افغانستان سے امریکی انخلاء کا امکان؟۔چودھری احسن پر یمی



افغانستان میں نیٹو افواج کے سبکدوش ہونے والے کمانڈر جنرل جان ایلن کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اتحادی افواج افغانستان میں طالبان کے خلاف فتح حاصل کرنے کی راہ پر ہیں اور وہاں سے امریکی افواج کا مکمل انخلا کے امکان نہیں ہے۔جنرل جان ایلن نے کہا کہ اتحادی افواج نے طالبان کی جانب سے جاری بغاوت پر قابو پانے کے لیے بہت آگے جا کر حالات پیدا کیے ہیں۔افغانستان میں ان کے انیس ماہ کے دور میں افغان افواج اور پولیس کو افغانستان بھر میں سکیورٹی کے انتظامات کی سپردگی کا عمل بہت حد تک تیز ہوا۔تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ دو ہزار چودہ میں نیٹو افواج کے افغانستان میں انخلا کے بعد امریکہ کتنی فوج افغانستان میں رکھے گا۔جنرل ایلن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کے امریکی فوجیوں کی موجوگی نہ ہونے کا امکان بالکل کم ہے اور مکمل انخلا کا کوئی خیال نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس معاملے کے لیے کسی قسم کی ممکنات پر غور کے لیے کہا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ راستہ ہے جس پر ہم جانا چاہتے ہیں۔ صدر اوباما اس صورتحال کے بارے میں واضح تھے جب انہوں نے دو ہزار چودہ کے بعد امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے بارے میں کہا کہ یہ تربیت، مشاورت اور امداد کے لیے ہو گی۔ اس سے میں یہ سمجھا ہوں، اور مجھ سے اس معاملے میں کچھ کہا بھی نہیں گیا ہے کہ مکمل انخلا کا کوئی امکان نہیں ہے۔جنرل ایلن کا نام امریکی ریاست فلوریڈا کی ایک معروف سماجی شخصیت کو غیر موضوں ای میلیں بھجوانے کے معاملے میں بھی لیا گیا جس کی زد میں آکر سی آئی اے کے سابق سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے استعفی دے دیا تھا۔جنرل ایلن افغانستان میں نیٹو افواج کی کمان اب میرین کور کے جنرل جوزف ڈنفورڈ کے سپرد کریں گے جبکہ وائٹ ہاس کا کہنا ہے کہ خود انہیں یورپ میں نیٹو کے سپریم کمانڈر کے عہدے کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے۔گزشتہ ماہ انہیں پینٹاگون کی جانب سے شروع کی گئی ان تحقیقات میں بے قصور قرار دیا گیا تھا جس معاملے میں سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹرئیس کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔جنرل ایلن نے کہا کہ بغاوتیں کچلنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ آپ کیلنڈر پر ایک نکتہ لگائیں اور کہیں کہ آج ہم جیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم بغاوت کچلنے کے لیے حالات سازگار بنانے کے لیے بہت آگے تک آئے ہیں۔ ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے جن کی عمومی طور پر تعریف کی جاتی ہے کہ وہ بغاوتیں کچلنے کے لیے سازگار ہیں یعنی بغاوت کے خلاف کامیابی کے لیے فضا کو سازگار کرنا اور حالات کو اقتدار اور حکومت کے لیے ممکن بنانا اور معاشی ترقی کے مواقع سامنے لانا، تو میں اس سب کی روشنی میں سمجھتا ہوں کہ ہم کامیابی کی راہ پر ہیں۔ جنرل جان ایلن کے انیس ماہ کے دور میں افغان افواج اور پولیس کو افغانستان بھر میں سکیورٹی کے انتظامات کی سپردگی کا عمل بہت حد تک تیز ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ نیٹو کو صبر سے کام لینا ہو گا اور اِن افغان افواج کی مدد کے لیے تیار رہنا ہو گا۔جنرل ایلن کے جانشین ایساف کے آخری کمانڈر ہو سکتے ہیں جن کے دور میں افغانستان سے اکثر غیر ملکی افواج کا انخلا ہو گا۔جنرل ایلن کی یورپ میں نیٹو افواج کے سربراہ کے لیے نامزدگی کو کچھ عرصے کے لیے اس وقت روک دیا گیا تھا جب اس قسم کی اطلاعات موصول ہوئیں تھیں کہ انہوں نے امریکی ریاست فلوریڈا کی ایک معروف سماجی شخصیت کو غیر موضوں ای میلیں بھجوائیں تھیں۔ یہ وہی سکینڈل تھا جس کی زد میں آکر سی آئی اے کے سابق سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے استعفی دے دیا تھا۔