مصر میں صدر مرسی کے اختیارات۔چودھری احسن پر یمی



مصری صدر محمدمرسی نے کئی فرمان جاری کر کے اپنے لئے جو غیر معمولی اختیارات حاصل کر لئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے، کہ سب اس پر ششدر رہ گئے ہیں۔ اور اس سے مسٹر مرسی اور ملک کی عدلیہ کے مابین، عرصے سے جاری محاذآرائی اب کھل کر سامنے آئی ہے ۔ اس عدلیہ میں حسنی مبارک کے دور کے بہت سے سیکیولر جج موجود ہیں، جنہیں ان فرمانوں کے ذریعے ایک طرح سے بے اختیار کر دیا گیا ہے۔ صدر کے فیصلوں پر، ان فرمانوں کے بعدعدلیہ نظر ثانی نہیں کر سکتی ۔ عدالتوں کو آئین مرتب کرنے والی اس کمیٹی کو توڑنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ جس پر مسٹر مرسی کی اخوان المسلمین جماعت کا تصرف بڑھتا جا رہا ہے۔متعدد لبرل سیاست دانوں کا قاہرہ میں ایک اجلاس ہوا ہے۔ اور انہوں نے مسٹر مرسی کے ان اقداما ت پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے سابق سربراہ اور ایک صدارتی امید وار محمد البرادی کا کہنا ہے کہ مرسی نے مملکت کے تمام اختیارات پر قبضہ کر کے اپنے آپ کو مصر کا نیا فرعون مقرر کیا ہے۔ ناقدین مرسی حکومت کو اس قابل نہیں سمجھتے، کہ وہ ملک کو درپیش مسائل سے نمٹ سکے گی ، یا تباہ حال قومی معیشت کو سنبھالا دے سکے گی یا نئے آئیں پر قومی اتفاق رائے حاصل کر سکے گی ، یا ملک کے خستہ اقتصادی ڈھانچے کو ٹھیک کر سکے ۔ احمد ماہر ، 8 اپریل تحریک نامی ایک بڑی انقلابی تنظیم سربراہ ہیں، جنہوں نے ان صدرارتی فرمانوں کو ڈکٹیٹر شپ کے نئے دور سے تعبیر کیا ہے۔ ان فرمانوں کی وجہ سے ملک میں مزید بد امنی پھیلے گی۔ مسٹر مرسی کے ان قدامات سے تشویش طلب مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ اور اس نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ مصری انقلاب کا ایک مقصد یہ تھا ، کہ اقتدار کسی فرد واحد یا ایک ادارے کا اجارہ نہیں ہوگا۔ مصر کے صدر محمد مرسی نے خود کو احتساب سے بالا اور اپنی حمایت کرنے والے قانون سازوں کو تحفظ فراہم کر کے ایک نیا قضیہ چھیڑ دیا ہے۔صدر مرسی کی طرف سے جاری کردہ فرمان کے مطابق انقلاب کے تحفظ کی ضرورت کے پیش نظر ان کے احکامات کو عدالت یا اور کسی ادارے میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ان کے ترجمان کی طرف سے اعلان کردہ صدارتی حکم نامے میں عدلیہ کو ایوان بالا اور نیا آئین مرتب کرنے والی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیار پر بھی قدغن لگائی گئی ہے۔ مقننہ میں صدر مرسی کے حامی مذہبی قانون سازوں کو اکثریت حاصل ہے۔مزید برآں انھوں نے گزشتہ سال طویل مدت تک صدر رہنے والے حسنی مبارک کے خلاف تحریک کو دبانے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنے والے سابقہ حکام کے خلاف مقدمات دوبارہ شروع کرنے کا بھی حکم دیا۔صدر مرسی کے حامیوں نے یہ کہہ کر اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے کہ اسے بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن حزب مخالف اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔مصر کے صدر کا یہ فیصلہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ان کی کوششوں پر بین الاقوامی سطح پر انھیں ملنے والی پذیرائی کے بعد سامنے آیا ہے۔نوبل انعام یافتہ محمد البرادئی کا کہنا ہے کہ مسٹر مرسی نے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور ان کے بقول اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ البرادئی آزاد خیال حزب مخالف کے رہنما ہیں اور وہ جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم صدر محمد مرسی نے کہاہے کہ وہ مصر کو ایک مستحکم اور مضبوط قوم کے طور پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور ان کا ارادہ ملک کا مکمل کنٹرول حاصل کرنا نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بیان قاہرہ میں گزشتہ جمعے کے روز ایک ایسے وقت میں دیا جب شہر کے مختلف حصوں میں ان کے حامیوں اور مخالفین کے مظاہروں اور جلوسوں کا سلسلہ جاری تھا۔مسٹر مرسی نے کہا کہ قانون ساز ادارے کی تحلیل میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور انہوں نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ نئے آئین کی تیاری کا کام جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ مصر آزادیوں اور جمہوریت کی شاہراہ پر آگے بڑھ رہاہے۔ایک روز قبل مسٹر مرسی نے ایک صدارتی فرمان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے کسی فیصلے یا حکم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ جس سے انہیں وسیع تر اختیارات حاصل ہوگئے تھے

