شام میں قیام امن کا خواب۔چودھری احسن پر یمی




شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ انہیں شام میں جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی غیر ملکی منصوبہ یا تجویز قبول نہیں ہے۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت پر آیا ہے جب عالمی قوتیں اس سلسلے میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ایک اجلاس کرنے والی ہیں۔شام کے صدر نے ایران کے سرکاری ٹیلی وژن پر کہا کہ شام میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اس کا اندرونی معاملہ ہے اور اس میں دوسرے ممالک کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرے ممالک جتنا بھی دبا ڈالیں ان کی حکومت اپنی داخلی پالیسی تبدیل نہیں کرے گی۔صدر بشار الاسد نے کہا کہ ان کے ملک پر کافی عرصے سے بیرونی دبا ڈالا جا رہا ہے لیکن اس کا نہ ماضی میں اثر ہوا اور نہ مستقبل میں ہوگا۔شام کے صدر نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی حکومت کی مسلح باغیوں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو ختم کرنا شام کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ملک کے جس بھی کونے میں دہشت گرد ہوں ان کو ختم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ جب آپ ایک دہشت گرد کو ہلاک کرتے ہیں تو شاید اس سے آپ سینکڑوں بلکہ ہزاروں شہریوں کی جانیں بچاتے ہیں۔ادھر شام میں لڑائی اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور جمعہ کو لندن میں مقیم تنظیم دا آبزروٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ عام شہریوں سمیت کم سے کم پچیس افراد گزشتہ جمعہ کو مارے گئے۔ جمعرات کو دوما کے شہر سے اطلاعات تھیں کہ بچوں سمیت تینتالیس افراد مارے گئے تھے۔شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر بھی کوششیں جاری رہیں۔ جمعہ کی شام کو روس اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کی روس کے شہر سینٹ پیٹرسبرگ میں ملاقات ہوئی ہے اورہفتہ کے روز جنیوا میں ایک بین الاقوامی اجلاس ہواہے۔ تاہم صدر بشار الاسد کے ایرانی ٹیلی وژن پر انٹرویو میں انہوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ فی الوقت شام کا عالمی برادری کے دبا میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔شامی اپوزیشن گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے منصوبے کو تسلیم نہیں کریں گے جس میں مسٹر اسد سے واضح طور پر اقتدار سے دستبردار ہونے کے لیے نہ کہا جائے۔جبکہ اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ میں اقوامِ متحدہ کے سابق سربراہ اور شام کے لیے عالمی ادارے اور عرب لیگ کے متفقہ ایلچی کوفی عنان کا ایک مضمون شائع ہواہے۔اپنے مضمون میں کوفی عنان نے لکھا ہے کہ شام کی صورتِ حال انتہائی خراب ہے جہاں گزشتہ موسمِ بہار میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے بعد سے اب تک ہزاروں شہری ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ دیگر کئی ہزارسرکاری فورسز کی تحویل میں ہیں۔سرکاری فورسز اور مسلح باغیوں کے مابین لڑائی کا سلسلہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پھیلتے پھیلتے اب دارالحکومت دمشق تک جاپہنچا ہے جب کہ شام میں لگی آگ کی تپش اب اس کے پڑوسی ممالک بھی محسوس کر رہے ہیں۔کوفی عنان لکھتے ہیں کہ ان کی کوششوں سے رواں برس مارچ میں متحارب گروہوں نے ایک چھ نکاتی معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت فریقین نے جنگ بندی کرکے باہم مذاکرات شروع کرنے تھے۔ لیکن ان کے بقول بدقسمتی سے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوسکا اور ابتدائی طور پر واجبی سی جنگ بندی کے بعد شام میں تشدد کی آگ مزید بھڑک اٹھی ہے۔اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی نے الزام عائد کیا ہے کہ صدر بشارالاسد کی حکومت مسلح اور غیر مسلح مظاہرین کے خلاف بدترین طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ ساتھ ہی کوفی عنان حزبِ اختلاف سے بھی نالاں ہیں جو ان کے بقول متحد نہیں اور اس میں شامل بعض عناصر نے سرکاری فورسز اور تنصیبات کے خلاف حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔کوفی عنان نے لکھا ہے کہ یہ بحران شامیوں کا ہے اور اسے حل بھی انہی کو کرنا چاہیے۔ لیکن وہ لکھتے ہیں کہ یہ توقع عبث ہے کہ شامی عوام اس بڑھتے ہوئے تشدد کو ختم کرکے ایک بامعنی سیاسی عمل شروع کرسکیں گے کیوں کہ ان کے بقول شام میں کئی بیرونی طاقتیں بری طرح ملوث ہیں اور عوام بے اختیار ہیں۔کوفی عنان نے اپنے مضمون میں ان قوتوں کی نشاندہی کیے بغیر ان پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں امن کے لیے مثبت کردار ادا کریں اور فریقین کو یہ باور کرائیں کہ تشدد کا راستہ اپنانے سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔’واشنگٹن پوسٹ’ میں کوفی عنان کا یہ مضمون ایک ایسے وقت میں شائع ہوا ہے جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور عرب لیگ کے بااثر ممالک کا ایک اعلی سطحی اجلاس ہفتے کو جنیوا میں ہونے جارہا ہے جس میں شام کے بحران پر غور کیا جائے گا۔ اجلاس میں ان ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے جو شامی حکومت یا حزبِ اختلاف پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اپنے مضمون میں کوفی عنان نے اجلاس میں شریک ہونے والے ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ شام کی صورتِ حال پر ایک ایکشن گروپ تشکیل دیں جس کے اراکین شام میں قیامِ امن تک مل کر کام کریں۔مضمون میں کوفی عنان مزید لکھتے ہیں کہ اجلا س میں شریک ہونے والے ممالک متفقہ طور پر شام میں حکومت کی تبدیلی کا ایسا طریقہ کار وضع کریں جس کی باگ ڈور خود شامی عوام کے پاس ہو۔عنان کے بقول شامی عوام ایک ایسے جمہوری مستقبل کے حق دار ہیں جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے عین مطابق ہو اور جس میں تمام طبقات کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔گزشتہ ہفتے ایک امریکی اخبار نے امریکی حکومت کومشورہ دیاتھا کہ وہ شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کوفی عنان سے ناامید ہوکر بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے لیے ازخود کوششیں کرے۔ اخبار نے لکھا کہ دنیا گزشتہ ایک برس سے شامی حکومت کے ہاتھوں معصوم شہریوں کے قتلِ عام کا نظارہ کر رہی ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ آگے بڑھے اور صدر بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ایک بھرپورعالمی مہم کا آغاز کرے۔اس مقصد کے لیے امریکہ کو فوری طور پر کئی سفارتی کوششیں کرنا ہوں گی اور سب سے پہلے شام میں قیامِ امن کی کوششوں میں مصروف اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی کوفی عنان کی حمایت سے ہاتھ کھینچنا ہوگا۔اے پی ایس