قانون سازی کے ذریعے جرم کا تحفظ۔چودھری احسن پر یمی




پارلیمان دو ایسے نئے قوانین کے مسودوں کو حتمی شکل دینے جارہی ہے۔جن کے بارے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو براہ راست سنگین تحفظات ہیں۔ایک دوہری شہریت کی پابندی ختم کرنے کا قانون ہے۔اور اس بارے دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اوورسیز پاکستانیز پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیںحالانکہ ایسا نہیں جو اوورسیز پاکستانیز وطن عزیز کی معشیت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں وہ سارے کا سارا مزدور طبقہ ہے۔مذکورہ دوہری شہریت کا قانون جس طبقے کیلئے بنایا جارہا ہے یہ طبقہ چوروں اور ڈاکووں کا وہ گروہ ہے جو پاکستان سے لوٹ مار کر کے بیرونی ممالک کی معشیت کو دوام بخشتا ہے۔اگر ان کو دوہری شہریت کی پابندی ختم کرکے رکن پارلیمان بنایا گیا تو خدشہ ہے ان کے ناپاک عزائم کو نہ صرف تقویت ملے گی بلکہ یہ اپنے گھناونے جرموں کو تحفظ دینے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے کیو نکہ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کی برطانیہ کی قومیت یا شہریت ہے اگر یہ افراد کسی مقدمہ میں پاکستان کو مطلوب ہونگے اور یہ فرار ہوکر برطانیہ بیٹھ جائیں گے تو یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کا آپس میں مجرموں کے تبادلے کا بھی کو ئی معاہدہ نہیں اسی طرح کے کئی ایک مسائل ہیں۔چند چور اور ڈاکوو ں کیلئے دہری شہریت کی پابندی کا خاتمہ کر کے اصل میں پاکستان میں ان کو فری ہینڈ دینا ہے کہ لوٹ مار کریں اور بے خوف و فکر ٹکٹ کرا کر ملک سے بھاگ جائیں اس ضمن میں سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ اس دوہری شہریت کے آئین بارے پابندی برقرار رکھتے ہوئے اس کی قومی مفاد میں تشریح کر کے واضح کر ے کہ یہ قانون بھی پاکستان کے عوام کے تحفظ کیلئے ناگزیر ہے۔جبکہ یہی طبقہ توہین عدالت کے نئے قانون میں بھی ترمیم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ کھل کر لاقانونیت کا بازار گرم کرے اس بارے میں بھی عوام کو بہت زیادہ تحفظات بلکہ مایوسی ہورہی ہے۔اگر ملک میں بہتر طرز حکمرانی اور دیانت دار قیادت ہو تو شاید عوام کو اتنے زیادہ تحفظات نہ ہوتے لیکن پاکستان کے عوام پر مسلط ایک فیصد ایک ایسا طاقتور طبقہ ہے جو ملک کے نہ صرف وسائل بلکہ ایوانوں پر بھی قابض ہے۔چونسٹھ سال سے پاکستان کا عام شہری ایوانوں میں آنے کیلئے اس نعمت سے محروم ہے۔ضروری ہے کہ عوام کے مفاد کے تحفظ کیلئے اس کے راستے میں بند باندھا جائے۔جبکہ توہینِ عدالت سے متعلق قانون پارلیمان میں متعارف کروانے کے اعلان نے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اور اعلی عدلیہ کے درمیان نئی چپقلش کے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔مجوزہ بل کے تحت وزیر اعظم، وفاقی و صوبائی وزرا اور وزرا اعلی کے سرکاری فیصلوں پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔ کوئی بھی ایسا قانون جو پاکستان کے دستور کی روح کے منافی ہو عدالت عظمی اس پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے۔ان اراکین پارلیمان کو قانون سازی بڑی سوچ سمجھ کر کرنی چاہیئے اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے … کیوں کہ یہ جو بھی قانون منظور کریں گے وہ جانچ پڑتال کے لیے عدالت کے سامنے ضرور آئے گا۔ توہین عدالت کے قانون کی اہمیت کا مقصد جج صاحبان کا مرتبہ بلند کرنا نہیں بلکہ نظام عدل پر لوگوں کا اعتماد بحال رکھنا ہے۔عدلیہ کی آزادی پر کیا جانے والا کوئی بھی حملہ، خواہ وہ قانون سازی کے ذریعے ہو یا اس کے بغیر، اس کی اجازت نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے توہین عدالت کے پرانے قوانین منسوخ کر کے جو نیا قانون پارلیمان سے منظور کرانے کے لیے تیار کیا ہے اس کے مطابق آئین کی شق دو سو اڑتالیس کی ذیلی شق ایک کے تحت جن عوامی عہدے رکھنے والے اشخاص کو استثنی حاصل ہے، ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکے گی۔کابینہ سے منظور ہونے والے چھ صفحات پر مشتمل کنٹیمپٹ آف کورٹ ایکٹ 2012 مجوزہ بل کے تحت سپریم کورٹ کے توہین عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی مدت تیس روز سے بڑھا کر ساٹھ روز کی گئی ہے۔نئے مسودے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جج کے بارے میں سچا بیان دیتا ہے جوکہ ان کی عدالتی سرگرمیوں کے بارے میں نہیں تو وہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں مناسب الفاظ میں تبصرہ کرنا بھی توہین عدالت نہیں ہوگا۔ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ توہین عدالت کا کوئی فیصلہ یا عبوری حکم اس وقت تک حتمی تصور نہیں ہوگا جب تک اس کے خلاف اپیل اور نظر ثانی کی درخواستوں پر حتمی فیصلہ نہیں آتا۔