صحافیوں کے قاتل سزا سے استثنی۔چودھری احسن پریمی


پاکستان کی صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔اور حکومت صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے اس ضمن میں ضروری ہے کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے کیو نکہ ابھی تک جان سے ہاتھ دھونے والے کسی بھی صحافی کے قاتل پکڑے نہیں گئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے صحافیوں کے قاتلوں کو سزا سے استثنی ہے جو کہ ایک شرمناک و نا قابل قبول بات ہے۔گزشتہ روزنامعلوم افراد نے میران شاہ میں ایک نجی ٹی وی کے نمائندے ملک ممتاز کو فائرنگ کرکے قتل کردیا ہے، ملک ممتاز کئی سالوں سے صحافت سے وابستہ تھے۔ملک ممتازچشمہ پل کے علاقے سے میرانشاہ گاوں جارہے تھے انکے راستے میں گھات لگائے مسلح افرادنے چشمہ پل کے قریب ملک ممتازکی گاڑی پرفائرنگ کردی جس سے وہ جاں بحق ہوگئے۔جبکہ اس سے قبل پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے چیف رپورٹر خوشنود علی جو گز شتہ روز کراچی میں اپنی رہائش گاہ کے قریب سڑک کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے، انکے بھائی خورشید علی کا کہنا ہے کہ عینی شاہدین کے مطابق یہ حادثہ نہیں تھا بلکہ انہیں جان بوجھ کر گاڑی مار کر ہلاک گیا ہے۔ صحافی خوشنود علی سوموار کی رات گیارہ بجے اپنے دفتر سے گھر واپس جارہے تھے کہ کراچی میں گلستانِ جوہر میں اپنی رہائش گاہ کی قریب سڑک پار کرتے ہوئے ایک تیز رفتار گاڑی نے انہیں ٹکر ماری۔ انہیں قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کے چھوٹے بھائی خورشید علی نے کہا چند ماہ قبل انہیں کچھ نامعلوم افراد کی طرف سے بھتے کی پرچی بھیجی گئی تھی جبکہ انہیں اور ان کے خاندان والوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور مختلف ایجنسیوں کو آگاہ کرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس کے بعد خوشنود علی اسلام آباد شفٹ ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔خورشید علی کے مطابق اسلام آباد سے آنے کے بعد خوشنود علی نے انہیں بتایا تھا کہ ان کا معاملہ طے ہو گیا ہے مگر اب انہیں ایسا نہیں لگتا۔ خورشید علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ حادثے کے بعد پو لیس نے کیس کو نمٹانے والی کاروائی کی اور نارمل گاڑی کی ٹکر سے ہلاکت کا معاملہ قرار دے کر ایف آئی آر درج کی، انہیں معلوم نہیں کہ پولیس اس نہج پر تفتیش کرے گی یا نہیں کہ ان کے بھائی کو نامعلوم افراد دھمکیاں دے رہے تھے۔واضح رہے کہ صحافی خوشنود علی شیخ نے اپنے ادارے اے پی پی کو بھی دھمکیوں سے آگاہ کیا تھا۔اے پی پی کے کراچی بیورو کے چیف راشد علی کا کہنا ہے کہ انہیں چھ ماہ پہلے اسلام آباد ٹرانسفر کر دیا گیا تھا جہاں سے وہ ایک مہینے پہلے کراچی واپس آگئے تھے۔ ان کے مطابق بظاہر تو یہ حادثہ لگتا ہے لیکن اس کے پیچھے اگر کوئی اور عوامل ہیں تو پولیس کی تفتیش میں ہی سامنے آسکتے ہیں۔سینیئر صحافی اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر جی ایم جمالی نے بتا یا کہ خوشنود علی نے گزشتہ سال کراچی کے علاقے گلستانِِ جوہر میں اپنا ذاتی مکان خریدا جہاں شفٹ ہونے کے بعد انہیں پانچ لاکھ روپے بھتے کی پرچی بھیجی گئی۔جی ایم جمالی کے مطابق خوشنود علی کو ملنے والی دھمکیوں سے پولیس، سی پی ایل سی، گورنر سندھ اور وزیر اعلی سندھ کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ خوشنود علی نے انہیں خود بتا یا تھا کہ انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کو بھی تحریری طور پر آگاہ کر دیا تھا۔انہوں نے بتا یا کہ سی پی ایل سی نے دھمکی آمیز کال کے نمبر کو کراچی کے علاقے لیاری میں ٹریس کیا تھاجس کے بارے میں سی پی ایل سی نے خوشنود کو یہ بتا یاکہ یہ کوئی بڑا یا خطرناک گینگ نہیں ہے بلکہ کوئی انفرادی معاملہ لگتا ہے۔ جی ایم جمالی نے کہا کہ خوشنود علی نے انہیں یہ بھی بتایا کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی یقین دہانی کے بعد وہ واپس کراچی آگئے تھے۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ انہیں یہ حادثہ نہیں لگتا۔کے یو جے کے صدر جی ایم جمالی نے کہا کہ کراچی میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے صحافیوں کا کوئی پر سانِ حال نہیں کبھی کوئی گولی کی زبان میں بات کرتا ہے کوئی دھمکی دیتا ہے، قانون نافذ کرنے والے گونگے بہرے بن گئے ہیں، کے یو جے کے پلیٹ فارم سے کل سندھ اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا جائے گا اور خوشنود علی سمیت تمام صحافیوں کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ دہرایا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ آئی جی سندھ نے خوشنود علی کے بڑے بھائی کو معاملے کی شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔واضح رہے کہ صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس سی پی جے کے مطابق صحافیوں کے لیے پاکستان دنیا کا پانچواں خطرناک ملک ہے۔ یہاں انیس سو چورانوے سے لے کر اب تک اکاون صحافی مارے جا چکے ہیں جن میں ہدف بنا کر مارے جانے والوں کے تعداد ساٹھ فیصد ہے۔ جبکہ سی پی جے کے امپیونٹی انڈیکس قاتلوں کے سزا سے استثنی میں بھی پاکستان کا نمبر دسواں ہے۔
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=1553&lang=UR