ڈرون حملوں کا منفی رد عمل۔ چودھری احسن پر یمی



ڈرون حملوں کے بارے میں ایک امریکی اخبار کی رپورٹ کو ترجمان دفتر خارجہ نے مسترد کرتے ہوئے ڈرون حملوں پر پاکستان کے طویل عرصے سے پوزیشن کو دہرایا ہے۔انہوں نے ڈرون حملوں کو غیر قانونی، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان کا اس طرح کے حملوں کے معاہدے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔جبکہ پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھرنے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ڈرون حملوں کے دہشت گردوں کو ختم کرنے کے مقصد سے تو متفق ہے لیکن اس کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتا۔جبکہ نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈرون حملوں کا منفی رد عمل ہو رہا ہے اور وہ سود مند ثابت نہیں ہو رہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عوام کی اکثریت سی آئی اے کے ڈرون حملوں کی شدید مخالف ہے۔ایشیا سوسائٹی کے اجلاس میں حنا ربانی کھر کا خطاب سننے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ حنا ربانی کھر نے اس خطاب میں ڈرون حملوں، افغانستان سے تعلقات کے علاوہ کشمیر کا بھی ذکر کیا اور اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت حل کرنے کی بات کی۔ڈرون حملوں پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے امریکہ کے مقصد سے تو متفق ہے لیکن یہ حکمت عملی درست نہیں ہے۔حنا ربانی کھر نے کہا ڈرون حملوں سے جو حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہم اس سے اختلاف نہیں کرسکتے اور ہم اختلاف نہیں کرتے اگر وہ دہشت گردوں کے خلاف ہوں۔ لیکن ہمیں اس کے لیے قانونی طریقے ڈھونڈنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر یک طرفہ ڈرون حملے غیر قانونی ہیں۔حنا ربانی کھر سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان میں امریکہ کے خلاف اتنی نفرت کیوں پائی جاتی ہے تو انہوں نے جوابا صرف ایک لفظ کہا ڈرون۔حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان کو مسلح شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے اور عوامی حمایت حاصل کرنا ہے لیکن ایسا کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس جنگ کو امریکہ کی جنگ تصور کیا جاتا رہے گا۔انہوں نے کہا جب پاکستان کی فضاوں میں ڈرون اڑتے ہیں یہ امریکہ کی جنگ بن جاتی ہے۔ یہ تمام دلیل کہ یہ ہماری جنگ ہے اور ہمارے مفاد میں ہے ایک طرف رہ جاتی ہے اور یہ ہم پر مسلط کی گئی جنگ بن جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مخالفت سے قطع نظر یہ لڑائی کو جنگ کی قیمت پر جیتنے کا مسئلہ ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہیں۔ آپ ایک دہشت گرد مار لیتے ہیں یا دو مار لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ جنگ جیت رہے ہیں۔انہوں نے ایک عرصے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدہ تعلقات کے بارے میں امید ظاہر کی اور کہا کہ دونوں ملک اب معاملات کو حل کرنے کے زیادہ قریب ہیں۔حنا ربانی کھر نے امریکہ کے منتخب نمائندوں کی طرف سے اکثر ظاہر کیے جانے والے ان خدشات کو رد کر دیا کہ پاکستان امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔پاکستان کی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامی شدت پسندی کی بہت سی وجوہات ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر شدت پسندوں کی موجودگی کا واحد ذمہ دار پاکستان نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا کہ ہم سب اپنی علظیوں کو تسلیم کریں اور یہ کہیں کہ ہم نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں۔انہوں نے کہا جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو آپ کے ملک نے میرے ملک کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کو مسلح کرنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت ہم انہیں مجاہدین کہتے تھے۔ اور اس کے بعد آپ کا ملک ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہٹ گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتے۔پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا یہ رد عمل اس وقت سامنا آیا جب ایک امریکی اخبار نے اشتعال انگیز رپورٹ میں یہ دعوی کیا کہ امریکی حکام ڈرون حملوں سے قبل ممکنہ اہداف والے علاقوں کے بارے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ایک فوجی جنرل کو مہینے میں ایک مرتبہ قبل از وقت بذریعہ فیکس تحریری طور پر آگاہ کرتے ہیں۔