امریکی صدر کا انتخاب: دنیا کے رویے پر اثرات۔چودھری احسن پر یمی



دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخاب میں فتح کے بعد صدر براک اوباما گزشتہ سو سال میں دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے والے ساتویں امریکی صدر بن گئے ہیں۔انیس سو بارہ سے اب تک امریکہ میں کل سترہ صدور برسرِ اقتدار رہے ہیں جن میں سے نو کا تعلق ریپبلکن جبکہ آٹھ کا ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔ان سترہ صدور میں سے فرینکلن ڈی روزاولٹ وہ واحد صدر ہیں جنہوں نے چار بار امریکہ کی صدارت سنبھالی۔ ماضی قریب میں مسلسل دو بار صدر بننے والوں میں بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور رانلڈ ریگن شامل ہیں۔گزشتہ سو سال میں دوسری مرتبہ صدر بننے کا پہلا موقع وڈرو ولسن کو سنہ انیس سو سترہ میں ملا۔ ان کے دورِ صدارت کے اہم واقعات میں پہلی جنگِ عظیم اور اس کے بعد اقوام متحدہ کی تخلیق ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے اندازِ روابط میں وڈرو ولسن کو لبرل نظریات کا بانی مانا جاتا ہے۔اس کے بعد سنہ انیس سو تینتس میں پہلی مرتبہ برسرِ اقتدار آنے والے صدر فرینکلن ڈیلانو روزاولٹ 1937، 1941 اور پھر 1945 کے صدارتی الیکشن میں بھی کامیاب رہے اور انہوں نے اپنے انتقال تک بارہ برس تک امریکہ پر حکومت کی۔اس دوران روزاولٹ نے دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ کی سربراہی کے علاوہ انیس سو تیس کی دہائی کے شدید اقتصادی بحران کا بھی سامنا کیا۔امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کے بعد سے امریکہ میں کسی بھی صدر کے دو سے زیادہ بار انتخاب میں حصہ نہ لینے کی روایت قائم تھی جو کہ فرینکلن ڈی روزاولٹ نے توڑی۔ تاہم اس کے بعد سے امریکی آئین میں بائیسویں ترمیم کے تحت اس روایت کو قانون بنا دیا ہے۔دوسری جنگِ عظیم میں امریکی افواج کے سربراہ اور ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور نے انیس سو ترپن سے امریکہ میں زمامِ اقتدار سنبھالی اور انیس سو اکسٹھ تک اس صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ان کے بعد دو مرتبہ صدر بننے کا اعزاز رچرڈ نکسن کو ملا۔ وہ پہلی مرتبہ سنہ انیس سو انہتر اور پھر انیس سو تہتر میں دوبارہ صدر بنے لیکن ایک برس بعد ہی انہیں اپنے سیاسی حریفوں کی جاسوسی کرنے کے الزامات میں واٹر گیٹ سکینڈل کی وجہ سے اس عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ صدر رچرڈ نکسن کا اہم سیاسی ورثہ امریکہ اور چین کے تعلقات میں بہتری تھا۔ہالی وڈ کے اداکار رانلڈ ریگن امریکہ کے چالیسویں صدر تھے۔ انہوں نے انیس سو اکیاسی سے انیس سو نواسی تک اس عہدے پر کام کیا۔ ریگن کی معاشی پالیسی بہت مقبول ہوئی۔ رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے کے باوجود ریگن نے امریکہ کے حکومتی اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ کیا۔انیس سو ترانوے میں صدر بننے والے ڈیموکریٹ بل کلنٹن دو ہزار ایک کے آغاز تک اس منصب پر فائز رہے۔ ان کے دور میں امریکہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب آیا اور اس نے دنیا بھر کا رنگ بدل دیا۔ بل کلنٹن کے دورِ صدارت میں بھی امریکہ نے معاشی طور پر کافی ترقی بھی کی اور امریکی بجٹ خسارے سے نکل آیا۔براک اوباما سے قبل دو مرتبہ منتخب ہونے والے آخری صدر جارج ڈبلیو بش تھے۔ جو دو ہزار ایک میں صدر بنے اور دو ہزار نو میں براک اوباما کے صدارت سنبھالنے تک اس عہدے پر موجود رہے۔