بلاول بھٹو کو سچائیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔چودھری احسن پریمی



سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے والدہ کی پانچویں برسی کے موقعے پر جلسہ عام سے خطاب سے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کیاہے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد اگرچہ بلاول بھٹو کو پارٹی کا چیئرمن بنایا گیا تھا، مگر تمام معاملات ان کے والد آصف علی زرداری ہی دیکھ رہے تھے جن کے پاس پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ تھا۔ اب پارٹی نے باقاعدہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بلاول بھٹو ہی پارٹی کی قیادت کریں گے۔بلاول بھٹو کے سیاسی کریئر کے بارے میں ملی جلی رائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ بلاول کی تقریر جذبات سے خالی اور سنجیدہ تھی۔ جبکہ بعض مبصرین تقریر کو جارحانہ بھی قرار دے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی والدہ کے قتل کیس کے حوالے سے عدلیہ کو نشانہ بنایا۔ سندھ کے تجزیہ نگاروں کے مطابق تقریر اچھی تھی اور پوری تیاری کے ساتھ کی گئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ جو کہ بھٹو فوبیا کا شکار ہے اب اس کو بلاول کی شکل میں نئے چلینج کا سامنا ہے۔ تاہم ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ سندھ اب تبدیل ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اچھا ریسپانس نہیں مل رہا ہے۔خیال ہے کہ آغاز تو اچھا ہوا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں بینظیر کے بیٹے کے طور پر ان کے لیے عزت ہے۔ لوگ انہیں دیکھنے اور سننے بھی آئیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ماں اور نانا کے نقش قدم پر چلتے ہیں یا والد کی طرح سیاست کرتے ہیں۔بلاول کے بارے میں سنجیدہ لوگوں کو امیدیں بھی ہیں اور خدشات بھی۔ لوگ انہیں ابھرتا ہوا سیاستدان سمجھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پارٹی میں اور ملک کی سیاست میں تبدیلی آئے۔ پیپلز پارٹی ملک کی بڑی پارٹی ہے لہذا اس کی ہی قیادت سے یہ توقع کی جارہی ہے۔اکثر لوگ بلاول کو بینظیر بھٹو کی طرح ہی دیکھنا چاہتے ہیں اوران کا موازنہ بھی والدہ سے ہی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلاول نے تقریر بھی والدہ کے انداز میں کرنے کی کوشش کی۔اگر دونوں کا موازنہ کیا جائے تو حالات کا فرق ہے۔ بینظیر بھٹو نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز ضیا الحق کے بدترین مارشل لا دور میں کیا تھا۔ جب ان کے والد ذوالفقارعلی بھٹو اڈیالہ جیل کی کال کوٹھری میں پھانسی کا انتظار کر رہے تھے۔ جبکہ بلاول بھٹو اپنی سیاست کا آغاز ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ان کی پارٹی کی حکومت ہے اور وہ پارٹی کی حکومت کی کارکردگی بھی گنوا رہے ہیں۔بینظیر نے سیاسی کریئر کاآغاز اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کی سرپرستی میں کیا۔ جس پر عوامی سیاست کا رنگ حاوی تھا۔ جلسے، جلوس،احتجاج اورپارٹی کارکن تھے۔ بلاول بھٹو سیاسی کریئر کا آغاز والد کے سائے میں کر رہے ہیں جن کی سیاست میں عوامی رنگ کم اور بادشاہ گری کا رنگ زیادہ جھلکتا ہے۔بینظیر کو آتے ہی اپنے انکلز کا سامنا کرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی غیر موجودگی میں پارٹی کے سینئر رہنماں کا خیال تھا کہ وہ ایکلاوارث سی بچی ہے۔ جس کو سیاست وغیرہ کا کوئی تجربہ یا زیادہ پتہ نہیں اور اس کو آسانی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے لیے یہ صورتحال نہیں ۔ ان کے والد آصف علی زرداری سرپرستی، رہنمائی اور مدد کے لیے موجود ہیں۔ یہ ان کے لیے اضافی مارکس ہیں، مگر لوگ اس کو منفی مارکس میں شمار کر رہے ہیں کہ بھٹو کی سیاسی میراث سنبھالنے کے لیے آنے والے نوجوان بلاول کو اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے یا آزادانہ سیاست کرنے کا موقعہ نہیں مل پائے گا۔بینظیر بھٹو نے ضیا کے مارشل لا، حکومت، اسٹبلشمنٹ اور مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر موجود مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اور جدوجہد اور کٹھن محنت اور اپنی سیاسی ویژن کے ذریعے اپنی جگہ بنائی اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یوں وہ ایک سیاسی پروسیس کے ذریعے ابھریں۔ بلاول بھٹو نے یہ سیاسی پروسیس نہیں دیکھا۔ اس کو اس پورے جھمیلے کا بہت کم علم اور تجربہ ہے۔سیاسی عمل میں جانے سے بینظیر کو یہ فائدہ بھی ہوا کہ وہ کارکنوں سے زیادہ قریب رہیں۔ کارکن انہیں جانتے تھے اور بینظیر کارکنوں کو جانتی تھی۔ یوں پارٹی کی نچلی سطح اور اوپری قیادت کے درمیان کوئی خلیج نہیں تھی۔اس کے مقابلے میں بلاول بھٹو کارکنوں سے کٹے ہوئے نظرآتے ہیں ۔بینظیر کے زمانے میں کارکنوں کی اعلی قیادت تک آسانی سے رسائی تھی، اور کارکن وزرا اور اراکین اسمبلی یا پارٹی کے دیگر رہنماں کو دھمکی بھی دے دیتے تھے کہ وہ بی بی کو شکایت کردیں گے۔خاندانی سیاسی وراثت کی ایک مثال گاندھی خاندان کی بھی ہے۔ مگر وہاں سنجیو کاندھی کے بیٹے راہول گاندھی کو ایک سیاسی پروسیس میں ڈالا گیا ہے۔ ان کو پارٹی کی یوتھ ونگ کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا ہے۔بلاول کی تقریر بولڈ اور فلوئنٹ قرار دی جاری ہے۔ انہوں نے عدلیہ کو چیلینج کیا ہے۔ بینظیر بھٹو نے فوجی آمریت کو چیلینج کیا تھا۔عوام میں اور دنیا بھر میں آمریت کے خلاف جدوجہد کو بڑے پیمانے پر پزیرائی ملتی ہے۔ جبکہ عدلیہ اور عدالتی فعالیت کو چیلینج کرنے کو مقبولیت ملنا ذرا مشکل کام ہوتا ہے۔ لہذا بلاول بھٹو کو والدہ سے مختلف قسم کے چیلنجز ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ بلاول اپنی سیاست کا انداز اور رنگ ڈھنگ والدہ کا رکھتے ہیں یا والد کی سیاست کا طریقہ اپناتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ کی پانچویں برسی کے موقعے پرگڑھی خدا بخش میں اردو میں روانی کے ساتھ تقریر کر کے کئی لوگوں کو حیران کردیا۔24 سالہ بلاول بھٹو نے اپنی زندگی کا زیادہ تر عرصہ پاکستان سے باہر گزارا ہے اور بہت کم لوگوں کو علم تھا کہ انہوں نے اردو بھی سیکھ لی ہے۔اکثر سیاسی مبصرین نے اپنے تبصروں میں لکھا ہے کہ ان کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن انہوں نے اپنی والدہ جیسا انداز بیاں اپنایا۔ اس بارے میں تجزیہ کار کہتے ہیں الفاط والد کے اور انداز والدہ کا۔بلاول کی بچپن میں تربیت ان کی والدہ بے نظیر نے کی لیکن سیاسی تربیت ان کے والد آصف علی زرداری نے ہی کی ہے۔یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید بلاول اپنی والدہ کے قتل کے سلسلے میں سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے بارے میں کوئی نئی بات کریں گے کیونکہ پرویز مشرف کی گرفتاری کے لیے ایک تو حکومتِ پاکستان نے انٹرپول سے رابطہ کر رکھا ہے اور دوسری جانب جلسے سے محض ایک روز قبل وفاقی وزیر دفاع سید نوید قمر سے منسوب یہ خبر شائع ہوئی کہ بینظیر بھٹو کے قتل میں جنرل (ریٹائرڈ) مشرف کو شامل کرنے سے ایک اہم ادارے کے سربراہ نے آصف علی زرداری کو منع کیا تھا۔ تاہم انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں۔بلاول بھٹو زرداری سے دوسری توقع یہ کی جا رہی تھی کہ وہ موجودہ حکومت کی بعض ناکامیوں کا کھلے دل سے اقرار کرتے ہوئے آئندہ کے لیے ایک نئیروڈ میپ کا اعلان کریں گے، لیکن اس بارے میں بھی بیشتر تجزیہ کاروں کو مایوسی ہوئی کیونکہ بلاول نے اپنے نانا (ذوالفقار علی بھٹو) کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان ہی دوہرایا۔اس کے باوجود بلاول بھٹو کی تقریر کی ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں جتنی کوریج ہوئی ہے اتنی گڑھی خدا بخش کے سیاسی جلسوں کی ماضی میں کم ہی دیکھنے کو ملی ہے۔چوبیس سالہ بلاول بھٹو نے اپنے باضابطہ سیاسی کیریئر کا آغاز تو کردیا ہے تاہم ابھی وہ رکنِ پارلیمان بننے کے اہل نہیں کیونکہ وہ آئندہ برس اکتیس ستمبر کو پچیس برس کے ہوں گے اور تب ہی وہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے۔وفاقی وزیر سید خورشید شاہ کے بقول جب بلاول بھٹو پچیس برس کے ہوں گے تو وہ اپنی والدہ کے انتخابی حلقے لاڑکانہ سے الیکشن لڑیں گے۔ان کے والد کی بطور صدرِ پاکستان مدت بھی آئندہ برس ستمبر میں پوری ہوگی اور بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ دونوں باپ بیٹا ایک ساتھ ضمنی انتخاب لڑیں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے رواں سال جولائی میں برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز کی سند جدید تاریخ اور سیاست کے شعبے میں حاصل کی ہے۔ ان کی والدہ نے بھی اسی تعلیمی ادارے سے اسی شعبے میں سند حاصل کی تھی اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں کے نمبر بھی برابر ہیں۔نوجوان، خوبصورت اور نازک مزاج بلاول بھٹو کے بارے میں شاید کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ انہوں نے تائی کوانڈو میں بلیک بیلٹ لے رکھا ہے۔ اپنے والد کی طرح بھنڈی اور مونگ کی دال کے شوقین بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کے سربراہ کا تاج تو پہن لیا ہے لیکن انہیں اس بات کا ادراک بھی ہے کہ یہ سفر بہت خطرناک ہے۔بلاول بھٹو نے سندھی قوم پرستوں کی جانب سے بلدیاتی نظام کے بارے میں ہونے والی مزاحمت کے متعلق اپنی تقریر میں کچھ نہیں کہا اور سندھ میں اس معاملے پر پہلی بار پیپلز پارٹی کی مخالفت میں پیر پگاڑہ کے منعقد ہونے والے جلسے پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے عدلیہ اور مسلم لیگ (نواز) کا نام لیے بغیر ان پر بھرپور تنقید کی۔ محترمہ بینظیربھٹو شہید کی پانچویں برسی پر بلاول بھٹو زرداری کا

