور صوبائی حکومت کی درخواست پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں ۔ ایف سی نے پولیس کے ساتھ مل کر مختلف کارروائیوں میں 129 شر پسندوں کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کیا ہے جن میں سے صرف 4 کو سزا 50 بری اور 61 کے کیس ابھی تک چل رہے ہیں۔آئی جی ایف سی نے کہا کہ علیحدگی پسندوں کے 121 کیمپ بلوچستان اور 30 کیمپ افغانستان میں موجود ہیں جہاں سے دہشتگردی کی کارروائیاں کی جاتی ہیں ۔ افغانستان میں موجود غیر ملکی فورسز کو فراری کیمپوں کی موجودگی کا علم ہونے کے باوجود بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ ایک خاص منصوبے کے تحت سیکورٹی فورسز اور خاص کر ایف سی کو مفلوج کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صوبائی حکومت کو تجویز دی ہے کہ چونکہ اندرونی صوبے میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے لہذا لیویز فورس کو فعال بنایا جائے۔ اسی طرح شہروں میں پولیس کو ٹارگٹ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے سینئر افسران تک صوبے میں خدمات انجام دینے سے کتراتے ہیں۔آئی جی ایف سی نے کہا کہ صوبے کے اندر اندرونی اور بیرونی سازشیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک علیحدگی پسند کا انٹرویو دیکھا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان توڑنے کی واضح بات کی تھی لیکن ہم ان پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب تک ملک کے ادارے قائم ہیں کسی کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر سے حالات کی خرابی کے باعث 1 لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کر کے دوسرے صوبوں کو چلے گئے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں آئی جی نے کہا کہ فرنٹیئر کور بلوچستان عدالتوں اور سیاسی اداروں کا احترام کرتی ہے۔ ایف سی کا مقصد سرحدوں کی حفاظت اور صوبے میں امن و استحکام کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی طور پر حل تلاش کیا جائے۔آئی جی ایف سی میجر جنرل عبیداللہ خان نے کہا کہ ہم پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور جہاں ہمیں ٹارگٹ کیا جائے گا ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی علیحدگی کی باتیں کرنے والوں کو برداشت کیا جائے گا۔بلوچستان میں جتنے بھی ٹارگٹ کلنگ، بدامنی اور فورسز پر حملوں کے واقعات ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت کی کالعدم تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی ہے لیکن ان تنظیموں کے خلاف نہ ہی کوئی مقدمہ درج ہوا ہے اور نہ کسی عدالت میں کوئی مقدمہ چلایا گیا ہے۔ اگر فرنٹیر کور ملزمان کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کرتی ہے تو وہ عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہوجاتے ہیں۔بلوچستان کے مسئلہ پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے مستقبل میں کسی کو راہداری جاری نہیں کریں گے اور جن لوگوں کو راہداریاں حاصل ہیں ان کو فوری طور پر منسوخ کر دیا جائے۔اجلاس میں وزارت داخلہ کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ اگلے تین دن میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو یہ حکم نامہ جاری کریں کہ موجودہ راہدایوں کو منسوخ کر دیا جائے اور مستقبل میں کسی کو راہداری جاری نہ کی جائے۔ بلوچستان میں غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کو راہدایاں حاصل تھیں جن کے تحت انہیں گاڑیوں کو صوبے بھر میں استعمال کرنے کا حق حاصل تھا۔اس اجلاس میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نئے قانون متعارف کرانے اور دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے انسدادِ دہشتگردی کے موجودہ قوانین میں ترمیم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔وزیر اعظم ہاس میں ہونے والے اجلاس میں بلوچستان کے وزیر اعلی نواب اکبر رئیسانی کے علاوہ قانون، داخلہ، خزانہ، اطلاعات، خوراک اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزرا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان اور اعلی وفاقی اور صوبائی اہلکاروں نے بھی شرکت کی۔اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم بلوچستان کا دو روزہ دورہ کریں گے جس دوران وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔اس اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ بلوچستان میں کالے شیشے والی گاڑیوں پر مکمل پابندی ہوگی اور کسی شخص کو کالے شیشے والی گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ بغیر کسٹم ادا کیے کسی گاڑی کو سڑک پر آنے کی اجازت نہیں ہوگی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی گئی ایسی گاڑیوں کو قبضے میں لے کر ان کے مالکان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایسی تمام گاڑیاں جن کے کسٹم ادا نہیں کیے گئے اور انھیں عارضی طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی ان کے اجازت نامے منسوخ تصور کیے جائیں گے۔ اس اجلاس میں وزیر اعظم نے بلوچستان کے وزیر اعلی سے کہا کہ صوبے میں شدت پسندی کی لعنت اور لاپتہ افراد کے مسائل کے علاوہ دیگر مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مربوط کوششوں کو یقنی بنایا جائے۔ وزیر اعظم نے وزارت داخلہ کو یہ بھی ہدایت کی جرائم پر قابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار اور صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے ان کی ضروریات کو دیکھا جائے۔وزیر اعظم نے وفاقی وزیر داخلہ اور بلوچستان کے وزیر اعلی کو ہدایت کی کہ وہ تواتر کے ساتھ ملتے رہیں تاکہ صوبے میں اور خاص طور پر کوئٹہ میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔ جبکہ گزشتہ ماہ کے آخر میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں بلوچستان کے بارے میں اعلی سطح کے ایک اجلاس میں آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ بلوچستان کا فوجی حل دیرپا نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے بتایا کہ آرمی چیف نے اجلاس میں کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افواج پاکستان یا فرنٹیئر کور مکمل طور پر اپنے قانونی دائرہ کار میں کام کریں۔ لاپتہ افراد کے بارے میں ماضی میں اتنے اعلی سطحی اجلاس کم ہی بلائے گئے اور اس بار لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان میں آئے روز لاشیں ملنے اور جبری گمشدگیوں کے بارے میں سخت ہدایات اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام کل جماعتی کانفرنس میں حکومت پر صورتحال بہتر کرنے کے لیے جو دبا ڈالا گیا اس کے بعد اعلی مرکزی، صوبائی اور فوجی قیادت کا یہ اجلاس بلایا گیا۔وزیر اطلاعات نے بتایا کہ اجلاس میں طے پایا ہے کہ بلوچستان میں گرفتاری، حراست اور ٹرائل کے حوالے سے قانون پر مکمل عمل کروایا جائے گا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں جو بھی ملوث ہوگا اس شخص کو معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ سخت کارروائی ہوگی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ فرنٹیئر کور امن و امان کے علاوہ کوئی اور فرائص جیسا کہ سمگلنگ کی روک تھام وغیر کا کام نہیں کرے گی۔ فرنٹیئر کور بلوچستان کے وزیر اعلی کے حکم کے تحت کام کرے گی اور شاہراہوں پر سفر محفوظ کرنے کے لیے جہاں وزیراعلی انہیں تعینات کریں گے وہ وہاں فوری کام شروع کریں گے۔قمر الزمان کائرہ نے بتایا اجلاس میں طے پایا ہے کہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے تمام سیاسی اور قومپرست جماعتوں سے حکومت مذاکرات شروع کرے گی۔ان کے بقول اجلاس میں چھ رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی ہے
جس میں تین اراکین مرکز کے اور تین بلوچستان کے صوبائی نمائندے ہوں گے۔ یہ کمیٹی ہفتہ وار اجلاس منعقد کرے گی اور اس کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ وزارت قانون جلد انسداد دہشتگردی کے قوانین اور قانونِ شہادت میں ترمیم کا مسودا تیار کرے گی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں اور عملے کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ بلوچستان کے لوگوں کو جو پانچ ہزار ملازمتین دی گئی تھیں وفاقی حکومت ان کے اخراجات تین سال کے بجائے پانچ سال تک ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ فوج میں بلوچستان کوٹہ کیمطابق رواں سال بھرتیاں مکمل کی جائیں گی اور تین ہزار لیویز فورس میں بھی بلوچوں کو بھرتی کیا جائے گا۔ سبی اور کوہلو میں فوجی چھانیاں ختم کرکے وہاں جو تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں ان کے لیے حکومت اخراجات اٹھائے گی اور وظائف بھی دیئے جائیں گی۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ اجلاس میں بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے بارے میں بات ہوئی لیکن ان کے بقول اصل مسئلہ گھر کے اندرونی حالات ٹھیک کرنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بلوچستان میں دو نئے ڈیم مکمل کیے جائیں گے اور کچھی کینال کے لیے بھی رقم فراہم کی جائے گی اور رتو ڈیرو سے گوادر تک سڑک بھی مکمل کی جائے گی۔ان کے بقول وزیراعظم نے بلوچستان میں ٹیوب ویل کے لیے سبسڈی کی رقم فوری جاری کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔قبل ازیں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت بلوچستان میں استحکام اور خوشحالی کے لیے تبدیلی چاہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت بلوچستان کو حقوق دینے کے لیے ساٹھ سے زائد آئینی، انتظامی، سیاسی اور اقتصادی اصلاحات پر عمل کرچکی ہے۔