بش دور میں ستمبر دو ہزار ایک میں امریکی شہر نیویارک میں ہونے والے حملوں کے بعد دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ شروع ہوئی اور یہی جنگ ان کی صدارت کا محور رہیصدر براک اوباما اپنے حریف ریپبلکن پارٹی کے مٹ رومنی کو شکست دے کر دوسری اور آخری مدت کے لیے امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ انھوں نے 303 جب کہ رومنی نے 206 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔وائٹ ہاس میں پہنچنے کے لیے صدارتی امیدوار کو538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔فتح کے بعد شکاگو میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ انھوں نے اپنے حریف مٹ رومنی کو ایک اچھا مقابلہ کرنے پر مبارکباد دی ہے اور وہ چاہیں گے کہ ان کے ساتھ مل کر امریکیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کریں۔میں زیادہ پر عزم اور پہلے سے زیادہ جذبے کے ساتھ کام کرنے کے لیے وائٹ ہاوس واپس جارہا ہوں اس مستقبل کے حصول کی خاطر جس کے لیے آپ نے مجھے ووٹ دیا۔صدر اوباما نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے وہ دونوں جماعتوں کے رہنماں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کے منتظرہیں کیونکہ بجٹ خسارے میں کمی، ٹیکس کے نظام میں اصلاحات اور امیگریشن جیسے معاملات مل جل کر ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔ صدر اوباما نے چند روز قبل اپنے آبائی شہر شکاگو میں ووٹ ڈالا تھا اور منگل کا دن بھی وہیں گزارا جہاں انھوں نے نشریاتی اداروں کو انٹرویوزدینے کے علاوہ دوستوں کے ساتھ باسکٹ بال کھیلا اور اپنے انتخابی دفتر سے رائے دہندگان سے رابطے بھی کیے۔مٹ رومنی نے شمال مشرقی میساچوسٹس ریاست میں منگل کو اپنا ووٹ ڈالا جہاں وہ گورنر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں لیکن یہاں بھی صدر اوباما جیت گئے۔صدر اوباما اب تک کے نتائج کے مطابق ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور 25 ریاستوں میں انتخابی معرکہ جیت چکے ہیں۔ ان میں سخت مقابلے والی ریاستیں اوہائیو، آئیوا، نیوہمپشائر اور پنسلوانیا شامل ہیں۔مٹ رومنی نے شکست کے بعد میساچوٹس میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ٹیلی فون کر کے صدر اوباما کو ان کی جیت پر مبارک باد پیش کی ہے۔ان کے حامی اور انتخابی مہم بھی مبارکباد کی حقدار ہے۔ میری خواہش تھی کہ میں اس ملک کی ایک مختلف سمت میں رہنمائی کرتا،قوم نے اس کے لیے ایک دوسرے قائد کا انتخاب کیا جس پر میں اور میری بیوی صدق دل سے ان کے اور اس عظیم قوم کے لیے دعاگو ہیں۔ رومنی نے کہا کہ امریکی عوام جانتے ہیں کہ ملک ایک نازک موڑ پرکھڑا ہے۔ ان حالات میں ہم جماعتی بنیادوں پر سیاسی لڑائی جھگڑوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔مسٹر رومنی 23 ریاستوں میں کامیاب ہوئے جن میں سخت مقابلے کی ریاستیں نارتھ کیرولائنا اور انڈیانا شامل ہیں جہاں پچھلے انتخاب میں صدر براک اوباما کامیاب ہوئے تھے۔دھاندلی کے الزامات کی جواب دہی کے لیے امریکی وزارت انصاف نے 23 ریاستوں میں لگ بھگ آٹھ سو مبصرین تعینات کررکھے تھے۔ڈیڑھ سالہ طویل مہم، تین صدارتی مباحثوں اور ٹی وی پر اشتہارات کی مہم کے بعد قبل ازانتخابات عوامی جائزوں میں دونوں امیدوارں کے درمیان ایک انتہائی سخت معرکے کی پیش گوئیاں کی گئی تھیں۔تاہم ان جائزوں میں سخت مقابلے والی ریاستوں میں صدر اوباما کو معمولی سبقت حاصل رہی۔ 