اسرائیلی، امریکی مشترکہ جنگی مشقیں۔چودھری احسن پر یمی



وائٹ ہاوس نے جوہری پروگرام پر ایران کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات پر آمادگی کی اطلاعات کی تردید کی ہے۔یہ خبر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی تھی جس میں نامعلوم حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایران پہلی مرتبہ بات چیت پر راضی ہوا ہے لیکن یہ مذاکرات چھ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل نہیں ہوگی۔وائٹ ہاس کا کہنا ہے کہ وہ ایران سے اس کے متنازع جوہری پروگرام پر دو طرفہ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن اس کا فی الحال کوئی منصوبہ نہیں ہے۔مغربی طاقتوں کا خیال ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ہے جبکہ ایران اس الزام سے انکار کرتا آیا ہے۔امریکی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور ایران نے دو طرفہ بات چیت پر اصولی اتفاق کر لیا ہے۔تاہم امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ٹامی وائٹر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ سچ نہیں کہ امریکہ اور ایران نے دو طرفہ مذاکرات یا امریکی صدارتی انتخاب کے بعد کسی بھی ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔ ہم ایک سفارتی حل کے لیے کوشاں ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اس سلسلے میں ایران سے دو طرفہ بات چیت ہو سکتی ہے۔ایران کے جوہری معاملے پر اس کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی پر مشتمل گروپ سے بات چیت تاحال بے نتیجہ رہی ہے۔مغربی طاقتوں نے اس سلسلے میں ایران پر دبا ڈالنے کے لیے سخت اقتصادی پابندیوں کا سہارا بھی لیا ہے۔ایران کا مسئلہ امریکہ میں آج کل جاری صدارتی انتخابی مہم میں خارجہ پالیسی پر بحث کا کلیدی نکتہ ہے۔امریکہ کے موجودہ صدر اور ڈیموکریٹ امیدوار براک اوباما اور ان کے ریپبلکن حریف مٹ رومنٹی اپنے تیسرے اور آخری صدارتی مباحثے میں آمنے سامنے ہوں گے اور اس مباحثے کا موضوع بھی امریکی خارجہ پالیسی ہے۔مٹ رومنی اب تک براک اوباما پر ایران کے مسئلے پر نرم رویہ اپنانے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔براک اوباما مستقبل قریب میں ایران کے جوہری اثاثوں کے خلاف امریکی یا اسرائیلی فوجی کارروائی کے حامی نہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنے کے لیے پرعزم ہیں۔ٹامی وائٹر کے بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ صدر واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکیں گے اور اس کے ہمیں جو بھی کچھ کرنا پڑا ہم کریں گے۔اس ضمن میں امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں کا آغاز کردیا ہے۔اس ضمن میںایک ہزار سے زیادہ امریکی فوجی، اسرائیل اور امریکہ کی افواج کی اب تک کی سب سے بڑی مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لینے کے لیے اسرائیل پہنچ رہے ہیں۔بلاسٹک میزائلوں کے حملوں سے دفاع پران جنگی مشقوں میں خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اسرائیل میں بنائے گئے مختلف الاقسام بلاسٹک میزائلوں سے بچا کے ہتھیار یا نظام ان مشقوں میں شامل رہیں گے جن میں ائیرو اور چھوٹے فاصلے پر مار کرنے والا آئرن ڈوم ہے جو کہ غزہ سے داغے جانے والے میزائلوں کے خلاف اپنی افادیت ثابت کر چکا ہے۔امریکہ پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس میزائل اور ان کا جدید ترین ورژن مشقوں میں شامل کرے گا۔مجموعی طور پر ساڑھے تین ہزار امریکی فوجی ان مشقوں میں شامل ہوں گے۔ ان میں کچھ اسرائیل کے اندر، کچھ یورپ میں موجود فوجی اڈوں سے اور کچھ بحیرہ احمر میں موجود ایجز راڈاروں سے لیس بحری جنگی جہاز پر تعینات ہوں گے۔یہ فوجی مشقیں جنہیں آسٹر چیلنج دو ہزار بارہ کا نام دیا گیا دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان میزائل دفاعی نظام کی تربیت سے متعلق چھٹی مشترکہ مشقیں ہے۔یہ مشقیں چند ماہ قبل ہونا تھیں لیکن بظاہر اسرائیل کے کہنے پر انھیں موخر کر دیا گیا تھا۔ اسرائیل کی طرف سے ایران کے جوہری اثاثوں پر حملے کے خدشے کی وجہ سے کچھ بے چینی کی سی فضا پائی جاتی تھی۔کچھ وجوہات کی بنا پر امریکہ کی طرف سے ان مشقوں میں شامل کیے جانے والے اجزا کو کم کر دیا گیا تھا۔امریکہ میں حالیہ انتخابی مہم کے دوران رپبلکن پارٹی کی طرف سے اوباما انتظامیہ پر یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ وہ اسرائیل کی حمایت میں استقامت نہیں دکھا سکی۔ اس تنقید سے قطع نظر یہ مشقیں اس بات کی دلیل ہیں کہ وائٹ ہاوس میں اوباما کی موجودگی میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون ہمیشہ کی طرح مضبوط اور مستحکم رہا ہے۔یہ مشقیں دو سے تین ہفتے تک جاری رہیں گی۔ یہ مشقیں اس مفروضے پر کی جا رہی ہیں کہ اسرائیل پر دو اطراف سے میزائل حملے کیے جاتے ہیں۔ ان مشقوں میں یہ دیکھا جائے گا کہ میزائل دفاعی نظام کے مختلف اجزا فضا، زمین اور سمندر سے بیک وقت کس طرح ایک مربوط انداز میں اس پیچیدہ صورت حال کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔پیٹراٹ میزائل فضا ہی میں دشمن کی طرف سے فائر کیے جانے والے میزائل کو تباہ کر سکتا ہے۔ان مشقوں کے ایک مختصر حصے میں اصل میں یا لائیو فائرنگ کرنے کی مشق بھی جائے گی۔امریکی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ مشقیں صرف اور صرف فوجی مقاصد کے پیش نظر کی جا رہی ہیں اور ان کا کسی طور بھی دونوں ملکوں میں ہونے والے انتخابات سے نہیں اور نہ ہی خطے میں پائی جانے والی کسی کشیدگی سے ہے۔لیکن اسرائیل اور امریکہ کی ان مشترکہ فوجی مشقوں کا ایک مقصد بالکل عیاں ہے۔ایران کے جوہری اثاتوں پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کی بازگشت اب کمزور پڑ گئی ہے لیکن ایک چیز بالکل واضح ہے کہ اسرائیل نے اگر کبھی ایران کے خلاف اس قسم کی کارروائی کی تو جوابا ایران اسرائیل پر بلاسٹک میزائلوں سے حملہ کر سکتا ہے۔اسرائیل کے خلاف بلاسٹک میزائل یا تو ایران کی سرزمین سے داغے جا سکتے ہیں یا لبنان میں موجود ایران کی اتحادی ملیشیا حزب اللہ اسرائیل پر میزائل کی بارش کر سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی غرہ میں موجود جہادی گروپ بھی اسرائیل پر راکٹ اور میزائل داغ سکتے ہیں اور ان مشقوں میں بھی ایسی ہی صورت حال کو بنیاد پر کر میزائل دفاعی نظاموں کا تجربہ کیا جائے گا۔ایران کئی مرتبہ خبردار کر چکا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایسی کوئی حرکت کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔اسرائیل اس سے قبل عراق اور شام کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا چکا ہے۔ان مشقوں کا امریکہ کو بھی فائدہ ہے کیونکہ اسرائیل ان مشقوں میں دنیا کے جدید ترین میزائل دفاع نظام کا تجربہ کرے گا۔بڑی حد تک امریکی پیسے سے بنائے جانے والے اس میزائل دفاعی نظام کو امریکہ نیٹو افواج کے لیے بھی بنانا چاہتا ہے۔امریکہ کے قبل از وقت خبردار کردینے والے مواصلاتی نظام کو کسی طرح زمین پر موجود اسرائیلی اور امریکی میزائلوں سے مربوط کیا جا سکتا ہے ان مشقوں میں اس کا تجربہ کیا جائے گا۔اس میں امریکی بحری جہاز جس پر ایجز رڈار لگے ہوئے ہیں وہ بھی اہم کردار ادا کریں گے۔یہ بحری جہاز جو بحیرہ احمر میں موجود ہوں گے وہ بھی نیٹو کے لیے بلاسٹک میزائلوں سے بچا کے لیے بنائے جانے والے نظام میں اہم جز ثابت ہوسکتے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کی اس جادوگری میں ایک سوال تشنہ ہے کہ اصل جنگی صورت حال میں یہ میزائل دفاعی نظام کتنا موثر ثابت ہو گا۔اسرائیل کا آئرن ڈوم نظام بڑی حد تک کامیاب ثابت ہوا ہے لیکن اسرائیل کا دفاعی نظام کبھی بھی کسی مربوط اور تسلسل کے ساتھ کیے جانے والے حملے کی زد میں نہیں آیا جس میں اس پر مختلف اطراف سے میزائل داغے گئے ہوں۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی بھی دشمن کی یہی حکمت عملی ہو گی کہ دفاعی نظام کو ناکام کرنے کے لیے بیک وقت بہت سے میزائل داغ دے۔اس صورت میں بھی میزائل دفاعی نظام پر ہی انحصار کیا جائے گا جو بلاسٹک میزائل کے حملوں سے بچا یا دفاع کے کثیر الجہتی اور وسیع تر نظام کا ایک جز ہو گا۔اے پی ایس