ذرائع ابلاغ کی اخلاقیات کے اصول اور طرز عمل۔چودھری احسن پر یمی




آزادی اظہار جمہوریت میں ایک بنیادی سنگ میل کی حثیت رکھتی ہے کیونکہ حکومت پر تنقید،آزادی اظہار اور تبادلہ خیال کی آزادی کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں ابھرتا۔کہا جاتا ہے کہ آزادی تقرر کو حق اعتدال میں رکھتے ہوئے اس کے ہمراہ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں بھی ہونی چاہیں مثال کے طور پر کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ایک پر ہجوم تھیٹر میں چلا کر کہے کہ” گولی چلاو” نہ مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں آپ کے بارے جھوٹی کہانیاں پھیلاوں اور آپ کی شہرت کو تباہ کروں۔کوئی ریاست اس دفعہ کے منافی قوانین بنائے گی تو اسے اس دفعہ کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔جو ایسی تقریروں کی ممانعت کرے جن کی اجازت اس نے نہ دی ہو۔لوگوں کو حراست میں رکھنے کا اختیار محض اس لئے دے گی کہ وہ مخصوص سیاسی نظریات رکھتے ہیں یا خیالات کی آزادانہ تشہیر کی اس وجہ سے ممانعت کی جاسکے گی تاکہ مندرجہ امور کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔1۔دوسروں کے حقوق اور شہرت کے تحفظ2۔ملکی سلامتی3 ۔عوامی نظم و نسق4۔عوامی صحت اور اخلاقیات۔نوٹ۔”مداخلت کے بغیر رائے رکھنے کا حق”۔19(1)) ایک ایسا حق ہے جس کیلئے آئی سی سی پی آر کسی استثنا یا پابندی کی اجازت نہیں دیتا۔آزاد پریس ،انفرادی حقوق اور آزادیوں کا اچھا نگران ہے۔پریس مہم چلا کر حکومت کے اراکین کو عوام کے سامنے جواب دہ بنایا جاتا ہے ۔تاکہ باخبر عوام حکومت سے اس کی پالیسی کے بارے میں سوال کر سکے۔گزشتہ دنوں پریس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان”ذرائع ابلاغ کی اخلاقیات کے اصول اور طرز عمل” تھاپاکستان پریس کونسل آف پاکستان کی جانب سے صحافت میں صحت مند اور مثبت رجحانات کو فروغ دینے کا یہ ایک خوش آئند اقدام تھا جو کہ اخلاقی اور صحت مند زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔جبکہ قومی کانفرنس کے اختتام کے موقع پر قائم مقام صدر نیئر بخاری نے اپنے صدراتی خطاب میں کہا کہ یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جمہوری حکومت کے دور میں اطلاعات تک رسائی آرٹیکل 19-A، جو 18th آئینی ترمیم کے بعد شامل کر دیا گیا ہے۔اس طرح”ہر شہری کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی کرنے کی ضرورت کا حق ہوگا.”انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کو ہمارے اپنے آئین میں وسیع پیمانے پر جدید جمہوری عمارت سپریم اصول کے طور پر معلومات تک رسائی کی سوچ اور اظہار کے انفرادی آزادی پر تعمیر کیا گیا ہے.انہوں نے کہا کہ کرپشن کو روکنے کے لئے اور اس کے اثرات کو کنٹرول کی کوششوں میںمعلومات تک رسائی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔اسی طرح، رسائی، شفافیت اور احتساب، کے ساتھ ساتھ جمہوری عمل میں لوگوں کی شرکت، پارلیمنٹ، پارلیمانی، انتظامیہ اور شہریوں کے پارلیمانی کارروائی اور دستاویزات تک رسائی پر کے ارکان کو دستیاب معلومات کے معیار پر، بڑی حد تک انحصار ہے.انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا ریاست، مقننہ اور عوام کے درمیان پل کے طور پر کھڑا ہے۔”