ڈرون حملوں سے شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش۔چودھری احسن پر یمی



صدر براک اوباما نے محکمہ انصاف کو وہ خفیہ دستاویزات کانگریس کے حوالے کرنے کا حکم دیا جن میں بیرونِ ملک موجود شدت پسند امریکی شہریوں پر ڈرون حملے کا قانونی جواز پیش کیا گیا ۔ صدر اوباما کے حکم پر مذکورہ دستاویزات امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹیوں کے سپرد کئے گئے۔ امریکی اخبارات نے محکمہ انصاف کا ایک خفیہ میمو شائع کیا تھا جس میں بیرونِ ملک موجود ایسے امریکی شہریوں پر ڈرون حملوں کو قانونی قرار دیا گیا تھا جن کے بارے میں حکومت کو یقین ہو کہ وہ دہشت گردی یا اس کی منصوبہ بندی میں ملوث ہیں۔اس میمو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد 11 امریکی سینیٹروں کے ایک گروپ نے اوباما انتظامیہ سے امریکی شہریوں پر حملوں کے قانونی جواز سے متعلق محکمہ انصاف کی جانب سے دی جانے والی تمام تر آرا کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔امریکی حکومت ماضی میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف حملوں کو اس صورت میں جائز قرار دیتی آئی ہے جب حکام کو ان کی جانب سے دہشت گردی کی کسی کاروائی کا یقین ہو۔لیکن منظرِ عام پر آنے والے خفیہ میمو میں کہا گیا تھا کہ کسی ایسے امریکی شہری کو ہلاک کرنا بھی درست ہے جو دہشت گردی کی کاروائی کی منصوبہ بندی میں شریک ہو یا جب حکام کو لگے کہ مطلوب مشتبہ دہشت گرد زندہ گرفتارنہیں کیا جاسکتا۔بعض امریکی قانون ساز، ماہرینِ قانون اور شہری آزادیوں کے لیے سرگرم کارکنان نے امریکی حکومت کی اس پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور اس نوعیت کی کاروائی کو امریکی شہریوں کے ماورائے عدالت قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔اس بحث نے پہلی بار 2011 میں اس وقت زور پکڑا تھا جب امریکہ کی جانب سے یمن میں کیے جانے والے دو مختلف ڈرون حملوں میں القاعدہ سے منسلک تین امریکی شہری مارے گئے تھے۔اوباما انتظامیہ ان حملوں کے بعد سے انہیں قانونی قرار دیتے ہوئے اس پالیسی کی حمایت کرتی آئی ہے۔ اس وقت امریکی انتظامیہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور یمن میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کی غیر اعلانیہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ناقدین ڈرون حملوں کو غیر اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بغیر پائلٹ والے طیاروں کے ذریعے کیے جانے والے حملوں میں اکثر اوقات عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔جبکہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے نامزد سربراہ جان برینن نے امریکی ڈرون حملوں کے پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔جان برینن نے جمعرات کو امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی میں اپنی نامزدگی کی توثیق کے لیے ہونے والی بریفنگ میں بتایا کہ امریکہ کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کم سے کم ہو۔یہ بریفنگ ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب امریکی قانون ساز ارکان کو ان دستاویزات تک رسائی دی گئی ہے جن میں القاعدہ سے غیر ممالک میں منسلک امریکی شہریوں کی ڈرون حملوں میں ہلاکت کی توجیحات پیش کی گئی ہیں۔ستاون سالہ جان برینن انسدادِ دہشتگردی کے معاملات کے لیے امریکی صدر براک اوباما کے مشیر ہیں اور اس سے پہلے وہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں سی آئی اے کے اعلی اہلکار بھی رہ چکے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں جان برینن نے کہا کہ کچھ امریکی سمجھتے ہیں کہ ڈرون حملے ماضی کی غلطیوں کی سزا دینے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ سچ سے دور بات کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہم اسے آخری حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جب خطرے کے خاتمے کے لیے کارروائی کا کوئی اور متبادل باقی نہیں رہتا۔