2008 کے صدارتی انتخاب میں صدر اوباما کے مدمقابل ریپبلکن امیدوار جان مکین نے ریاست پنسلوانیا اور اوہائیو اپنے ہاتھ سے نکلنے کے بعد شکست تسلیم کرتے ہوئے مسٹر اوباما کو مبارک باد کا پیغام بھیج دیاتھا جب کہ اس وقت تک گنتی مکمل نہیں ہوئی تھی اور کئی ریاستوں کے نتائج آنا باقی تھے۔امریکی ریاستوں کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد کا تعین ان کی آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔اکثر ریاستوں میں دونوں پارٹیوں کی تقسیم واضح ہے اور وہاں عشروں سے دونوں میں سے کوئی ایک جماعت مسلسل کامیاب ہوتی آرہی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈیموکریٹک اور ریپبلکن، دونوں جماعتیں زیادہ توجہ اور دھیان غیر واضح رجحان کی ریاستوں پر مرکوز رکھتی ہیں۔ 2012 کی صدارتی مہم نے بھی عطیات اور اخراجات کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ صدر اوباما نے اپنی مہم کے لیے 93 کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم جمع کی جب کہ مسٹر رومنی کی جمع کردہ رقم 88 کروڑ ڈالر سے زیادہ رہی۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ پارٹیوں کی تشہیر پر صرف ہوا ، جب کہ زیادہ تر اشتہارات ایک دوسرے کے بارے میں منفی مواد پر مبنی تھے۔جبکہ امریکی صدربارک اوباما نے کہا ہے کہ امریکا کے لیے بہترین دن ابھی آنے والے ہے،ہم امن کا قیام چاہتے ہیں،برسوں کی جنگ ختم ہورہی ہے اورخواب پورے ہورہے ہیں، قوت ،امن اور استحکام سے امریکا کو عظیم بناسکتے ہیں،ٹیکس معاملات سدھاریں گے اور امیگریشن معاملات پر توجہ دینگے،ہم دونوں پارٹی رہنما مل کر خسارہ کم کریں گے۔کامیابی کے بعدشکاگومیں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے بارک اوباما نے کہاکہ ہم مزید آگے امریکی عوام کی وجہ سے بڑھے ،ہم امریکی خاندان ہیں جو ایک ساتھ ہے، امریکی تیار ہیں، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے،امریکا کے لیے بہترین ابھی آنے والا ہے،ہمیں اس ملک کو آگے لے جانے کیلئے مزید کام کرنا ہے،انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امریکیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں،میرے اور رومنی کے درمیان سخت مقابلہ تھا لیکن صرف اپنے ملک کیلئے تھا،آج امریکی عوام نے

اپنا فیصلہ سنا دیا،حمایت پر عوام کا شکر گزار ہوں،دوست اورنائب صدر جو بائیڈن اوراپنی اہلیہ کا شکرگزار ہوں،سب متحد ہوکر امریکا کی ترقی کا سفر جاری رکھیں گے اوراسے نئی بلندیوں پر لے جائیں گے،ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے کیا وعدے کیے ہیں۔اوباما نے کہا کہ ایسی تعلیم لائیں گہ کہ اچھے سائنسدان ،ایکٹر ،تاجر پیدا ہوں ،اختلافات کے باجود آپ جانتے ہیں ملک میں اچھے اسکول ،اچھے ٹیچر اور روزگارہے،کاروبار اور ملازمتوں کیلئے مواقع پیدا کرینگے،شہریوں کیلئے روزگار کے یکساں مواقع پیدا کرینگے،ہمارے پاس دنیا کی سب سے اچھی اور طاقتور فوج ہے۔اپنے خاندان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بارک اوباما کا کہناتھاکہ وہ اپنی شریک حیات کی وجہ سے موجودہ مقام پر ہیں،مشعل کو بحیثیت خاتون اول سب پیار کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ میری بیٹیاں میری طاقت ہیں،میں ان پر فخر کرتا ہوں۔صدر اوباما کے لیے خارجہ پالیسی میں سب سے مشکل معاملہ اسرائیلی صدر بنیامن نتن یاہو کے ساتھ تعلقات رہا ہے۔اوباما کی جگہ ان کے حریف مسٹر مِٹ رومنی کو وائٹ ہاس میں دیکھنے کی مسٹر نتن یاہو کی خواہش دل میں ہی رہ گئی۔