روشن خیالی اور شہریوں کی بہتر اسلوب حکمرانی کے دوران.”ان دونوں اور دیگر اداروں، انتظامی اور عدلیہ، کے ساتھ ان کی بات چیت کے درمیان تعلقات بہتر اسلوب حکمرانی کی وجہ سے انتہائی اہم ہیں.اخلاقیات کی ترقی میں سب سے پہلا قدم دوسرے انسانوں کے ساتھ یکجہتی کا احساس ہے۔رائے عامہ کی تشکیل میں ذرائع ابلاغ کے اثر و رسوخ کے پیرامانٹ کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ زیادہ اہم ہے کہ اخلاقی اصولوں یا اقدار کی صحافت کے طرز عمل کی رہنمائی میں مدد دینے کی پاسداری کی جائے انہوں نے یہ بھی کہا کہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ عوام اور قوم کے مفادات کی حفاظت کو یقینی بنائے۔میڈیا آج زمین پر سب سے زیادہ طاقتور فورسز میں سے ایک ہے جو اس معاشرے اور حکومت میں اولین اہمیت اختیار کر گیا ہے۔تاہم یہ عظیم طاقت کے ساتھ اس پر عظیم ذمہ داری بھی آتی ہے۔اس ضمن میں میڈیا کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کی نظر سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔اظہار رائے کی آزادی میں کوئی شک نہیں ایک بنیادی حق ہے، لیکن اس بڑے پیمانے پر اور ہدایت معاشرتی فرائض اور اخلاقیات کی طرف سے پابند ہے۔میڈیا کو ایک منصفانہ، ذمہ دار اور غیر جانبدار رپورٹنگ کی ثقافت پیدا کرنا چاہئے۔اس ضمن میں لوگوں کے اعتماد کے تحفظ اور ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے مسائل کے سنسنی خیز اور اشتعال انگیز بیان سے گریز کرنا ہوگا.میڈیا آج صرف ایک رائے بنانے والا نہیں ہے، بلکہ یہ صحافیوں اور نامہ نگاروں کے کمدوں پر ڈبل ذمہ داری دیتا ہے صرف منصفانہ، اور ان کی رپورٹنگ میں غیر جانبدار ہو. رپورٹنگ اور تبصرے کے اعلی ترین معیارات کو برقرار رکھنے کی سمت میں یہ ایک خاص ذمہ داری ہے.انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میڈیا کی آزادی کے احترام کا عزم کئے ہوئے ہے۔عوامی حکومت اس جذبے کو تسلیم کرتی ہے کہ ایک آزاد اور فعال پریس ظلم اور جبر کے خلاف سب سے بڑا ضامن ہے۔آخر میں انہوں نے کہا کہ اخلاقیات کا مطلب کسی بھی طرح میں پریس کی آزادی کو متاثر کرنا نہیں بلکہ حقیقی روح میں تقریر اور اظہار کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے اس کی حوصلہ افزائی ہے”۔پاکستان میں وزیرِاعظم کی برطرفی کا معاملہ ہو یا چیف جسٹس کے بیٹے پر رشوت لینے کے الزامات، اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہو یا بھوجا ائر کا فضائی حادثہ، پاکستان میں ہر دن میڈیا کے لئے مصروفیت کا دن ہوتا ہے۔ ہر واقعے پر فوری خبریں اورتجزیے آتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بریکنگ نیوز اورچینل کی ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ میں بعض اوقات اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا کہ آیا خبر درست اور تجزیہ غیر جانبدارانہ اور متوازن ہے۔میڈیا کے بارے میں لوگوں کو جو شکایات ہیں وہ دوسرے اداروں سے بھی ہیں۔ وہ باتیں جو کسی زمانے میں غیراخلاقی سمجھی جاتی تھیں وہ آج کل معاشرے میں عام ہیں۔ جب پورے معاشرہ انحطاط کا شکار ہو تو میڈیا کیسے مختلف ہو سکتا ہے؟ ۔