بدعنوانوں کے انتخاب سے ملک و قوم کوبحرانوں کا سامنا ہے۔انوار الحق گیلانی،وائس چیئرمین متحدہ کاروان پاکستان سے خصوصی گفتگو



الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جو نئی سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں ان میں سے ایک متحدہ کاروان پاکستان کے نام سے بھی ایک سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہوئی ہے۔اس ضمن میں اے پی ایس نیوز ایجنسی نے متحدہ کاروان پاکستان کے چیئرمین سید انوار الحق گیلانی کے ساتھ ایک نشست کا اہتما م کیا۔اس موقع پر ان سے ملک میں بدامنی، معاشی ابتری،توانائی بحران،آئندہ عام انتخابات سمیت کرپشن،قانون کی حکمرانی کی مخدوش صورتحال پر سوالات زیر بحث آئے جو قارئین کی نذر ہیں۔سید انوار الحق گیلانی وائس چیئرمین متحدہ کاروان پاکستان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ملکی ترقی کیلئے فرسودہ نظام کی تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے۔اس ضمن میں لازم ہوچکا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کا عملی نفاذ ہوجائے تو بہت سارے مسائل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے آئندہ اپنے انتخابی مہم میں عوامی آگاہی بارے اس بات پر زور دینے کا عزم کیا ہوا ہے کہ انتخابی نظام کو ٹیکس چوروں، رسہ گیروں، دھوکے بازوں، بنک ڈیفالٹرز،کرپٹ اور قانون شکن عناصر، جعلی ڈگریاں رکھنے والوں ، دہری شہریت کے حامل افراد اور دوسرے بددیانت اور بدعنوان لوگوں سے بچانا اور انہیں پارلیمنٹ سے دور رکھناہے۔ اس حوالے سے آئین کی دفعات 62اور 63 میں پہلے سے واضح احکامات موجود ہیں اور سپریم کورٹ بھی اس کی صراحت کر چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام صرف ایسے امیدواروں کو موقع دیں جو تمام مالی اور قانونی اداروں سے کلیئرنس حاصل کرکے اپنی اہلیت کے سرٹیفکیٹ جمع کرائیں تاکہ کوئی بددیانت شخص انتخاب لڑنے کا اہل نہ قرار پا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں معاشرے کے نچلے اور متوسط طبقے کے مفادات کی پاسداری کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ جاگیردارانہ اقتدار کے ایوانوں میں اس طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ عام آدمی منتخب ہونا تو درکنار امیدوار بھی نہیں بن سکتا کیونکہ دھن دھونس اور دھاندلی کے آگے ان کی ایک نہیں چلتی۔ اگر جمہوریت عوام کیلئے ہے تو خواص کی اجارہ داری کم کرنے کیلئے اسے عوام کی امنگوں کا ترجمان بنانا پڑے گا ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صاف و شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات اور مالی وسائل میں اضافہ کرنے کے علاوہ اسے مکمل خود مختار ادارے کی حیثیت دی جائے۔ اب جبکہ پاکستان میں بھی انتخابات کی آمد آمد ہے تو ان میں شفافیت یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے سمیت تمام تدابیر بروئے کار لانی ضروری ہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کی تعیناتی پر کم و بیش تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اطمینان اور اعتماد کا اظہار کیا اور انہوں نے بھی مکمل غیر جانبدارانہ انداز میں آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ پاک آرمی کے سربراہ کی طرف سے ان سے ملاقات کے بعد امن و امان کی بحالی میں ان سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی ایک حوصلہ افزا امر ہے اور انہوں نے انتخابات کو پر امن بنانے میں فوج کا تعاون حاصل کرنے کا جو عزم ظاہر کیا تھا اس کا انہیں عسکری قیادت کی طرف سے مثبت جواب ملا ہے انہوں نے نامکمل انتخابی فہرستوں کی تکمیل اور پورے انتخابی عمل کو پر امن بنانے ووٹرز کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا جو یقین دلایا ہے اس سے ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بحال اور ٹرن اوور میں اضافہ ممکن ہو سکے گا۔ اس ضمن میں مناسب ہو گا کہ سپریم کورٹ نے اپنے 8 جون 2012 کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو جو انتخابی اصلاحات بروئے کار لانے کی ہدایت کی ہے اس سلسلے میں پیش رفت سے عوام کو آگاہ کیا جائے اور پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کیلئے جلد اقدامات کئے جائیں۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید انوار الحق گیلانی نے ملک میں جاری توانائی بحران پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک گیس اور بجلی کے بحران کا تعلق ہے تو حکومت اسے ورثے میں ملنے والے ایک مسئلے کا نام دے کر جان چھڑانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن اپنی آئینی مدت اقتدار پوری کرنے کے باوجود اس نے اس بحران سے عوام، گھریلو صارفین، صنعتی و کاروباری اداروں کو نجات دلانے اور قومی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے کوئی موثر اور نتیجہ خیز اقدام نہیں کیا ،صرف پنجاب میں اس بحران کی وجہ سے 35ہزار صنعتی یونٹس بند ہونے سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے جو غربت و ا فلاس بے روزگاری اور فاقہ کشی سے بچنے کے لئے بیوی بچوں سمیت خود کشی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مصنوعات کی پیداواری لاگت بڑھنے سے جہاں گرانی کا ایک نیا طوفان جنم لے رہا ہے وہاں پاکستانی برآمدات میں کمی سے کئی غیر ملکی منڈیاں پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں اور تجارتی خسارے میں اربوں روپے کے اضافے نے قومی معیشت کو متزلزل کرکے رکھ دیا ہے حالانکہ اگر ہوا، سورج کی روشنی اور تھر میں کوئلے کے ذخائر سے گیس و بجلی پیدا کرنے کے علاوہ موسمی ندی نالوں پر چھوٹے ڈیمز تعمیر کرکے پانی کے ضیاع کو روکنے اور بجلی پیدا کرنے کی طرف توجہ دی جاتی تو ملک اور قومی صنعتیں اس بحران سے محفوظ رہ سکتی تھیں۔ اس بحران کے باعث بڑی تعداد میں صنعتیں ملائیشیا ،بنگلہ دیش اور بھارت منتقل ہونے سے سرمایہ کاری میں کمی اور ملک سے سرماے کے فرار نے خطرناک صورتحال پیدا کردی ہے اس کا ازالہ نہ کیا گیا تو ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ناممکن ہوجائیگا۔سید انوار الحق گیلانی نے ملک کی معاشی بدحالی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اے پی ایس نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک اس وقت جس معاشی ابتری کی کیفیت سے دوچار ہے، اس کی نشاندہی دنیا بھر کے ادارے برسوں سے کراتے چلے آرہے ہیں، ملکی ماہرین بھی پالیسیوں میں درستی کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں، اسٹیٹ بینک کی رپورٹوں میں بھی تجاویز سامنے آتی رہی ہیں مگر مجرمانہ حد تک اس باب میں غفلت سے کام لیا گیا ہے۔ نوبت ایسے مقام پر جاپہنچی ہے کہ آئی ایم ایف کے خیال کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر تین ماہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ ملکی اخراجات اور آمدنی میں 1624 ارب روپے کا فرق ہے، ٹیکسوں کی وصولیابی کی صورت حال مایوس کن ہے، جی ڈی پی کا ہدف پورا ہونے کی بھی توقع نہیں، بجٹ خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے حالات میں آئی ایم ایف کو مستقبل کے معاشی اقدامات کی بعض ضمانتیں درکار ہیں جو موجودہ حکومت نہیں دے سکتی۔ ہماری سیاسی جماعتیں اس نازک موڑ پر باہم سرجوڑ کر بیٹھیں تو رسوائی کے مزید سامان سے بچنے کا راستہ نکلنے کا امکان ہوسکتا ہے۔ حالات کی نزاکت اس بات کی متقاضی ہے کہ اب غیرسنجیدہ طرز عمل سے اجتناب برتا جائے۔ عام انتخابات کا انعقاد ایسے وقت متوقع ہے جب اگلے مالی سال کا میزانیہ پیش کرنے کا وقت بہت قریب آچکا ہوگا۔انہوں نے بلوچستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا یہ فیصلہ صوبے میں امن وامان کی صورت حال کی انتہائی خرابی کے مسلسل جاری رہنے، عملا انارکی جیسے حالات پیدا ہوجانے اور صوبائی حکومت کی جانب سے ان پر قابو پانے میں مکمل ناکامی کے بعد کیا گیا ہے۔ قانون کے نفاذ کے ذریعے شہریوں کو جان و مال کا تحفظ مہیا کرنے میں صوبائی حکومت کی مسلسل ناکامی، خوں ریزی کی شدت میں کسی کمی کے بجائے مستقل اضافہ، لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کے لیے کسی نتیجہ خیز کوشش کا سامنے نہ آنا، وہ اسباب ہیں جن کی بنا پر سپریم کورٹ نے بھی صوبائی حکومت کو مکمل طور پر ناکام قرار دیا تھا۔ گزشتہ ہفتے ہزارہ برادری کے سو سے زائد افراد کے ایک دہشت گرد حملے کا نشانہ بنائے جانے کے بعد جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں تمام سیاسی، عوامی اور مذہبی حلقوں نے حکومت کی ناکامی پر شدید احتجاج کیا جس کے بعد صدر مملکت نے آئین پاکستان کی دفعہ 234 کے تحت صوبائی کابینہ کو برطرف اور صوبائی اسمبلی کو دوماہ کے لیے معطل کرکے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کا حکم جاری کیا۔ تاہم بلاشبہ جمہوری اور منتخب حکومت کے ذریعے ہی معاملات کا چلایا جانا بہترین طریق حکمرانی ہے لیکن جب منتخب حکومت مسلسل ناکام رہے اور حالات اس کے بس سے