گزشتہ ماہ مصر کی ایک عدالت نے اس سوال کا فیصلہ اعلی سطح کے ججوں پر چھوڑ دیا کہ اس گروپ کو جو ملک کے لیے نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کا ذمہ دار ہے، برخاست کیا جائے یا نہیں۔ اس اقدام سے ملک کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی مدت اور طویل ہوگئی، لیکن شاید یہ امکان بھی پیدا ہو گیا کہ موجودہ اسمبلی یہ متنازع کام ختم کر لے۔انقلاب کے بعد کے مصر میں بہت کم مسائل اتنے زیادہ اختلافی رہے ہیں جتنا ملک کا قانونی ڈھانچہ، اور عدالت کے اس فیصلے کا مطلب کہ یہ سلسلہ ابھی کچھ دن اور جاری رہے گا۔مصر کی اعلی انتظامی عدالت نے آئین ساز اسمبلی کی قانونی حیثیت کو درپیش چیلنج، ملک کی اعلی ترین آئینی عدالت کے حوالے کر دیے ۔ فوری طور پر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ عدالتِ عظمی اپنا فیصلہ کب سنائے گی۔ اس اقدام سے موجودہ اسمبلی کے ارکان کو حالات کے مطابق کچھ ردو بدل کرنے کا موقع مل گیا۔ انہیں یقینا موقع تو ملا، لیکن اس سے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہو ا۔ یہ بات واضح نہیں کہ انتظامی عدالت نے اس معاملے کو آئینی عدالت کے حوالے کرنے میں کیا طریقہ کار اختیار کیا، اور ایسا لگتا تھا کہ یہ تاخیری ہتھکنڈے تھے ۔اس اسمبلی کا تقرر اس پارلیمینٹ نے کیا تھا جو بر طرف کی جا چکی ہے۔ اس طرح ان لوگوں کو اپنے حق میں ایک دلیل مل گئی جو اس کے اسلامی کردار کے خلاف ہیں۔ سیکولر خیالات کے لوگ کہتے ہیں کہ نئے بنیادی قانون کے جزوی مسودے سے ان کی تشویش کی تصدیق ہو گئی ہے، خاص طور سے اسلام کے رول کے بارے میں مجوزہ شقیں، عورتوں کی اور غیر عرب مصریوں کی برابری، اور اذیت رسانی کو ممنوع قرار دینے کے بارے میں واضح زبان کا فقدان، اور میڈیا کی آزادی کی اجازت۔ صدر محمد مرسی نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مختلف قسم کے ماہرین اکٹھے کیے ۔تاہم، بہت سے لوگ اب بھی مختلف قسم کے ماہرین کے اس مجموعے سے مطمئن نہیں ہیں۔ آئین کا اصل مسودہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کیوں کہ اس مرحلے پر بہت سی مختلف طاقتوں کی توجہ اس پر ہے۔ فی الحال، یہ مسودہ مختلف طاقتوں کی خواہشات کی فہرست کی طرح ہے جو اسمبلی میں موجود ہیں۔ یہ بالکل بے ربط، اور تضادات سے پر ہے۔مثال کے طور پر عورتوں کے کردار کو لیجئے۔ مصر کی نیشنل کونسل فار ویمن نے اس مسودے کو مسترد کر دیا ہے، اور جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے بارے میں تشویش پر توجہ دلائی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے جنسی اعضا کو مسخ کیے جانے، اور کم عمری میں شادی کے رواج کے بارے میں ، یہ مسودہ خاموش ہے۔اگرچہ اس گروپ نے اسمبلی میں اسلام پسندوں کی بھاری نمائندگی پر تنقید کی ہے، لیکن 100 ارکان کی اس کمیٹی میں، سات میں سے ایک عورت کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ منار الشورباگے اسمبلی کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔وہ کہتی ہیںیہ اسلام پسند ہونے کا سوال نہیں ہے۔ اصل سوال مرد ہونے کا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اس مسئلے کا تعلق ایسے مردوں سے ہے جو عورتوں کے مسائل اور ان کے توجہ طلب امور کے بارے میں حساس نہیں ہیں۔انھوں نے ایسی شقیں تجویز کی ہیں جن میں تعلیم، روزگار اور سیاسی عہدے حاصل کرنے کے بارے میں عورتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہو، اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے مسئلے پر توجہ دی گئی ہو جو مصر میں عام ہے لیکن اب تک ان کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔مایوسیوں کے باوجود الشورباگے اب بھی پر امید ہیں۔ وہ اس طرف توجہ دلاتی ہیں کہ دوسرے ملکوں کوبھی بنیادی قانون بنانے میں شدید اختلافات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اختلافات اور متضاد نقطہ نظر کو منفی انداز سے نہیں دیکھنا چاہیئے۔ یہ صحت مندانہ رجحان ہے، اور آئین تحریر کرتے وقت ایسا ہونا قدرتی بات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس اسمبلی کو اتنا وقت ملے گا کہ یہ آئینی عدالت کے فیصلے سے پہلے اتفاق رائے حاصل کر لے۔ آخری مسودہ تحریر کیے جانے کے بعد، اسے ایک مہینے کے اندر عوامی ریفرنڈم کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ اگر یہ مسودہ منظور ہو جاتا ہے، تو اسمبلی کی قانونی حیثیت کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ بے اثر ہو جائے گا۔عدالت کے کسی نئے فیصلے کے وقت پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔

ہائی کورٹ کے ججوں نے کھلے عام شکایت کی کہ موجودہ مسودے میں ان کی غیر جانبداری کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اس طرح ایک ایسے طریقہ کار میں جو پہلے ہی بہت الجھا ہوا ہے، ممکنہ طور پر مفاد میں ٹکراو کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے۔اے پی ایس