سہ فریقی افغان مذاکرات اور توقعات۔چودھری احسن پر یمی



طالبان کیساتھ مذاکرات افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لئے کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔ جب11 جنوری کو صدر اوبامہ اور افغان صدر حامد کرزئی نے یہ اعلان کیا کہ طالبان کے لئے ایک مذاکراتی دفتر قطر میں کھلنے والا ہے توانتظامیہ کے اندریہ توقعات بڑھ گئی تھیں کہ امن مذاکرات عنقریب واپس پٹڑی پر آ جائیں گے۔لیکن، صدر کرزئی نے کابل واپس پہنچنے پر یہ شرط لگا دی کہ جب تک قطر تحریری طور پر اس کی شرائط کو نہیں مانتا کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اور جیسے جیسے اوبامہ انتظامیہ کے لئے سنہ 2014 تک افغانستان سے اپنی لڑنے والی فوج کی واپسی کی رفتار طے کرنے کا وقت قریب آتا جا رہاہے اس انخلا کی حکمت عملی کے لئے مصالحت کا عمل کلیدی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔اوبامہ انتظامیہ کو اندیشہ ہے کہ کسی سیاسی منصوبے کو شروع کئے بغیر امریکی فوجوں کے انخلا سے اس پر دوبارہ یہ الزام آئے گا کہ وہ پھر اس خطے کو اپنے حال پر چھوڑ کر جارہا ہے، جیسا اس نے 1990 کی دہائی میں سویت قبضے کے خاتمے کے بعد کیا تھا۔اور اگر ایسی صورت میں دوبارہ خانہ جنگی شروع ہوئی، جس کا کہ بہت سوں کو اندیشہ ہے، تو افغانستان کے پڑوسیوں کو اس کی ضرورت محسوس ہوگی کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک فریق کی طرف داری کریں۔جبکہ طالبان نے بھی مذاکرات کے لئے کڑی شرائط لگا رکھی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکی انہیں ایسے مذاکرات میں لانے کی کوشش کررہے ہیں، جو بعد میں حامد کرزئی کے حوالے کردئے جائیں گے، جب کہ کرزئی کا خیال یہ ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ ایسا سودا کر رہا ہے جو کرزئی اور ان کے حامیوں کو اپنے حال پر چھوڑ دے گا۔ امریکہ آگے بڑھنے کے لئے ہر ایک کے لئے سیاسی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن، لگ یہ رہا ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی تصفیہ نہیں چاہتا۔ امریکی انتظامیہ مذاکرات کے لئے ایسی جگہ پر زور دیتی آئی ہے جو افغانستان سے باہر ہو اور پاکستان سے دور ہو۔اس کے ساتھ ساتھ صدر کرزئی کو یقین دلایا گیا تھا کہ امریکہ کا حتمی مقصد عسکریت پسندوں اور ان کی حکومت کے درمیان براہ راست ایک سمجھوتہ کرانا تھا۔ لیکن، طالبان کی طرف سے تعاون یقینی نہیں ہے۔ البتہ، ہو سکتا ہے کہ اس کے بعض لیڈروں کو اگر قیدیوں کی رہائی سمیت اچھی پیشکش کی جائے تو ان کا ردِعمل مثبت ہو۔وسط جنوری میں قطری وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہوا ان کے ملک میں ایک دفتر کھل جائے گا تاکہ، طالبان اور افغانستان کی دوسری سیاسی پارٹیوں کے درمیان مکالمہ شروع ہو۔لیکن، اتنی محنت سے ترتیب دیا گیا یہ انتظام چوپٹ ہو گیا جب صدر کرزئی نے اپنا یہ مطالبہ دہرایا کہ اِن مذاکرات کے بارے میں تحریری یقین دہانیاں فراہم کی جائیں،جس کے لئے نہ تو قطر اور نا ہی طالبان تیار ہیں۔جبکہ افغانستان اور پاکستان کے صدور، حامد کرزئی اور آصف زرداری، نے برطانیہ میں مذاکرات کے دوران کہا ہے کہ وہ اگلے چھ مہینوں میں افغانستان کے لیے امن کے معاہدے کے حصول کی کوشش کریں گے۔وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کے بعد دونوں رہنماں نے کہا کہ ایسا مقصد حاصل کرنے کے لیے وہ تمام اقدامات اٹھائیں گے۔برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ مذاکرات میں دونوں رہنماوں نے خلاف معمول حد تک تعاون کا مظاہرہ کیا ہے۔مذاکرات میں اس بات پر غور کیا گیا کہ پاکستان، افغانستان سرحد پر امن کس طرح قائم کیا جا سکے۔صدر کرزئی نے طالبان رہنماں سے اپیل کی کہ وہ امن کے عمل میں شرکت کریں تاکہ بقول ان کے ہر کوئی افغانستان کے مستقبل کی تعمیر میں حصہ لے سکے۔رہنماوں نے دوہا میں ایک دفتر کھولنے پر رضامندی ظاہر کی تاکہ طالبان اور افغان حکام کے درمیان ملاقاتیں ہو سکیں۔افغانستان، پاکستان اور برطانیہ کے درمیان افغانستان میں امن عمل پر اہم سہ فریقی مذاکرات کا باقاعدہ آغاز لندن میں ہوا۔ان مذاکرات میں افغانستان اور پاکستان کے صدور اور برطانوی وزیراعظم اپنے وفود کے ہمراہ شرکت کی۔گزشتہ موسمِ گرما کے بعد یہ تیسرا موقع ہے کہ تینوں ممالک ان مذاکرات میں شرکت کی جن کا مقصد خطے میں توازن کو فروغ دینا ہے۔تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ اس بات چیت میں پاکستان اور افغانستان کی افواج اور خفیہ اداروں کے سربراہان بھی شریک ہوئے اور ان کی شرکت مفاہمتی عمل کے حساس ترین پہلوں سے نمٹنے میں مدد دے گی۔