سانحہ کوئٹہ:پارلیمانی کمیٹی کے نتیجہ خیز مذاکرات۔چودھری احسن پر یمی



ایسا لگتا ہے بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ ہزارہ برادی کا مقتل بن چکا ہے۔گذشتہ ساڑھے چار سال میں ہزارہ برادری کے پانچ سو سے زائد افراد کو قتل کیا جا چکا ہے اور تین ہزار سے زائد ہزارہ نوجوان بوڑھے اور بچے دہشت گردوں کے حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ ایک ہزار سے زائد ایسے نوجوان بھی ہیں جوحالات سے تنگ آ کر یورپ ہجرت کرنے کی کوششوں میں راستے میں جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ہزارہ طلبا سہمے اور خوف زدہ ہیں۔ کشیدہ صورت حال نے بہت سے طالب علموں کو تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور کردیا ہے۔کوئٹہ کی بڑی جامعات میں جہاں پہلے ہزارہ طلبہ کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی اب وہ خالی نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو ہزارہ برادری کے خلاف تشدد کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا اور دوسری طرف صوبے میں سرکار کہیں نظر نہیں آتی۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ کوئٹہ شہر میں پولیس اور ایف سی کی موجودگی میں دہشت گرد کارروائی کر کے اطمینان سے پیدل کیسے فرار ہو جاتے ہیں؟۔ گذشتہ دس برس سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو چن چن کے مارا جا رہا ہے۔ہزارہ برادری کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر، انجینیئر، کھلاڑی اور طالب علم جو بھی نظر آتا ہے بس اسے مار دیا جاتا ہے۔ ہزارہ تاجروں کو اغوا کیا جاتا ہے اور انہیں طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کاروباری علاقوں سے ہزارہ برادری کو بے دخل بھی کیا جا رہا ہے۔تین ہزار سے زائد ہزارہ نوجوان بوڑھے اور بچے دہشت گردوں کے حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں۔ ہزارہ برادری کو نہ صرف جان سے مارا جا رہا ہے بلکہ ان کا معاشرتی، معاشی اور تعلیمی قتل عام بھی کیا جا رہا ہے اور سرکار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔جبکہ ہزارہ برادری نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کی دشمنی کا بدلہ ہزارہ برادری سے لیا جا رہا ہے۔تاثر یہ ہے کہ ہزارہ برادری دونوں ملکوں کے درمیان پراکسی وار کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ خالصتا مسلکی اور فرقے کی بنیادوں پر قتل عام ہے، اسے نسلی رنگ دینا غلط ہوگا۔جبکہ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کاروائیاں پاکستان دشمن قوتیں کر رہی ہیں جو گوادر چین کو دینے کے حق میں نہیں۔وادی کوئٹہ کے مشرقی دامن مری آباد اور مغربی علاقے ہزارہ ٹان میں رہنے والے ہزاروں کی آبادی پانچ لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے اور شہر میں دہائیوں سے آباد ان ہزاروں کو اب ان کے علاقوں تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی طرف سے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کوئٹہ بھیجے جانے والے پارلیمانی وفد سے مذاکرات کے بعد شیعہ ہزارہ برادری نے لاشوں کے ہمراہ تین روز سے جاری دھرنا ختم کردیا اور اب بتدریج لاشوں کی تدفین کردی گئی ہے۔گورنر بلوچستان اور دیگر فریقین سے ملاقات کے بعد پارلیمانی وفد کے سربراہ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے بتایا کہ ہزارہ برادری سے بات چیت میں ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور پائیدار امن کے لیے بھی ان سے تفصیلی مشاورت کی گئی ہے۔کوئٹہ میں ٹارگٹڈ آپریشن کے بارے میں وفاقی وزیر چودھری قمر زمان کائرہ نے کہا کہ یہ اس میں اب تک دیگر مقدمات میں مطلوب چار شدت پسند مارے جا چکے ہیں جب کہ 170 کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان کے بقول یہ ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہے گا۔وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قیام امن کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا تھا جس کا مقصد۔ معصوم جانوں سے کھیلنے والے عناصر کی سرکوبی کرنا ہے۔وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے چھ رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا جو کوئٹہ جا کر دھرنہ دینے والی ہزارہ برادری کے ساتھ مذاکرات اور اس سانحے پر ایک مفصل رپورٹ پیش کرنا تھا۔اس چھ رکنی کمیٹی میں وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ، وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مولا بخش چانڈیو، وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی امور میر ہزار خان بجرانی، سینیٹر صغری امام، پبلک اکانٹس کمیٹی کے چیئرمین اور رکنِ قومی اسمبلی ندیم افضل چن اور رکنِ قومی اسمبلی یاسمین رحمن شامل تھے۔ چھ رکنی وفد نے جہاں ہزارہ برادی کے ارکان سے بات چیت کی وہاں اس کے علاوہ سکیورٹی ایجنسیوں اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے بھی ملاقات کی ہے۔اس کمیٹی کو سانح کوئٹہ پر ایک مفصل رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا جو یہ اس دورے کے بعد پیش کرے گی۔اس سے قبل وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور ایف سی کو مضبوط کیا گیا لیکن پھر بھی کوئٹہ کا یہ واقعہ پیش آیا ہے۔انہوں نے شیعہ ہزارہ کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں گے اور ایسے واقعات میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی تمام سکیورٹی فورسز اور ایجنسیوں کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ دہشت گردی نے تمام طبقوں کو متاثر کیا ہے اور اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحدہ ہوکر کارروائی کرنی ہوگی۔