نگران وزیراعظم کا معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا جائے۔سیدانوارالحق گیلانی، وائس چیئرمین متحدہ کاروان پاکستان



متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا ہے کہ نگران وزیر اعظم کا معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا جائے۔انہوں نے اے پی ایس نیوز ایجنسی کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے لیے، متفقہ امیدوار کے نام پر صلاح و مشورے کے لیے، حکومت اور حزبِ اختلاف کو دی گئی ہدایات اتنی سہل اور سادہ نہیں ہوسکتی۔اس ضمن میںاگر آپ متفق نہیں ہوپاتے تو پھر دونوں فریقین دو، دو نام پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کردیں۔ اگر کمیٹی میں بھی اس معاملے پر اتفاقِ رائے نہیں ہوپاتا تو پھر فیصلے کے لیے معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیجیے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے مزید کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے، نگراں حکومت کے واسطے وزیرِ اعظم کی تقرری پر، آئین میں واضح طریقہ کار بیان کردیا گیا ہے تو پھر یہ ساری ابہامی صورتِ حال کس لیے؟۔انہوں نے کہا کہ صدر، وزیرِ اعظم، وزیرِ اطلاعات، اپوزیشن لیڈر، مسلم لیگ ن کے سربراہ اور بہت سارے سیاستدان، چاہے پارلیمنٹ میں ان کی جماعت کی نمائندگی ہو یا نہ ہو، مگر سب کیمرے کے سامنے آ کر متواتر بیانات دیے چلے جارہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟۔انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر، بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ بند کمرے میں بیٹھ کر باہمی اتفاقِ رائے سے مسئلہ حل کرلیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہر بار، جب کسی ایک جماعت نے ممکنہ امیدوار کا تذکرہ کیا، دوسری جماعت نے فورا اعتراض اٹھادیا۔ یوں ممکنہ نگراں وزیرِ اعظم متنازع بن جاتا ہے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ بالکل ایسا ہی اس وقت بھی ہوتا رہا کہ جب ایک طرف سے ججوں اور جرنیلوں کے ناموں کی تجویز دی گئی تو دوسری طرف سے اس پرعدم اتفاق ظاہر کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ بالکل اسی طرح کا غیر ضروری عوامی رویہ انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے حوالے سے بھی دیکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت تجویز دیتی ہے کہ وہ وسط مارچ میں، فطری طور پر اسمبلی تحلیل ہونے کی مدت کے قریب، اس کا اعلان کردے گی لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے احتجاجی لانگ مارچ میں اس کے لیے وسط فروری کی تجویز پیش کردی تھی۔علاوہ ازیں، اپوزیشن بھی فوری طور پر عبوری نگراں حکومت کے قیام پر زور دے رہی ہے لیکن قبل از وقت پنجاب اسمبلی تحلیل کرانے کی کوئی یقین دہانی نہیں کرارہی۔انہوں نے کہا کہ یہ مطالبہ ایسے الزام کی بنیاد پر کیا جارہا ہے کہ جس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ الزام یہ ہے کہ حکمراں جماعت انتخابات کا التوا چاہتی ہے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ ان سب باتوں کا تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ان کے دلائل کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ سویلین قیادت پاکستان پر حکمرانی کے لائق نہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ اپنی جانب متوجہ کرانے کی کوششیں ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آتے ہیں، سیاسی حریف نمبر بڑھانے پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیتے ہیں۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت بھی یہی سب کچھ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ تاہم ایسے میں نواز شریف نے جو کچھ کہا، وہ کس حد تک درست ہے۔ چاہے یہ ضروری ہے یا نہیں کہ فوری طور پر نگراں حکومت قائم کردی، جیسا کہ انہوں نے تجویز کیا اور جس پر بحث بھی کی جاسکتی ہے، تاہم ان کا ایک نقطہ یہ تھا کہ مذاکرات میں تعطل جمہوری عمل کے لیے مددگار نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن با معنی انداز میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے نظر نہیں آرہے، حالانکہ حقیقی طور پر، پسِ پردہ مشاورت میں ان کی نگاہیں اس انعام پر ٹکی ہیں جو ہموار جمہوری تبدیلی کا ثمر اور خود ان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے اٹھائے گئے بعض اقدامات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ملک کی 103 سیاسی پارٹیوں کو اپنے اپنے جماعتی الیکشن کرانے کی ہدایت ایسے منظر نامے کی عکاسی کرتی ہے جس میں سیاسی پارٹیوں کی اچھی خاصی تعداد اپنی صفوں میں انتخابات کرانا ضروری نہیں سمجھتی اور صرف ملکی الیکشن میں کسی نہ کسی طریقے سے کامیابی حاصل کر کے ایوانوں تک پہنچنے کو جمہوریت سمجھتی ہے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ جمہوریت کو دنیا میں رائج نظام ہائے حکومت میں بہتر اور افضل سمجھا جاتا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جمہوری نظام تمام شہریوں کو مساوی حقوق اور یکساں احترام دیتا ہے ،مگر ہمارے ہاں جمہوریت سے وابستگی کے دعویداروں میں شامل بعض عناصر ان جابرانہ شکنجوں کی گرفت میں کمی کرنے کے لئے تیار نہیں جن کے ہوتے ہوئے ایک ہاری اپنے وڈیرے کے خلاف ووٹ دینے کا تصور بھی مشکل ہی سے کر سکتا ہے۔ سرداری یا برادری سسٹم میں جکڑے ہوئے ایک عام ووٹر کے لئے بھی یہ ممکن نہیں ہو سکا ہے کہ طاقتور شخصیات کی مرضی کے خلاف ووٹ کا آزادی سے استعمال کر سکے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ اس کے باوجود انتخابی عمل کے جاری رہنے سے ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ رفتہ رفتہ فرد کی آزادی ، ووٹ کے آزادانہ استعمال اور منتخب ایوانوں میں عوام کے حقیقی نمائندوں کی رسائی کو یقینی بنانا ممکن ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ بعض ایسے اقدامات کئے بھی جا رہے ہیں جن سے انتخابات کو شفاف بنانے میں مدد مل سکتی ہے تاہم سیاسی پارٹیوں کا یہ فرض بہرحال بنتا ہے کہ ان ذمہ داریوں کو پورا کریں جن کی جمہوریت ان سے توقع کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس بات کی باددہانی بھی کرائی ہے کہ جو جماعتیں عام انتخابات سے قبل پارٹی کے اندر الیکشن کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائیں گی انہیں انتخابی نشان الاٹ نہیں کئے جائیں گے اور نہ ہی وہ انتخابات لڑ سکیں گی۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابات پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002اور پارٹی دستور کے مطابق کرانا ضروری ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تمام پارٹیاں اپنے جماعتی انتخابات ان معنوں میں منعقد کرائیں جنہیں عرف عام میں الیکشن تسلیم کرنا ممکن ہو ۔اندرون و بیرون ملک جمہوریت پسند حلقے بعض پارٹیوں کی قیادت مخصوص خاندانوں تک محدود رہنے کے حوالے سے سوال کرتے ہیں کہ جن پارٹیوں کے اپنے اندر الیکشن،اختلاف رائے اور جمہوری طور طریقوں کی گنجائش نہیں، وہ ملک میں جمہوری اقدار کا تحفظ کیسے کر سکتی ہیں ؟ ۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ دوسری طرف خاندانی ناموں سے پہچانی جانے والی سیاسی پارٹیوں کا موقف یہ ہے کہ ان کے اندرونی ڈھانچے پر اعتراض کرنے والے ناقدین درحقیقت پارٹی کو گروپوں میں تقسیم کرنا اور اسے مقبول قیادت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے وقت، کہ جمہوری پارلیمانی عمل کسی نہ کسی طرح اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کر رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس کے جاری و ساری رہنے کے امکانات روشن ہیں تو سیاسی پارٹیاں بھی اس جمہوری نظام کے استحکام کیلئے اپنے اپنے جماعتی ڈھانچوں کو اسی طرح جمہوری خطوط پر استوار کریں جس طرح امریکہ اور برطانیہ میں نیچے سے اوپر تک کی پارٹی قیادت کا انتخاب حلقے کی پارٹی سے شروع ہوتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پارٹی کے رجسٹرڈ کارکن بنائے جائیں، ان کی فہرستیں ترتیب کے ساتھ کمپیوٹر میں محفوظ کی جائیں اور مقررہ وقت پر پارٹی کی مختلف سطحوں پر انتخابات کی ریت اپنائی جائے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی پارٹیوں میں تھنک ٹینکس ہونے چاہئیں۔ مختلف امور سے متعلق کمیٹیوں کو مسلسل سرگرم رہنا چاہئے ۔ ہر شعبے کے ماہرین کے سیل ہونے چاہئیں تاکہ مالیات، توانائی، امور خارجہ، تعلیم، صحت اور امن و امان سمیت ہر معاملے میں ہر وقت ماہرانہ تجزیئے دستیاب رہیں اور حکومت سازی کے وقت وزرا ، مشیروں اور ادارہ جاتی سربراہوں کا درست تقرر ممکن ہو۔ ہماری سیاسی جماعتوں پر ایک عمومی اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مزاج میں جمہوری نہیں اور ان کے اندر گورننس کی صلاحیت نہیں ۔انہیں اس اعتراض کو اپنے جماعتی ڈھانچے، اپنی افرادی صلاحیتوں اور اپنے طرز عمل سے ختم کرنا ہو گا ۔ پاکستان میں جمہوریت کو پروان چڑھانا ہے اوراچھی گورننس لانی ہے تو ہماری سیاسی جماعتوں کو آمرانہ رویوں سے چھٹکارا پانا ہو گا اور جدید جمہوری طریقوں کے مطابق خود کو منظم کرنا ہو گا۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے مطالبہ بھی کیا کہ نگران حکومت کے قیام کے ساتھ ہی چاروں صوبائی
گورنر اور اعلی عہدوں پر فائز 27بیورو کریٹس ہٹا دئیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ سوچنا چاہئے کہ نگران حکومت کیسی ہونی چاہئے جو انتخابات کو صاف شفاف غیر جانبدارانہ اور بدعنوانیوں سے پاک بنائے ۔سیاسی پارٹیوں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ہر وقت باہمی اختلافات میں الجھے رہنے کا تاثر نہیں دینا چاہئے۔ اس سے اندرون اور بیرون ملک قوم کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن کو بھارت کے الیکشن کمیشن کی طرح مکمل اختیارات دئیے جائیں اور تمام ادارے اس کے تابع بنائے جائیں جہاں تک کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرانے کا پابند ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آئین پر عملدرآمد اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے سیاسی جماعتیں بروقت اور پارلیمنٹ کے اندر فیصلے کرائیں۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لئے46نکات پر مبنی حتمی ضابطہ اخلاق جاری کیاجو تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے تیار کیا گیا تھا اور جس کے مختلف پہلو ابتدائی مسودوں کی تیاری کے دوران سامنے آتے رہے ہیں۔ وطن عزیز میں ماضی میں بھی عام اور ضمنی انتخابات کے مواقع پر انتخابی ضابطے بھی بنتے رہے ہیں اور آئین و قانون کی کتابوں میں بھی امیدواروں کی اہلیت و نا اہلیت سمیت متعدد انتخابی امور پر دفعات موجود ہیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھی ہوئی اشرافیہ اور اسکے مفادات کا پرچار کرنے والے عناصر ان دفعات کا کھلم کھلا مذاق اڑا کر یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں۔ کہ اگر ان دستوری و قانونی شقوں پر عملدرآمد ہوا تو ہماری اسمبلیاں خالی ہو جائیں گی۔ دوسری طرف عوامی حلقوں کا تاثر یہ ہے کہ اگر واقعتا ہماری اسمبلیوں میں ایسے لوگ جا پہنچے ہیں جو آئین و قانون کے دفعات میں متعین معیار پر پورے نہیں اترتے یا جن کی شہرت شرافت و اخلاق کے معروف سماجی وتہذیبی تقاضوں کے برعکس ہے تو ایسے عناصر سے ان اسمبلیوں کا خالی ہو جانا ہی بہتر ہے۔

متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ ان ایوانوں میں جانے کیلئے چند خاندانوں کے گنے چنے افراد کی بجائے18کروڑ عوام میں سے ایسے افراد تلاش کئے جانے چاہیئں جو آئین و قانون کی شرائط پر پورے اترتے ہوں۔ پڑوسی ملک بھارت میں الیکشن کمیشن نے ایسی نظیر قائم کر دی ہے جس کی موجودگی میں سیاسی پارٹیوں کے لئے انتخابی ٹکٹ جاری کرتے ہوئے محتاط رہنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن نے2004 کے انتخابات سے قبل مقررہ مدت میں اخراجات کے گوشوارے جمع نہ کروانے، کرپشن میں ملوث ہونے اور مختلف فوجداری مقدمات میں سزاں کی بنا پر 3377امیدواروں کو لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ ان کو 3سے6سال کے عرصے کیلئے نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ 3سال کی نااہلی اخراجات کے گوشوارے جمع نہ کرانے پر اور 6سال کی نااہلی کرپشن اور فوجداری مقدمات میں سزاں کی بنا پر ہوئی تھی۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں حکمرانی اور اقتدار کو وسائل پر قابض ایسی اشرافیہ نے عملا اپنے تابع بنا لیا ہے جو خود کو قوانین اور ضابطوں سے آزاد سمجھتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں بدعنوانی اور ٹیکس چوری سمیت قانونی طور پر جرم سمجھے جانے والی سرگرمیوں کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں کے تذکرے عام ہو چکے ہیں۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بنائے ہوئے اخلاقی ضابطے پر سختی سے عملدرآمد کرائے بلکہ امیدواروں کی اہلیت کے بارے میں آئین میں طے کی گئی شرائط کی پاسداری بھی یقینی بنائے اور اس ضمن میں کسی کے بھی اثر و اختیار کو خاطر میں نہ لائے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ پاکستان بلاشبہ اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزرہا ہے لیکن قوم نے اپنی اجتماعی جدوجہد سے عدلیہ کی آزادی کی شکل میں ایک ایسی کامیابی حاصل کرلی ہے جس نے قوم کو مسائل کے بھنور میں بھی مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبنے سے بچارکھا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار موجودہ عدالتی قیادت نے قوم کو نظریہ ضرورت کے آسیب سے نجات دلاکر آئین اور قانون کی بالادستی کو اپنا مشن بنایا ہے اور کسی رکاوٹ کو خاطر میں لائے بغیر پورے عزم صمیم کے ساتھ اس مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ ملک کی عدلیہ کے سربراہ جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے قول و عمل سے ثابت کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے میں پوری طرح اٹل ہیں اور اس پر کسی بھی صورت کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کسی خوف اور رعایت کے بغیر ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کررہی ہے ملک میں کوئی شخص آئین اور قانون سے بالاتر نہیں۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے اعلی عدالتیں جس جاں فشانی سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں، وہ یقینا نہایت اطمینان بخش اور حوصلہ افزا ہے۔ انتہائی طاقتور اور بااختیار افراد اور اداروں کے کردار پر بھی اعلی عدالتوں کی جانب سے بھرپور گرفت کی جارہی ہے۔ لیکن نچلی سطح پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ نچلی سطح پر ابھی انصاف کا وہ معیار نظر نہیں آتا جو اعلی عدلیہ کی سطح پر قائم کیا گیا ہے۔ نچلی سطح پر کرپشن کی لعنت بھی ختم نہیں ہوئی ہے اور مقدمات کے فیصلے بھی غیرضروری طور پر تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ جبکہ عوام اپنے روزمرہ معاملات کے لیے ان ہی عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں ۔ اس لیے عدالتی اصلاحات کے عمل کو حتی الامکان کم سے کم وقت میں نچلی سطح تک مکمل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ عام لوگ بھی عدلیہ کی آزادی کے ثمرات سے پوری طرح مستفید ہوسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاسی اور حکومتی کلچر کو بھی اب عدلیہ کی آزادی کے بعد کی صورت حال سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ مقتدر افراد اور اداروں کو اب اس حقیقت کو قبول کرلینا چاہیے کہ اس ملک کی عدلیہ آزادی حاصل کرکے آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کمربستہ ہوچکی ہے جبکہ تمام عوامی حلقے، میڈیا اور سول سوسائٹی عدلیہ کی پشت پر کھڑے ہیں۔اس صورت حال میں عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد سے فرار ممکن نہیں۔ لہذا حکومت اور دوسرے بارسوخ حلقوں کو اب اس رویے کو ترک کرکے عدلیہ کے تمام فیصلوں کو قبول کرنا چاہیے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کو بھی عدلیہ کے اپنی پسند کے فیصلوں پر واہ واہ کرنے اور دوسرے فیصلوں کے معاملے میں پراسرار خاموشی اختیار کرنے کی روش ترک کرکے عدلیہ کے تمام فیصلوں کو یکساں طور پر قبول کرنا چاہیے۔متحدہ کاروان پاکستان کے وائس چیئرمین سید نوارالحق گیلانی نے کہا کہ ہمارا دین عدل کا سب سے بڑا علم بردار ہے ۔ اسلام دنیا میں آیا ہی اس لیے ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں عدل قائم کرے، دنیا کی تمام مہذب قومیں بھی عدل کے قیام کو اولین ترجیح دیتی ہیں اور پاکستان کا آئین بھی یہی کہتا ہے۔ یہ قول کہ عدل ہونا چاہیے خواہ آسمان ٹوٹ پڑے اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ قوموں کی بقا کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے کسی خوف اور رعایت کے بغیر عدل کے قیام کے مشن میں پوری قوم کو اپنی عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔اے پی ایس