بلاول بھٹو زرداری کیلئے چیلنج۔چودھری احسن پریمی



پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ اور ملک کی سابق وزیراعظم بینظیر کی پانچویں برسی کے موقع پر ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک طرف دہشتگرد ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان پیپلز پارٹی دہشت گردی کے سامنے ایک دیوار ہے۔گڑھی خدا بخش میں بینظیر بھٹو کے برسی کے موقع پر اپنے پہلے عوامی خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہا یہاں پر دو قسم کی قوتیں ہیں ایک طرف وہ جو جمہوریت پسند ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں جنہوں نے آمریت کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ایک طرف دہشت گرد ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں۔انہوں نے آمریت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رگوں میں بینظیر کا خون ہے اور وہ کسی آمر کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا حق نہیں دیں گے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اپنی تقریر میں پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے دائر ریفرنس کے بارے میں عدالتی کارروائی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی عدلیہ سے مختلف سوالات کیے۔ میں اس ملک کے بڑے قاضی سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ان کے پاس بھٹو ریفرنس سننے کے لیے وقت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے مخالفین کو آمروں کی وردیاں نظر نہیں آتیں لیکن ان سے ایک سویلین صدر کے پانچ برس ہضم نہیں ہوتے۔ بلاول بھٹو زرداری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام کی قربانیوں کو سراہا اور ملالا یوسفزئی، سلمان تاثیر، بشیر احمد بلور، شہباز بھٹی اور کئی دیگر کی قربانیوں کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس راستے کے مسافر ہیں۔اپنی تقریر میں انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے مختلف منصوبوں کا ذکر کیا جن سے ان کے بقول عوام کو فائدہ پہنچا ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے صوبہ بلوچستان میں جاری شورش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں لگنے والی آگ سے ہم غافل نہیں ہیں اور بلوچستان ہمارے جسم کا حصہ ہے۔ ہم نے بلوچستان کو حقوق دیے۔پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر عوامی جلسے سے یہ چوبیس سالہ بلاول بھٹو زرداری کا پہلا خطاب تھا۔صدر آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد بلاول کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر انیس سال تھی۔بلاول نے ماضی میں کچھ تقاریر تو کی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے عہدیداران نے اس سے پہلے بتایا تھا کہ اس برسی سے ان کے باقاعدہ سیاسی کیریئر کا آغاز کرایا جائے گا۔ عہدیداران کے مطابق بلاول نے ایک اردو تقریر تیار کی تھی جو انہوں نے گڑھی خدا بخش میں جلسے میں کی جس میں پہلی مرتبہ انہوں نے پارٹی کے چیئرمین کے طور پر لوگوں سے خطاب کیا۔اس سے پہلے وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے سکھر پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کوئی پہلی بار تقریر نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک تاثر دینے کی کوششیں کی جا رہی ہے کہ ان کو لانچ کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں لانچنگ نہیں ہوتی اور پیپلز پارٹی لانچنگ نہیں کرتی۔جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک شمع جو برسوں پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے روشن کی تھی اسے ان کے نواسے آگے بڑھا رہے ہیں۔اسی جلسے سے خطاب میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اعلان کیا کہ پاکستان میں مصر کے طرز کا سیاسی ماڈل نہ تسلیم کیا جائے گا اور نہ ہی اسے چلنے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بہت نقاب پوشوں کے نقاب اتریں گے اور ہم جمہوریت کے ذریعے ہی انتقام لیتے ہیں۔