یہ انکشاف امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون آپریشن سے آگاہ امریکی عہدے داروں کے مطابق پاکستانی حکام اس پیغام کا جواب نہیں دیتے باوجود یہ کہ وہ سرکاری طور پر ان میزائل حملوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ پاکستان اس خاموشی کی بنیاد پر اور اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ پاکستان ممکنہ اہداف والے علاقوں میں فضائی حدود کو بھی مزاحمتوں سے آزاد رکھتا ہے، امریکی حکومت یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ اسے ایک خود مختار ملک کی حدود میں ایسے حملوں کی خاموش اجازت حاصل ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ وائٹ ہاوس کی کونسل برائے قومی سلامتی اور امریکی سی آئی اے کے عہدے داروں نے پاکستان کی رضامندی کے بارے میں خیال آرآئی کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ کوئی بھی ایسی معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں۔پاکستان میں حکام نے ان تازہ امریکی دعوں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا تاہم اگلے روز ترجمان دفتر خارجہ نے اس رپورٹ کی مذمت کی بلکہ اسے بے بنیاد قرار دیا۔جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں صدر آصف علی زرداری نے پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کو ایک بار پھر ہدف تنقید بنایاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں کسی بھی ملک سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے…ہمارے علاقے پر ڈرون حملے اور ان میں شہری ہلاکتوں سے اس جنگ کے ذریعے لوگوں کے دل ودماغ جیتنے کی ہماری کوششیں مزید مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں۔وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستانی سرزمین پرامریکی ڈرون سے میزائل حملوں کی مہم کے ابتدائی ایام میں ممکنہ اہداف کی فہرست پاکستانی حکام کی رضا مندی سے تیار کی جاتی تھی۔ لیکن چار سال قبل امریکہ نے اکثر ان کارروائیوں کو یکطرفہ طور پر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔امریکی اخبار کے مطابق گزشتہ سال تک جس نظام کے تحت ڈرون آپریشن کیے جارہے تھے اس میں سی آئی اے کے حکام پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو ہر ماہ باقاعدگی سے بذریعہ فیکس تحریری طور پر اس علاقے کے بارے میں آگاہ کرتے جن پر ڈرون طیاروں کی پروازیں متوقع ہوتیں مگر اس میں ٹارگٹ کا ذکر نہیں کیا جاتا تھا۔خفیہ ایجنسی اس فیکس پیغام موصل ہونے کی تصدیق کردیتی جسے ڈرون حملوں کی تائید سمجھا جاتا تھا۔ لیکن مئی 2011 میں پاکستان کی اجازت کے بغیر اسامہ بن لادن کے خلاف ابیٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن کے بعد سے خفیہ ایجنسی نے ڈرون حملوں سے متعلق پیغامات موصول ہونے کی تصدیق کرنے کا سلسلہ بند کردیا۔اخبار نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ جوابی پیغامات کی بندش پاکستانی حکام کی طرف سے اظہار ناراضی تھا اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے یہ راستہ اختیار کیا کیونکہ ڈرون آپریشن کی اجازت نا دینے سے تصادم کا خدشہ تھا جبکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ میزائل حملے پاکستان کے اجازت کے بغیر بھی جاری رہتے۔ایک تازہ جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیرستان کے علاقوں میں جاری ڈرون حملوں کی وجہ سے مقامی آبادی چوبیس گھنٹے خوفزدہ رہتی ہے اور یہ کارروائیاں امریکہ مخالف جذبات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، جبکہ عام شہری بھی ان کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔اسٹینفورڈ لا اسکول اور نیویارک یونیورسٹی اسکول آف لاء کی مشترکہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ڈرون کے ذریعے کیے جانے والے میزائل حملوں کی وجہ سے علاقے کے لوگ نمازِ جنازہ اور شادی بیاہ سمیت دیگر سماجی پروگراموں میں شرکت سے گریز کرنے لگے ہیں۔ اس امریکی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے عام شہریوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں اور وہ مستقل خوف کے سائے میں زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔رپورٹ کے مصنفین کے مطابق ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والے افراد کی امداد کرنے والوں کو بھی موقع پر ہی دوسرا ڈرون حملہ کر کے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان حملوں نے مقامی لوگوں کے معمولاتِ زندگی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے اور لوگ خوف سے جنازوں میں بھی شرکت سے گریز کرتے ہیں۔اسی حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان حملوں کے خوف سے بچوں کو سکولوں میں نہیں بھیجا جاتا یا ہلاکتوں کی وجہ سے کم ہو جانے والی آمدن میں اضافے کے لیے بچوں کو سکولوں کی