پچھلے دو ہفتوں میں یکے بعد دیگرے کئی اہم خبریں اور نئے انکشافات سامنے آئے۔ اسی دوران ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس سے تمام لوگوں کی توجہ خود میڈیا اور اس میں کام کرنے والے افراد پر مبذول ہوگئی۔ یوٹیوب پر ملک ریاض حسین کے دنیا نیوز کو دیے گئے انٹرویو کی آف دی ریکارڈ گفتگو پر مبنی فوٹیج نے میڈیا کے کردار پر کئی سوالات کھڑے کردیے۔ اس انٹرویوکے میزبانوں مہر بخاری اور مبشر لقمان نے ملک ریاض سے چبھتے ہوئے سوالات پوچھے۔ ملک ریاض سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فرزند ارسلان افتحار پر رشوت لینے کے الزمات کے بارے میں کیس کے مرکزی کردار ہیں اور ان کا یہ انٹرویو بہت سے ناظرین نے دیکھا۔ مگر اس انٹرویو کی آف دی ریکارڈ فوٹیج سے ایسا تاثر ابھرا کہ ملک ریاض سے غیر جانبدارانہ سوالات پوچھنے کی بجائے پہلے سے طے شدہ انٹرویو کیا گیا۔ ملک کے تمام بڑے اخبارات کے اداریوں اور پیشہ ور صحافیوں کی رائے کے مطابق یہ انٹرویو واقعی پہلے سے طے شدہ تھا۔ مہنگائی، کرپشن اور عام سہولیات کی محرومی سے ستائے ہوئے عوام کے اعتماد کو بہت ٹھیس پہنچی ہے۔ اگر معاملہ اتنا حساس نہ ہوتا تو شاید الیکٹرانک میڈیا کی غلطیوں سے متعلق ماضی کی کئی واقعات کی طرح یہ بات بھی آئی گئی ہو جاتی۔ مگر اس واقعے نے جہاں اداروں کے درمیان رسہ کشی میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد کے منفی کردار پر روشنی ڈالی ہے وہاں الیکٹرانک میڈیا میں پیشہ ورانہ اقدار کے شدید فقدان کی جانب اشارہ کیا ہے۔آج جو میڈیا کی حالت ہے اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی پابندیوں سے نکل کر آزادی کی دنیا میں قدم رکھنے والا پیشہ اپنی اقدار بھی پیچھے ہی چھوڑ آیا ہے۔الیکڑانک میڈیا میں ضابطہ اخلاق کی کمی کا اشارہ پہلی مرتبہ 2005 کے زلزلے کے بعد ملا جب چینلز نے مرنے والوں کی لاشیں دکھائیں اور رپورٹروں نے متاثرہ لوگوں کے گھروں میں گھس کر نامناسب سوالات کئے۔ایک اور اہم واقعہ لال مسجد آپریشن تھا جس کی بے لگام رپورٹنگ سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بہت ہوا ملی۔2010 میں سیلاب کے دوران بھی بعض ٹی وی نمائندوں نے بہت غیر مناسب رویہ اختیار کیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار واقعات ہیں جن کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔بہت سے ناظرین نے اس قسم کے مناظرکو پسند نہیں کیا اوراخبارات میں خطوط اور ٹوئٹراور فیس بک ایسی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ مگر غیر معیاری رپورٹنگ کی شکایات کے باوجود کوئی ضابطہ اخلاق تشکیل دیا گیا، نہ اس کی ضرورت سمجھی گئی۔ مبصرین کہتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا ادارے جو اپنے آپ کو صحافت کی آزادی کیلئے کی جانے والی طویل جدوجہد کاثمر سمجھتے ہیں اس جدوجہد میں شریک جرات مند صحافیوں کی اقدار سے اتنا ہی دور نظر آتے ہیں۔ آج پاکستانی میڈیا میں اقدار کا جو زوال نظر آتا ہے اس کی تین چار وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ پچھلے پچیس تیس سالوں کے دوران ایڈیٹر کا ادارہ ختم ہو گیا ہے۔ اخبارات کے مالکان خود یا اپنے رشتہ داروں کو ایڈیٹر کی جگہ بٹھا کر ادارتی فیصلے کرتے ہیں۔ یہی روایت ٹی وی چینلز میں بھی چل نکلی ۔ ان چینلز کے فیصلوں میں کمرشل مفاد کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور مالکان اس بات کا فیصلہ کہ کون سی خبر چلانی ہے اور کسے روکنا ہے صحافتی اصولوں کے مطابق نہیں بلکہ اپنے کاروباری مفاد کے مطابق کرتے ہیں۔دوسری وجہ تجربہ کار، پیشہ ور صحافیوں کی کمی ہے۔ اس وقت پاکستان میں نواسی چینلز کام کر رہے ہیں۔ نیوز چینلز کی اس اچانک بھرمارکا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے طلبہ بھی بغیر کسی تربیت کے پروڈیوسر اور اینکر بن گئے اور خبر کے بارے میں فیصلہ کرنے لگے۔ تیسری بڑی وجہ رپورٹروں کو تنخواہ نہ ملنا ہے۔ بڑے چھوٹے شہروں کے پچانوے فیصد رپورٹر بغیر تنخواہ کے رضاکارانہ طور کام کرتے ہیں اوراخباری نمائندہ ہونے کا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے مقامی سطح پر کرپشن کے ذریعے اپنا خرچ چلاتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ تو کسی ضابطہ اخلاق کے بارے میں علم ہے، نہ ہی یہ جاننا چاہتے ہیں۔ اس چیز کو ختم ہونا چاہئے۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ صحافتی ضابطہ اخلاق پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے آئین کا حصہ ہے، مگر اس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے اور نہ ہی اس پر کوئی عمل کرتا ہے۔ مزید یہ کہ اسے وقت کے ساتھ اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ بہت دیر سے کہا جا رہا ہے کہ نیا ضابطہ اخلاق بننا چاہئے، اس کے لئے کمیشن بھی بنے مگر اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ کام حکومت نہیں کر سکتی کیونکہ اسے میڈیا پر پابندی سمجھا جائے گا۔ نیا ضابطہ اخلاق بنانے کا کام میڈیا کے لوگ خود ہی کر سکتے ہیں۔تاہم میڈیا کے لوگوں سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ میڈیا مالکان نے کبھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی اور نہ اب حالات میں ایسی کوئی تبدیلی آئی ہے کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کریں۔ البتہ عوام ضرور کچھ چینلزاور اینکرز سے ہوشیار ہوگئے ہیں، جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ احتساب کا عمل اب خود میڈیا تک پہنچ گیا ہے۔ مگر اس سے کیا اثر ہو گا؟ اس پر چینلز کے مالکان یا جرنلسٹ یونینز کچھ کریں نہ کریں مگر جن افراد کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، عوام ہمیشہ ایسے لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔اس پیشے میں ساکھ کی بہت اہمیت ہے اور اس کو بحال کرنے کیلئے میڈیا مالکان ایسے افراد سے پیچھا چھڑانے میں ہی عافیت سمجھیں ۔لہذا کہہ سکتے ہیں کہ مارکیٹ کے اصول کے مطابق میڈیا چینلز کے ناظرین ہی اس بات کو یقینی بنا دیں گے کہ ایسے افراد منظرنامے سے آہستہ آہستہ غائب ہو جائیں۔اب جبکہ صحافتی اقدار پر بحث شروع ہوئی ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے،تو صحافتی تنظیموں اور اداروں کو چاہئے کہ سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کریں اور ضابطہ اخلاق اور احتساب کا نظام قائم کریں تاکہ میڈیا پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔اے پی ایس