خطے میں امریکی پالیسی کی راہ میں رکاوٹ پاک فوج اور آئی ایس آئی ہے۔ اسد درانی


آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی گئی تھیں لیکن یہ آئین کے خلاف تھا یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ اسد درانی کا کہنا تھا کہ اس طرح کا کوئی بھی کام قانون دیکھ کر نہیں کیا جاتا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ سنہ انیس سو نوے میں بینظیر کی حکومت قانون کے ہی مطابق صدر کے اختیار اٹھاون ٹو بھی کے تحت ختم کی گئی تھی۔اسد درانی کے بقول اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سمجھتے تھے کہ پیپلز پارٹی حالات کے مطابق صحیح نہیں جار ہی اس لیے انہوں نے اسے سبق سکھانے کے لیے ایسا کیا۔سیاستدانوں میں تقسیم کی جانے والی رقم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ رقوم کراچی کی تاجر برادری نے اکھٹی کی تھی۔ بقول ان کے سب کو فوج پر بھروسہ تھا اس لیے تقسیم کی ذمہ داری فوج کو دی گئی۔اسد درانی کے بقول افسران کے حکم پر انہوں نے رقوم تقسیم کرنے کے لیے بعض لوگوں کو ذمہ داری سونپی تھی۔اسد درانی کا کہنا تھا کہ اس سارے معاملے کا فوج کو پوری طرح علم تھا۔ ایسا کرنے کے لیے ملک کی سپریم کمانڈ نے کہا۔اسد درانی کے بقول اس وقت سب کچھ ایک اصول کے تحت ہو رہا تھا۔اس سوال پر کہ وہ یہ کام کرنے سے انکار بھی کرسکتے تھے تو ایسا کیوں نہیں کیا؟ اسد درانی کا کہنا تھا کہ حکم بجا لانا فوج کی تربیت میں شامل ہوتا ہے۔ حکم عدولی کی صورت میں بھی ان کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی ہونا تھی۔رقوم تقسیم کیے جانے کے طریقہ کار سے متعلق اسد درانی کا کہنا تھا کہ کسے کتنی رقم دینا ہے اس کی ہدایت اس وقت کے فوجی سربراہ اسلم بیگ دیا کرتے تھے۔ چونکہ فیصلہ ایوانِ صدر کرتا تھا اس لیے بعض دفعہ ہدایات وہاں سے بھی آتی تھیں۔بقول اسد درانی اس وقت یہ تمام عمل شفاف طریقہ سے ہوا۔ رقوم کی تقسیم کی ذمہ داری سویلین لوگوں کی تھی جو جا کر یہ رقم سویلین لوگوں کے حوالے کر دیا کرتے۔اس سوال پر کہ رقوم کیا کہہ کر دی جاتی تھی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ رقم لے جانے والے کہتے یونس حبیب کی کمیونیٹی نے الیکشن کے لیے ڈونیشن دیے ہیں۔ آپ اسے اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کریں۔آئی جے آئی کی تشکیل کے حوالے سے اسد درانی نے کہا یہ یہ اتحاد انیس سو اٹھاسی میں جنرل ضیا الحق کے انتقال کے بعد بنا۔اسد درانی کے بقول آئی جے آئی کے بنائے جانے کے پیچھے یہی نظریہ تھا کہ جمہوریت چلانے کے لیے ملک میں دو بڑی پارٹیاں ہونی چاہئیں چونکہ اس وقت پیپلز پارٹی مضبوط حیثیت اختیار کر چکی تھی اس لیے دیگر سیاسی دھڑوں کو متحد کر کے ایک پارٹی بنائی جائے۔آئی جے آئی کے تخلیق کاروں کے بارے میں اسد درانی کا کہنا تھا کہ ان میں حمید گل، پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان، اور پاکستان فوج کے سابق سربراہ اسلم بیگ شامل تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی ایک آدمی کا کام نہیں تھا اس کے پیچھے کئی لوگوں کی سوچ شامل تھی۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو کیا وہ اس کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ بقول اسد درانی انہیں یہی سکھایا گیا ہے کہ اگر کوئی کام کریں تو اس کی ذمہ داری بھی لیں۔انہوں نے کہا: جو بات اسے قبول کیا ہے اور باقی کی باتیں تفتیش کے موقع کے لیے سنبھال کر رکھی ہیں۔اسد درانی کا کہنا تھا کہ جب وہ تمام معاملات سے پردہ اٹھا دیں گے تو لوگ خود فیصلہ کریں گے کہ کیا صحیح تھا اور کیا غلط۔اسد درانی کا کہنا تھا کہ اس سارے معاملے کا فوج کو پوری طرح علم تھا۔ ایسا کرنے کے لیے ملک کی سپریم کمانڈ نے کہا۔اسد درانی کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی منظر نامے پر کسی دوسری پارٹی کو موقع دینے کی تجویز معقول لگی تھی۔ تاہم انہوں نے ایک بار پھر اٹھاون ٹو بی کے استعمال اور اس وقت کے انتخابات کے انعقاد کو قانون کے مطابق قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انتخابات کے لیے ڈونیشن دینا بھی غلط نہیں تھا۔اسد درانی کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو برس سے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بقول ان کے ایسا نہ صرف اپنے ملک میں ہو رہا ہے بلکہ امریکہ اور مغرب میں بھی ایسا کیا جا رہا ہے۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے بقول امریکہ کی خطے کے لیے جو پالیسی ہے اس میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی بڑی رکاوٹ ہیں۔انہوں نے کہا کہ اصغر خان کیس کی دوبارہ سماعت کے لیے بھی یہی وجوہات دی گئیں کہ فوج کے خلاف مقدمات کیوں نہیں کھولے جاتے۔اسد درانی نے کہا کہ میں نے بہت بڑی غلطی کی۔ فوجیوں کو سیاسی معاملات کی سمجھ نہیں آتی، اس لیے بطور سفیر حکومت پر اعتبار کیا۔اسدر درانی کے بقول ان سے کہا گیا کہ جو بھی تفصیل ہے وہ دے دیں جو ایک خفیہ عمل کا حصہ ہے۔ بہت اصرار پر انتہائی خفیہ معلومات وزیرِ اعظم بینظیر بھٹوکو دیں۔ یہ علم نہیں تھا آگے چل کر سیاسی مفاد کے لیے انہیں اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے کہا رقوم کی تقسیم کے معاملے میں انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ ان کی خواہش کے مطابق تھا۔ لیکن یہ ان کا انفرادی فیصلہ تھا یا اجتماعی اس کا فیصلہ تفتیش کے بعد ہو گا۔