فلسطین مملکت کی نئی حیثیت:اسرائیلی و امریکی شکست۔چودھری احسن پر یمی



اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کا درجہ مبصر سے بڑھا کر غیر رکن ملک کرنے کا جو فیصلہ 130 سے زیادہ ملکوں کی حمایت سے کیا ہے اسے امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک بھاری شکست سے تعبیر کیا جاسکتاہے۔اس کے ساتھ ساتھ فلسطین انتظامیہ کے صدر محمود عباس کے وقار میں اضافہ ہواہے، جن کی حیثیت غزہ کی حالیہ لڑائی کی وجہ سے کمزور پڑ گئی تھی۔ ملک کے مرتبے میں اس نئے اضافے کی بدولت فلسطینیوں کے لیے بین الاقوامی قانونی اداروں میں اسرائیل پر دبا ڈالنا آسان ہوجائے گا۔ لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ دومملکتی والے اس حل پر کیا اثر پڑے گا جس کا حصول دونوں فریقوں نے اپنا مقصد بنا لیا ہے۔اقوام متحدہ میں جس بھاری تعداد میں رکن ممالک کی طرف سے فلسطینیوں کو حمایت حاصل ہوئی ہے، وہ غیر معمولی ہے اور اس کی ان کے نصب العین کے لیے زبردست علامتی اہمیت ہے۔ جس کو اس حقیقت نے اور بھی اہم بنا دیا ہے کہ یہ فیصلہ جنرل اسمبلی کی اس رائے شماری کی 65 ویں سالگرہ پر آیا ہے جس کی رو سے فلسطین کے سابقہ برطانوی تولیتی علاقے کو دومملکتوں میں بانٹ دیا گیاتھا۔ ایک تو یہودی مملکت اور دوسری فلسطینی مملکت۔ اس رائے شماری کو اسرائیل اپنی تخلیق کے لیے بین الاقوامی مہر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ نے محمود عباس پر بڑا دبا ڈالا تھا کہ اقوام متحدہ کی اس رائے شماری کو ملتوی کریں، لیکن حالیہ دنوں میں ان کی تنقید کا لہجہ نرم ہوگیا، جب انہیں اندازہ ہوگیا کہ اقوام متحدہ میں اس کی حمایت اب ناگزیر ہے۔رائے شماری سے قبل امریکی محکمہ خارجہ نے کہہ دیاتھا کہ قطع نظر اس کے کہ اقوام متحدہ میں کیا فیصلہ ہوتا ہے، امریکہ امن کے عمل کے لیے برابر مسٹر عباس کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔ لیکن امریکی کانگریس مسٹر عباس اور ان کی فلسطینی انتظامیہ کے خلاف اب بھی قدم اٹھا سکتی ہے، بلکہ دونوں پارٹیوں پر مشتمل حمایت سے وہاں ایک قرارداد پیش کی گئی ہے جس میں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمے دائر کردیے گئے تو فلسطینی انتظامیہ کے لیے امریکی امداد بند کردی جائے گی۔ غزہ میں آٹھ روزہ جنگ کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے مقابلے میں حریف حماس تنظیم کا پلہ بھاری ہونے کے بعد، اس کی انتظامیہ کے لیے بین الاقوامی سطح پر ہمدردی میں اضافہ ہوگیا ہے اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے بعد اس کا وقار بڑھ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رائے شماری کے بعد محمود عباس نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا کہ آیا اب وہ اسلامی ملکوں کی تنظیم یا کسی اور ادارے میں شامل ہوں گے، لیکن انہوں نے اسرائیل کو یہ واضح انتباہ کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت جس ڈھٹائی سے جن جارحانہ پالیسیوں پر عمل کرتی آئی ہے، اور جس قسم کے جنگی جرائم کا ارتکاب کرتی آئی ہے، اس وجہ سے کہ وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی تھی، اور احتساب اور نتائج بھگتنے سے اپنے آپ کو مبرا سمجھتی آئی ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جب دنیا اس سے کہے گی اور جارحیت ، یہودی بستیوں کی تعمیر اور زبردستی قبضے کا وقت ختم ہوگیا ہے۔ صدر محمود عباس نے رائے شماری سے قبل دو متضاد راستوں کا اشارہ دیا تھا۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ نیا رتبہ حاصل کرنے کے بعد وہ فوری طورپر اسرائیل کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات کریں گے، جن سے انہوں نے پچھلے چار سال کے دوران اجتناب کررکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی رائے شماری کے بعد براہ راست مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی۔لیکن مسٹرعباس کے مشیروں نے ایک اور حکمت عملی کی بھی بات کی ہے، جس کے مطابق اقوام متحدہ میں نیا درجہ مل جانے سے فلسطین کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت اور دوسرے بین الاقوامی فورمز میں مقدمے لے کر جائیں۔ جن میں مغربی کنارے کے بعض علاقوں پر اسرائیل کے جاری قبضے کو بین الاقوامی جارحیت کے فعل سے تعبیر کیا جائے گا۔ اس سے اسرائیل کے بہت سے مخالفین کی تو تسلی ہوجائے گی لیکن اس کے نتیجے میں یورپی ملکوں ، اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے جوابی کارروائی ہوسکتی ہے۔ جس میں تنگ دست فلسطینی انتظامیہ کی مالی امداد کی بندش شامل ہے۔ چنانچہ اوباما انتظامیہ کو اب بلاشبہ اس ذمہ داری سے نمٹنا ہوگا کہ کس طرح اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد کی آگ نہ بھڑکنے پائے اور فلسطینی انتظامیہ ناکام نہ ہو۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کثیر تعداد میں رائے دہی کے ذریعے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دے دیا ہے۔قرارداد کے حق میں 138 ، مخالفت میں نو جب کہ 41ممالک نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔ قرارداد منظور ہونے پر اسمبلی کے ایوان میں مسرت کا اظہار کیا گیا۔ ووٹنگ کے بعد مغربی کنارے کے شہر رملہ میں فرط مسرت سے بے قابو فلسطینی ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے اور موٹر گاڑیوں سے ہارن بجائے گئے۔لیکن اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوزن رائیس نے ووٹ کو افسوس ناک اوربے فائدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے باعث امن کی راہ میں مشکلات کھڑی ہوں گی۔رائیس نے کہا کہ امریکہ تمام متعلقہ فریقوں پر زور دے گا کہ مزید اشتعال انگیز اقدامات سے احتراز کریں اور بغیر شرائط کے فوری طور پر مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے سفارتی درجہ بڑھائے جانے سے فلسطینی اتھارٹی کو اقوام متحدہ کے اداروں مثلا انٹرنیشنل کرمینل کورٹ تک رسائی کی اجازت ہوگی۔ ووٹنگ سے قبل، فلسطینی لیڈر محمود عباس نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے درجے میں اضافہ دو ریاستی حل کو حاصل کرنے کا آخری موقع ہے۔انھوں نے کہا کہ اسمبلی سے آج یہ کہا جا رہا ہے کہ فلسطین کی پیدائش کا سرٹیفیکٹ پیش کیا جائے۔اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر، رون پروسور نے قرارداد کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے امن کو فروغ نہیں ملتا، بلکہ اسے بیچھے کی طرف دھکیلتا ہے۔امریکہ اور اسرائیل ان نو ممالک میں شامل ہیں جنھوں نے قرارداد کو مسترد کیا۔امریکہ اس قرارداد کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور اس کا کہناہے کہ فلسطینیوں کے لیے ریاست کا درجہ حاصل کرنے کی منزل اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی راہ پر چل کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔اس سے قبل، امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کا کہناہے کہ نائب وزیر خارجہ ولیم برنز اور مشرق وسطی کے لیے خصوصی امریکی مندوب ڈیوڈ ہیلے نے نیویارک میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات میں انہیں واشنگٹن کے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔نولینڈ کا کہنا تھا کہ نائب وزیر خارجہ نے ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا کہ کسی کو اس دھوکے میں نہیں رہنا چاہتا کہ اس قرارداد کے ذریعے وہ مقاصد حاصل ہوجائیں گے جن کی فلسطینی خواہش رکھتے ہیں۔واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے فلسطینی قیادت کو بالکل واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اس کی درجہ بلند کرنے کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو مملکتی حل کا راستہ جو فلسطینیوںکی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے، نیو یارک سے نہیں بلکہ یروشلم اور رملہ کے راستے سے گزر تا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں جو کچھ بھی ہو وہ ایک دیرپا دو مملکتی حل نہیں دے سکتا صرف براہ راست گفت و شنید سے ہی ایسا ممکن ہے۔ جبکہ اسرائیل میں حکام کے مطابق حکومت نے متعلقہ حکام کو مقبوضہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر مزید تین ہزار یونٹ تعمیر کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہ اعلان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دینے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔دوسری جانب فلسطین اتھارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی مکانات کی تعمیر کے منصوبے کی بندش تک مذاکرات کی میز پر واپس نہیں آئے گی۔یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے نئے گھر تعمیر کرنے کے منصوبے کی فلسطینی مخالفت کرتے آئے ہیں۔فلسطینیوں کا موقف ہے کہ مغربی کنارے پر اسرائیلی گھر تعمیر ہونے سے مغربی کنارہ دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا جس سے فلسطین کی ریاست کا وجود متاثر ہو گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دے دیا تھا جس کی امریکہ اور اسرائیل نے مخالفت کی۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ اور اس کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کا خطاب نیویارک سے براہ
