عوام کے ساتھ کیا گیا ظلم بے نقاب۔چودھری احسن پر یمی


پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے اصغر خان کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے انتخابی نتائج پر ایجنسیوں کے اثر انداز ہونے کا رجحان ختم ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے ارکان پنجاب اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں تحلیل شدہ انتخابی اتحاد آئی جے آئی کی قیادت کو نااہل قرار دیا جائے اور سیاست دانوں کو رقوم دینے والے جرنیلوں کا کورٹ مارشل کیا جائے۔یہ مطالبہ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں منظور کی جانے والی تین مختلف قراردادوں میں کیا گیا۔پنجاب اسمبلی میں قائد حزب مخالف راجہ ریاض نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں یہ مطالبہ کیا کہ جمہوریت کے خلاف پس پردہ سازشیں کرنے اور بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرنے والوں کا پول کھل گیا ہے اس لیے مسلم لیگ نون کے سربراہ نوازشریف اور ان کے بھائی شہباز شریف جمہوری حکومت کو ختم کرانے پر قوم سے معافی مانگیں۔پیپلزپارٹی کے رہنما نے بتایا کہ اجلاس میں الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کیا کہ شریف برادران کو نااہل قرار دے کر ان کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی جائے۔جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے سابق ائیر مارشل اصغر خان کی درخواست پر فیصلے میں قرار دیا کہ سنہ انیس نوے کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق انتخابی عمل کو آلودہ کیا اس وقت کے آرمی چیف جنرل آرمی مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آیی کے سربراہ اسد درانی کا انفرادی فعل تھا۔سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے بیان حلفی کے مطابق جن سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے رقوم لیں ان میں مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف ، سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی، سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو ، سابق وزرا جام صادق، جام یوسف اور افضل خان ، پیر پگاڑا اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاست دان شامل تھے۔پیپلز پارٹی کی مقتول سربراہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے تحلیل کرکے نئے انتخابات کرائے اور سنہ نوے میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی صرف 47 نسشتوں پر کامیابی ہوئی تھی اور مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالا تھا۔پیپلز پارٹی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد راجہ ریاض نے بتایا کہ اجلاس ایک قرارد داد کے ذریعے یہ مطالبہ کیا گیا کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کااصغر خان کیس کے فیصلے کے تحت کورٹ مارشل کیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان مسلم لیگ ق، پاکستان مسلم لیگ ہم خیال، پاکستان مسلم لیگ ضیاء اور پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں نے فوج سے پیسے لے کر انتخاب لڑنے والے افراد کے لیے مثالی سزاوں کا مطالبہ کیا ہے۔پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے کلر کہار میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتی ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ پاکستانی کے انتخابی کمیشن سے مطالبہ کریں گے کہ وہ ایسے سیاستدانوں کو انتخاب میں حصہ لینے سے روکیں جن پر ایجنسیوں سے پیسے لینے کے الزامات ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے جس میں فوج کے افسران اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ ایسے تمام افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ انہیں سبق مل سکے اور آئندہ کوئی بھی شخص ایسا کرنے کی جرات نہ کرسکے۔ یہ فوج کے لیے بھی ایک امتحان ہے۔پاکستان مسلم لیگ نوازکے ترجمان پرویز رشید نے پیپلزپارٹی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ان تینوں افراد کے جن پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں انگلی اٹھائی گئی ہے پیپلزپارٹی سے قریبی تعلقات تھے۔اس وقت پاکستان کے صدر غلام اسحق خان نے بینظیر بھٹو کی حمایت سے انیس سو ترانوے میں نوا شریف کی حکومت ختم کی تھی۔انہوں نے کہا کہ جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا گیا اور جنرل اسد درانی کو سفیر بنایا گیا۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انتظامیہ اور حکومتی اہلکار کسی کے بھی غیر آئینی احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیں۔جمیعتِ علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان نے اس فیصلے پر کہا کہ فیصلہ تو ٹھیک ہے مگر صرف فیصلہ دینے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ اس پر مزید تحقیقات ہونے چاہیں اور سزا کا تعین ہونا چاہیے کیونکہ ایک خط کے معاملے پر وزیرِ اعظم کو گھر بھیج دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ہی سے سیاست میں اثر انداز ہوتی آئی۔متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے اپنے بیان کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ ساز ہے اور اس پر اس کی روح کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔ سرکاری ایجنسیز اور جرنیلوں کے خلاف پیسے تقسیم کرنے اور سیاستدانوں اور صحافیوں نے پیسے لیے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ سرکاری ایجنسیز نے متحدہ کے قائد الطاف حسین کو بھی رقوم کی پیشکش کی تھی مگر انہوں نے ضمیر کا سودا نہیں کیا۔اصغر خان کیس کے حوالے سے کئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے نے پاکستان کے عوام کو جھجوڑ کر رکھ دیا ہے کہ پاکستان کے عوام کو کس طرح تاریک گلیوں میں گھسیٹا جاتا رہا ہے جو سلسلہ تا حال جاری ہے اس ضمن میں عوام کا مطالبہ ہے کہ اس کے بعد کے تمام ادوار حکومتوں کے برسر اقتدار آنے کے حوالے سے بھی حقائق سامنے لائیں تاکہ پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ کئے گئے ظلم کو سامنے لایا جائے کیو نکہ اب عوام جان چکے ہیں کہ پاکستان کی مٹھی بھر سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے عوام کو دھوکے میں رکھا ہے اور پینسٹھ سال سے بدمعاش سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود آئین شکنوں نے پاکستان کے عوام کے ساتھ دغا کیا ہے۔اس ضمن میں ضروری ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اپنے حکم سے ایک ایسا کمیشن تشکیل دیں جو یہ حقائق سامنے لائے کہ سول و قانون شکن فوجی آمر کس طرح عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہے۔جبکہ وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف نے سپریم کورٹ کی جانب سے اصغر خان کیس میں دیے جانیو الے فیصلے پر “سو فی صد” عمل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت عدالتی فیصلے کی روشنی میں معاملے کی آزادانہ تفتیش کرائے گی۔گزشتہ جمعے کی شام اسلام آباد میں ایک غیر روایتی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ان تمام افراد سے تفتیش کی جائے گی جن پر 1990 کے عام انتخابات میں فوجی افسران سے پیسہ وصول کرنے کے الزامات ہیں۔قبل ازیں جمعے کی دوپہر پاکستان کی عدالت عظمی نے فوجی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کی طرف سے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق 16 سال پرانے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ 1990 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ شواہد کی روشنی میں ثابت ہو گیا ہے کہ مرحوم سابق صدر غلام اسحاق خان، اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے 1990 کے انتخابات میں سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کی تھیں۔عدالتی فیصلے کے مطابق یہ ایک خلاف آئین فعل تھا جس نے نہ صرف انتخابات کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ یہ قوم کی نظر میں فوج کی بدنامی کا باعث بھی بنا۔عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ مذکورہ تینوں افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جب کہ تحقیقات کر کے رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں سے بھی اس کا حساب لیا جائے۔اپنی پریس کانفرنس میں وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے پیسہ لینے والے قوم سے معافی مانگیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پیسے لینے والوں کو شاید قوم معاف کردے لیکن وہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔وزیرِاعظم نے کہا کہ قوم کو پتا چلنا چاہیے کہ اس سازش میں کون کون شریک تھا اور یہ کب اور کہاں تیار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ حربے استعمال نہ کیے جاتے تو 90 کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنتی۔یہ مقدمہ 1996 میں فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان نے دائر کیا تھا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار رہنے کے بعد رواں سال فروری میں سپریم کورٹ نے اس کی دوبارہ سماعت شروع کی جس کے اختتام پر جمعے کو مختصر فیصلہ سنایا گیا۔وزیرِاعظم نے اصغر خان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طویل قانونی جنگ لڑی جس میں وہ سرخرو ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 16 سال بعد سامنے آنے والے عدالتی فیصلے کے ذریعے “تاریخ نے اپنے سینے سے سچ اگل دیا ہے اور حقیقت پوری دنیا کے سامنے آگئی ہے”۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ ‘ایف آئی اے’ اس مقدمے میں قانون کے مطابق کاروائی کرے گا اور تحقیقات کے بعد جو کچھ پتا چلے گا اسے قوم کے سامنے لائیں گے۔ایک سوال کے جواب میں وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ان کی حکومت کا سب سے بڑا ٹاسک صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے جس کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔جبکہ سنہ انیس سو نوے کے انتخابات کے دوران سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے حوالے سے دائرخواستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر اصغر خان نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اس فیصلے پر عمل در آمد ہوگا۔