مگر جنرل ایلن کے خلاف تمام الزامات مسترد کر دیے گئے تھے اور اس وقت کے امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے جنرل ایلن کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ گزشتہ ماہ افغانستان اور پاکستان کی فوجی قیادت نے افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کو پر امن اور تشدد سے پاک رکھنے کے لیے بعض اہم نکات پر اتفاق کیا ہے۔یہ اتفاق دونوں ملکوں کی فوجی قیادت کے درمیان اعلی سطح کے جامع اور سٹریٹیجک مذاکرات کے دوران حاصل کیا گیا جوجی ایچ کیومیں ہوئے۔افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ خان نے ایک وفد کے ہمراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی تھی۔ان مذاکرات کا مقصد اعلی فوجی ذرائع خطے سے امریکی انخلا کے بعد علاقے میں سکیورٹی صورتحال کو اپنے حق میں رکھنے کے لیے حکمت عملی کی تیاری بتایا جا رہا ہے۔ پاکستانی اور افغان فوجی قیادت کے درمیان یہ ملاقات افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد خطے کی منظر کشی کی مشق کا حصہ تھی۔ اس طویل گفتگو میں پاکستانی اور افغان فوج کے تقریبا تمام اہم افسران شریک تھے۔ ان مذاکرات میں امریکی انخلا کے بعد پاک افغان سرحد پر دونوں ملکوں کے مشترکہ کنٹرول، دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کے درمیان مضبوط روابط، افغان امن عمل میں پاکستانی کردار، دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تربیت کے معاہدے اور سرحدی علاقوں میں سماجی اور معاشی ترقی کے معاملات شامل تھے۔پاکستانی بری فوج کے سربراہ نے افغان وزیر دفاع کو مکمل اور حتمی یقین دہانی کروائی کہ پاک افغان سرحد پر امن قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی تاکہ افغانستان میں استحکام پیدا کیا جا سکے اور اگلے سال اتحادی افواج کے انخلا کو پرامن اور تشدد سے پاک رکھا جا سکے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن طالبان اور امریکی حکام کے مابین جاری خفیہ مذاکرات میں شرکت کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ ہیں۔ان کی جماعت کے اہم رہنما حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو امریکا اور افغان طالبان دونوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ فریقین کے درمیان بات چیت میں اپنا کردار ادا کریں گے۔حافظ حسین احمد نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن امریکا اور طالبان کے مابین پہلے سے جاری مذاکرات میں پیش رفت کے بعد قطر گئے ہیں اور ان کے ساتھ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک اور رکن اسمبلی بھی ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حالیہ مذاکرات میں افغان حکومت اور افغان امن کونسل کا کوئی نمائندہ شامل نہیں اور یہ مذاکرات امریکی حکام اور افغان طالبان کے مابین ہورہے ہیں۔کابل میں موجود افغان امن کونسل کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ انہیں مولانا فضل الرحمن کے دور قطر کے حوالے سے کوئی علم نہیں اور نہ اس بارے میں اس بارے میں افغان حکومت کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی افغان حکام کو شکایت رہی ہے کہ امریکہ ان کے علم میں لائے بغیر طالبان کے ساتھ براہ راست معاملات طے کر رہا ہے۔افغان طالبان بھی مذاکرات کے حوالے سے امریکی حکومت کو ہی اپنا فریق مانتے ہیں اور ان کا شروع سے موقف رہا ہے کہ امریکی حکام سے مذاکرات کے بعد ہی افغان حکام سے بات چیت ہو سکتی ہے۔قطر میں طالبان کے دفتر کے کھلنے کی خبریں بھی کافی عرصے سے گردش میں ہیں۔ طالبان کے ایک درجن کے قریب سیاسی ممبران گزشتہ ایک سال سے قطر میں اپنے اہلخانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں لیکن افغان طالبان نے ابھی تک اپنے دفتر کے باقاعدہ آغاز کی تصدیق نہیں کی ہے۔یہ تاحال واضح نہیں کہ مولانا فضل الرحمن اس بات چیت میں پاکستانی حکومت کے نمائندے کے طور پر شریک ہیں یا ان کا کردار ثالث کا ہے۔ افغان طالبان کی طرف سے بھی مولانا فضل الرحمن کو بطور ثالث مقرر کرنے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام کو افغان طالبان کے انتہائی قریب سمجھاجاتا ہے۔ ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستانی طالبان نے بھی انہیں حکومت پاکستان کے ساتھ کے ساتھ مذاکرات میں اپنا ضامن تسلیم کیا ہے۔اے پی ایس