راست نشر کیا گیا جسے فلسطینی شہروں رام اللہ، بیت اللحم، غزہ اور دوسرے کئی شہروں میں بڑی سکرینوں پر فلسطینیوں نے دیکھا۔ووٹنگ کے نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں فلسطینی اپنا قومی پرچم اٹھائے سڑکوں پر نکل آئے۔غزہ اور رام اللہ میں فلسطینیوں نے گاڑیوں کے ہارن بجا کر خوشی کا اظہار کیا اور کئی جگہوں پر نوجوان گاڑیوں کی چھتوں اور سڑکوں پر محوِ رقص نظر آئے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی اتھارٹی کا درجہ بڑھائے جانے کی تجویز پر ہونی والی ووٹنگ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک منفی سیاسی تھیٹر قراد دیا جس سے امن کو نقصان پہنچے گا۔اسرائیلی حکومت کے ترجمان مارک ریگو کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دینے کے بعد فلسطین اور اسرائیل اب مزاکرات کے عمل سے باہر نکل گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دے دیا تھا۔ووٹنگ سے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطین کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔انہوں نے مزید کہا پیسنٹھ سال پہلے آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کو منظوری دے کر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور اسرائیل کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر جشن کا ماحول تھا۔ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر نغمے گائے، آتش بازی کی اور گاڑیوں کے ہارن بجار اپنی خوشی کا اظہار کیا۔تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل کے سفیر نے ووٹنگ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا اس تجویز سے امن کو کوئی فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے امن کو دھچا ہی لگے گا۔ اسرائیلی لوگوں کا اسرائیل سے چار ہزار سال پرانا تعلق اقوام متحدہ کے کسی فیصلے سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنی چاہیے اور اس طرح اقوام متحدہ میں یکطرفہ اقدامات کے ذریعے ریاست کا درجہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔برطانیہ اور جرمنی نے اس تجویز کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا دونوں ملک فلسطینیوں کی اس تجویز کے لائے جانے سے خوش نہیں تھے لیکن اقوام متحدہ میں اس تجویز کو بھارت سمیت فرانس، روس، چین اور جنوبی افریقہ جیسے کئی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔گزشتہ سال فلسطینی اتھارٹی نے مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں درخواست دی تھی لیکن سلامتی کونسل میں امریکہ نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا تھا اور فلسطینیوں کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان گی مون نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی کامیابیوں کو تسلیم کریں۔غیر رکن مبصر کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب فلسطین کو اقوامِ متحدہ کے اداروں میں شمولیت حاصل ہو جائے گی جن میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف بھی شامل ہے۔فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے جن علاقوں پر اسرائیل نے سنہ انیس سو سڑسٹھ میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس رائے شماری کے مخالفین کا موقف رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کا فیصلہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے۔اس سے قبل اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتین یاہو نے کہا تھا کہ اقوامِ متحدہ میں ہونے والا فیصلہ، زمینی حقائق نہیں بدلے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا اس سے فلسطینی ریاست کی انتظامیہ ترقی نہیں کرے گی بلکہ یہ معاملات کو مزید تاخیر کا شکار کرے گا۔جبکہ فلسطینی حکام کا موقف تھا کہ اس اقدام کا مقصد امن بات چیت کو ختم کرنا نہیں بلکہ فلسطینی اختیار میں اضافہ کرنا اور اس خطے کی وضاحت کرنا ہے جسے وہ فلسطینی ریاست کے طور پر چاہتے ہیں۔ اس میں وہ علاقہ بھی شامل ہے جو اسرائیلی آبادکاری کے باعث متاثر ہوا ہے۔اے پی ایس
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=1039&lang=UR