پہلا خطاب بلاشبہ پرجوش ، ولولہ انگیز اور احتیاط سے چنے گئے الفاظ پر مبنی تھا۔انہوں نے جمہوریت کی بقا و سلامتی کا عزم ظاہر کیا مفاہمت کو اپنی پارٹی کا سب سے بڑا ہتھیار قرار دیا، روٹی کپڑ ا اور مکان کے نعرے سے پارٹی کی وابستگی کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ ہم جمہوریت لے کر آئے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ان کاکہنا تھاکہ ہم یہ نظام قائم رکھنا چاہتے ہیں اورہر شہری کوفوری انصاف فراہم کرنا بھی ہماری پالیسی کا محور و مرکز ہے کیونکہ جس سوسائٹی میں انصاف کی فراہمی کو یقینی نہ بنایاجائے وہ قانون کا احترام کرنا بھی چھوڑ دیتی ہے اور وہاں طالبان جیسی غیرجمہوری طاقتیں اقتدار سنبھال لیتی ہیں۔ پھر انتقام کی آگ اسے جلا دیتی ہے۔چیئرمین بلاول بھٹو کے خطاب میں معیشت، اقتصادی پالیسی، سیلاب زدگان کی امداد سمیت کئی حوالوں سے حکومتی کارکردگی کا ذکر ہوا مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان امور کو بھی نظرانداز نہ کیا جاتا جنہوں نے ساڑھے چار برسوں کے دوران پوری قوم کو اضطراب کی کیفیت سے دوچار رکھا۔ عدلیہ کے احکامات پر عملدرآمد میں لیت و لعل سے پیدا ہونیوالے مسائل ، بجلی کی قلت دور کرنے میں ناکامی، رینٹل پاور کے نام پر بھاری رقوم خرچ کرکے برائے نام بجلی کے حصول ، مہنگائی میں اضافے ، بھاری قرضوں کے بوجھ ، صنعتوں کی زبوں حالی کی صورتحال اور وجوہ پر روشنی ڈالی جاتی۔جن معاملات میں قوم کو مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا ان کے حوالے سے نہ صرف عوام کے سامنے لایاجاتا بلکہ اس حوالے سے حکومت کی ناکامی کا برملا اعتراف کرکے ان کا ازالہ کرنے پرزوردیاجاتا تو عام آدمی یہ محسوس کرتا کہ اس کے مسائل کا احساس کیا جارہا ہے اور کوتاہیاں دور کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بے نظیربھٹو کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے عدلیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ عدلیہ کا کام انصاف فراہم کرناہے حکومت کرنا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میری والدہ کے قاتلوں کوسزا دینے کا وقت عدلیہ کے پاس نہیں تو پھر قبر کا ٹرائل کیوں؟ اس مرحلہ پر سوال یہ پیداہوتاہے کہ پانچ سال تک ایوان اقتدار میں رہنے اور منصب صدارت پر محترمہ کے شوہر کے فائز رہنے کے باوجود خود حکومت نے اسکاٹ لینڈ یارڈ، جے آئی پی اور بعض دوسرے عالمی اداروں اور ملکی ایجنسیوں کی طرف سے جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹس کی روشنی میں تفتیش کے عمل کو کہاں تک آگے بڑھانے کی زحمت کی۔ اس پر عدلیہ کوہدف تنقید بنانے کی بجائے خود حکومت کے طرز ِ عمل پرغور کرنا ضروری ہے یہاں تک کہ عالمی اداروں نے کرپشن کے حوالے سے پاکستان کوسرفہرست ممالک میں شامل کیا ہے اور حکمرانوں نے عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان کی شدت میں اس حد تک اضافہ کیا ہے کہ عام آدمی کیلئے روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنا بھی مشکل ہوچکا ہے ۔ صرف توانائی کے بحران نے پوری قومی معیشت کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اوربڑی بڑی صنعتیں بیرونی ممالک میں منتقل ہو رہی ہیں۔ سرمایہ کاری نہ صرف رک گئی ہے بلکہ ملک سے سرمائے کے فرارکاعمل تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ عملیت پسندی کاتقاضا یہ ہے کہ حکومت اس کارکردگی اور حکمت عملی کی جوابدہی بھی کرے جو کسی طور بھی عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتری۔ بلاول بھٹو زرداری نے اب جبکہ سیاست کے خار زار میں قدم رکھ دیا ہے تو انہیں سچائیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اپنی خامیوں اور کوتا ہیوں کیلئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے مثبت تعمیری سوچ ،دوراندیشی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اے پی ایس