صدر زرداری نے نام نہیں لیا لیکن بظاہر انہوں نے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری کے اس مطالبے کو رد کردیا جس میں انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ نگراں حکومت کے قیام میں فوج، عدلیہ اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی رائے بھی شامل کی جائے۔ صدر نے کہا کہ اگر کسی کو سیاست میں حصہ لینا ہے تو وہ انتخاب لڑے اور جیت کر حکومت میں آئے باقی کسی صورت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ منصفانہ انتخابات کرانے کے تمام انتظامات کئے گئے ہیں، آزاد الیکشن کمیشن قائم کیا گیا ہے اور غیرجانبدار نگراں سیٹ اپ بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں سے صلاح و مشورے کئے جارہے ہیں۔صدر زرداری نے شریف برادران کا نام لئے بغیر ان پر بھی کڑی تنقید کی اور کہا کہ انہوں نے جمہوریت کے لئے جانیں قربان کی ہیں نہ کہ جہازوں کا انتظار کیا کہ کوئی آئے اور انہیں ملک سے لے جائے۔ آصف علی زرداری نہ کہا کہ ہم ایوان صدر میں اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر نہیں آئے بلکہ بارہ بارہ سال کی جیل کاٹی ہے۔برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے باقائدہ سیاست کے آغاز کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ ان کی تعلیم اب پوری ہوگئی ہے اور اب وہ یہاں عوام میں رہ کر تربیت حاصل کریں گے۔جلسے سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، مخدوم امین فہیم، اعتزاز احسن، رضا ربانی، سید قائم علی شاہ اور دیگر رہنماں نے بھی خطاب کیا۔بے نظیر بھٹو اور بھٹو خاندان کی دیگر شخصیات کے اس مقبرے پر ہزاروں لوگوں کے قافلے دو دن قبل سے آنا شروع ہوگئے تھے۔صوبہ سندھ میں لاڑکانہ کا قریبی علاقہ گڑھی خدابخش پاکستان کی تمام اہم ترین حکومتی شخصیات کا مسکن بنا رہا۔ گویا پورے کا پورا دارالحکومت گڑھی خدا بخش میں امڈ آیا تھا۔سابق وزیراعظم بینظیربھٹو کی پانچویں بر سی کے موقع پر صدر سے لیکر پیپلز پارٹی کے ایک عام کارکن اور ہمدرد تک سبھی لوگ گڑھی خدابخش میں موجود رہے۔ ان شخصیات میں صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، وزیر قانون فاروق ایچ نائیک، وزیر داخلہ رحمن ملک، پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر بدر، وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، صدر زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور، وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ، آغا سراج درانی، شرمیلا فاروقی، شازیہ مری، وزیر تجارت امین فہیم، راشد ربانی ، مولا بخش چانڈیو ، فواد چوہدری، وفاقی وزیر خورشید شاہ، امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمن، سینیٹر اعتزاز احسن ، سعید غنی ، مخدوم شہا ب الدین و دیگر رہنماشامل تھے۔حکومتی شخصیات کے علاوہ اتحادی جماعتوں کے رہنماوں کی بھی ایک بڑی تعداد گڑھی خدا بخش پہنچی ۔ ان میں سب سے بڑی تعداد متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماوں اور ذمے داروں کی تھی۔ متحدہ کا 50رکنی وفد جمعرات کو گڑھی خدا بخش پہنچا۔ اس وفد کی سربراہی ڈاکٹر صغیر احمد کر رہے تھے، جبکہ وفد میں عبدالحسیب میمن اور اشفاق منگی بھی شامل تھے۔ جبکہ ایک غیر ملکی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ٹیم نے ان دو فوجی افسران کو طلب ہی نہیں کیا جنہوں نے لیاقت باغ کے باہر ستائیس دسمبر سنہ دو ہزار سات کو خود کش حملے کے بعد اس وقت کے راولپنڈی پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی سعود عزیز کو مبینہ طور پر جائے حادثہ کو فوری طور پر دھونے سے متعلق ہدایات جاری کی تھیں۔اس تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربرطانوی میڈیاکو بتایا کہ جن فوجی افسران سے راولپنڈی پولیس کے سابق سربراہ کی موبائل فون پر بات ہوئی تھی ان کے نام توفیق اور تصدق بتائے جاتے ہیں۔ تاہم اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ یہ دونوں فوجی افسران ان دنوں کہاں تعینات تھے۔ اہلکار کے بقول ان افسران کو طلب کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو بھی خط نہیں لکھا گیا۔ڈی آئی جی سعود عزیز ان دعوں کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اس موبائل فون کا تمام ریکارڈ ایف آئی اے کے حوالے کردیا تھا جو وقوعہ کے روز ان کے استعمال میں تھا۔بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار کے بقول ان فوجی افسران کو بھی طلب کیا جانا چاہیے تھا تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس قتل کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما تھے۔وفاقی حکومت نے بینظیر بھٹو کے مقدمے میں اشتہاری قرار دیے جانے والے ملزم اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی گرفتاری کے لیے دو مرتبہ انٹرپول کو خط لکھا ہے تاہم اس مقدمے کے سرکاری وکیل کے بقول انٹرپول کے حکام نے پاکستانی حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف سے رابطہ کیا ہے اور سابق صدر نے کہا ہے کہ ان کے خلاف یہ مقدمہ سیاسی رنجش کی بنا پر درج کیا گیا ہے اس کی وجہ سے انٹرپول نے پرویز مشرف کی گرفتاری میں معاونت کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔پنجاب پولیس کی طرف سے بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی تفتیش میں پرویز مشرف اور سعود عزیز کی جانب انگلیاں نہیں اٹھائی گئی تھیں لیکن ایف آئی اے کی طرف سے کی جانے والی تفتیش میں بینظیر بھٹو کے قتل کی زیادہ تر ذمہ داری سابق فوجی صدر اور سعود عزیز پر ڈالی گئی ہے جبکہ باقی معاملات میں پنجاب پولیس کی تفتیش کو ہی آگے بڑھایا ہے۔ایف آئی اے کی جانب سے کی جانے والی تفتیش میں بینظیر بھٹو کی طرف سے امریکی صحافی مارک سیگل کو 26 اکتوبر 2007 کو لکھی گئی ای میل کو بنیاد بنایا گیا ہے جس میں بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری پرویز مشرف پر عائد ہوگی۔اس کے علاوہ تفتیش میں سابق وزرا اعظم شوکت عزیز اور چوہدری شجاعت حسین کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے جبکہ بینظیر بھٹو کی سکیورٹی سے متعلق درخواست کو نظر انداز کرنے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔تفتیش میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سعود عزیزجو ستمبر 2007 میں پانچ اضلاع پر مشتمل ریجنل پولیس افسر گوجرانوالہ تعینات تھے کو اچانک کوئی وجہ بتائے بغیر ایک چھوٹے عہدے یعنی سٹی پولیس افسر راولپنڈی تعینات کر دیا گیا۔بینظیر بھٹو کی سکیورٹی پر تعینات پولیس افسر کو ہٹانے اور لاش کا پوسٹمارٹم نہ کروانے کی ذمہ داری بھی تفتیشی ٹیم نے سعود عزیز پر ہی عائد کی ہے۔اس مقدمے کی تحقیقات کی مد میں اب تک سات نامکمل چالان اس مقدمے کی سماعت کرنے والی راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایف آئی اے کی طرف سے پانچ جبکہ پنجاب پولیس کی طرف سے دو چالان پیش کیے گئے۔ ایف آئی اے کی طرف سے پیش کیے گئے چالان میں 139 سرکاری گواہوں کی فہرست بھی لگائی گئی ہے۔اس فہرست میں انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ برگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اور وزارت داخلہ کے نیشنل کرائسز مینجنمٹ سیل کے سابق سربراہ برگیڈئیر ریٹائرڈ جاوید اقبال بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اس مقدمے کے سرکاری وکیل کے بقول تفتیشی ٹیم کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد اگلے روز پریس کانفرنس کی منصوبہ بندی راولپنڈی میں تیار کی گئی تھی اور پنجاب حکومت سے رابطہ کیے بغیر اور تفتیشی ٹیم کے اعلان سے پہلے ہی پریس کانفرنس میں بینظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری تحریک طالبان کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود پر عائد کردی گئی۔ایف آئی اے کی ٹیم نے اگرچہ وفاقی وزرا رحمان ملک، مخدوم امین فہیم، بینظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان اور صفدر عباسی کے بیانات تو ریکارڈ کیے لیکن انہیں گواہوں میں شامل نہیں کیا حالانکہ یہ چاروں افراد جائے حادثہ پر موجود تھے۔ حملے کے وقت وزیر داخلہ رحمان ملک بینظیر بھٹو کی سکیورٹی کے مشیر بھی تھے۔سابق وزیر اعظم کے قتل کے مقدمے میں اب تک پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان پانچ میں سے محمد رفاقت اور حسنین گل پر الزام ہے کہ انہوں نے بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ آوروں بلال اور اکرام اللہ کو پناہ دی جبکہ شیر زمان، رشید احمد اور اعتزاز شاہ پر الزام ہے کہ انہیں بینظیر بھٹو کی قتل کی سازش کا علم تھا لیکن انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ نہیں کیا۔پرویز مشرف سمیت آٹھ افراد کو اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیا گیا ہے جن میں تحریک طالبان کے سابق رہنما بیت اللہ محسود بھی شامل ہیں۔تفتیشی ٹیم کے بقول بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش تیار کرنے والے اور دیگر ملزمان اکوڑہ خٹک میں مدرسہ حقانیہ میں زیر تعلیم رہے جس کے بارے میں اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والے پنجاب پولیس کی ٹیم نے مزکورہ مدرسہ کی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل اہلکار کے بقول اشتہاری قرار دیے جانے والوں میں سے پانچ افراد وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں مختلف واقعات کے دوران مارے گئے۔ ان میں قاری اسماعیل، نصراللہ، علی الرحمن، فیض محمد اور عبادالرحمن شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ کچھ حد تک اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے دو ملزمان رفاقت اور حسنین گل کا اشتہاری قرار دیے جانے والے افراد کے ساتھ فارنزک رپورٹ سے تعلق ثابت ہوا ہے لیکن تفتیش کے دوران یہ بات ابھی تک ثابت نہیں ہوسکی کہ اس بینظیر بھٹو کی قتل کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔اہلکار کے مطابق ان افراد کے پکڑے جانے کی صورت میں ہی پتہ چل سکتا تھا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کا ماسٹر مائینڈ کون تھا۔ اشتہاری قرار دیے جانے والوں میں سے صرف قاری اسماعیل کی سرکاری طور پر ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ باقیوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کیسے مارے گئے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی سے لاڑکانہ تک پہلے نیشنل ہائی وے پر اور پھر خیرپور لاڑکانہ شاہراہ پر شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو جہاں سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی سے متعلق بڑے بڑے بل بورڈ آویزاں نہ ہوں۔اس طرح کے بورڈ، بینر اور پوسٹر بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہر برسی پر سندھ بھر میں نظر آتے تھے، لیکن ان پر سابق وزیر اعظم کے علاوہ جن دیگر افراد کی تصاویر ہوتی تھیں وہ جانے پہچانے سیاسی چہرے ہوتے تھے۔ لیکن اب ان بورڈوں کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہو پاتا کہ یہ کونسے فصلی بٹیرے ہیں جو بینظیر بھٹو اور ان کے خاندان سے وابستہ افراد کی تصاویر کے ساتھ اچانک نمودار ہو گئے ہیں۔کئی تو ایسے بھی تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر کے ساتھ کھڑے مسکراتے پائے گئے جو کچھ عرصہ قبل تک اس جماعت اور بھٹو خاندان کے مخالفین کے ساتھ کھڑے مسکراتے تھے۔گڑھی خدا بخش میں محترمہ کی پانچویں برسی کی تیاریاں زور و شور سے کی گئی تھیں اور وہاں ایک شاندار سٹیج تیار کیا گیا ۔ تاہم ناقدفین کا خیال ہے کہ یہ جلسہ پیپلز پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ صرف چند ہفتے قبل ہی سندھ میں نئے پیرپگارا سید صبغت اللہ شاہ کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے سندھ کی تاریخ کا ایک بہت بڑا جلسہ کر کے اپنی قوت ثابت کی ۔