آئین کے نفاذ کو درپیش چیلنج۔چودھری احسن پر یمی



چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ایک ہی روز بیانات آنے کے ساتھ ہی میڈیا میں تبصروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اگرچہ ہر مبصر اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق جتنی اس کی لمبی زبان تھی اپنے منہ کے اندر باہر کرتا رہا اور دونوں چیفس کے بیانات کا پس منظر اور پیش منظر بیان کرتا رہا۔لیکن دونوں کے بیانات میں اہم بات وہی تھی جو چیف الیکشن کمشنر فخرو الدین جی ابراہیم نے کئی روز پہلے کہی تھی کہ ماضی میں ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اب آگے کا سوچو۔چیف الیکشن کمشنر فخرو جی ابراہیم کا یہی وہ بیان ہے جس کے تناظر میں چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بیان سامنے آیا ہے جس میں عوام کیلئے ایک امید کی کرن اور ایک نئے پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔اور یہ عزم وہی ہے جس میں آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے کیونکہ اس وقت ملک کا ناک نقشہ یہی ہے کہ ہر بااختیار آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔اگرچہ چیف جسٹس کے اہم اقدامات سے آئین اور قانون کی ہر اتھارٹیز پر فوقیت قائم رکھنے کی کوششیں ملک کے عوام پر مسلط مافیا کیلئے ناگوار گزر رہی ہیں لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کی ثابت قدمی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کر جائے گی۔حکومت کی متنازع پالیسیوں پر عوام کو سخت تشویش ہے اور اس حوالے سے حکومت پرپر سخت نکتہ چینی میں اضافہ ہورہا ہے۔جبکہ حکومت اپنی پالیسیوں کا دفاع کر رہی ہے وہیں اپوزیشن جماعت پر شدید تنقید بھی کر رہی ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام کے دروازے عام آدمی کے لیے بند ہیں اور اگرپاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو اس نظام میں کمزوروں کی آواز کا سنا جانا ناگزیر بن چکا ہے۔ ہمارے سیاسی نظام میں کمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دروازے کمزور، عام آدمی کے لیے بند ہیں۔ جب کسی سرکاری محکمہ میں کو ئی کام ہو یاروزگار کی تلاش ہو تو یہ بند نظام عام آدمی کو شکست دے دیتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے دروازے بھی عام آدمی کے لیے بند پڑے ہیں۔ نوجوان خواب دیکھتا ہے تو ہمارا سسٹم اسے ٹھوکر مار کر توڑ دیتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو یہ بند دروازے کھولنے ہوں گے تاکہ لاکھوں عام نوجوانوں کی آواز سنی جائے جو ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں اور ہمیں راستہ دکھاتے ہیں جب تک دروازے نہیں کھلتے یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حکومت اپنی اقتصادی پالیسیوں، سی این جی کی قیمت میں اضافہ اور بدعنوانی کے الزامات پر عوام سے براہ راست ڈائیلاگ قائم کرنے کی کوشش کرے اور اپنی پوزیشن الیکشن سے قبل واضح کرے۔کیونکہ جو لوگ موجودہ حکومت پر بدعنوانی کے الزامات لگا رہے ہیں تو ضروری ہے کہ اس بارے عوام کو پتہ چلے وہ خود کس طرح سے بدعنوانی کے کیچڑ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔کیونکہ بے بنیاد الزام لگانے والے جمہوریت کی بنیاد کو کمزور کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی آزاد عدلیہ اور غیر جانبدار میڈیا ایسا نہیں ہونے دے گا اور نہ ہی آئین سے کسی کو کھیلنے کی اجازت دے گا۔اگرچہ بدعنوانی ایک کینسر ہے جس میں غریب آدمی سب سے زیادہ مرتا ہے۔ عوام نے پہلے بھی اس کا مقابلہ کیا ہے اور اگر کسی کے خلاف الزام ثابت ہوتے ہیں تو قانون کے تحت اسے بخشا نہیں جانا چاہیے۔اگر سیاست دانوں کا دل اور نیت صاف ہے تو آئندہ الیکشن میں انہیں کسی سے نظریں چرانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں غلط باتیں پھیلائی جا تی رہیں گی جب تک وہ اس بارے عوام سے صاف گوئی سے کام نہیں لیتی۔ اقتصادی ترقی سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے چاہیے تھے لیکن ترقی کے لیے ضروری تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے اچھا ماحول بنتا لیکن حکمرانوں کی بدترین طرز حکمرانی کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ وہ دن گئے جب ملکی استحکام اور سلامتی کا تعین ٹینکوں اورمیزائلوں کی تعداد سے ہوا کرتا تھا۔ آج قومی سلامتی کا تعین اپنے عوام کی ہر قیمت پر فلاح و بہبود اور ان کے قدرتی اور سماجی حقوق کے تحفط سے ہوتا ہے۔وہ گزشتہ پیر کے روز اسلام آباد میں نیشنل مینیجمنٹ کالج کے طلبا اور اساتذہ سے خطاب کر رہے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کو آئین کے نفاذ کا مسئلہ درپیش ہے۔ چاہے بلوچستان میں امن و امان کا معاملہ ہو یا کراچی میں، ناقص انتظامیہ کے نقشِ قدم ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ بڑے قومی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی مربوط کوشش نہیں دکھائی دیتی۔انھوں نے حاظرین کو بتایا کہ جج آئین کے محافظ ہیں اور ان کے کندھوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ تمام ادارے قانون کی بالادستی قائم رکھیں۔