ان سہ فریقی مذاکرات کے عمل کا آغاز برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کیا تھا جس کا مقصد غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں تینوں ممالک کے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار تھا۔یاد رہے کہ دو ہزار چودہ میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا جس کے بعد کی صورتحال پر مختلف سطح پر مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال پر شدید تحفظات ہیں اور اب جبکہ انخلا کی تاریخ قریب آ رہی ہے یہی چیز ان مذاکرات کا کلیدی نکتہ ہے۔برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے باہمی تعاون کا فروغ ہے۔برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پاکستان اور افغانستان کے صدور کے اعزاز میں شمالی لندن میں واقع اپنی رہائش گاہ پر عشائیہ بھی دیا۔برطانوی وزیر اعظم کے دفتر سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سہ فریقی مذاکرات طالبان کو ایک واضح پیغام بھجواتے ہیں کہ اب ہر ایک لیے افغانستان میں پر امن سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لیے مذاکرات میں شرکت کا مناسب موقع ہے۔برطانوی وزیراعظم ماضی میں بھی کہہ چکے ہیں کہ ایک مستحکم افغانستان صرف افغانیوں کے ہی نہیں بلکہ ان کے ہمسایوں اور برطانیہ کے مفاد میں بھی ہے۔جبکہ افغان صدر حامد کرزئی نے بتایا ہے کہ اب جبکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہونے والا ہے وہ ان غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہتے جو ربع صدی قبل روس کے افغانستان سے انخلا کے موقع پر وقوع پذیر ہوئیں اور جنہوں نے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا تھا۔ ان مذاکرات میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی کی فضا کا خاتمہ بھی ایک اہم معاملہ رہے گا۔افغان حکومت نے اپنی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے بہت سے طالبان جنگجوں کی رہائی کو ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔لیکن افغان حکام ملا برادر کی رہائی چاہتے ہیں جو کہ افغان طالبان کے سابق نمبر دو کمانڈر رہے ہیں جس سے افغان حکام کو امید ہے ان کی سطح کے ایک اعلی طالبان اہلکار کی مدد سے طالبان کو کابل میں جاری مذاکرات میں شریک کرنے میں مدد ملے گی۔افغان صدر کرزئی نے کہا کہ افغان عوام کو امن کے عمل کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے اور انہوں نے کہا کہ نہ ہی کمیونسٹ حکومت اور نہ مجاہدین افغانستان کو امن اور تحفظ فراہم کر سکے اگر ہم اپنے امن عمل کا خود انتظام نہیں کرتے جیسا کہ ہم نے ماضی میں کی تو پھر ہم کبھی بھی استحکام حاصل نہیں کر پائیں گے۔واضح رہے کہ یہ تیسرا سہ فریقی اجلاس ہے۔ اس سے پہلے گذشتہ سال جولائی میں کابل میں اور ستمبر میں نیو یارک میں سہ فریقی اجلاس منعقد کیے گئے تھے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے افغانستان اور پاکستان کی فوجی قیادت نے افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کو پر امن اور تشدد سے پاک رکھنے کے لیے بعض اہم نکات پر اتفاق کیا تھا۔یہ اتفاق دونوں ملکوں کی فوجی قیادت کے درمیان اعلی سطح کے جامع اور سٹریٹیجک مذاکرات کے دوران حاصل کیا گیا تھا جو جنوری کے آخری ہفتے میں پاکستانی فوج کے صدر دفتر جی ایچ کیو میں ہوئے تھے۔ دونوں وفود کے درمیان امریکی انخلا کے پس منظر میں بعض بنیادی نوعیت کے معاملات پر بات چیت ہوئی تھی۔ذرائع کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں امریکی انخلا کے بعد پاک افغان سرحد پر دونوں ملکوں کے مشترکہ کنٹرول، دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کے درمیان مضبوط روابط، افغان امن عمل میں پاکستانی کردار، دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تربیت کے معاہدے اور سرحدی علاقوں میں سماجی اور معاشی ترقی کے معاملات شامل تھے۔جبکہ تحریک طالبان پاکستان نے ایک بار پھر حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان نے ایک ویڈیو پیغام میں حکومت کو ایک بار پھر مثبت مذاکرات کی دعوت دی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے مولانا فضل الرحمن، منور حسن اور نوازشریف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق افغانستان اور طالبان کے مفاہمتی عمل میں مددگار ثابت ہونے والے طالبان کی رہائی کا عمل جاری رہا تو تمام افغان طالبان رہا ہو جائیں گے۔یہ بات دفترِ خارجہ کے سیکریٹری جلیل جیلانی نے ابو ظہبی میں کہی تھی۔اس ضمن میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے زیر حراست افغان طالبان کو رہا کرنے کا عمل شروع کیا ہوا ہے اور خاص طور پر وہ طالبان جو مفاہمتی عمل میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو تمام افغان طالبان رہا کردیے جائیں گے۔اے پی ایس