پاکستان اور یمن میں مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف امریکی ڈرون حملے انتہائی متنازع ہیں۔ بیورو آف انوسٹی گیٹو جرنلزم کے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ نے سنہ دو ہزار چار سے اب تک پاکستانی سرزمین پر ساڑھے تین سو کے قریب ڈرون حملے کیے ہیں جن میں سے زیادہ تر اوباما دور حکومت میں ہوئے ہیں۔واٹر بورڈنگ کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال پر جان برینن نے کہا کہ اسے مستقبل میں کبھی بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے تاہم انہوں نے بارہا سوالات کے باوجود اس بات کا جواب نہیں دیا کہ آیا یہ تشدد ہے کہ نہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے ذاتی اعتراضات اور خیالات ایجنسی سی آئی اے میں اپنے ساتھیوں کے گوش گزار کیے تھے۔ لیکن میں نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ یہ ایسی چیز تھی جو ادارے کے مختلف شعبے میں دیگر افراد کے احکامات کے تحت کی جا رہی تھی۔برینن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب وہ سی آئی اے میں تھے تو انہیں بتایا گیا تھا کہ واٹر بورڈنگ اور تفتیش کے دیگر ایسے طریقوں سے اہم معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے ارکان کے جان برینن پر تحفظات کے باوجود سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلیجنس کی جانب سے ان کی سی آئی اے کے ممکنہ سربراہ کے طور پر تقرری پر اعتراض سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ستاون سالہ جان برینن نوے کی دہائی میں سعودی عرب میں تعینات تھے جبکہ نیویارک پر نائن الیون حملے کے بعد سے وہ سی آئی اے کے سربراہ کی ٹیم میں چیف آف سٹاف کے عہدے پر تعینات رہے۔سنہ دو ہزار نو میں انہیں براک اوباما کے پہلے دورِ اقتدار میں سی آئی کے سربراہ کے لیے نامزد کیاگیا تھا لیکن اسی دوران بش دور میں قیدیوں پر تشدد کے واقعات سامنے آنے شروع ہوئے جس پر ان کا نام توثیق کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔جان برینن کی نامزدگی کی سماعت متعدد بار وہاں موجود مظاہرین کے احتجاج کی وجہ سے متاثر بھی ہوئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب سماعت معطل بھی کرنا پڑی۔موقع پر موجود مظاہرین میں سے ایک شخص نے ایک پلے کارڈ بھی اٹھا رکھا تھا جس پر جان برینن کو ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے القاعدہ کے شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کے لیے ڈرون حملوں کے استعمال کو وسیع کیا ہے اور امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ عالمی قانون کے مطابق اپنے دفاع میں ایسا کرتا ہے۔تاہم ڈرون حملوں کے ناقدین کہتے ہیں کہ ان سے نہ صرف عام شہری بڑی تعداد میں ہلاک ہوتے ہیں بلکہ یہ حملے لوگوں پر مقدمہ چلائے بغیر انہیں مار دینے کے مترادف ہیں۔حال ہی میں امریکہ کے محکمہ انصاف کے ایک میمو سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی حکومت کے پاس اپنے شہریوں کو ہلاک کرنے کے لیے ڈرون حملوں کا قانونی جواز ہے۔ اس میمو کے مطابق اگر امریکی شہری فوری خطرے کی تعریف پر پورے اترتے ہوں تو ان کے خلاف بھر پور طاقت کا استعمال قانونی تصور ہوگا۔اس دستاویز کے مطابق اگر امریکی شہری القاعدہ یا اسے کے اتحادیوں کے رہنما ہوں تو امریکی حکام بیرونی ممالک میں ان شہریوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے ہلاک کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔اے پی ایس
http://www.associatedpressservice.net/news/?p=1370&lang=UR