توہین عدالت کے نئے مجوزہ قانونی مسودے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف سکینڈلائیز کرنے کا معاملہ ہوگا تو وہ جج وہ مقدمہ نہیں سن سکتا اور چیف جسٹس بینچ بنائیں گے۔ کسی جج کی عدالتی کارروائی سے ہٹ کر ان کے خلاف اگر کوئی معاملہ آتا ہے تو وہ پوری عدالت کو سکینڈلائیز کرنا نہیں تصور ہوگا۔اگر چیف جسٹس کو سکینڈ لائیز کرنے کا معاملہ ہوگا تو چیف جسٹس کے فرائض دو سب سے سینیئر دستیاب جج نمٹائیں گے۔انٹرا کورٹ آرڈر یا عبوری حکم کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے ملک میں موجود تمام ججوں پر مشتمل بڑا بینچ سنے گا۔ اگر کسی فریق کی اپیل نصف ججوں نے سنی تو اس کے خلاف اپیل یا نظر ثانی کی درخواست فل کورٹ کرے گا۔مجوزہ مسودے کے مطابق کوئی ہائی کورٹ ماتحت عدالتوں کے بارے میں کسی ایسے معاملے کو توہین عدالت کے تحت نہیں سنے گی جس کے بارے میں ضابطہ فوجداری میں سزا تجویز کی گئی ہو۔ نئے قانونی مسودے میں بھی توہین عدالت کی سزا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔عدالت کے سامنے دوران سماعت توہین کرنے والے شخص کو عدالت حراست میں لینے کا حکم دے سکتی ہے لیکن اسی روز انہیں ضمانت پر رہا کرے گی۔ لیکن ان کے خلاف اگر بعد میں مقدمہ چلتا ہے تو انہیں مزید سزا دی جا سکتی ہے۔نئے قانون کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوان ہوں یا صوبائی اسمبلی، ان میں اگر کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو سپیکر یا چیئرمین سینیٹ یا افسر صدارت کارروائی سے حذف کرتے ہیں تو وہ باتیں بطور ثبوت کہیں پیش نہیں ہوں گی اور اس بارے میں توہین عدالت بھی نہیں ہوگی۔اس سے قبل وفاقی کابینہ نے توہین عدالت کے نئے قانون کے مسودے کی منظوری دی تھی جس کے تحت وزیراعظم، وزیراعلی، وفاقی اور صوبائی وزرا کے خلاف سرکاری امور نمٹانے سے متعلق توہین عدالت کے تحت کارروائی نہیں ہو سکے گی۔اس ضمن میں وفاقی وزیر اطلاعات چودھری قمر الزمان کائرہ نے کابینہ کے اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس قانون کا مقصد عدلیہ پر قدغن لگانا نہیں بلکہ توہین عدالت کے قانون کے متعلق ابہام ختم کرنا ہے۔ سنہ دو ہزار تین میں توہین عدالت کا قانون بنانے کے لیے آرڈیننس جاری کیا گیا، جس کو سترویں آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دیا گیا۔لیکن سنہ دو ہزار چار میں ایک اور توہین عدالت کا قانون بنایا گیا۔ ایسی صورتحال کے بارے میں سپریم کورٹ میں وضاحت کے لیے ایک مقدمہ دائر ہوا جس پر سولہ ججوں نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا اور آج تک نہیں سنایا گیا۔ قمر الزمان کائرہ نے بتایا کہ ایسے میں توہین عدالت کے قانون کے بارے میں وکلا کی رائے منقسم ہیں۔ ان کے بقول کچھ وکیل کہتے ہیں کہ توہین عدالت کا قانون موجود نہیں اور کچھ کا کہنا ہے کہ توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے بتایا کہ آئین کی شق دو سو اڑتالیس کی ذیلی شق ایک کے مطابق وزیراعظم، وزیر اعلی اور وزرا کو استثنی حاصل ہے اس لیے توہین عدالت کے نئے قانون کے مسودے میں یہ بات شامل کی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔ان کے بقول نئے مسودے میں مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کے دور میں متعارف کردہ اپیل کے بارے میں شق بھی شامل ہوگی۔وزیر اطلاعات نے تو میاں نواز شریف کی متعارف کردہ شق کی تفصیل سے وضاحت نہیں کی صرف اتنا بتایا کہ اپیل دائر ہونے کے بعد سزا معطل ہوگی اور جب تک اپیل کا فیصلہ آئے اس پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے بطور وزیراعظم میاں نواز شریف کو توہین عدالت کے مقدمے میں طلب کیا تھا تو اس وقت کی حکومت نے توہین عدالت کے قانون میں یہ ترمیم کی تھی کہ اپیل دائر ہوتے ہی سزا از خود معطل تصور ہوگی۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ توہین عدالت کے اس قانون کا مقصد عدلیہ پر ضابطہ قائم کرنا نہیں ہے بلکہ قانونی ابہام دور کرنا اور آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد عدلیہ سے ٹکرا پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر پارلیمان نے یہ مسودا منظور کر لیا تو پھر عدلیہ اسے کالعدم قرار دے گی تو انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا پھر پارلیمان قانون سازی نہ کرے؟پاکستان میں عدلیہ کے بارے میں توہین آمیز رویہ اختیار کرنے یا پھر عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی پاداش میں کئی اہم شخصیات کو توہین عدالت کے قانون کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ان شخصیات میں سیاست دان، سرکاری حکام ، وکلا اور خود اعلی عدلیہ کے جج شامل ہیں۔