انتخابی التوا ء بارے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ۔چودھری احسن پر یمی



پاکستان کی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ کی پیٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں انتخابات کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو مزید مستحکم کریں۔چیف جسٹس افتخار محمد چودہری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا الیکشن کمیشن کافی غور و غوص کے بعد تشکیل پایا ہے اور اس کو عدالت خراب نہیں کرے گی۔انہوں نے یہ ریمارکس الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے درخواست کی سماعت کے دوران دیے۔سماعت کے دوران طاہر القادری نے اپنی دوہری شہریت کے بارے میں تحریری جواب جمع کروایا اور اس حوالے سے بینچ کے سوالات کے جواب دیے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی غیر ملکی پاکستان کے حساس معاملات کے متعلق درخواست لے کر آئے تو ہم اسے نہیں سنیں گے۔انھوں نے کہا کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے شخص کو ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ایک موقع پر جب ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے دلائل دینا شروع کیے تو چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ عدالتی احترام ملحوظ رکھا جائے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انھیں تو الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کی تاریخ ہی معلوم نہیں ہے۔چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے۔ مقدمے کی سماعت کے بعد طاہرالقادری نے سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں بطورِ امیدوار حصہ لینے پر دہری شہریت نہ ہونے کی پابندی عائد ہے مگر ووٹ ڈالنے کے لیے آئین کی شق 51 کے تحت ایسی کوئی پابندی عائد نہیں ہے حتی کہ سمندر پار پاکستانیوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔انھوں نے کہا کہ دہری شہریت جرم نہیں ہے، آئین کی کسی شق میں دہری شہریت والے کو رٹ دائر کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔دہری شہریت کے سلسلے میں منقسم وفاداریوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین سے زیادہ دانشمندی کسی کے پاس نہیں اور آئین سولہ ممالک کے ساتھ دہری شہریت کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے ایک روز قبل تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے لیے اپنی درخواست کی پیروی کے لیے ان چند افراد میں شامل تھے جو عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔کمر عدالت نمبر ایک میں طاہرالقادری اپنے حماتیوں کے ہمراہ داخل ہوئے اور زیادہ تر نشتوں پر ان کے حامیوں کا ہی قبضہ تھا جبکہ وکلا اور اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آنے والے افراد کے پاس کھڑے رہنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔مقامی وقت کے مطابق ساڑھے نو بجے عدالت میں پہنچنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کو پانچ گھنٹے کے بعد یعنی دوپہر ڈھائی بجے کے قریب روسٹم پر آنے کو کہا گیا۔کمر عدالت میں موجود افراد یہ چہ مگوئیاں بھی کر رہے تھے کہ احتجاجی دھرنے کے دوران حکومت کو پانچ منٹ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم دینے والے طاہرالقادری کمر عدالت میں بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے پیر کو ریگولر مقدمات کی سماعت کرنے کے بعد سپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل طاہرالقادری کو دلائل دینے کو کہا۔سپریم کورٹ نے جب طاہرالقادری کو روسٹم پر آنے کو کہا تو ان کے ہمراہ آئے ہوئے ان کے حمایتی بھی روسٹم پر ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور باقی افراد کو اپنی سیٹوں پر بیٹھنے کا حکم دیا۔طاہرالقادری نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل شروع ہی کیے تھے کہ تین رکنی بینچ نے ان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی۔درخواست گزار بجائے اس کہ وہ اپنی درخواست کے متعلق کچھ دلائل دیتے انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے سے متعلق صفائی دینی شروع کردی اور انہوں نے سماعت کرنے والے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مائی لارڈز میرا سوال ہے جس پر بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ سوال آپ نہیں بلکہ عدالت آپ سے کرے گی اور عدالت کو مطمئین کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔منہاج القرآن کے سربراہ نے عدالت سے دو منٹ میں اپنی بات مکمل کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا اور کہا کہ وہ تحریری شکل میں جواب دیں۔