باہر دکھائی دیں تو گورنر راج کے نفاذ کا طریقہ بھی تمام جمہوری ملکوں میں مروج ہے جس کی گنجائش ملک کے آئین میں رکھی جاتی ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے ان اقدامات کو خوش آئند قرار دیا جس میں الیکشن کمیشن نے عام انتخابات سے قبل تمام وفاقی و صوبائی وزارتوں ڈویژنوں، اداروں اور محکموں میں ہرقسم کی بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز کے صوابدیدی استعمال پر پابندی لگادی ہے۔ اس ضمن میں انوار الحق گیلانی نے کہا کہ کمیشن کو بعض سیاسی جماعتوں اور معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے شکایات موصول ہوئی تھیں کہ انتخابات قریب آنے پر سرکاری محکموں میں ووٹ کے بدلے نوکری کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ایسے وقت کہ انتخابات سامنے نظر آرہے ہیں نوکریوں کی بندر بانٹ کو روکنا ضروری ہے۔ کمیشن نے اس شکایت کا بھی خاص طور پرنوٹس لیا کہ بعض اہم ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص رقوم وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز میں منتقل کی جا رہی ہیں تاکہ ان کے انتخابی حلقے میں استعمال کی جا سکیں۔ کئی حلقوں کا موقف تھا کہ یہ عمل پری پول دھاندلی کے مترادف اور آئین کی دفعہ(3)218 کی خلاف ورزی ہے۔ الیکشن کمیشن نے قرار دیا ہے کہ بھرتیوں پر پابندی کا اطلاق وفاقی و صوبائی پبلک سروس کمیشنوں کے ذریعے دی جانے والی ملازمتوں پر نہیں ہوگا۔ کمیشن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ کوئی ترقیاتی رقم صوابدیدی فنڈمیں تبدیل کی گئی ہے تو اسے منجمد تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات سے قبل حکومتی اثرورسوخ کے حامل طاقتور لوگوں کی جانب سے اپنے ووٹ بڑھانے کے لئے سیاسی بنیادوں پر نوکریاں دینے اور ترقیاتی فنڈز اپنی صوابدید پر شخصی یا جماعتی مفاد میں استعمال کرنے پر پابندی لگا کر صحیح سمت میں ایک درست قدم اٹھایا ہے۔ اس سے نہ صرف کمیشن کے بااختیار ہونے کاتصور اجاگر ہوا ہے بلکہ یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ انتخابات کو ہر طرح کی خرابیوں سے پاک رکھنے کے لئے وہ تمام معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی حکومت عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے اقتدار میں آنے سے پہلے کوئی واضح منصوبہ بندی کرتی ہے، نہ زمام کار سنبھالنے کے بعد اس پر توجہ دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس بھی زبانی جمع خرچ اور وعدوں کے سوا عوام کو دینے کیلئے کچھ تھا، نہ اس نے اپنی آئینی مدت کے دوران کچھ کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کے 58فیصد لوگ مہنگائی بے روزگاری اور پسماندگی کے بے رحم پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پانچ سال پہلے یہ تناسب تقریبا 33فیصد تھا۔ اس ابتر صورت حال میں برسراقتدار طبقے کواگلی مدت کے لئے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے اس لئے وہ افراتفری کے عالم میں اپنے پروردہ لوگوں میں نوکریاں بانٹ رہے ہیں۔ کچھ چھوٹے موٹے کام بھی ترقیاتی فنڈز کے بے جا استعمال سے کئے جا رہے ہیں اور بعض حلقوں کے خیال میں کچھ لوگوں کو ان سے پیسے لے کر بھی ملازمتیں دلائی جا رہی ہیں تاکہ انہیں ممنون احسان بناکر اپنی حمایت پر آمادہ کیا جاسکے، حالانکہ یہ تینوں طریقے غیراخلاقی اور غیرقانونی ہیں۔ سیاست نوکریاں دینے کا نام نہیں، نہ اس سے کسی ملک کی اقتصادی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ عوام کو غربت اور پسماندگی سے نجات دلانے کے لئے حکومتوں کا کام محض نوکریاں بانٹنا نہیں، نتیجہ خیز معاشی پالیسیاں بنانا ہے تاکہ سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں اورہرشخص کو اپنی اہلیت کے مطابق کام ملے۔ آخر میں انہوں نے اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اب جبکہ ملک میں عام انتخابات قریب ہیں اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کو حتمی شکل دینے جا رہی ہیں انہیں چاہئے کہ ملک کو خوشحال اور معاشی طور پر خودکفیل بنانے کے لئے ٹھوس پالیسیاں عوام کے سامنے لائیں اور میرٹ پر ان کے ووٹ حاصل کریں۔ غیرقانونی اور غیراخلاقی حربوں سے انہیں متاثر کرنے کے فرسودہ نسخے آزمانا چھوڑدیں۔اے پی ایس

http://www.associatedpressservice.net/news/?p=1227&lang=UR