انہوں نے کوئٹہ سانحے کے بارے میں کہا کہ ہم ہر حد تک جائیں گے اور وفاقی یا صوبائی ایجنسی کی کوتاہی ثابت ہوئی توذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔یاد رہے کہ سولہ فروری کو کوئٹہ میں ایک بم دھماکے کے نتیجے میں نواسی افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔سولہ فروری کے دھماکے کے بعد بھی لواحقین نے تدفین سے انکار کردیا اور مطالبہ کیا کہ صوبے میں فوج کو تعینات کیا جائے۔ان کے اس مطالبات کے حوالے سے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علمدار روڈ کے واقعے کے بعد بلوچستان میں سکیورٹی فورسز، ایف سی اور نیم فوجی فورسز کو مضبوط بنانے کے اقدامات کیے گئے۔ لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ پیش آیا ہے۔اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سولہ فروری کے واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو طلب کیا۔دوسری جانب ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔گزشتہ ہفتہ کی شام کوئٹہ کے کیرانی روڈ پر ہونے والے طاقتور ترین بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد100سے تجاوز کرگئی ۔ مرنے والوں کا تعلق بلوچستان کی شیعہ ہزارہ برادری سے ہے جس پر ماضی میں بھی ہلاکت خیز حملے ہوتے آئے ہیں جب کہ گزشتہ ماہ بھی علمدار روڈ کوئٹہ میں انھیں بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔کوئٹہ میں پیش آنے والے اس واقعے کے خلاف ملک کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا جب کہ پارلیمان میں اس پر بحث دوسرے روز بھی جاری رہی۔قومی اسمبلی میں حزب مخالف مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ نے جب کہ سینٹ میں جمیعت العما الاسلام ف نے احتجاجا واک آوٹ کیا۔اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کوئٹہ کے واقعے سمیت دیگر دہشت گردانہ حملوں میں ارکان کو بند کمرے میں بریفنگ دیں۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور خورشید شاہ نے ایوان کو یقین دلایا کہ وزیر داخلہ جلد ہی یہ بریفنگ دیں گے۔ادھر پاکستان کی عدالت عظمی نے بھی کوئٹہ میں ہزار شعیہ برادری پر بم حملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کہا کہ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہی ہیں جب کہ صوبائی اور مرکزی حکومت نے بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر ہونے والا بم حملہ آپریشن کلین اپ کا ایک اچھا موقع تھا۔انھوں نے بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل سے دریافت کیا کہ اس ضمن میں اب تک حکومت کیا کارروائی کر چکی ہے۔ گزشتہ ہفتہ کی شام کوئٹہ کے کیرانی روڈ پر ایک طاقتور ترین بم دھماکے میں 83 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی تھی اور ہزارہ شیعہ برادری کا دھرنا دوسرے روز بھی جاری رہا۔ہزارہ ٹاون کے قر یب سے گزرنے والی کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو مشتعل افراد نے ٹائر جلا کر بند کر دیا تھا جب کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے دو مختلف علاقوں علمدار روڈ اور ہزارہ ٹان علی آباد میں شیعہ ہزارہ برادری کی ہزاروں خواتین، بچے اور مردوں کا دھرنا جاری رہا۔دھرنے میں شامل افراد سانحہ ہزارہ ٹان کے شدید زخمیوں کو فوری طور پر کراچی اور دیگر شہروں میں منتقل کرنے، کو ئٹہ شہر میں شیعہ برادری پر حملے میں ملوث عناصر کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن کے علاوہ شہر کو مکمل طور پر فوج کے حوالے کرنے کے مطالبات کر رہے رتھے۔پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس بتایا کہ جن علاقوں میں دھرنے جاری ہیں وہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ فرنٹئیر کور، انسداد دہشت گردی فورس اور پولیس کے ہزاروں جوانوں کے ساتھ شیعہ برادری کے رضاکار بھی تعینات کیے گئے ہیں اور ہر شخص کو چیک کیا جارہا ہے۔ ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ شیعہ برادری کے اہم رہنماں کے ساتھ حکومت کے مذاکرات ہو چکے ہیں اور ان رہنماں نے یقین دلایا ہے کہ شام تک میتوں کی تدفین کر دی جائے گی۔جنوری میں شیعہ ہزارہ برادری کے علاقے علمدار روڈ پر دو مہلک بم حملوں میں سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کوئٹہ آ کر بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برطر ف کر دیا تھا اور صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا تھا۔ صوبے میں انتظامی تبدیلی کے بعد شیعہ ہزارہ برادری پر یہ پہلا حملہ تھا۔کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے کی ملک بھر اور عالمی سطح پر بھی مذمت کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے بیان میں کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری پر دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی کہ گزشتہ ایک مہینے میں کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری پر یہ دوسرا حملہ ہے۔ بان کی مون نے کہا کہ پاکستان میں مذہب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے خلاف تیز اور موثر کارروائی ہونی چاہیئے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ہلاک و زخمی ہونے والوں کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار بھی کیا۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام و حکومت کی کوششوں کی مکمل حمایت کے عزم کو بھی دہرایا۔اے پی ایس