ان کے مطابق حکومت نے فوج کو واپس بلانے اور فرنٹیئر کور کو وزیراعلی کے ماتحت کرنے، نوجوانوں کو روزگار دینے اور این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کا حصہ بڑھانے جیسے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔اجلاس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا چنگیز خان جمالی، میر اسرار اللہ زہری، سردار عمر گورگیج کے علاوہ فاروق نائک، احمد مختار، سید خورشید احمد شاہ، عبدالحفیظ شیخ، قمر الزمان کائرہ، میاں رضا ربانی اور مصطفی نواز کھوکھر بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار مگسی، وزیراعلی نواب اسلم رئیسانی کے علاوہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد ظہیر الاسلام، فرنٹیئر کور کے نائب سربراہ، انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان اور آئی جی بلوچستان قرار حسین کے علاوہ سینئر فوجی اور سول اہلکار بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔بلوچستان کے مسئلہ کو عدالت کے ذریعے نہیں سیاسی طور پر حل کرنا ہوگا۔مسائل کا حل عدالت کے پاس نہیں سیاسی جماعتوں کے پاس ہے بلوچستان کے بغیر ملک کی کوئی وقعت نہیں،اب الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو بلوچستان ہم سے دور چلا جائے گا۔یہ وہ خیالات تھے جو مقررین نے سلگتے بلوچستان پر کئے ہیں۔ گزشتہ دنوں قدرتی وسائل سے مالا مال جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اسلام آباد میں بلوچستان کا مسئلہ اور اس کے حل کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد کی۔ جس میں حکمران پیپلز پارٹی، اپوزیشن مسلم لیگ (ن)، بلوچ قوم پرست جماعتوں سمیت ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سینیئر رہنماں نے شرکت کی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد نے شرکا سے خطاب میں کہا کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے کا مقصد بلوچستان کے مسائل کا قابل عمل حل تلاش کرنا ہے۔اس بلوچستان کا حل عدالت کے پاس نہیں ہے بلکہ اس کا حل پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے پاس ہے جو 18 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہیں۔بلوچستان میں اغوا برائے تاوان کے واقعات، بم دھماکوں، علیحدگی پسند بلوچوں کے حملوں، جبری گمشدیوں اور صحافیوں و امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافے کے بعد سپریم کورٹ نے صوبے کے حالات کا از خود نوٹس لے رکھا ہے اور حالیہ دنوں میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کوئٹہ میں بھی اس مقدمے کی سماعت کے دوران صوبائی انتظامیہ اور سیکورٹی کے اداروں کو طلب کر کے امن عامہ کی صورت حال بہتر بنانے بالخصوص لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے لیے کوششیں تیز کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔عدالت عظمی کے احکامات کے بعد صوبے سے لاپتہ ہونے والے کم از کم 18 افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔کانفرنس میں شریک بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے رہنماں نے صوبے میں سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دیرپا امن کے قیام کے لیے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی ضرورت ہے۔شرکا نے صوبے میں فرنٹئیرکور کی کارروائیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ طاقت کے استعمال سے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومت کا یہ موقف رہا ہے۔ کہ بلوچستان میں کسی طرح کا آپریشن نہیں کیا جا رہا ہے۔حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کی اہم حلیف جماعت مسلم لیگ ق کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کانفرنس میں کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حقیقی اور دیرپا حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی پارٹی ایجنڈے کو بالائے طاق رکھ کر کوششیں کرنا ہوں گی۔بلوچستان میں بسنے والے بلوچ، پشتون، ہزارہ اور دیگر قوموں کے لوگوں سے بات چیت کی ضرورت ہے اور یہ ہی اس مسئلے سے نمٹنے کا واحد حل ہے۔پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ بلوچ عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جب کہ اس ضمن میں ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو صوبے کے مسائل کے حل کے لیے اپنی سفارشات تجویز کرے گی۔بلوچستان کے مسئلے پر قوم پرستوں کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں حکومت پاکستان نے رواں سال کے اوائل میں اہم بلوچ رہنماں کے خلاف ایسے مقدمات ختم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے جو سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے تھے۔