سپریم کورٹ نے تحریک منہاج القران کے سربراہ طاہر القادری سے کہا ہے کہ وہ اس بات پر عدالت کو مطمئین کریں کہ انہوں نے جب کینیڈا کی شہریت کا حلف اٹھا لیا ہے تو وہ کس طرح پاکستان کی آئینی ادارے یعنی الیکشن کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کرسکتے ہیں۔عدالت نے ان سے ایسا نوٹیفکیشن بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی جس نے دوسرے ملک کی شہریت حاصل کی ہو کس طرح پاکستان کے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کرسکتا ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست کی ابتدائی سماعت کی۔اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پاکستان کا قانون دوہری شہریت کے حامل پاکستانی کو آئینی درخواست دائر کرنے سے نہیں روکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت چاہے تو اس ضمن میں بنائے گئے قوانین کا عدالتی جائزہ لے سکتی ہے۔طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک ووٹر کی حثیت سے الیکشن کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کیا ہے جبکہ دوہری شہریت کا معاملہ عام انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سنہ دوہزار پانچ میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستفی ہونے کے بعد انہوں نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کینیڈا کی شہریت حاصل کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کینیڈا کی شہریت بطور مذہبی سکالر حاصل کی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ملکہ اور ان کے جانیشنوں کا وفادار رہوں گا اور اگر کوئی دوسرا ملک ان کے ملک پر حملہ کرے تو اس کے لیے وہ ہتھیار بھی اٹھاسکتے ہیں، تو پھر ایسے شخص کو پاکستان کے الیکشن کمیشن پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔عدالت نے طاہرالقادری کو اس ضمن میں اگلے روز تک تفصیلی جواب جمع کروانے کا بھی حکم دیا تھا۔ اس کے علاوہ عدالت نے انہیں کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا۔تحریکِ منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کیے جانے کے بعد پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کا مطالبہ درست نہیں اور ان سمیت الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان کی تقرری قانون کے مطابق ہوئی ہے۔چیف الیکشن کمیشنر جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کی طرف سے بیان میں کہا گیا کہ بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن پر تنقید سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن اس معاملے میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ ان سمیت دیگر ارکان کی تقرری میں تمام آئینی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کے تمام ارکان اعلی عدلیہ کے ریٹائرڈ جج ہیں اور ان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم پر تنقید کرنے والوں نے ایسے ثبوت فراہم نہیں کیے جن سے پتہ چلتا ہو کہ کمیشن کے ارکان کسی قسم کی سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ کمیشن کی خودمختاری اور اس کے ارکان کے وقار اور ذاتیات پر حملے کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہیں۔فخرالدین جی ابراہیم کا کہنا تھا کہ انہیں الیکشن کمیشن کے ارکان اور سٹاف کی خود مختاری اور قابلیت پر مکمل اعتماد ہے اور الیکشن کمیشن کا واحد مقصد آزاد اور شفات انتخابات کا انعقاد ہے۔انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین سے درخواست کی کہ وہ الیکشن کمیشن پر بیبنیاد الزامات عائد کرنے کی بجائے انتخابات شفاف کروانے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔ادھر تحریکِ منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ اسلام آباد میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے لیے آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔درخواست گزار کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں آئین کے آرٹیکل 213 کو نظرانداز کیا گیا جو غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔درخواست میں موقف اختیار کیا

گیا ہے کہ آئین کے تحت تمام صوبے الیکشن کمیشن کے پانچوں ارکان کے لیے تین تین نام بھجوائے جائیں گے جس کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی فیصلہ کرتی ہے لیکن موجودہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں ایسا نہیں ہوا۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے چار ارکان کے خلاف ریفرنس آئین کے آرٹیکل دو سو نو کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوایا جاتا ہے لیکن اس معاملے میں آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اس لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔اس درخواست میں قومی احتساب بیورو کے سابق سربراہ جسٹس ریٹاریرڈ دیدار حسین شاہ کی تعیناتی کے معاملے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے معاملے کو بھی اپنی سطح پر ہی حل کر سکتی ہے۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین شاہ کی بطور چیئرمین نیب تقرری پر قائد حزب اختلاف سے مشاورت نہ کیے جانے پر ان کی تعیناتی کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔اس درخواست کے علاوہ ایک متفرق درخواست بھی دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس درخواست پر فیصلہ آنے تک الیکشن کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا جائے۔درخواست جمع کروانے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے طاہرالقادری کا کہنا تھا ان کے علاوہ دیگر جماعتوں نے بھی الیکشن کمیشن کی تشکیل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اپنے موقف سے سپریم کورٹ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں کسی کی ہار یا جیت نہیں ہوتی

جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ اعلی عدلیہ کو الیکشن کمیشن کی تشکیل پر ڈاکٹر طاہر القادری کی درخواست پر جلد فیصلہ سنانا چاہیے تاکہ غیر یقینی کی کیفیت کو ختم کیا جا سکے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ الیکشن سے پہلے اگر کوئی غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہو جائے تو ان قوتوں کو تقویت ملتی ہے جو انتخابات کو ملتوی اور نظام کو پٹری سے اتارنا چاہتی ہیں۔سپریم کورٹ بار کی سابق صدر نے کہا کہ اگر اس درخواست پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آتا ہے تو الیکشن کمیشن کا تعین کرنا ہی ناممکن ہو جائے گا۔عاصمہ جہانگیر کے خیال میں انتخابات وقت پر ہو سکتے ہیں کیونکہ پہلی بار زیادہ تر سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں، لیکن اس کا انحصار اس بات پر بھی ہو گا کہ یہ سیاسی جماعتیں کس حد تک ان قوتوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں جو اس نظام کو مضبوط ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔ اس کے علاوہ سیاسی حلقوں میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی زبان بولتے ہیں، وہ کئی پتے کھیلنے کی کوشش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات بغیر کسی خون خرابے کے وقت پر ہو گئے تو یہ ہماری قوم کی بہت بڑی خوش قسمتی ہو گی۔عاصمہ جہانگیر کے بقول طاہر القادری کی درخواست کا یہ وقت درست نہیں بلکہ اس کا ایک سیاسی پہلو ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر تو عین آئین کے مطابق ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی اراکین کا تقرر تو بہت پہلے ہو چکا ہے اس وقت انہیں کیوں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ تقرریاں درست نہیں۔ اس لیے طاہر القادری کی اس درخواست کی بابت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دیر آید درست آید بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیر سے آئے تو کیوں آئے۔عاصمہ جہانگیر نے طاہر القادری کی درخواست کے بارے میں کہا کہ عدالتوں کو مفاد عامہ کے مقدمات سننے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے کہ کہیں درخواست گزار کا اپنا کوئی مفاد تو پوشیدہ نہیں۔ انہوں نے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پر اس بات پر بڑی کڑی نظر رکھی جاتی ہے کہ جو درخواست گزار آئے اس کا اپنا کوئی سیاسی یا کوئی اور مفاد نہ ہو بلکہ درخواست کا ایک وقت بھی ہونا چاہیے۔ البتہ ہمارے ہاں کافی عرصے سے اب ایسی چیزوں کا خیال نہیں رکھا جا رہا اور یہی وجہ ہے کہ چونکہ ہمارے ہاں ایسی بہت سی درخواستوں کو سنا جا رہا ہے اس لیے طاہر القادری کی درخواست رد کرنا ان کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ طاہر القادری انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر چکے ہیں تو ایسی صورت میں اس درخواست دائر کرتے ہوئے ان کی اپنی پوزیشن کیا ہے؟ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ طاہر القادری انتخابات نہیں لڑ سکتے کیونکہ وہ آئین کی انہی شقوں پر خود پورے نہیں اترتے جن پر وہ سختی سے عمل کروانے کی بات کرتے ہیں اس میں دہری شخصیت رکھنے والا شخص تو الیکشن لڑ ہی نہیں سکتا۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگر طاہر القادری نے ووٹر ہونے کے ناطے یہ درخواست دی ہے تو اس کا بھی وقت ہوتا ہے کیونکہ اب جبکہ الیکشن اتنے قریب ہیں تو ان اراکین پر جن کی تقرری بہت پہلے کی گئی تھی اعتراض کرنے سے لگتا ہے کہ وہ انتخابات کو ملتوی کرانا چاہتے ہیں۔اے پی ایس