سپریم کورٹ نے سنہ نوے کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق ائیرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کے مقدمے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ نوے کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انتخابی عمل کو آلودہ کرنا اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی کے انفرادی فعل تھا۔ ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق رقوم لینے اور دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ سنہ انیس سو نوے کے انتخابات میں دھاندلی کو تسلیم کیے جانے کا اب کوئی فائدہ تو نہیں ہے تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ اب اسی کی روشنی میں کیے جانے والے اقدامات سے مستقبل میں ہونے والے انتخابات کو دھاندلی سے پاک کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ انیس سو پچہتر کے بعد ہونے والے تمام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جنرل اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف تو کارروائی ہوگی ہی، ساتھ ہی اور بھی کئی باتیں سامنے آئیں گے جن میں وہ سیاستدان بھی سامنے آئیں گے جنہوں نے رقوم لیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ انیس سو پچہتر سے قبل فوج کا کوئی اہلکار نہ تو انتخابی دھاندلی میں ملوث ہوا اور نہ ہی اسے سزا ملی۔اصغر خان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو سیاستدان اس رقم سے مستفید ہوئے ان کی بھی تحقیقات کی جائیں۔یاد رہے کہ پاکستانی فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان نے آئی ایس آئی کی طرف سے مہران بینک اور حبیب بینک کے ذریعے سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کی کچھ سماعتوں کے بعد اس درخواست کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا اور دس سال کے بعد اس درخواست کی سماعت دوبارہ شروع کی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے سنہ نوے کے انتخابات میں سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے معاملے سے متعلق ائیرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کے مقدمے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ نوے کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انتخابی عمل کو آلودہ کرنا اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی کے انفرادی فعل تھا۔اس مقدمے کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ ائیرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے یہ درخواست سولہ سال قبل دائر کی تھی۔سپریم کورٹ نے مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو سیاستدان اس رقم سے مستفید ہوئے ان کی بھی تحقیقات کی جائیں۔اس سے قبل اس درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے تین بینچ پر تعصب کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال کر اسے غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے اس لیے اس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات قومی احتساب بیورو سے کروائی جائے یا پھر کوئی کمیشن تشکیل دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومتوں کو گرانے میں فوج، آئی ایس آئی اور عدلیہ شریک رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران اعلی عدالتوں کے ججز نے نہ صرف عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اٹھایا بلکہ فوجی آمروں کو آئین میں ترمیم کرنے کی بھی اجازت دی۔ اس پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ صرف اس درخواست سے متعلق دلائل دیں۔سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس معاملے میں وہ وفاق کی نمائندگی کر رہے ہیں یا کسی جماعت کی۔اٹارنی جنرل نے بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے دیے گئے ریمارکس پر اعتراض کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو بھی اقتدار میں آئے ہوئے چار سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے کہ لیکن سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق ذمہ داروں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔بینچ میں موجود جسٹس خلجی عارف حسین نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی جج کے نہیں بلکہ بینچ کے ریمارکس تھے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے تو بلوچستان اور کراچی بدامنی کے مقدمات میں بھی حکومت کو غیر مستحکم نہیں کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اصغر خان کی درخواست میں اب تک جو شواہد سامنے آئے ہیں اس کے مطابق ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود تھا اور اس کی شہادت، بری فوج کے سابق سربراہ مرزا اسلم بیگ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب نے دی ہے۔افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ سابق وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے بھی سنہ انیس سو چورانوے میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ سنہ نوے میں اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے لیے ایوان صدر سے احکامات جاری کیے گئے تھے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں موجودہ وزیر داخلہ رحمان ملک کو بھی سن لیا جائے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔عرفان قادر کا کہنا تھا کہ سابق صدر نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا یہ ان کے علم میں نہیں ہے تاہم عدالت میں جو ریکارڈ پیش کیا گیا ہے اس کے مطابق ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ صدر کو سیاسی کردار ادا کرنے سے متعلق کوئی قدغن نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ان کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر آئی جے آئی کی تشکیل میں سابق صدر غلام اسحاق خان کا اقدام بھی درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ صدر وفاق کی علامت ہے اور وہ کسی گروہ یا جماعت کی حمایت نہیں کر سکتا۔سپریم کورٹ میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کے مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اگر اس وقت کے آرمی چیف اس معاملے کا ادراک کر لیتے تو اکتوبر سنہ انیس سو ننانوے اور تین نومبر سنہ دو ہزار سات جیسے واقعات پیش نہ آتے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس یعنی آئی ایس آئی کی طرف سے نوے کی دہائی میں سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم اور اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کی۔عدالتِ عظمی کا کہنا ہے کہ جرنیلوں کا سیاست میں ملوث ہونا خود ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔بینچ میں شامل جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل ریٹارئرڈ مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا ذاتی فعل تھا جبکہ اس میں فوج بحثیت ادارہ ملوث نہیں ہے۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے کہا کہ صدر وفاق کی علامت ہے اور ان کو کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔اس سے قبل سیکرٹری ایوان صدر آصف حیات نے عدالت میں اپنا جواب جمع کرایا۔اس جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایوان صدر میں ستمبر دو ہزار آٹھ سے کوئی سیاسی سیل کام نہیں کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سنہ نوے کی دہائی میں ایوان صدر میں انتخابات کو مانیٹر کرنے کے لیے سیل موجود تھا لیکن اس کی تفصیلات اور فائلیں ملٹری سیکرٹری کے پاس ہیں جو ان دنوں صدر کے ہمراہ بیرون ملک کے دورے پر ہیں۔آصف حیات نے کہا کہ ملٹری سیکرٹری کے واپس آنے پر ان فائلوں کا مطالعہ کر کے ہی کچھ کہہ سکیں گے۔اس پر بینچ نے کہا کہ اس بیان کے بعد تجسس بڑھ گیا ہے کہ اگر سیاسی سیل نہیں تو کیا کوئی اور سیل کام کر رہا ہے۔اس پر سیکرٹری ایوان صدر نے جواب دیا کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا۔یاد رہے کہ ایوان صدر کے سیکرٹری نے عدالت سے اس ضمن میں دو روز کی مہلت مانگی تھی جس میں وہ ایوان صدر میں سیاسی سیل کی موجودگی کے بارے میں عدالت کو آگاہ کرنا تھا۔اس سے پہلے سیکرٹری دفاع نے عدالت میں یہ لکھ کر دیا کہ آئی ایس آئی میں کوئی سیاسی سیل موجود نہیں ہے۔عدالت میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کا بیان حلفی پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سابق صدر غلام اسحاق خان کے دور میں ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود تھا جہاں سے سیاسی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جاتا تھا۔اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ان کے موکل اس بات کے حامی ہیں کہ سیاست میں فوج کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مرزا اسلم بیگ کو بحثیت آرمی چیف سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے تھی۔عدالت نے چودہ کروڑ روپے میں سے سات کروڑ روپے مبینہ طور پر سیاست دانوں میں تقسیم ہونے کے بعد باقی ماندہ رقم سے متعلق سیکرٹری دفاع سے تفصیلی جواب طلب کیا۔اس معاملے کے اہم کردار بریگیڈئیر ریٹائرڈ حامد سعید عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ وہ اٹھارہ اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوں گے۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے کہا تھا کہ سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم حامد سعید کے ذریعے تقسیم کی گئی تھی۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے ریٹائرڈ ایئر چیف اصغر خان کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ بادی النظر میں ایوان صدر، بری فوج کے سربراہ اور آئی ایس ائی سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے معاملے میں ملوث رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو یہ دیکھنا ہے کہ یہ ان افراد کا ذاتی فعل تھا یا اس میں ادارے ملوث تھے۔عدالت کا کہنا تھا کہ ایوان صدر، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے دفاتر بہت اہم ہیں اور عدالت اس ضمن میں ایوان صدر میں سیاسی سیل کے بارے میں جواب کا انتظار کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جواب نفی میں آنے کی صورت میں اس معاملے کے ایک اور اہم کردار اجلال حیدر زیدی کو نوٹس دینے پر غور کریں گے۔ اس سے پہلے سیکرٹری دفاع نے عدالت میں یہ لکھ کر دیا ہے کہ آئی ایس آئی میں کوئی سیاسی سیل موجود نہیں ہے۔درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹاریرڈ اسد درانی نے ان کے موکل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اعلی قیادت کے کہنے پر سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کیں۔انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں میں سات کروڑ روپے تقسیم کیے گیے اور اس ضمن میں ملٹری انٹیلیجنس یعنی ایم آئی کے اکانٹ استعمال کیے گئے جبکہ باقی سات کروڑ روپے کی رقم اسی اکانٹ میں موجود رہی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اکانٹ استعمال ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس میں پوری ایم آئی ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے معاملے میں ایوان صدر، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ ملوث رہے ہیں جو کہ ایک افسوسناک امر ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوج میں آرمی ایکٹ موجود ہے اور نیشنل لاجسٹک سیل میں بدعنوانی کا معاملہ چلا تو تین ریٹارئرڈ جرنیلوں کو نوکری پر بحال کرکے ان کا کورٹ مارشل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کی مضبوطی کے لیے بعض اوقات مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔بینچ میں موجود جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی عرصے سے یہ معاملہ چلتا رہا ہے لیکن پیپلز پارٹی نے بھی اس معاملے کی طرف توجہ نہیں دی جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد ان کی جماعت کے خلاف ہی بنا تھا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے تو کبھی بھی آئی جے آئی نہ بنتی۔ انہوں نے کہا کہ اب جو بھی ہوگا وہ آئین کے مطابق ہوگا اور عدالت چاہتی ہے کہ جمہوری نظام چلتا رہے کیونکہ یہی قومی مفاد میں ہے۔سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے اسد درانی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم ایوان صدر کے حکم پر دی تھی لیکن اب ان کا یہ موقف ہے کہ انہوں نے یہ رقم مرزا اسلم بیگ کے حکم پر دی تھی۔انہوں نے عدالت سے سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے عدالت میں دیے گئے ان کیمرہ بیان کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کی طرف سے سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم سے متعلق مقدمے میں کہا کہ کسی ایک شخص کے باعث پوری فوج اور آئی ایس آئی کو الزام نہیں دیا جاسکتا۔یہ بات مقدمے کی سماعت دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس میں کہی۔ اس مقدمے کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس کے سابق سربراہ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے سیاستدانوں کو رقوم صدرِ پاکستان اور آرمی چیف کے احکامات پر کی۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے ستر ملین کی رقم اس وقت کے صدرِ پاکستان غلام اسحق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے احکامات پر تقسیم کی۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ رقم بریگیڈیئر حامد سعید کے ذریعے تقسیم کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ان کو بتایا گیا تھا کہ ایسا کرنا قومی مفاد میں ہے۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک جنرل ہوتے ہوئے اسد درانی نے غیر آئینی کام کیا اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔تاہم انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو سراہا کہ انہوں نے سچ بتانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے قبل سیکریٹری ایوانِ صدر آصف حیات عدالت میں پیش ہوئے۔یاد رہے کہ پچھلی سماعت میں سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کی طرف سے سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم سے متعلق مقدمے میں موجودہ صدرِ مملکت کے دفتر کو فریق بنانے سے متعلق درخواست سماعت کے لیے منظور کی تھی۔آصف حیات نے عدالت کو بتایا کہ یہ مقدمہ اس عرصے کا ہے جب ایوانِ صدر راولپنڈی میں واقع تھا اور اس وقت اس حوالے سے ریکارڈ موجود ہونے ک علم نہیں۔انہوں نے سپریم کورٹ سے ریکارڈ نکالنے کے لیے مہلت مانگی جس پر عدالت عظمی نے مہلت دے دی۔واضح رہے کہ پچھلی سماعت میں عدالت کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان کا عہدہ وفاق کی علامت ہوتا ہے اور ایوان صدر میں ایسے سیاسی سیل قائم ہونے سے اس آئینی عہدے پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔عدالت نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے پرنسپل سیکرٹری روئیداد خان کو بھی فریق بنانے سے متعلق درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔ یہ دونوں درخواستیں پاکستانی فضائیہ کے سابق سربراہ ائرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی طرف سے دائر ہوئیں تھیں۔اے پی ایس