انھوں نے کہا کہ آئین میں ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں جنھیں کلی طور پر نافذ ہونا چاہیے۔ یہ ریاست کی انتظامیہ کی ذمے داری ہے کہ ان حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ان حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ فوری طور پر نمٹے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی سپریم کورٹ کو احساس ہے کہ اسے وکیلوں، طلبا، میڈیا کے ارکان، سول سوسائٹی نے بے مثال جدوجہد کے ذریعے بحال کیا ہے۔ اس لیے ان کو اعلی عدالت سے توقع ہے کہ وہ انھیں بغیر کسی تعصب کے فوری انصاف فراہم کرے۔اس موقعے پر چیف جسٹس افتخار چودھری نے حاظرین سے سوال کیے: کیا ملک میں محنت کا صلہ ملتا ہے؟ کیا قانون اور آئین کی بالادستی کے جڑواں اصولوں کا سختی سے نفاذ ہو رہا ہے؟ کیا ملک کے شہری نظام پر اعتماد رکھتے ہیں؟ کیا موجودہ نظام میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ بدعنوانی کی حوصلہ شکنی کرے؟ کیا ہمارے نظام میں سماجی اور جائیداد کے حقوق محفوظ ہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ان سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تب ہم دعوی کر سکتے ہیں کہ ملک کا قانون شفاف ہے۔ لیکن اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ نظام لوگوں کو مساوی مواقع فراہم نہیں کرتا۔جبکہ اسی روز چیف جسٹس کے مذکورہ بالا خطاب سے دو گھنٹے قبل بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ ماضی میں ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں بہتر یہی ہے کہ تمام فیصلے قانون پر چھوڑ دیں کیونکہ تمام لوگ قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کیونکہ ہم سب قانون کی عملداری چاہتے ہیں اس لیے ہمیں یہ بنیادی اصول نہیں بھولنا چاہیے کہ ملزم صرف اس صورت میں ہی مجرم قرار پاتا ہے جب مجرم ثابت ہو جائے۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم اپنے طور پر کسی کو بھی چاہیے وہ سویلین ہو یا فوجی، مجرم ٹھہرائیں اور پھر اس کے ذریعے پورے ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیں۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کے متعدد اعلی افسران، جن میں فوج کے سابق سربراہ بھی شامل ہیں، کو مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ کچھ عرصہ سے آرمی چیف کی جانب سے مسلسل ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں جس میں کہا جا رہا ہے کہ فوج کی موجودہ قیادت ایسی کسی کارروائی میں شامل نہیں ہوگی جس میں ادارے کمزور ہوں یا انہیں لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہو۔آرمی چیف کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سنہ انیس سو نوے میں انٹر سروسز انٹیلیجنس یعنی آئی ایس آئی کی طرف سے سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم کے بارے میں ائرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی پٹیشن پر عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد ناقدین اس وقت کی فوجی قیادت اور فوج کو بحثیت ادارہ مورودِ الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو بری فوج کے سابق سربراہ مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔جبکہ فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اداروں کو کمزور کرنا یا آئین سے تجاوز کرنا ہمیں صیح راستے سے ہٹا دے گا۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کہنا تھا کہ دانستہ یا نا دانستہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو بظاہر صیح لگتا ہو لیکن مستقبل میں اس کے منفی نتائج نکلنے کے امکانات زیادہ ہوں۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہم سب ماضی کی غلطیوں کا ناقدانہ جائزہ لے رہے ہیں اور کوشش میں ہیں کہ مستقبل میں ایک صیح راستے کا انتخاب کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ کسی ادارے یا فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر ملکی مفاد کا حتمی تعین کرسکے اور یہ صرف اتفاق
رائے سے ہی ممکن ہے۔بیان کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ تمام ادارے ملک کے لیے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن کچھ لمحوں کے لیے رک کر یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس کوشش میں کچھ اچھیاور کچھ منفی نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک لمحے کے لیے رکیں اور دو بنیادی سوالوں کو دوبارہ پرکھیں کہ کیا ہم قانون کی حاکمیت اور آئین کی بالادستی قائم کر رہے ہیں اور کیا ہم اداروں کو مضبوط کررہے ہیں یا کمزور۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کہنا تھا کہ اگر قوم کی خدمت کرنی ہے اور تاریخ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے سامنے سرخرو ہونا ہے تو ان سوالات کے جواب مثبت ہونے چاہیے۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ فوج کی قیادت اور سپاہ کے درمیان اعتماد کا رشتہ انتہائی اہم ہے اور ایسی کوئی بھی کوشش جو ان رشتوں میں دڑاڑیں ڈالنے کا باعث بنے، برداشت نہیں کی جاسکتا۔اے پی ایس

http://www.associatedpressservice.net/news/?p=801&lang=UR