تبھی سے پیپلز پارٹی کے رہنماں کے یہ بیانات سامنے آئے کہ اس جلسے کا جواب بینظیر بھٹو کی پانچویں برسی کے جلسے میں دیا جائے گا۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو جنوبی پنجاب سے لایا گیا کیونکہ سندھ میں حکومت کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد حکومت اور صدر آصف علی زرداری سے نالاں ہے اور شاید اتنے لوگ نہیں آئے جتنے پچھلے برسوں میں آتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی ٹی وی اور اخبارات کی اشتہاراتی مہم کے ذریعے لوگوں کو یہ باور نہیں کراسکی کہ اس نے بہت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ بدعنوانی، اقرباپروری اور پھر سندھ لوکل باڈیز کے قانون نے عام لوگوں میں پیپلز پارٹی کے خلاف سخت غصے کو جنم دیا ہے اور حکومت کی روش کے خلاف سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد کے علاوہ باقی تمام جماعتوں کو یکجا کردیا ہے جو عام انتخابات میں حکمراں جماعتوں کے لئے متعدد نشستوں پر مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔پیپلز پارٹی کو اندازہ ہے کہ اب اس کے پاس نہ بینظیربھٹو جیسی کوئی ولولہ انگیز قیادت ہے اور نہ ہی وہ اپنی کارکردگی کے ذریعے عوام کا ووٹ حاصل کرسکتی ہے اس لیے اس نے بلاول بھٹو زرداری کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ایک اور قیاس آرائی یہ کی جارہی ہے کہ عدالتوں کے فیصلوں کے پیش نظر صدر آصف علی زرداری شاید پارٹی کے شریک چیئرپرسن کا عہدہ چھوڑ دیں گے اور بلاول بھٹو زرداری کو باقاعدہ طور پر پارٹی امور سونپ دیں گے۔سیاسی اعتبار سے گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں مدفون جید شخصیات اور بلاول بھٹو زرداری دو ایسے عناصر ہیں جو اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ سیاسی جوڑتوڑ کے ذریعے صدر زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور بعض دیگر پارٹی رہنماں نے ملک بھر میں ووٹ رکھنے والی شخصیات کی ایک خاصی تعداد کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔لیکن سب سے اہم سوال بہرحال اب بھی یہ ہے کہ کیا انتخابات واقعی اپنے اوقات کار کے مطابق ہوں گے؟ یا پھر وہ ظاہر اور درپردہ عناصر کامیاب ہو جائیں گے جو انتخابات ملتوی کرانا چاہتے ہیں اور انتخابات سے پہلے ایماندار، محنتی اور صوم و صلات کے پابند امیدوار ملک بھر میں ڈھونڈنا چاہتے ہیں جو بقول ان کے آئین کے مطابق انتخابات کے لیے ضروری ہیں۔پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما نے ان خدشات سے متعلق کہا کہ ان کی جماعت اپنے طور پر انتخابات وقت پر کرانے اور تمام سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں وقت پر شفاف انتخابات چاہتی ہیں لیکن اگر طالع آزماوں کا جمہوریت کے لیے صبر جواب دے گیا ہے تو پیپلز پارٹی کی بھی آمریت کے خلاف جدوجہد کی لمبی تاریخ ہے اور ہم اس لڑائی کے لیے بھی تیار ہیں۔ اگر چہ پاکستان کا ہر شہری جو ایک صحت مند ذہن رکھتا ہے وہ جمہوریت ہی چاہتا ہے لیکن موجودہ حالات میں وہ جموریت کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتا ہے یہی وہ چیلنج ہے جو بلاول بھٹو کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔اگر چہ اس برسی کے

موقع پر صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ بلاول کے انکل اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے صدر زرداری کا اشارہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی،صدر زرداری اور بلاول بھٹو کی بدنامی کے ذمہ دار بھی بلاول کے انکل یوسف رضا گیلانی ہیں جنھوں نے اپنے دور اقتدار میں بد ترین طرز حکمرانی انجام دے کر بلاول بھٹو کو اتنا زیادہ پیچھے دھکیل دیا ہے کہ اب جتنا عرصہ اسے تعلیم و تربیت حاصل کرنے میں لگا ہے اب اقتدار کے حصول کیلئے بھی اسے اتنا عرصہ انتظار کر نا پڑے گا۔اے پی ایس