لیکن بلوچ قوم پرست رہنماں نے حکومت کی اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی حکومت سے مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔اس موقع پرمسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے کہا کہ ہم نے خود مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنایا، ہم نے بلوچستان کے عوام سے برا سلوک کرکے انہیں باغی بنادیا، بلوچستان کے لوگ باغی بنے ہیں تو ہمیں گلہ نہیں کرنا چاہئے، ہمیں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنا چاہئے، پاکستانی شہریوں کو لاپتہ کرنے والے کون لوگ ہیں جنہیں آئین اور قانون کا کوئی احترام نہیں، پاکستان اس وقت سنگین مسائل میں گھرا ہوا ہے، معیشت بھی خراب ہے، پرویز مشرف کا دور سب سے بدترین دور تھا، اکبر بگٹی کو بیدردی سے قتل کرنے والے کو گارڈ آف آنر دیا گیا. اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار کے تحت بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے بلائی گئی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہوگیا، ملک سنگین مسائل میں گھرا ہوا ہے، معیشت بھی خراب ہے، ایسی باتیں نہ کی جائیں، لوگ پرویز مشرف کو یاد کرنا شروع ہوگئے ہیں. انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کا دور سب سے بدترین تھا، اس دور میں سب خسارے میں رہے اور بھارت کے ساتھ جنگیں ہوئیں، ملک میں بدترین لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار پرویز مشرف ہے. صدر مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ کیا آج تک کسی نے ڈکٹیٹروں سے حساب مانگا، نواب اکبر بگٹی کی لاش کی بے حرمتی کی گئی، ان کے جنازے میں گھر کے فرد کو بھی شرکت کی اجازت نہیں ملی. بلوچستان کے لوگ باغی بنے ہیں تو ہمیں گلہ نہیں کرنا چاہئے، ہم نے بلوچستان کے عوام سے برا سلوک کرکے انہیں باغی بنادیا، اگر ہم کسی کے ساتھ ایسا سلوک کریں تو خود اسے بغاوت کی طرف دھکیلتے ہیں، ہم نے خود مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنایا، ہمیں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنا چاہئے. نواز شریف نے کہا کہ یہ تماشا کب تک چلتا رہے گا، اب لوگوں نے باہر نکلنا سیکھا ہے، وزیراعظم سے کہا تھا کہ اے پی سی میں بلوچستان کی نمائندگی بھی ہونا چاہئے، بلوچستان پیکج دینے سے پہلے وزیراعظم نے مجھے بلایا اور بتایا، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے ساتھ چلیں گے، عوام کے حق حکمرانی کو دل سے تسلیم کیا جانا چاہئے. انہوں نے قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ کسی میں جرت ہے کہ ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائے.جبکہ اسلام آباد میں منعقد ہ قومی کانفرنس میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے پندرہ نکاتی قراردادکی متفقہ طور پر منظوری دی ہ گئی ے.سپریم کورٹ بار کے تحت قومی کانفرنس میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کی تلاش میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ قراردادپردستخط کردیئے ہیں.منظور کئے گئے نکات میں (1)بلوچستان میں معاملات فوج سے لے کرعوامی نمائندوں کے سپردکئے جائیں.(2) نواب اکبربگٹی کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے.(3) بلوچستان کے معاملے پر سیاسی مذاکرات شروع کیئے جائیں. (4)اٹھاویں ترمیم کے تحت بلوچستان کے تمام وسائل پر بلوچوں کا حق تسلیم کیا جائے.(5) بلوچستان میں آباد تمام شہریوں کو بلا امتیاز رنگ و نسل اور زبان یکساں حقوق دیئے جائیں.(6) آپریشن فوری بند کیا جائے اور ایجنسیوں کی تحویل میں موجود تمام سیاسی قیدی اور لا پتہ افراد رہا کئے جائیں.(7) پاکستان ، خاص طورپر بلوچستان کے تمام شہریوں کے اقتصادی لسانی اور ثقافتی حقوق کا احترام یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں.(8)لاپتہ افراد کے معاملہ کا نوٹس لینے پر سپریم کورٹ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے تاہم ہلاکتوں اور لوگوں کے اغوا میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے. (9) بلوچستان میں پرویزمشرف دور سے آج تک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں وائٹ پیپر شائع کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے.(10) ریاستی ایجنسیوں کی تحویل میں موجود تمام سیاسی قیدی اور لا پتہ افراد فوری ہا کئے جائیں.(11)جاں بحق اور معذور ہونیو الے افراد کے لئے معاوضے کے تعین کیلئے غیرجانبدارانہ تحقیقاتی کمیشن قائم کیاجائے(12)ایف سی اور پولیس کے لئے انسانی حقوق کا احترام کرنے کیلئے جامع تربیتی پروگرام شروع کیاجائے، ایف سی کواس کے دائرہ تک محدودکیاجائے اور غیرقانونی کام نہ کرے.(13)بلوچستان میں سیاسی مذاکرات شروع کرکے تمام ملٹری اور پیراملٹری آپریشنز فوری بندکرکے فوج اورایف سی کوواپس بلایاجائے. (14)تمام سیاسی قوتیں پاکستان میں جمہوری کلچر کے فروغ کیلئے کام کریں اورمیثاق جمہوریت پردستخط کئے جائیں.(15)سویلین افراد کو پر امن طور پر اقتدار منتقل کیاجائے.سیاسی جماعتیں یقینی بنائیں کہ آئندہ انتخابات شفاف اور آزادانہ ہوں اور مختلف مسالک کے مذہبی راہنماوں کو ثقافتی اور مذہبی ہم آنگی کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے۔اے پی ایس