تاہم اس موقع پر مسٹر نتن یاہو نے صدر اوباما کی جیت پر ان کو مبارکباد بھیجی اور یہ بھی کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان دفاعی اتحاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا۔تاہم مستقبل میں ان تعلقات میں کئی اتار چڑھا آ سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی دوسری مدت کے دوران ان کا خاصا وقت مشرقِ وسطی کے حالات کی نظر ہو سکتا ہے اور ان کی توجہ کا مرکز اسرائیل اور امریکی تعلقات رہیں گے۔حالیہ برسوں میں امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کئی مرتبہ کشیدگی کا شکار ہوئے۔صدر اوباما اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے درمیان کچھ خاص دوستی نہیں ہو پائی اور قدامت پسند اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ صدر اوباما یہودی ریاست کے دوست نہیں ہیں۔صدر اوباما کے بارے میں قدامت پسند یہودیوں کے اس خیال نے متعدد موضوعات پر ہونے والے مذاکرات کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور حقیقت بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ صدر اوباما کی صدارت کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان فوجی اور سکیورٹی سے متعلق تعلقات میں قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے جو جاری رہے گی۔ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران اور فلسطین کے مسئلے پر تنا جاری رہے گا۔اوباما انتظامیہ یہ جاننے کے لیے بے چین ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے ایران نے جو سفارتی سطح پر خبریں پھیلائی ہیں وہ کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ادھر اوباماانتظامیہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کی کوشش بھی کر سکتی ہے اور اسرائیل پر اس بات کے لیے دبا ڈالا جا سکتا ہے کہ دو علیحدہ علیحدہ ریاستوں کے حل کے پیشِ نظر وہ اس بات کو مزید واضح کرے کہ اس کے خیال میں اس کی سرحدیں کہاں تک ہو سکتی ہیں۔اپنی اس مدت کے دوران اوباما اسرائیل کا دورہ بھی کر سکتے ہیں۔جنوری میں اسرائیل میں انتخابات ہونے والے ہیں اور ان انتخابات کے نتائج مستقبل کی سفارت کاری کے لیے بہت اہم ہونگے۔اب جبکہ براک اوباما دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہو گئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان کا دوسرا دور دنیا کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟۔اس ضمن میں دنیا کے مختلف ممالک کے امریکی تعلقات کے حوالے سے ایک تجزیاتی رپورٹ قارئین کی نذر ہے۔یورپ آج عام طور پر یک گونہ اطمینان کی سانس لے کر جی رہا ہوگا۔ پورے براعظم میں رائے عامہ کے جائزوں میں ہمیشہ ہی براک اوبامہ کو مٹ رومنی کے مقابلے زیادہ مقبول رہنما کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی زیادہ تر حکومتیں بھی واشنگٹن میں تبدیلی کے بجائے تسلسل کی خواہش مند نظر آئی ہیں۔امریکی وزیر خارجہ ٹم گیتھنر اور خود صدر اوباما یورو زون کے مباحثے میں قریب سے شامل رہے ہیں۔ یورپین یونین اپنے یورو زون بحران کے مباحثے میں اس قدر منہمک ہے کہ وہ کوئی بیرونی خلفشار نہیں چاہتا۔اس کے علاوہ یورپین یونین اوباما انتظامیہ کے ساتھ خارجہ پالیسی کے متعدد معاملات میں مل کر کام کر رہا ہے جن میں بطور خاص ایران کا مسئلہ شامل ہے۔ اگرچہ چند اہم لوگوں میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن اوباما کی جیت کا مطلب یہ ہے کہ یورپ کو اپنے معاملے میں ڈرامائی تبدیلی کی ضروت نہیں ہے۔صدر اوباما کی فتح چین میں ایک دہائی ہونے والی ایک تبدیلی سے ایک دن پہلے آئی ہے۔ اس لیے چین کی ساری توجہ اس وقت اپنے ملک میں ہی مرکوز ہوگی نہ کہ بحرالکاہل کے اس پار۔لیکن انتخابی مہم کے دوران دونوں امیداوار چین کے لیے اہم تھے کیونکہ جو بھی جیت حاصل کرتا وہ چین کے ناروا تجارتی عمل کی بات اٹھاتا۔ معاشی معاملوں پر حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی رہی ہے۔بیجنگ کو صدر اوباما کے ایشیا میں جنگی محور بنانے سے پریشانی ہے۔ چند حکام کا ماننا ہے کہ واشنگٹن چین کے عروج پر لگام چاہتا ہے۔ یہ وہ اہم مسئلے ہیں جو یقینی طور پر آنے والے دنوں میں سفارتی رشتوں پر چھائے رہیں گے۔افغانستان میں ہر چیز اب امریکی قیادت میں جنگی مشن کے خاتمے کے عینک سے دیکھی جا رہی ہے اور کمانڈر ان چیف میں کوئی تبدیلی افغان کے تئیں امریکی پالیسی میں زیادہ تبدیلی کا باعث نہیں ہوتی کیونکہ دونوں امیدوار میں اس معاملے میں کوئی فرق نہیں تھا سوائے اس کے کہ مٹ رومنی نے کہا تھا کہ وہ میدان جنگ میں موجود جرنیلوں کی زیادہ سنتے۔اوباما کے سامنے یہ سوال ہے کہ وہ کتنی جلدی فوج کو واپس بلاتے ہیں اور دوہزار چودہ کے بعد وہاں کتنی فوج رہے گی۔ ملٹری کمانڈر چاہیں گے کہ انخلا رفتہ رفتہ ہو اور دس ہزار سے زیادہ تعداد میں فوج یہاں رہے۔ لیکن نئے انتخاب کے بعد وائٹ ہاس مزید سریع انخلا پر زور دے گا اور دوہزار چودہ کے بعد وہاں کم فوجی رہ جائیں۔ایران میں کئی لوگوں کو خدشہ تھا کہ ریپبلکن کی جیت کا مطلب جنگ ہے اور براک اوباما کی جیت کا مطلب ہے لوگوں کی جان کی حفاظت کیونکہ امریکہ ایران کے جوہری ارادوں کے بارے میں بات چیت کا ایک نیا دور شروع کرے گا۔بہرحال چند ایرانی سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اوباما کی جیت سے ایران پر زیادہ دبا بڑھے گا۔تہران یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر ناصر ہادیان نے کہا عالمی برادری میں براک اوباما کو زیادہ مقبولیت حاصل ہے جوکہ رومنی کو نہیں ہیاور بہ ایں سبب وہ ایران کے خلاف اتحاد کو مضبوط کر سکیں گے اور ایران پر زیادہ دبا ڈال سکیں گے۔ایران کے لیے کون زیادہ قابل قبول ہوگا؟ یورنیم کی افزائش پر پابندی لگانے والا اسرائیل کا حلیف مٹ رومنی یا اوباما جو شاید ایران کو پرامن جوہری حق دے سکے؟ اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ اوباما کو وائٹ ہاس میں دوبارہ دیکھ ر ایران کے لوگ زیادہخوش ہیں۔پاکستان کی فوج جو ملک کی سلامتی کی پالیسی پر اختیار رکھتی ہے اس کے لیے روایتی طور پر ری پبلکن حکومت زیادہ اچھی رہی ہے۔ ڈیموکریٹک رہنما عام طور پر اپنی سول لبرٹی، جمہوریت اور جوہری ہتھیار کی پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے تئیں سرد رویہ رکھتے ہیں۔صدر اوباما کے پہلے صدارتی دور میں امریکہ اور پاکستان کا رشتہ سب سے نچلی سطح پر رہے ہیں۔ امریکہ شدت پسند گروہوں کو پاکستان کے مبینہ تعاون پر اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر ڈرون حملوں، ایک خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن اور پاکستانی سرحدوں پر نیٹوں حملوں پر ناراض رہا ہے۔لیکن اوباما کی جیت کا مطلب ہے افغانستان میں مجوزہ کھیل کا خاتمہ اور اس کے تحت پاکستان کے تعلق کی ایک واضح صورت سامنے آئے گی۔ پاکستان کی یہ شکایت رہی ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی حکمت عملی مبہم رہی ہے اور افغانستان میں قیام امن میں اس کے اہم کردار کو نظر انداز کیا گیا ہے۔پاکستان کے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اوباما کی جیت کا مطلب افغانستان میں امریکی اہداف کے حصول کے لیے پاکستان پر مزید دبا ہے۔