بجائے محنت مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق پرواز کرتے ڈرون طیاروں کی آواز مقامی آبادی میں خوف کی علامت بن چکی ہے اور شہری شدید دبا کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ان طیاروں کے حملوں میں املاک کی تباہی کی وجہ سے شہریوں کو معاشی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں جو عام شہری ہلاک ہوتے ہیں ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ آزاد ذرائع اور محققین کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب ان قبائلی علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔رپورٹ میں ایسے ہی ایک حملے کی مثال مارچ دو ہزار گیارہ میں شمالی وزیرستان کے دتہ خیل علاقے میں ہونے والی کارروائی کی تفصیل کی شکل میں دی گئی ہے جس میں قبائلی رہنماوں کے علاوہ مقامی تاجروں سمیت چالیس سے زیادہ افراد اس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب ایک ایسی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں مبینہ طور پر چار شدت پسند سوار تھے۔اس رپورٹ میں معاون، برطانیہ میں انسانی حقوق کی تنظیم ریپریو کا کہنا ہے کہ وہ برطانوی حکومت سے ڈرون حملوں میں سی آئی اے کے ساتھ تعاون کے لیے انٹیلیجنس معلومات فراہم کرنے کی پالیسی کی وضاحت کے لیے قانونی اقدامات اٹھا رہی ہے۔یمن، افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے سینکڑوں شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور رپورٹ کے مطاابق ان ڈرون حملوں میں عام طور پر دہشتگرد تنظیموں کے نچلی سطح کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔امریکی صدر اوباما ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ ان حملوں میں جن افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہ سرگرم دہشت گردوں کی فہرست پر ہوتے ہیں۔ان حملوں میں طالبان اور القاعدہ کے سینیئر رہنماں کو بھی مارا جا چکا ہے۔ اسی سال جون میں ہونے والے ایک اور ڈرون حملے میں القاعدہ کے سینیئر رہنما ابو یحیی اللبی کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نوی پلے نے فوجی قیادت کے کنٹرول سے باہر ان حملوں کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے تھے۔خبر رساں ایجنسی اے پی کی جانب سے ان معاملات کی ہونے والی ایک تفتیش میں نتیجہ اخذ کیاگیا تھا کہ ہلاک ہونے والے بیشتر افراد دہشت گرد ہوتے ہیں تاہم سٹینفورڈ یونیورسٹی اور نیویارک یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق اس سے برعکس بہت مختلف نتائج پر پہنچی ہے۔امریکی پالیسی کا ایک متنازع پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں کیے جانے والے ڈرون حملے امریکی فوج نہیں بلکہ خفیہ ادارہ سی آئی اے کرتا ہے کیونکہ ہمسایہ ملک افغانستان کے برعکس پاکستان کوئی محاذِ جنگ نہیں ہے۔امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے اس پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اپنی حفاظت کرتا رہے گا۔اسی سال امریکی صدر باراک اوباما کہہ چکے ہیں کہ اس لائحہِ عمل پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور اس کے بغیر امریکہ زیادہ شدید مداخلت پر مجبور ہو جائے گا۔خیال رہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں پر حکومت متعدد بار امریکہ سے احتجاج کر چکی ہے جب کہ ملک کی مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔پاکستان امریکہ سے مطالبہ کر چکا ہے کہ ڈرون حملوں کا مستقل حل تلاش کیا جانا چاہیے لیکن امریکہ کا موقف رہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے ایک موثر ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں اور ان ڈرون حملوں کا قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہے۔اے پی ایس