سید یوسف رضا گیلانی ملک کے تیسرے وزیر اعظم تھے جنہیں توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کو بھی سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے تھے تاہم ان دونوں وزرا اعظم پر توہین عدالت کے قانون کے تحت مزید کارروائی نہیں کی گئی۔پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف حزب مخالف کے رہنما چودھری ظہور الہی کی اس درخواست پر توہین عدالت کے نوٹس جاری ہوئے تھے جس میں کہا گیا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے بارے میں معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے اس معاملے پر رائے دی ہے جو توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔سپریم کورٹ نے چودھری ظہور الہی کی درخواست پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نوٹس جاری کیے لیکن حکومتی وضاحت کے باعث توہین عدالت کی کارروائی کی نوبت نہیں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد نواز شریف دوسرے وزیر اعظم تھے جن کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے اور وہ اپنے وکیل ایس ایم ظفر کے ہمراہ عدلت میں پیش ہوئے اور ان کی وضاحت کی روشنی میں ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی گئی۔فوج کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ کو بھی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرنے پر سپریم کورٹ کی طرف سے توہین عدالت کا سامنا رہا اور عدالت نے ان کی وضاحت پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کردی تاہم انہیں مستقبل میں محتاط کی ہدایت کی۔حکمران جماعت کے سینیٹر اور سابق وزیر قانون ڈاکٹر بابراعوان بھی اس وقت توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کا وکالت کا لائسینس بھی معطل ہے۔ سپریم کورٹ نے بابر اعوان کو عدلیہ کے بارے میں تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرنے پر توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے۔متنازع میمو سے متعلق عدالتی حکم پر ایک پریس کانفرنس میں تنقید کا نشانہ بنانے پر وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور خورشید شاہ، سینیٹر بابر اعوان، پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ اور وزارتِ قانون کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر فاروق اعوان کو توہین عدالت کے مقدمے میں اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے گئے۔ہاکی کے ممتاز کھلاڑی اختر رسول، اداکار اور کمپیئر طارق عزیز اور میاں مینر ان ارکان اسمبلی میں شامل ہیں جن پر توہین عدالت کے تحت کارروائی ہوئی اور ان تینوں سیاست دانوں کو نواز شریف کے دور میں سپریم کورٹ پر حملہ کرنے پر توہین عدالت کے الزام میں سزا سنائی گئی۔ اختر رسول، طارق عزیز اور میاں منیر نے سنہ دو ہزار دو میں عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے لیکن ان کو توہین عدالت کے الزام پر سزا ہونے کی بنا پر انتخابات کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ بہاولپور سے مسلم لیگ نون کے دو ارکان اسمبلی چودھری سمیع اللہ اور افضل گل کے خلاف بھی عدلیہ کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کرنے پر لاہور ہائی کورٹ کے فل کورٹ نے کارروائی کی تھی۔سپریم کورٹ نے اعلی عدلیہ کے ان ججوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے جنہوں نے تین نومبر دو ہزار سات کو جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ہنگامی حالت کے اعلان کے بعد پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ ان ججوں میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر بھی شامل تھے۔ توہین عدالت کے نوٹس کے بعد اعلی عدلیہ کے کئی ججوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا جس کے باعث ان ججوں کے خلاف کارروائی روک دی گئی۔سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی احتساب بینچ کے سربراہ جسٹس احسان الحق چودھری اور پیپلز پارٹی کے وکلا حاجی دلدار اور میاں حنیف طاہر کے درمیاں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور ہائی کورٹ نے دونوں وکلا کو توہین عدالت کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا۔سابق اٹارنی جنرل پاکستان چودھری محمد فاروق کو اس وقت توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے گئے جب انہوں نے وزیر اعلی شہباز شریف کے خلاف ایک مقدمے میں ضمانت کی درخواست پر کارروائی کے دوران دو رکنی بنچ کے رکن جسٹس سجاد سپرا کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا تھا۔بنیادی حقوق اور سماجی مسائل کے حوالے سے اعلی عدلیہ میں درخواستیں دائر کرنے والے مشہور وکیل ایم ڈی طاہر کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس افتخار حسین چودھری نے توہین عدالت کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت پر انہیں رہائی ملی۔اے پی ایس