میکسیکو میں لوگوں نے اس قدر اطمینان کا سانس لیا جسے محسوس کیا جا سکتا تھا۔ میکسیکو اور اس پورے علاقے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ریپبلکن امریکہ میں رہنے والے لاطینیوں کو نہیں سمجھتے ہیں۔ بہرحال انیس سو پچاس کی دہائی سے لے کر اب تک اوباما کے دور میں بغیر دستاویز کے پناہ گزینوں کو سب سے زیادہ تعداد میں واپس کیا گیا ہے۔اس کے باوجود لاطینی امریکہ میں یہ عام خیال ہے کہ اوباما کی دوسری مدت امریکہ کے پڑوسیوں کے لیے بہتر رہے گی۔ وہاں یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ وینزویلا کے ساتھ رشتہ ہو یا کیوبا پر تجارتی پابندیاں ہوں یا پھر میکسیکو میں جاری ڈرگ کی پرتششد جنگ پر اوبامہ نے اپنے وعدے کے مطابق کام نہیں کیا ہے۔صدر اوباما نے اپنے پہلی صدارتی مدت میں سب صحارا علاقے کا ایک ہی دورہ کیا اور وہ بھی کافی مختصر تو اوباما کے دوسرے دور میں کتنی تبدیلی ہو سکتی ہے؟ یہ سوال پورے انتخابی مہم کے دوران ایک ہی بار سامنے آیا کیونکہ

پوری مہم عرب میں جاری بغاوت اور ملکی مسائل پر مرکوز تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پردے کے پیچھے امریکہ کی سفارت کی کافی مانگ رہے گی۔ دوسرے دور میں توجہ مالی کے شمال سے القاعدہ سے منسلک گروہ کے خاتمے پر ہوگا۔ اس میں طاقت کا استعمال ہو یا پھر سفارت کے ذریعے یہ کام ہو۔ اور اس دور میں یہ خیال رکھا جائے گا کہ زمبابوے اور کینیا میں تشدد نہ ہوں جو وہاں کے انتخابات میں ہوئے۔ابھی تک افریقہ کے لیے کسی عظیم اوباما نظریہ کی کوئی امید نہیں ہے اور اس عظیم براعظم کے تنوع اور رنگارنگی کے پیش نظر یہ اچھی بات بھی ہے۔ یورپ قرض کے ایسے بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لینے کا خطرہ ہے، اور چین اپنی معیشت میں سستی کے رجحان کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے ، لیکن یہ ایسا وقت تھا کہ دنیا کی نظریں امریکہ کے انتخاب پر لگی ہوئی تھیں ۔ ساری دنیا کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ امریکی کسے اپنا نیا لیڈر منتخب کریں گے ، کیوں کہ نومبر میں جو بھی کامیاب ہو گا اس کے اختیار میں دنیا میں سب سے زیادہ رقم، اور دنیا کی معیشت پر اثر انداز ہونے کی سب سے زیادہ صلاحیت ہو گی۔امریکہ کا یہ انتخاب ساری دنیا پر اثر انداز ہو گا۔صاف ظاہر ہے کہ اس انتخاب میں ووٹ تو صر ف امریکیوں نے ڈالے ، لیکن اس کے نتائج کے اثرات ساری دنیا پر پڑیں گے۔امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کے ایک چوتھائی کے مساوی ہے۔ دنیا میں کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے جس کی معیشت کے اثرات اتنے زیادہ دور رس ہوں۔ اقتصادی ماہرین کے درمیان ایک عام کہاوت یہ ہے جب امریکہ کو چھینک آتی ہے، تو باقی دنیا کو زکام ہو جاتا ہے ۔ عظیم اقتصادی کساد بازاری کے دوران یہ بات واضح ہو گئی کہ امریکہ کے بنکاری کے نظام میں جو اتار چڑھا آیا، اس کے اثرات ساری دنیا میں محسوس کیے گئے۔انتخابی مہم کے دوران، دونوں امیدواروں نے اتفاق کیا تھا کہ صحت مند امریکی معیشت، عالمی استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ دونوں نے امریکیوں کو یقین دلایا کہ معیشت کو ترقی دینے کے لیے ان کے پاس منصوبہ موجود ہے۔ ریپبلیکن امیدوار مٹ رومنی نے وعدہ کیا کہ وہ ایک جیسے کاروباری حالات پیدا کرنے کے لیے، چین کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں گے۔رومنی نے کہا پہلے ہی دن، میں چین پر ایسے ملک کا ٹھپا لگا دوں گا جو کرنسی کی قدر میں ہیر پھیر کرتا ہے۔ اس طرح صدر کی حیثیت سے، مجھے یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ اگر ضروری ہو تو میں ایسے ملکوں پر محصولات عائد کردوں جو اشیا تیار کرنے والی ہماری کمپنیوں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔صدر اوباما جو دوسری مدت کے لیے انتخابی جنگ لڑ رہے تھے، کہتے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں امریکہ کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح چین کی کم قیمت والی کرنسی کی قدر میں ، ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک گیارہ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔مسٹر اوباما کہتے ہیں کہ مضبوط معیشت کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ایسے روزگار جن کا تعلق اشیا کی تیاری سے ہے، امریکہ واپس لائے جائیں، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کام کرنے کے لیے مسٹر رومنی موزوں شخص نہیں ہیں۔یاد رکھیئے کہ گورنر رومنی نے ایسی کمپنیوں میں پیسہ لگایا جنھوں نے بہت سا کام چین منتقل کرنے کا آغاز کیا۔ گورنر صاحب، چین کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے آپ آخری آدمی ہوں گے۔لیکن یہ مسئلہ بہت بڑا ہے اور چین کا رول اس کا صرف ایک جزو ہے ۔ یورپ میں قرض کے بحران کی وجہ سے امریکی اشیا کی مانگ کم ہو گئی ہے۔ 17 ملکوں والے یورو زون میں مسائل اور زیادہ سنگین ہوتے جا رہے ہیں، اور ان سے ساری دنیا میں اقتصادی سرگرمیاں مزید سست پڑ سکتی ہیں۔اندازہ یہ ہے کہ چونکہ یورپ امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اس لیے وہ آنے والے برسوں میں امریکہ کے لیے بعض سنگین مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔ ملک میں بے روزگاری کی اونچی شرح کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے رومنی نے جو طریقہ تجویز کیا ہے وہ کاروباری اداروں کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہو گا ۔ لیکن دنیا کے بہت سے علاقوں میں، اوباما بہت مقبول ہیں۔ اگر رومنی صدر بن جاتے تو امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا تھا ۔چین کے بارے میں جو کہا گیا ہے وہ بڑا دلچسپ ہے۔ خیال ہے کہ رومنی نے جو زورِ بیان دکھایا ہے، اس سے کچھ عرصے کے لیے چین میں امریکہ کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے ۔ تا ہم ، زیادہ اثر یورپ پر ہو گا۔مغربی یورپ کے لوگوں کی بھاری اکثریت مسٹر اوباما کی صدارت کی دوسری مدت کے حق میں تھی ۔ فرانس میں 92 فیصد، جرمنی میں 89 فیصد، اور برطانیہ میں 73 فیصد لوگ اوباما کے حامی ہیں ۔ تاہم، یونان میں صدر کی مقبولیت بہت کم ہے ۔ وہاں صرف 22 فیصد لوگوں نے عالمی معیشت کے سلسلے میں ان کی پالیسی کی حمایت کی۔ جو کوئی بھی جیتتا، بہت کچھ دا پر لگا ہوا تھا، خاص طور سے اگر بری طرح بٹی ہوئی کانگریس سال کے آخر میں ، سرکاری اخراجات میں بھاری کٹوتی کرنے پر متفق نہ ہو سکے۔اگر امریکہ میں حالات خراب ہو جاتے ہیں، تو اس کے عالمی سطح پر زبردست اثرات پڑیں گے، خاص طور سے آج کل کے حالات میں کیوں کہ باقی دنیا کی حالت اچھی نہیں ہے ۔ اگر امریکہ کے قدم بھی لڑ کھڑا گئے تو یہ بہت برا ہوگا۔تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ امریکی جسے بھی منتخب کرتے، دنیا خود کو اس کے مطابق ڈھال لے گی۔ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے امریکی انتخاب کے نتیجے سے، برسوں تک دنیا کے اقتصادی، جغرافیائی اور سیاسی رویے متاثر ہوتے رہیں گے۔اے پی ایس